بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عقیقہ کے فضائل اور مسائل

عقیقہ کے فضائل اور مسائل

بچوں کی پیدائش پر کچھ اعمال ولادت کے وقت مستحب ہیں اور بعض اعمال ولادت کے ساتویں دن مستحب ہیں۔ اکثر مسلمان ان سے ناواقف ہیں، اس لیے اکثر اس موقع پر وہ دریافت کرتے رہتے ہیں اور جو دریافت نہیں کرتے، وہ ان پر عمل کرنے سے محروم رہتے ہیں، اس بنا پر ذیل میں انہیں لکھا جاتاہے تاکہ بچہ/بچی کے پیدائش کے بعد اپنے اپنے وقت میں ان پر عمل کرکے ان کے فضائل وبرکات حاصل کرسکیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ توفیق عطا فرمائے، آمین!

ولادت کے بعد مستحب اعمال

کان میں اذان واقامت کہنا

٭جب بچہ پیدا ہو تواس کو نہلا دُھلا کر، اورکپڑے پہنا کر سب سے پہلے اس کے دائیں کان میں اذان کہہ دیں، اوربائیں کان میں اقامت یعنی تکبیر کہہ دیں۔ (مشکوٰۃ شریف مع حاشیہ ،ج:۲،ص:۳۵۹)

تحنیک کرانا

٭اگر اس وقت کوئی بزرگ قریب ہوں اور موقع ہو تو ان سے تحنیک کرائیں، کیونکہ یہ سنت ہے۔ تحنیک یہ ہے کہ ان کی خدمت میں ایک دو کھجور پیش کریں اور وہ اپنے منہ میں اس کو چبا کر بچہ کے منہ میں ڈال دیں (اور کچھ بچہ کے تالو میں لگائیں) اور بچہ کے لیے خیر وبرکت کی دعا کریں۔ (مشکوٰۃ، ج:۲، ص:۳۶۲، وتکملۃ فتح الملہم، ج:۴، ص:۲۰۰)
٭(آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھ کر شہد پر دم کرکے) تھوڑا سا شہد بچہ کو چٹانا بھی جائز ہے۔ اس سے بھی تحنیک (کی سنت ادا) ہوجاتی ہے۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج:۴، ص:۲۰۰)

ولادت کے ساتویں دن مستحب اعمال

 عقیقہ کرنا

٭جب کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو بہتر ہے ساتویں دن ا س کا عقیقہ کردیں، لڑکا ہو تو دو بکرے یا دوبکری یا دودُنبے یا دو بھیڑ ذبح کردیں، اور لڑکی ہو تو ایک بکرا یا ایک بکری وغیرہ ذبح کردیں یا گائے میں لڑکے کے دو حصے اور لڑکی کا ایک حصہ لے لیں یا پوری گائے سے عقیقہ کرلیں، سب جائز ہے۔
٭اگر کسی کو زیادہ توفیق نہ ہو اور وہ لڑکے کی طرف سے ایک بکرایا ایک بکری ذبح کردے تو بھی کچھ حرج نہیں۔ (تنقیح الحامدیہ، ج:۲، ص:۲۳۳)
٭اور اگر کوئی بالکل ہی عقیقہ نہ کرے تو بھی کچھ حرج نہیں، کیونکہ عقیقہ کرنا مستحب ہے، واجب نہیں۔ (مشکوٰۃ ج:۲، ص:۳۶۳ وبہشتی زیور، ج:۳،ص:۴۳)
٭ولادت سے پہلے عقیقہ کرنا جائز نہیں ،اگر کوئی کرے گا تو وہ عقیقہ نہ ہوگا، بلکہ یہ ذبیحہ گوشت کھانے کے لیے ہوگا۔ (المجموع شرح التہذیب ،ج:۹،ص:۲۴۵)

دعاء عقیقہ

٭جب کسی لڑکے یا لڑکی کے عقیقہ کا جانور ذبح کیاجائے تو ذبح کرنے والا یہ دعا کرے:
’’بِسْمِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ أَکْبَرُ اَللّٰہُمَّ لَکَ وَإِلَیْکَ عَقِیْقَۃُ فُلَانٍ۔‘‘
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ کے نام سے اور اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، اے اللہ! یہ آپ کی رضا کے واسطے محض آپ کی بارگاہ میں فلاں کے عقیقہ کا جانور ذبح کرتاہوں۔‘‘
اور یہ دعا کریں:
’’اَللّٰہُمَّ ہٰذِہٖ عَقِیْقَۃُ ابْنِيْ فَإِنَّ دَمَہَا بِدَمِہٖ وَلَحْمَہَا بِلَحْمِہٖ وَعَظْمَہَا بِعَظْمِہٖ وَجِلْدَہَا بِجِلْدِہٖ وَشَعْرَہَا بِشَعْرِہٖ، اَللّٰہُمَّ اجْعَلْہَا فِدَائً لِابْنِيْ مِنَ النَّارِ۔‘‘ (تنقیح الحامدیہ، ج:۲،ص:۲۳۳)
ترجمہ:’’یااللہ! یہ میرے بیٹے/بیٹی کا عقیقہ ہے، لہٰذا اس کا خون اس کے خون کے بدلہ، اس کا گوشت اس کے گوشت کے بدلہ، اس کی ہڈیاں اس کی ہڈیوں کے بدلہ، اس کی کھال اس کی کھال کے بدلہ، اس کے بال اس کے بالوں کے بدلہ میں ہیں، یا اللہ! اس کو میرے بیٹے/ بیٹی کے بدلہ دوزخ سے آزادی کا بدلہ بنادے۔‘‘

عقیقہ کے مسائل

٭جس جانور کی قربانی جائز ہے، اس میں عقیقہ کرنا بھی جائز ہے، جیسے :اونٹ، گائے، بھینس، بکرا وغیرہ اور اونٹ، گائے میں عقیقہ کے سات حصے رکھ سکتے ہیں، مثلاً کسی شخص کے تین لڑکے اور ایک لڑکی ہو اور وہ ان سب کے عقیقہ میں ایک گائے یا ایک اونٹ ذبح کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔ (ہندیہ، ج:۵،ص:۳۰۴)
٭گائے، بیل وغیرہ میں کچھ حصے قربانی کے اور کچھ حصے عقیقے کے رکھنا جائز ہے۔ (ہندیہ، ج:۵،ص:۳۰۴)
٭جس جانور کی قربانی جائز نہیں، جیسے: ہرن، نیل، گائے وغیرہ، اس سے عقیقہ کرنا بھی جائز نہیں، اور جس جانور کی قربانی جائز ہے، جیسے: گائے، بیل اور بکرا وغیرہ، اس سے عقیقہ بھی درست ہے۔ (ہندیہ، ج:۵،ص:۳۰۴)
٭عقیقہ کے گوشت کے تین حصے کرنا مستحب ہیں: ایک حصہ صدقہ کردیں، ایک حصہ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو دے دیں، اور ایک حصہ گھر میں رکھ لیں۔ (ہندیہ، ج:۵،ص:۳۰۴)
٭عقیقہ کے گوشت سے دعوت کرنا بھی جائز ہے، نیز عقیقہ یا قربانی کا گوشت ولیمہ کی دعوت میں استعمال کرنا جائز ہے۔ (شامیہ، ج:۶، ص:۳۲۶ اور مأخذہ بہشتی زیور کا حاشیہ، ج:۳،ص:۴۳)

سرکے بال منڈوانا

٭بچہ/بچی کی ولادت کے ساتویں دن سر کے بال منڈوادیں، خواہ پہلے سرمنڈوائیں، پھر عقیقہ کریں یا پہلے عقیقہ کریں، پھر سر کے بال منڈوائیں، دونوں طرح جائز ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ پہلے بچہ کے سر کے بال منڈوائیں، پھر عقیقہ کا جانور ذبح کریں۔ (حاشیہ بہشتی زیور، ج:۳،ص:۴۳)

بالوں کے وزن کے برابر چاندی صدقہ کرنا

٭بچہ/بچی کے سر کے بال منڈوانے کے بعد بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی خیرات کردیں (چاندی سے اس کا اندازہ رقم میں تقریباً پانچ سو روپے سے ایک ہزار روپے تک ہے، یہ رقم صدقہ کردیں) اور بالوں کو کسی جگہ دفن کردیں۔ (مشکوٰۃ، ج:۲،ص:۳۶۲)
٭لڑکے اور لڑکی کا سر منڈوانے کے بعد اگر زعفران میسر ہو تو تھوڑا سا زعفران پانی میں گھول کر روئی وغیرہ سے اس کے سر پر لگادیں اور اگر زعفران نہ ہو تو کچھ حرج نہیں، کیونکہ یہ عمل بہتر ہے، ضروری نہیں ہے۔ (مشکوٰۃ، ج:۲،ص:۳۶۲)

ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکنے کا حکم

٭اگر کوئی ساتویں دن عقیقہ نہ کرسکے تو آئندہ جب کرے ساتویں دن کا خیال کرنا مستحب ہے، ا س کاآسان طریقہ یہ ہے کہ جس دن لڑکا یا لڑکی پیدا ہو، اس سے ایک دن پہلے عقیقہ کردیں، مثلاً اگر لڑکا جمعہ کے دن پیدا ہوا ہے تو جمعرات کو عقیقہ کردیں اور اگر جمعرات کو بچہ پیدا ہواہے تو بدھ کو عقیقہ کردیں، اس طرح جب بھی عقیقہ کیا جائے گا، وہ حساب سے ساتواں دن پڑے گا۔ (شرح المہذب، ج:۹،ص:۲۴۵)
٭اگر کوئی ا س کا لحاظ کیے بغیر کسی بھی دن عقیقہ کردے یا بقر عید کے دن قربانی کے ساتھ عقیقہ کردے تو بھی جائز ہے۔ (مأخذہ بہشتی زیور کا حاشیہ، ج:۳،ص:۴۳)
٭جس شخص کا پیدائش کے بعد عقیقہ نہ ہو اہو تو بعد میں اس کو اپنا عقیقہ کرنا جائز ہے، چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ فرمایا۔ (شرح المہذب، ج:۹، ص:۲۴۵ وتنقیح الحامدیہ، ج:۲،ص:۲۳۳)

ختنہ کروانا

٭اگر لڑکا پیدا ہو تو ولادت کے ساتویں دن ختنہ کرانا مستحب ہے، کیونکہ ولادت کے ساتویں دن سے لڑکے کی بارہ سال عمر ہونے تک ختنہ کرانے کا مستحب وقت ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن اور حضرت حسین r کی ولادت کے ساتویں دن اُن کا ختنہ کروایا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسحاق علیہ السلام کی ولادت کے ساتویں دن اُن کا ختنہ کرایا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تیرہ سال کی عمر میں ختنہ کروایا تھا۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج:۵،ص:۹)

بچہ کا نام رکھنا

٭ساتویں دن لڑکے/لڑکی کا اچھا سانام رکھ دیں، نام رکھنے میں ساتویں دن سے زیادہ تاخیر نہ کریں، اور ایسا نام نہ رکھیں جس کے معنی برے ہوں یا اس میں بڑائی کا یا بزرگی کا مفہوم نکلتاہو، جیسے: عاصی یا عاصیہ، جس کے معنی نافرمانی کرنے والا اور نافرمانی کرنے والی کے ہیں، یا جیسے: شہنشاہ، اور امیر الامراء، اس میں بڑائی پائی جاتی ہے، یا جیسے ’’برہ ‘‘نیکو کار اس میں بزرگی پائی جاتی ہے ۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج:۴،ص:۲۱۴)
٭لڑکے /لڑکی کی ولادت کے دن نام رکھنا بھی جائز ہے۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج:۴،ص:۲۲۰)
٭لڑکے/لڑکی کا نام کسی نیک اور بزرگ سے رکھوانا مستحب ہے ،وہ اپنی پسند سے بچہ/بچی کا کوئی نام رکھ دے۔ (تکملۃ فتح الملہم، ج:۴، ص:۲۲۰)

برا نام بدل دینا چاہیے

٭اگر کسی لڑکے یا لڑکی کے نام کے معنی اچھے نہ ہوں، اس کو بدل دینا چاہیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا، جیسے حضرت زینب t کا پہلا نام ’’برہ‘‘ تھا جس کے معنی: نیکی اور بھلائی کے ہیں، جس میں اپنی بزرگی کا پہلو نکلتاہے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر ’’زینب‘‘ رکھ دیا۔ اسی طرح ایک شخص کا نام ’’اصرم‘‘ تھا، جس کا معنی ہے: ’’زیادہ کاٹنے اور کترنے والا‘‘، یہ معنی اچھا نہیں ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا: نہیں، تم زارع ہو جس کا معنی ’’کھیتی کرنے والا‘‘ ہے۔ (بخاری وابوداؤد)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین