بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عقیقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت !


عقیقہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی سنت !


عقیقہ کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچہ / بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے، اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابۂ کرامؓ سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں: زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچہ/ بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
 یہ اسلامی Vaccination ہے، جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ ہمیں دنیاوی Vaccinations کے ساتھ اس Vaccination کا بھی اہتمام کرنا چاہیے۔ بچہ / بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہوجاتا ہے۔ بچہ / بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا۔ عقیقہ کی دعوت سے رشتے دار، دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے، جس سے ان کے درمیان محبت واُلفت پیدا ہوتی ہے۔ 

عقیقہ کے متعلق چند احادیث

رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’بچہ / بچی کے لیے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ اور اس سے گندگی (سر کے بال) کو دور کرو۔‘‘  (بخاری) 
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’ہر بچہ / بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔‘‘       (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد) 
نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس فرمان کی شرح علماء نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچہ/ بچی کو باپ کے لیے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود عقیقہ نہیں کیاہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچہ/ بچی کا عقیقہ کرنا چاہیے۔ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’لڑکے کی جانب سے دو بکریاں اور لڑکی کی جانب سے ایک بکری ہے۔ ‘‘   (ترمذی، مسند احمد) 
رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’لڑکے کی جانب سے دو بکرے اور لڑکی کی جانب سے ایک بکرا ہے۔ عقیقہ کے جانور مذکر ہوں یا مؤنث، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، یعنی بکرا یا بکری جو چاہیں ذبح کردیں۔ ‘‘ (ترمذی، مسند احمد) 
’’رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے نواسے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کا عقیقہ ساتویں دن کیا، اسی دن ان کانام رکھا اور حکم دیا کہ ان کے سروں کے بال مونڈ دیئے جائیں۔ ‘‘     (ابو داؤد) 
ان مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچہ /بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اور ختنہ کرانا سنت ہے، لہٰذا باپ کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچہ /بچی کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی اس سنت کو ضرور زندہ کرے، تاکہ عند اللہ اجرِعظیم کا مستحق بنے، نومولود بچہ /بچی کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے، نیز کل قیامت کے دن بچہ / بچی کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔ 

کیا ساتویں دن عقیقہ کرنا شرط ہے؟

عقیقہ کرنے کے لیے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانہ کے ساتوں دن بچہ / بچی پر گزر جاتے ہیں، لیکن اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہیے، جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقیناً عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی، اس کے فوائد ان شاء اللہ! حاصل ہوجائیں گے، اگرچہ عقیقہ کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔  

کیا بچہ / بچی کے عقیقہ میں کوئی فرق ہے؟

بچہ / بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے، وہ یہ ہے کہ بچہ کے عقیقہ کے لیے دو اور بچی کے عقیقہ کے لیے ایک بکرا / بکری ضروری ہے، لیکن اگر کسی شخص کے پاس بچہ کے عقیقہ کے لیے دو بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرے سے بھی عقیقہ کرسکتا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ابوداود میں موجود ہے۔ 

بچہ / بچی کے عقیقہ میں فرق کیوں رکھا گیا؟

اسلام نے عورتوں کومعاشرہ میں ایک ایسا اہم اور باوقار مقام دیا ہے جو کسی بھی سماوی یا خود ساختہ مذہب میں نہیں ملتا، لیکن پھر بھی قرآن کی آیات ’’وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ‘‘ (البقرۃ: ۲۳۸) اور ’’الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ‘‘ (النساء: ۳۴) اور احادیثِ شریفہ کی روشنی میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے مردوں کو عورتوں پر کسی درجہ میں فوقیت دی ہے، جیسا کہ دنیا کے وجود سے لے کر آج تک ہر قوم میں اور ہر جگہ دیکھنے کو ملتا ہے، مثلاً: حمل وولادت کی تمام تر تکلیفیں اور مصیبتیں صرف عورت ہی جھیلتی ہے، لہٰذاشریعتِ اسلامیہ نے بچہ کے عقیقہ کے لیے دو اور بچی کے عقیقہ کے لیے ایک خون بہانے کا جو حکم دیا ہے، اس کی حقیقت خالقِ کائنات ہی بہتر جانتا ہے۔ 

عقیقہ میں بکرا / بکری کے علاوہ دیگر جانور مثلاً اونٹ گائے وغیرہ کو ذبح کیا جاسکتا ہے؟

اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے، مگر تحقیقی بات یہ ہے کہ حدیث نمبر (۱  اور ۲) کی روشنی میں بکرا/ بکری کے علاوہ اونٹ گائے کو بھی عقیقہ میں ذبح کرسکتے ہیں، کیونکہ اس حدیث میں عقیقہ میں خون بہانے کے لیے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے بکرا /بکری کی کوئی شرط نہیں رکھی، لہٰذا اونٹ گائے کی قربانی دے کر بھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز عقیقہ کے جانور کی عمر وغیرہ کے لیے تمام علماء نے عیدالاضحی کی قربانی کے جانور کی شرائط تسلیم کی ہیں۔ 

کیا اونٹ گائے وغیرہ کے حصہ میں عقیقہ کیا جاسکتا ہے؟

اگر کوئی شخص اپنے ۲ لڑکوں اور ۲ لڑکیوں کا عقیقہ ایک گائے کی قربانی میں کرنا چاہے، یعنی قربانی کی طرح حصوں میں عقیقہ کرنا چاہے، تو اس کے جواز سے متعلق علماء کا اختلاف ہے، علماء کرام نے قربانی پر قیاس کرکے اس کی اجازت دی ہے، البتہ احتیاط اسی میں ہے کہ ہر بچہ / بچی کی طرف سے کم از کم ایک خون بہایا جائے۔ 

کیا عقیقہ کے گوشت کی ہڈیاں توڑکر کھا سکتے ہیں؟

بعض احادیث اور تابعینؒ کے اقوال کی روشنی میں بعض علماء کرام نے لکھا ہے کہ عقیقہ کے گوشت کے احترام کے لیے جانور کی ہڈیاںجوڑوں ہی سے کاٹ کر الگ کرنی چاہئیں، لیکن شریعتِ اسلامیہ نے اس موضوع سے متعلق کوئی ایسا اصول وضابطہ نہیں بنایا ہے کہ جس کے خلاف عمل نہیں کیا جاسکتاہے، کیونکہ یہ احادیث اور تابعینؒ کے اقوال بہتر وافضل عمل کو ذکر کرنے کے متعلق ہیں، لہٰذا اگر آپ ہڈیاں توڑکر بھی گوشت بناکر کھانا چاہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔ 

کیا بالغ مرد وعورت کا بھی عقیقہ کیا جا سکتا ہے؟

جس شخص کا عقیقہ بچپن میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ عموماً ہندوستان اور پاکستان میں عقیقہ چھوڑکر چَھٹی وغیرہ کرنے کا زیادہ اہتمام کیا جاتا ہے، (جوکہ غلط ہے) لیکن اب بڑی عمر میں اس کا شعور ہورہا ہے تو وہ یقیناً اپنا عقیقہ کرسکتا ہے، کیونکہ بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے نبوت ملنے کے بعد اپنا عقیقہ کیا۔ (أخرجہ ابن حزم في ’’الحلّی‘‘، والطحاوی في ’’المشکل‘‘) نیز احادیث میں کسی بھی جگہ عقیقہ کرنے کے آخری وقت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بڑی بچی کے سرکے بال منڈوانا جائز نہیں ہے، ایسی صورت میں بال نہ کٹوائیں، کیونکہ بال کٹوائے بغیر بھی عقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی۔ 

دیگر مسائل

قربانی کے جانور کی طرح عقیقہ کے جانور کی کھال یا تو غرباء ومساکین کو دے دیں یا اپنے گھریلو استعمال میں لے لیں۔ کھال یا کھال کو فروخت کرکے اس کی قیمت قصائی کو بطور اُجرت دینا جائز نہیں ہے۔ قربانی کے گوشت کی طرح عقیقہ کے گوشت کو خود بھی کھاسکتے ہیںاور رشتہ داروں کو بھی کھلاسکتے ہیں۔ اگر عقیقہ کے گوشت کے ۳ حصے کرلیے جائیں تو بہتر ہے: ایک اپنے لیے، ایک رشتے داروں کے لیے اور تیسرا حصہ غریبوں کے لیے، لیکن یہ تین حصے کرنا کوئی ضروری نہیں ہے۔ عقیقہ کے گوشت کو پکاکر رشتے داروں کو بلاکر بھی کھلاسکتے ہیں اور کچا گوشت بھی تقسیم کرسکتے ہیں۔ اگر بچہ / بچی کی پیدائش جمعہ کے روز ہوئی ہے تو ساتواں دن جمعرات ہوگا۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین