بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عقیدہ حیاتُ الانبیاء (عليهم الصلوة والسلام) اور ادلہ اربعہ!

عقیدہ حیاتُ الانبیاء (B) اور ادلہ اربعہ!

 

    برادرانِ اسلام! الحمد ﷲ ثم الحمد ﷲ! عقیدہ حیات الانبیاء (B) شریعتِ مطہرہ کے چاروں دلائل یعنی کتاب، سنت رسول اللہ (l) ، اجماعِ امت اور قیاسِ شرعی سے ثابت ہے۔ جہاں تک تعلق ہے کتاب اللہ کا تو قرآن مجید کی پچاس سے زائد آیاتِ بینات سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ موت کے بعد ہرانسان کو عالم قبر وبرزخ میں ایک خاص قسم کی حیات حاصل ہوتی ہے، جس سے مردہ انسان منکرنکیر کے سوال وجواب کو سمجھتا ہے اور پھر اس پر جزاء وسزا کا سلسلہ جاری ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ مردہ انسان کا سوال وجواب کو سمجھنا اور ثواب وعقاب کو محسوس کرنا اس کی حیاتِ قبر کی دلیل ہے تو جب ہر مردہ کو عالم قبر وبرزخ میں حیات حاصل ہے تو یہ حیات‘ انبیاء کرام Bکو بطریق اولیٰ حاصل ہے، بلکہ انبیاء کرام B کی یہ حیات عام موتیٰ سے اعلیٰ ،ارفع اور برتر ہے، اس حیات کو ہم امتیازی اور خصوصی بھی کہہ سکتے ہیں۔  اب رہا یہ سوال کہ وہ آیات کہاں ہیں؟ تو گزارش ہے کہ بندہ عاجز نے پچاس کے قریب آیات اپنی تالیف ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں، مطالعہ کے شائقین اس کی طرف رجوع کریں، کیونکہ وہ کتاب عام اور متداول ہے۔ امید ہے کہ انہی آیات کے مطالعہ سے شرح صدر ہوجائے گا۔ اور جہاں تک تعلق ہے سنت رسول اللہ (l) کا تو عقیدہ حیات الانبیاء ؑ احادیثِ متواترہ سے ثابت ہے، جن کا درجہ(باعتبار ثبوت کے) قرآن کے برابر ہے۔  کچھ تو وہ حدیثیں ہیں، جن میں حیات الانبیاء ؑکی تصریح ہے، مثلاً: ’’الأنبیاء أحیاء فی قبورہم یصلون‘‘ وغیرہ وغیرہ اور دوسری وہ حدیثیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ عالم قبر وبرزخ میں مردہ انسان سے سوال وجواب ہوتا ہے اور پھر جزاء وسزا ہوتی ہے تو یہ سب سینکڑوں حدیثیں حیاتِ قبر پر دلالت کرتی ہیں اور قبر کی یہ حدیثیں متواتر ہیں۔ بندہ عاجز نے سو سے زائد یہ حدیثیں ’’قبر کی زندگی‘‘ میں لکھ دی ہیں۔ اگر اہل علم تتبع کریں تو مزید حدیثیں بھی مل سکتی ہیں، نیز’’ نظم المتناثر من الحدیث المتواتر‘‘ میں لکھا ہے کہ:  ’’إن من جملۃ ما تواتر عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم حیاۃ الأنبیاء فی قبورہم۔‘‘  یعنی ’’حضور اکرم a کی ذات اقدس سے جو حدیثیں تواتر کے ساتھ ثابت ہیں، ان میں سے ’’حیاۃ الأنبیاء فی قبورہم‘‘ کی حدیثیں بھی ہیں۔‘‘                                   (بحوالہ مجموعہ رسائل حیات الانبیاء ؑ    للبیہقیؒ، للسبکیؒ، للسیوطیؒ، ص:۸)  اور امام جلال الدین سیوطیv اپنے رسالہ’’ نباء الأذکیاء فی حیاۃ الانبیاء ؑ ‘‘میں لکھتے ہیں:  ’’فأقول: حیاۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبرہٖ ہو وسائر الأنبیاء معلومۃ عندنا علما قطعیا، لما قام عندنا من الأدلۃ فی ذلک وتواترت بہ الأخبار الدالۃ علی ذلک، وقد ألف الامام البیہقی رحمہ اللّٰہ جزأًفی حیاۃ الأنبیاء علیہم السلام فی قبورہم۔‘‘                        (بحوالہ مجموعہ رسائل کتاب حیاۃ الانبیائ، ص:۴۵) ’’پس میں کہتا ہوں: حیاۃ النبی (a) اپنی قبر میں اور اسی طرح تمام انبیاء کرام B ہمارے نزدیک علم قطعی کے ساتھ معلوم ہے، کیونکہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور حیات الانبیاء پر دلالت کرنے والی روایات درجۂ تواتر کو پہنچتی ہیں اور تحقیق امام بیہقیv نے حیات الانبیاء کے عقیدہ میں ایک رسالہ بھی تالیف کیا ہے، جس میںانہوں نے حیاتِ قبر کو ثابت کیا ہے۔‘‘ اور یہی بات امام سیوطیv نے اپنے فتویٰ ’’الحاوی للفتاویٰ‘‘ میں بھی ذکر کی ہے۔                                                                      (الحاوی للفتاویٰ، ج:۷، ص:۱۴۷)  اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویv لکھتے ہیں : ’’نزد احمد ونسائی ہر آئینہ خدای را فرشتگانند میر کنندگان در زمین می ر سانند مرا از اُمت من سلام را وبتواتر رسیدہ این معنی۔‘‘                             (فتویٰ عزیزیہ ج:۲، ص: ۲۷) ’’ حضور اکرم a کی خدمتِ مقدس میں فرشتوں کا درود وسلام پہنچانا درجۂ تواتر رکھتا ہے۔‘‘   نیز شریعت کی اصطلاح میں عقیدہ عذابِ قبر مشہور ہے، لیکن قبروں میں صرف عذاب نہیں ہوتا، بلکہ راحت بھی ہوتی ہے، چونکہ اکثر مردوں کو قبروں میں عذاب ہوتا ہے تو تغلیباً اس کو عذابِ قبر ہی کہا جاتا ہے، تو قبر کی یہ جزا وسزا حیات کو مستلزم ہے، کیونکہ اگر قبر میں جزاء وسزاء ہے اور عذاب وراحت ہے اور مردہ انسان کو اس کا ادراک اور شعور نہیں ہے تو عذاب اور راحت کا کیا فائدہ؟ چنانچہ شاہ عبد العزیز محدث دہلویv لکھتے ہیں:  ’’وعذاب وتنعیم بغیر ادراک وشعورنمی تواند شد۔‘‘           (فتاویٰ عزیزی، ج:۱،ص: ۸۸)  ’’عذاب اور تنعیم قبر بغیر ادراک اور شعور کے نہیں ہوسکتے۔‘‘  جمہور علماء اسلام نے عذابِ قبر کی حدیثوں کو متواتر کہا ہے، تو جب ہر میت کی حیات پر دلالت کرنے والی حدیثیں متواتر ہیں تو حضرات انبیاء کرام B کی حیاتِ قبر کی حدیثیں بطریق اولیٰ تواتر سے ثابت ہیں ۔ اور جہاں تک تعلق ہے اجماعِ امت کا تو بہت سے علماء نے اپنی کتابوں میں تصریح فرمائی ہے کہ حضرات انبیاء کرام B کی حیاتِ قبر پر اجماعِ امت ہے اور بکثرت حوالہ جات میں سے چند ایک حوالے آپ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں، چنانچہ علامہ داؤد بن سلیمان البغدادیv لکھتے ہیں:  ’’والحاصل أن حیاۃ الأنبیائؑ ثابتۃ بالإجماع۔‘‘ (المنحۃ الوہبیۃ، ص:۶، طبع استنبول، بحوالہ تسکین الصدور)  ’’ حاصل یہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام B کی حیات باجماع ثابت ہے۔‘‘  اور شیخ عبد الحق دہلویv آنحضرت a کی حیات کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:  ’’حیات متفق علیہ است، ہیچ کس را در وے خلافے نیست۔‘‘ (اشعۃ اللمعات، ج:۱، ص:۶۱۳) ’’ حضور اکرم a کی حیاتِ قبر متفق علیہ ہے، کسی کا اس میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ہے۔ ‘‘ نواب قطب الدین خان صاحبv شارح مشکوٰۃ لکھتے ہیں : ’’زندہ ہیں انبیاء B قبروں میں، یہ مسئلہ متفق علیہ ہے، کسی کو اس میں خلاف نہیں۔‘‘                                                       (مظاہر حق، ج:۱، ص:۴۴۵، بحوالہ تسکین الصدور)  اور حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیv لکھتے ہیں : ’’انبیائ(B) کواسی وجہ سے مستثنیٰ کیاکہ ان کے سماع میں کسی کو اختلاف نہیں۔‘‘                                          ( فتاویٰ رشیدیہ، ملحق تالیفات رشیدیہ، ص:۲۳۴-۶۹)  اور جہاں تک تعلق ہے قیاسِ صحیح کا تو یہ عقیدہ اس سے بھی ثابت ہے، کیونکہ حضور اکرم a جب دنیا میں تشریف لائے تو آپ a کی روح اور جسد اطہر کا مجموعہ محمد a کے نام سے مشہور ہوا اور چالیس سال کے بعد آپ a نے جب اعلانِ نبوت فرمایا تو بحیثیت محمد رسول اللہ (a) متعارف ہوئے، پس جب ثابت ہوگیا کہ روح اور جسد کا مجموعہ اللہ کا رسول ہے اور روح اور جسد دونوں نے مل کر دینِ اسلام کی خوب خدمت کی، تبلیغ فرمائی، تبلیغی سفر کیے، آپ a غزوات میں شریک ہوئے، مکہ سے مدینہ منورہ تک ہجرت فرمائی، تین دن تک غارِ ثور میں رہے، جنگ بدر، جنگ احد میں شرکت فرمائی، آپ a کو معراج ہوئی، آپ a نے آسمانوں وغیرہ کی سیر فرمائی، آپ a نے نماز، روزہ، حج، عمرہ وغیرہ عبادات ادا فرمائیں تو مناسب امور میں آپ صلی a کا جسد اطہر روح کے ساتھ شریک تھا، دین کا ہر کام روح اور جسد دونوں نے مل کر ادا کیا اور وفات کے بعد جب جزاء اور انعام کا وقت آیا تو انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ عالم قبر وبرزخ کی جزاء اور انعامات روح اور جسد کے مجموعہ کو دی جائیں۔  انصافِ خداوندی کا یہی تقاضا ہے کہ موت کے بعد حیات ملی ہے تو ان دونوں کو، اور جنت کا مقام ملا ہے تو ان دونوں کو، جنت کا رزق ملا ہے تو ان دونوں کو، الغرض جنت میں جتنی نعمتیں اللہ تعالیٰ روح کو عطا فرماتے ہیں، ان سب میں آپ a کا جسدِ اطہر شریک اور حاضرہے۔ عالم قبر وبرزخ کی سب نعمتیں روح کے ساتھ مختص کرکے آپ a کے جسد کو حیات اور جنت کی نعمتوں سے محروم کردینا انصافِ خداوندی سے کوسوں دور ہے، جس کا اللہ تبارک وتعالیٰ سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ لہٰذا قیاس صحیح سے بھی عقیدہ حیات الانبیاء ؑثابت ہوگیا۔  البتہ علماء فرماتے ہیں کہ حضور اکرم a کی روحِ اقدس اپنے مقام پر ہے،اور اسی طرح جسدِ اطہر اپنے مقام میں ہے اور ان دونوں کے مابین ایک ایسا تعلق اور جوڑ ہے جس کی حقیقت اللہ ہی جانتے ہیں۔ پس عالم قبر وبرزخ میں آپ a کی روح اقدس پر جو انعامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں، اس سے آپ a کا جسدِ اطہر برابر محظوظ ہوتا ہے، جیساکہ خواب دیکھنے والا شخص خواب میں مختلف مقامات کو دیکھتا ہے اور مختلف حالات سے گزرتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہے کہ خواب میں آدمی کی روح نکل جاتی ہے، لیکن خواب میں روح جسد کو اپنے ہمراہ محسوس کرتی ہے اور دُکھ اور سُکھ کے حالات جو روح پر طاری ہوتے ہیں، جسد بھی ان سے برابر متأثر ہوتا ہے۔  الحمد ﷲ! کہ عقیدہ حیات الانبیائ(B) ادلہ اربعہ سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا، لیکن چند وضاحتیں آپ کی خدمت میں پیش کی جارہی ہیں، تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے: وضاحت نمبر:۱ جن دلائل سے عقیدہ حیات الانبیائ(B) ثابت ہے، انہی دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ عالم قبر وبرزخ میں روح کے ساتھ دنیا والا جسدِ اطہر بھی تعلق کی وجہ سے ہر نعمت اور راحت میں شریک ہوتا ہے، اس کے لیے کسی دوسرے دلائل کی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ وضاحت نمبر:۲ ہمارے جن اکابر نے یہ لکھا ہے کہ :’’موت کے بعد انسان کو جسدِ مثالی دیا جاتا ہے‘‘ تو جسدِ مثالی کی تجویز کرنے والے یہ سب حضرات جسدِ مثالی کی تجویز کے باوجود جسدِ عنصری حقیقی اور اصل سے بھی روح کا تعلق مانتے ہیں۔ دنیا میں کوئی ایک ایسا عالم دین نہیں گزرا جس نے جسدِ عنصری کا انکار کرکے جسدِ مثالی کی تجویز کی ہو۔ جسدِ حقیقی کے تعلق کا کوئی منکر نہیں ہے اور ہمارا اختلاف صرف ان لوگوں سے ہے جو جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق کا انکار کرتے ہیں۔ اگر کوئی عالم جسدِ حقیقی اصلی سے تعلق مان کر ایک نہیں‘ ہزار جسدِمثالی تجویز کرے، ہمارا اس سے کوئی اختلاف نہیں ہے۔  پس میں اپنے تمام طالب علم بھائیوں اور علماء کرام کو ہوشیار کرتا ہوں کہ ’’بعض لوگ‘‘ سادہ لوح عوام کو قائلینِ جسدِ مثالی کے نام پر دھوکہ دیتے ہیں، لہٰذا ان کے دھوکہ سے بچئے اور ایمان کی حفاظت کیجیے، کیونکہ مذکورہ طریق پر جسدِ مثالی کے قائلین بھی ہمارے اکابر ہیں، بدعقیدہ لوگوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، صرف ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ بندہ عاجز کا ایک مضمون جوکہ مجموعہ سوالات میں چھپا ہوا ہے، جس کا عنوان ’’قائلینِ جسدِ مثالی سے اسّی سوال‘‘ ہے، مطالعہ کے لائق ہے۔ وضاحت نمبر:۳ حیاتِ قبر اور حیاتِ برزخ کوئی دو متضاد چیزیں نہیں ہیں، کیونکہ قبر‘ مردہ انسان کے لیے ظرفِ مکان اور برزخ اس کے لیے ظرفِ زمان ہے۔ زمان اور مکان میں کوئی تضاد نہیں ہے، اطلاق کے اعتبار سے دونوں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ قرآن کے اِن ’’شیخوں‘‘ کو ظرفِ زمان اور ظرفِ مکان کا فرق کیوں نظر نہیں آتا اور یہ کس منہ سے کہتے ہیں کہ قبر سے مراد برزخ اور برزخ سے مراد عِلِّیِّین اور سِجِّین ہے، حالانکہ عِلِّیِّین اور سِجِّین ظرفِ مکان ہیں۔ البتہ برزخ زمان ہے اور اپنے وسیع ترمفہوم کے اعتبار سے مردہ کے روح او رجسد کے ہر مقام کو شامل ہے۔ وضاحت نمبر:۴ آج کل عصرِ ہذا کے معتزلہ نے یہ ڈھنڈورا پیٹنا شروع کررکھا ہے کہ اللہ کا قانون ہے اور قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ روح جب ایک دفعہ جسم سے نکل جاتی ہے تو دوبارہ بدن کی طرف نہیںآتی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ایسا کوئی قانون نہیں ہے اور نہ قرآن میں یہ بات لکھی ہوئی ہے۔  قرآن مجید میں جو قانونِ الٰہی لکھا ہوا ہے، وہ یہ ہے کہ جو انسان ایک دفعہ موت پاکر عالم قبر وبرزخ میں چلا جاتا ہے، وہ دوبارہ عالم دنیا میں واپس نہیں آتا اور یہی مطلب ہے :’’فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْہَا الْمَوْتَ ‘‘ کا ،یعنی مسئلہ ’’ عود ِ انسان الی الدنیا ‘‘ کاہے، یہی قانونِ الٰہی ہے اور یہی قرآن مجید میں لکھا ہوا ہے کہ ایک دفعہ جو آدمی مرجاتا ہے تو وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آتا ،الا بخرق العادات ۔ تو اس قسم کی آیات کو ’’اعادۂ روح الیٰ البدن فی القبر‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں روح عالم قبر وبرزخ میں رہتے ہوئے جسم کی طرف واپس آتی ہے اور یہ عقیدہ تو قرآن اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔  لیکن بڑے افسوس کی بات یہ ہے کہ قرآن کے مدعیوں نے اس آیت کا غلط مطلب نکال کر اللہ کے قرآن پر بہتان اور جھوٹ باندھا ہے۔ میں درخواست کروں گا اس دور کے علماء حق سے کہ آپ زندہ ہیں اور اللہ کی کتاب کی تحریف کی جارہی ہے اور غیر قرآن کو قرآن باور کرایا جارہا ہے، اگر آج آپ اُٹھ کر عوام الناس کی رہبری کرتے ہوئے اس دجل وفریب کا پردہ چاک نہیں کریںگے، قرآن پاک کا صحیح مطلب لوگوں کو نہیں بتائیں گے، تو بے چاری سادہ عوام گمراہ ہوتی چلی جائے گی۔ ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین