بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عظیم باپ کی عظیم بیٹی کی رحلت (اہلیہ حضرت مفتی احمد الرحمنؒ )

عظیم باپ کی عظیم بیٹی کی رحلت (اہلیہ حضرت مفتی احمد الرحمنؒ )

    محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف قدس سرہٗ کی صاحبزادی، امام اہلسنت حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن نور اللہ مرقدہٗ کی اہلیہ محترمہ، مولانا سید سلیمان یوسف بنوری زید مجدہم کی خواہر زادی، پیر جی صاحبزادہ مولانا عزیز الرحمن رحمانی، صاحبزادہ مولانا محمد طلحہ رحمانی، مولانا حافظ محمد اسامہ رحمانی، مولانا مفتی محمد حذیفہ رحمانی کی والدہ محترمہ ۱۲؍جمادی الاولیٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۱؍فروری ۲۰۱۶ء اس دنیائے رنگ وبو کی چھیاسٹھ بہاریں دیکھ کر راہی عالم آخرت ہوگئیں۔ إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ما أخذ ولہ ما أعطی وکل شئ عندہ بأجل مسمی۔ مرحومہ عابدہ،زاہدہ، قانعہ، صابرہ اور بہت زیادہ سخی طبیعت کی مالکہ تھیں۔ معمولات کی پابند،ذکر واذکار اور اوراد ووظائف کی خوگر تھیں۔ دلائل الخیرات بلاناغہ پڑھنے کا معمول تھا۔ مطالعہ بہت وسیع تھا، اللہ تعالیٰ نے خاندانی طور پر حافظہ بھی غضب کا دیا تھا جو چیز ایک مرتبہ پڑھ لیتی تھیں، اسے بھولتی نہیں تھیں۔ جو پڑھا اس پر پورا پورا عمل کرنے کی خود بھی کوشش کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی احادیث کا حوالہ دے کر عمل کی طرف متوجہ کرتی رہتی تھیں۔ ان کی پیدائش انڈیا کے شہر ڈابھیل صوبہ گجرات میں ۱۳۶۹ھ مطابق ۱۹۵۰ء میں ہوئی، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہٗ نے ان کے کان میں اذان کہی، اور ان کی عمر میں برکت کی دعا کی اور ایک تعویذ بناکر دیا جو تبرکاً زندگی بھر مرحومہ کے گلے میں رہا۔ آخری ایام میں وہ تعویذ اپنے بیٹے صاحبزادہ محمد طلحہ رحمانی کو دے دیا جو ان کے پاس محفوظ ہے۔ بچپن ٹنڈوالہ یار اور کراچی میں گزرا، دینی تعلیم گھر میں ہی حاصل کی، تقریباً پندرہ سال کی عمر میں شادی ہوگئی، اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ بیعت کا تعلق حضرت مولانا سیداسعد مدنی نور اللہ مرقدہٗ سے تھا۔     اللہ تبارک وتعالیٰ نے مرحومہ کو سخاوت کا جذبہ وافر مقدار میں عطا فرمایاتھا۔ ہرسال کئی کئی قربانیاں کراتی تھیں، جو حضور a، بزرگان دین، شہید علمائے کرام کی طرف سے ہوتی تھیں، قربانی کا گوشت جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے طلبائے کرام اور قربانی کے جانور کی کھال عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بھجواتیں، تاکہ کل قیامت کے دن حضور a کی شفاعت حاصل ہو۔ جامعہ یوسفیہ بنوریہ بہادر آباد کے مدرسۃ البنات کو انہوں نے ہی سنبھالا تھا، اس کی نگرانی خود کرتیں اور اس خدمت کو ہمیشہ ثواب کی نیت سے اعزازی طور پر انجام دیا، کبھی کوئی مشاہرہ نذرانہ نہیں لیا۔ مدرسہ کی طالبات کے ساتھ خوب شفقت سے پیش آتیں، ان کے ساتھ مالی تعاون کرتیں، ان کی دعوتیں کرتیں، ان کو تحفہ تحائف اور کپڑے دیتیں۔ خاص طور پر ختم بخاری کے موقع پر چادریں اور دوپٹے خود اپنے ہاتھ سے پہناتیں۔ اپنے بچوں اور قریبی رشتہ داروں کے مختلف کاموں کی کامیابی کے لیے دعائیں کرتیں، حتیٰ کہ ان کی حاجت برآری کے لیے نذریں مانتیں، نوافل اور مالی صدقہ کی نذر مانتیں اور یاد بھی رکھتی تھیں کہ کس کی نذر پوری ہوئی ، کس کی باقی ہے؟ مسلکی اعتبار سے بہت پختہ ذہن رکھتی تھیں، عزیز واقارب کو بھی اس کی ترغیب دیتیں، اور برابر ان کی ذہن سازی کرتی رہتی تھیں۔ کتابوں سے بہت محبت تھی، ان کی حفاظت ونگہداشت کا خاص اہتمام تھا، کوئی اگر کتاب لے جاتا تو بہت ناراض ہوتیں۔ تسبیحات وغیرہ کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ دلائل الخیرات اور ذکر واذکار کی کتابوں کو خاص طور پر سنبھال کر رکھتیں۔لباس وپوشاک میں باذوق تھیں۔ مہمان نوازی اور غریبوں کی مدد کرنے پر بہت زیادہ خوش ہوتی تھیں۔ اپنے سید ہونے کو اپنے لیے اعزاز سمجھتیں اور کبھی جلال میں آکر کہتیں کہ ہم تو سادات ہیں، ہمیں تو شیر بھی نہیں کھاتا۔ نرم طبیعت کی مالک تھیں، رحم دلی کی بنا پر رونا بہت آتا تھا۔ سریع الغضب سریع الفئے کا مصداق تھیں، انتہائی صاف دل تھیں، کوئی بات دل میں نہ رکھتیں، شکوے شکایتیں بھی صرف ظاہری اور وقتی ہوتی تھیں۔ اعزہ ، اقرباء یا جاننے والوں میں سے جب کسی کی وفات کا سنتیں تو انتہائی رنج وغم اور افسوس کا اظہار کرتیں۔ جس گھر میں میت ہوتی وہاں خوب اہتمام سے جاتیں، میت کے اہل خانہ کی دلجوئی کے لیے کئی کئی دن ان کے ہاں رہتیںاور اس طرح غم کا اظہار کرتیں جیسے ان کا کوئی قریبی عزیز فوت ہوا ہو۔ جنازہ جاتے ہوئے دیکھ لیتیں تو اس کے لیے بھی افسردہ ہوجاتیں اور پھوٹ پھوٹ کر روتیں، اور اس کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتیں، حتیٰ کہ اجنبیوں کے لیے بھی کئی بار قرآن کریم کے ختم کروائے، پوچھنے پر کہتیں کہ کیا معلوم اس میت کے ساتھ کیا گزرے گی، آخرت کی منزل کیسی ہوگی، ہمیں بھی ایک دن دنیا سے جانا ہے۔ اخبار میں قتل وغارت گری پڑھ کر غمگین ہوتیں، اور اخبار میںجن مقتولین کا پڑھتیں ان کے لیے بھی ایصالِ ثواب کرتیں۔شہر وملک کے امن کے لیے دعائیں کرتیں۔ علماء کے انتقال یا شہادت کی خبر سن کر تو انتہائی رنجیدہ ہوتیں اور پھوٹ پھوٹ کر روتیں۔ چند ہفتے قبل مولانا ہارون الرشیدؒ شیخ الحدیث جامعہ یوسفیہ بنوریہ کا انتقال ہوا، ان کی وفات کی خبر سن کر بہت رنجیدہ ہوئیں، کہا کہ کتنے بڑے عالم تھے، کتنا سال احادیث پڑھائیں اور اسی دن اپنے بیٹوں کو فون کرکے جنازے وغیرہ کے بارے میں پوچھا اور کہا کہ ان کے لیے ایصالِ ثواب کرو، اور یہ سوچو کہ ہم پر بھی یہ وقت آنا ہے، موت کی سختی سے ہمارا بھی واسطہ پڑنا ہے۔ علماء کرام کا بے حد احترام کرتیں، ان سے دعاؤں کی درخواست کرواتیں، کوئی کسی عالم سے ملنے جاتا تو اس سے دعا کی درخواست کرتیں۔ یادداشت اور حافظہ قوی تھا۔ تمام رشتہ داروں کی تاریخ پیدائش اور دن تک یاد تھے۔ خاندانِ بنوریؒ کے احوال خوب اَزبر تھے۔ خاندان کے افراد ان معاملات کی تحقیق وتصدیق کے لیے اُنہیں سے رجوع کرتے تھے۔ حضرت بنوریvسے والہانہ عشق تھا، چالیس سال تک اپنے والد (حضرت بنوریv) اور پچیس سال تک شوہر (مفتی احمد الرحمنv) کے لیے بلاناغہ روزانہ ایصالِ ثواب کرتیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتیں۔ صابرہ ، شاکرہ اور حوصلہ مند خاتون تھیں، بیماری کی وجہ سے کبھی پریشان نہ ہوتیں۔ شوگر اور بلڈ پریشر کے عارضہ میں مبتلا تھیں، آخری عمر میں ہیپا ٹائٹس سی بھی لاحق ہوگیا تھا، ایک سال تک علیل رہیں۔ علاج جاری رہا، مگر ہیپا ٹائٹس سی کا مرض شدت اختیار کرگیا تھا۔ کچھ رقم رکھی ہوئی تھی، اسے کسی کو دینے کی وصیت کی، کچھ رقم کے بارے میں وصیت کی کہ یہ میرے فدیہ میں دے دینا۔وفات کے وقت سب بیٹوں اور بیٹیوں کو فون کرکے بلایا، اور تقریباً سب سے ہی اس طرح کے جملے کہے کہ میں جارہی ہوں۔  ۱۳؍ جمادیٰ الاولیٰ ۱۴۳۷ھ مطابق ۲۲؍ فروری ۲۰۱۶ء بروزپیر بعد نمازِ ظہر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن میں استاذ العلماء بقیۃ السلف حضرت اقدس مولانا سلیم اللہ خان صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی اقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ بہت بڑا جنازہ ہوا، مسجد اور جامعہ کے احاطہ حتیٰ کہ باہر کی گلیوں میں بھی نمازی موجود تھے۔ تدفین ڈالمیا قبرستان میں ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائیں، ان کی زندگی کی حسنات کو قبول فرمائیں اور انہیں جنت الخلد کا مکین بنائیں۔ بینات کے باتوفیق قارئین سے ان کے لیے ایصالِ ثواب اور دعاؤں کی درخواست ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین