بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عصمت ِ انبیاء ؑوحرمت ِ صحابہؓ

عصمت ِ انبیاء ؑوحرمت ِ صحابہؓ


یہ حقیقت مسلم اور ہر شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ نبوت ورسالت وہ اعلیٰ ترین منصب ہے جو حق تعالیٰ ذکرہٗ کی طرف سے مخصوص بندوں کو عطا کیا جاتا ہے۔ تمام کائنات میں انسان اشرف المخلوقات ہے اور نبوت انسانیت کی آخری معراجِ کمال، انسانیت کے بقیہ تمام مراتب وکمالات اس سے پست اور فروتر ہیں۔ انسانی فکر کی کوئی بلندی نبوت کی حدوں کو نہیں چھو سکتی، نہ انسانیت کا کوئی شرف وکمال اس کی گردِراہ کو پہنچ سکتا ہے، اس سے اوپر بس ایک ہی مرتبہ ہے اور وہ ہے حق تعالیٰ کی ربوبیت والوہیت کا مرتبہ! منصبِ نبوت عقولِ انسانی سے بالاتر ہے، اس کی پوری حقیقت صرف وہی جانتا ہے جس نے یہ منصب عطا فرمایا، یا پھر ان مقدس ہستیوں کو معلوم ہوسکتی ہے جن کو اس منصب رفیع سے سرفراز کیا گیا۔ ان کے علاوہ تمام لوگوں کا علم وفہم سرِّنبوت کی دریافت سے عاجز اور عقل اس کی ٹھیک ٹھیک حقیقت وکُنہ کے ادراک سے قاصر ہے۔ جس طرح ایک جاہل علم کی حقیقت سے بے خبر ہے، اسی طرح غیر نبی نبوت کی حقیقت سے ناآشنا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ رسالت ونبوت کا منصب رفیع تودرکنار معمولی ہنر وفن کا بھی یہی حال ہے، کسی فن کی صحیح حقیقت تک رسائی اسی صاحبِ کمال کے لیے ممکن ہے جسے وہ فن حاصل ہو اور اسی حد تک ممکن ہے جس حد تک اُسے فنی رسوخ وکمال حاصل ہو۔
ہمارے حضرت استاذ امام العصر مولانا محمد انور شاہ کشمیری دیو بندی(نور اللہ مرقدہٗ) فرمایا کرتے تھے کہ:
’’  نبوت تو کیا اجتہاد کی حقیقت کے ادراک سے بھی ہم قاصر ہیں۔‘‘
یعنی ’’اجتہاد‘‘ کے بارے میں جو کچھ ہم جانتے ہیں، وہ محض اس کی ظاہری سطح ہے اور جتنی معلومات ہمیں حاصل ہیں، وہ صرف سطحی معلومات ہیں (اسے منطقی اصطلاح میں علم بالوجہ کہتے ہیں) ورنہ اجتہاد کی حقیقت کا صحیح ادراک صرف مجتہد کو ہوسکتا ہے، جسے یہ ملکہ حاصل ہو۔ اسی طرح نبوت کا علم بھی عام انسانوں کو محض آثار ولوازم کے اعتبار سے ہے، نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بارے میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ:
نبوت کے لیے حق تعالیٰ جل ذکرہٗ ایک ایسی برگزیدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو اپنے ظاہر وباطن، قلب وقالب، روح وجسد ہر اعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے، وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطرت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء ومشیت الٰہی کے تابع ہوتی ہیں، ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے، حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ ہر دم اس کی نگرانی کرتی ہے،اس کی ہر حرکت وسکون پر حفاظتِ خداوندی کا پہرہ بٹھادیا جاتا ہے اور وہ نفس وشیطان کے تسلط واستیلاء سے بالاتر ہوتاہے، ایسی شخصیت سے گناہ ومعصیت اور نافرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال وممتنع ہے ،اسی کا نام عصمت ہے(۱) اور ایسی ہستی کو معصوم کہا جاتا ہے، عصمت لازمۂ نبوت ہے، جس طرح یہ تصور کبھی نہیں کیا جاسکتا کہ کسی لمحہ نبوت نبی سے الگ ہوجائے، اسی طرح اس بات کا وہم وگمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ عصمت‘ نبوت اور نبی سے ایک آن کے لیے بھی جدا ہوسکتی ہے، معاذاللہ۔
حضراتِ علماء نے تحقیق فرمائی ہے کہ ایک ہے معصوم اور ایک ہے محفوظ، معصوم وہ ہے جس سے گناہ ومعصیت کا صدور محال ہو، اور محفوظ وہ ہے جس سے صدورِ معصیت محال تو نہ ہو، لیکن کوئی معصیت صادر نہ ہو یا آسان اور سادہ لفظوں میں یوں تعبیر کریں گے کہ معصوم وہ ہے جو گناہ کر ہی نہیں سکتا اور محفوظ کے معنی یہ ہیں کہ گناہ کر توسکتاہے لیکن کرتا نہیں، اس لیے کہا جاتا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام معصوم ہیں اور اولیاء کرام رحمہم اللہ محفوظ ہیں۔
الغرض نبوت ورسالت کے عظیم ترین منصب کے لیے حق تعالیٰ اسی شخصیت کو بحیثیت نبی ورسول کے منتخب کرتا ہے جو حسب ونسب، اخلاق واعمال، عقل وبصیرت، عزم وہمت اور تمام کمالات میں اپنے دور کی فائق ترین شخصیت ہو۔ نبی تمام جسمانی وروحانی کمالات میں یکتائے زمانہ ہوتا ہے اور کسی غیر نبی کو کسی معتدبہ کمال میں اس پر فوقیت نہیں ہوتی۔ قرآنی وشرعی الفاظ میں اس شخصیت کا ’’انتخاب‘‘،’’ اجتباء‘‘ اور’’ اختیار‘‘خود حق تعالیٰ فرماتا ہے، کون نہیں جانتا کہ حق تعالیٰ کا علم کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہے، اس کے لیے ظاہر وباطن اور سرو جہر سب عیاں ہے، ماضی ومستقبل اور حال کے تمام حالات بیک وقت اس کے علم میں ہیں، اس میں نہ غلطی کا امکان، نہ جہل کا تصور،قرآن کریم کی بے شمار آیات میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے:

حاشیہ(۱):     اس کے یہ معنی نہیں کہ انبیائِ کرام علیہم السلام سے قدرت سلب کرلی جاتی ہے، بلکہ عصمت کا مداران ہی دو چیزوں پر ہے، جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا، یعنی اول تو ان کی فطرت اتنی پاکیزہ اور مصفیٰ مزکیٰ ہوتی ہے کہ وہ گناہ ومعصیت کا تصور بھی نہیں کرسکتے اور گناہ کا تصور فطرۃً ان کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ دوم یہ کہ حفاظت الٰہی کی نگرانی ایک لمحہ کے لیے ان سے جدا نہیں ہوتی، ظاہر ہے کہ ان دوباتوں کے ہوتے ہوئے صدورِ معصیت کا امکان نہیں رہتا۔انتہیٰ          (مدیرـ)
’’اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا‘‘۔                               (النساء:۳۲)
’’اور اللہ ہر چیز کو جانتا ہے‘‘۔
’’وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَّبِّکَ مِنْ مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الْأَرْضِ وَلَا فِیْ السَّمَائِ ‘‘۔ (یونس:۶۱)
’’اور غائب نہیں تیرے رب سے کوئی ذرہ بھر چیز بھی، نہ زمین میں نہ آسمان میں‘‘۔
’’  یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَھْرَکُمْ‘‘۔                                     (الانعام:۳)
’’وہ جانتا ہے تمہارے پوشیدہ کو اور ظاہر کو   ‘‘۔
ظاہر ہے کہ جب حق تعالیٰ کا علم محیط‘ نبوت ورسالت کے لیے کسی شخصیت کو منتخب کرے گا تو اس میں کسی نقص کے احتمال کی گنجائش نہیں رہ جاتی، اس منصب کے لیے جس مقدس ہستی پر حق تعالیٰ کی نظر انتخاب پڑے گی اور جسے تمام انسانوں سے چھانٹ کر اس عہدہ کے لیے چناجائے گا ، وہ اپنے دور کی کامل ترین، جامع ترین، اعلیٰ ترین اور موزوں ترین شخصیت ہوگی، البتہ خود انبیاء ورسل ؑ کے درمیان کمالات ودرجات میں تفاوت اور فرقِ مراتب اور بات ہے۔
نیز یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ نبوت ورسالت محض عطیۂ الٰہی ہے ، کسب واکتساب سے اس کا تعلق نہیں کہ محنت ومجاہدہ اور ریاضت ومشقت سے حاصل ہوجائے۔ دنیا کا ہر کمال محنت ومجاہدہ سے حاصل ہوسکتا ہے، لیکن نبوت ورسالت حق تعالیٰ کا اجتبائی عطیہ ہے، وہ جس کو چاہتاہے اس منصب کے لیے چن لیتا ہے، قرآن کریم کی متعدد آیات میں یہ تصریحات موجود ہیں:
’’  اَللّٰہُ یَصْطَفِیْ مِنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ رُسُلاً وَّمِنَ النَّاسِ۔‘‘                 (الحج:۷۵)
’’ اللہ چن لیتا ہے فرشتوں سے پیغامبر اور انسانوں سے‘‘۔
’’  أَللّٰہُ أَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ‘‘۔                          (الانعام:۱۲۴)
’’اللہ کو خوب علم ہے جہاں رکھتا ہے وہ اپنے پیغامات‘‘۔
ان حقائقِ شرعیہ کو سمجھ لینے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی نبی ورسول فرائضِ نبوت میں کوتاہی بھی کرسکتا ہے، کجاکہ کسی نبی نے- معاذ اللہ- اپنے فرائض منصبی میں کوتاہیاں کی ہوں، اس لیے یہ کہنا کہ ’’فلاں نبی سے فریضۂ رسالت کی ادائیگی میں کچھ کوتاہیاں ہوگئی تھیں‘‘۔ ’’نبی ادائے رسالت میں کوتاہی کر گیا‘‘۔ یا یہ کہ ’’فلاں نبی بغیر اذنِ الٰہی کے اپنی ڈیوٹی سے ہٹ گیا۔‘‘ انتہائی کوتاہی کی بات ہے اور وہ اپنے اندر بڑے سنگین مضمرات رکھتی ہے۔ اسی طرح کسی مشکل مقام کی تہ کو نہ پہنچنے کی بنا پر یہ اٹکل پچو کلّیہ گھڑ لینا کہ ’’عام انسانوں کی طرح نبی بھی مومن کے بلند ترین معیارِ کمال پر ہر وقت قائم نہیں رہ سکتا، وہ بھی بسا اوقات تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے اور جب اللہ کی طرف سے اُسے متنبہ کیا جاتا ہے کہ یہ عمل محض ایک ’’جاہلیت کا جذبہ‘‘ ہے تو نبی فوراً اسلامی طرزِ فکر کی طرف پلٹ آتا ہے۔‘‘ نہایت خطرناک بات اور مقامِ نبوت سے ناشناسائی کی عبرت ناک مثال ہے ۔
چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
اسی طرح یہ کہنا کہ ’’ نبی اور رسول پر کوئی وقت ایسا بھی آتا ہے…اور آنا چاہیے… جب کہ اس سے عصمت کا پردہ اٹھالیا جاتا ہے اور اس سے ایک دو گناہ کرائے جاتے ہیں، تاکہ اس کی بشریت ظاہر ہو۔‘‘ یہ ایک ایسا خطرناک قسم کا غلط فلسفہ (سوفسطائیت) ہے، جس سے تمام شرائعِ الٰہیہ اور ادیانِ سماویہ کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔
نبوت سے عصمت کے جدا ہوجانے کے معنی یہ ہوئے کہ عین اس وقت نبی کی حیثیت ایک ایسی شخصیت کی نہیں ہوتی جو امت کے لیے اسوہ اور نمونہ ہو، اور جسے امین ومأمون قرار دیا گیا ہو، اس وقت اس کی حیثیت ایک عام انسان کی سی ہوگی یا زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہیے کہ عین اس حالت میں جب کہ نبی سے عصمت اٹھالی جاتی ہے، وہ نبوت اور لوازمِ نبوت سے موصوف نہیں ہوتا، ظاہر ہے کہ اگر یہ غلط منطق تسلیم کر لی جائے تو سارا دین ختم ہوجاتا ہے، نبی اور رسول کی ہر بات- معاذ اللہ- مشکوک ہوجاتی ہے اور اس کا کوئی قول وعمل اور تلقین وتعلیم قابل اعتماد نہیں رہتی، کیونکہ ہر لمحہ یہ احتمال رہے گا کہ شاید یہ ارتفاعِ عصمت اور انخلاع عن النبوت کا وقت ہو۔بظاہر یہ بات جو بڑے حسین وجمیل فلسفہ کی شکل میں پیش کی گئی ہے، غور کیجیے تو یہ اس قدر غیر معقول اورناقابل برداشت ہے کہ کوئی معقول آدمی جو شریعتِ الٰہی کو سمجھتا ہو، اس کی جرأت تو کجا اس کا تصور تک نہیں کرسکتا! جن لوگوں کی زبان وقلم سے یہ بات نکلی ہے- اور افسوس ہے کہ بڑے اصراروتکرار سے مسلسل نکلتی جارہی ہے- ان کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ انہیں نہ علم کی حقیقت تک رسائی ہوئی ہے، نہ نبوت کے تقاضوں کو انہوںنے صحیح سمجھا ہے۔
اور یہ بات بھی کسی علم ودانش کا پتہ نہیں دیتی کہ جب تک ہم انبیاء کرام علیہم السلام کو عام انسانوں کی طرح دو چار گناہوں میں مبتلا نہ دیکھ لیں، اس وقت تک ہمیں ان کی بشریت کا یقین ہی نہیں آئے گا۔کون نہیں جانتا کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) کھاتے ہیں، پیتے ہیں، انہیں صحت ومرض جیسے بیسیوں انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں،وہ انسانوں سے پیدا ہوتے ہیں اور ان سے انسانی نسل چلتی ہے، علاوہ ازیں وہ بار بار اپنی بشریت کا اعلان فرماتے ہیں، کیا ان تمام چیزوں کے بعد بھی اس بات کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ جب تک ان سے عصمت نہیں اٹھالی جاتی اور دو ایک گناہ نہیں ہونے دیے جاتے، تب تک ان کی بشریت مشتبہ رہے گی؟اورہمیں ان کی بشریت کا یقین نہیں آئے گا؟
یہاں یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بھول چوک اور خطأ ونسیان تو خاصۂ بشریت ہے ، مگر گناہ ومعصیت مقتضائے بشریت نہیں، بلکہ خاصۂ شیطانیت ہے۔ انسان سے گناہ ہوتا ہے تو محض تقاضائے بشریت کی وجہ سے نہیں ہوتا بلکہ شیطان کے تسلط واغوا سے ہوتا ہے، اس لیے گناہوں کے ارتکاب سے انبیاء علیہم السلام کی بشریت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ اور ہی کچھ ثابت ہوگا اور جو لوگ بھول چوک اور ’’معصیت‘‘ کے درمیان فرق نہیں کر سکتے، انہیں آخر کس نے کہا ہے کہ وہ ان نازک علمی مباحث میں اُلجھ کر ’’ ضلوا فأضلوا‘‘ (خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا) کا مصداق بنیں۔بہر حال یہ عصمت اور کمالاتِ نبوت تو ہر نبی کے لیے لازم وضروری ہیں۔
 ا ب غور فرمایئے کہ جس مقدس ترین شخصیت کو تمام انبیاء ورسل ؑکی سیادت وامامت کے مقام پر کھڑا کیا گیا ہو، جسے ختم نبوت ورسالتِ کبریٰ کا تاج پہنایا گیا ہو، اور جسے ع  ’’بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر‘‘ کے اعلیٰ ترین منصب سے سرفراز کیا گیا ہو (  بآبائنا وأمہاتنا صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کائنات کی اس بلند ترین ہستی کے شرف وکمال، طہارت ونزاہت، حرمت وعظمت، عفت وعصمت اور رسالت ونبوت کا مقام کون معلوم کرسکتا ہے؟ اگر ایسی فوق الادراک ہستی کے بارے میں بھی کوئی ایسا کلمہ کہاجائے کہ کسی وقت غیر معصومیت ان پر بھی آسکتی ہے تو کیا اس عظیم ترین جرم کی انتہا معلوم ہوسکتی ہے؟
حضرت رسول اللہ ا جب خاتم النبیین ہوئے، او ر منصب رسالت ونبوت کی سیادتِ کبریٰ سے مشرف ہوئے اور آپ ا کی شریعت کو آخری شریعت اور قیامت تک آنے والی تمام قوموں اور نسلوں کے لیے آخری قانون بنایا گیا تو اس کے لیے دوچیزوں کی ضرورت تھی، ایک یہ کہ آسمانی قانون قیامت تک جوں کاتوں محفوظ رہے، ہر قسم کی تحریف وتبدیل سے اس کی حفاظت کی جائے، الفاظ کی بھی اور معانی کی بھی، کیونکہ اگر الفاظ کی حفاظت ہو اور معانی کی حفاظت نہ ہو، تو یہ حفاظت بالکل بے معنی ہے۔ دوم یہ کہ جس طرح علمی حفاظت ہو، اسی طرح عملی حفاظت بھی ہو۔ اسلام محض چند اصول ونظریات اور علوم وافکار کا مجموعہ نہیں، بلکہ وہ اپنے جلو میں ایک نظامِ عمل لے کر چلتا ہے، وہ جہاں زندگی کے ہر شعبہ میں اصول وقواعد پیش کرتا ہے، و ہاں ایک ایک جزئیہ کی عملی تشکیل بھی کرتا ہے، اس لیے یہ ضروری تھاکہ شریعت محمدیہ (علی صاحبہا الف الف صلوٰۃ وسلام) کی علمی وعملی دونوں پہلؤوں سے حفاظت کی جائے اور قیامت تک ایک ایسی جماعت کا سلسلہ قائم رہے جو شریعت مطہرہ کے علم وعمل کی حامل وامین ہو، حق تعالیٰ نے دین محمدی کی دونوں طرح حفاظت فرمائی، علمی بھی اور عملی بھی۔
حفاظت کے ذرائع میں صحابۂ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کی جماعت سرفہرست ہے، ان حضرات نے براہ ِراست صاحب وحی ا سے دین کو سمجھا، دین پر عمل کیا اور اپنے بعد آنے والی نسل تک دین کو من وعَن پہنچایا، انہوںنے آپ ا کے زیرِ تربیت رہ کر اخلاق واعمال کو ٹھیک ٹھیک منشائے خداوندی کے مطابق درست کیا، سیرت وکردار کی پاکیزگی حاصل کی، تمام باطل نظریات سے کنارہ کش ہو کر عقائد حقہ اختیار کیے، رضائے الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ رسول اللہ ا کے قدموں پر نچھاور کردیا، ان کے کسی طرزِ عمل میں ذرا خامی نظر آئی تو فوراً حق جل مجدہٗ نے اس کی اصلاح فرمائی، الغرض حضراتِ صحابہ کرامؓ کی جماعت اس پوری کائنات میں وہ خوش قسمت جماعت ہے، جن کی تعلیم وتربیت اورتصفیہ وتزکیہ کے لیے سرورِ کائنات محمدرسول اللہ ا کو معلم ومزکّی اور استاذواتالیق مقرر کیا گیا۔ اس انعامِ خداوندی پروہ جتنا شکر کریں کم ہے، جتنا فخر کریں بجا ہے:
’’  لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ إِذْبَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلاً مِّنْ أَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْاعَلَیْہِمْ أٰیٰـتِـہٖ وَیُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ‘‘۔                                                   (آل عمران:۱۶۴)
’’بخدا بہت بڑا احسان فرمایا اللہ نے مومنین پر کہ بھیجا ان میں ایک عظیم الشان رسول ان ہی میں سے،وہ پڑھتا ہے ان کے سامنے اس کی آیتیں اور پاک کرتا ہے ان کو اور سکھاتا ہے ان کو کتاب اور گہری دانائی۔ بلاشبہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے‘‘۔
آنحضرت ا کی علمی وعملی میراث اور آسمانی امانت چونکہ ان حضرات کے سپردکی جارہی تھی، اس لیے ضروری تھا یہ حضرات آئندہ نسلوں کے لیے قابل اعتماد ہوں، چنانچہ قرآن وحدیث میں جابجا ان کے فضائل ومناقب بیان کیے گئے، چنانچہ:
الف:…وحیِ خداوندی نے ان کی تعدیل فرمائی، ان کا تزکیہ کیا، ان کے اخلاص وللہیت پر شہادت دی اور اُنہیں یہ رتبۂ بلند ملا کہ ان کو رسالت محمدیہ (علیٰ صاحبہا الف صلاۃ وسلام) کے عادل گواہوں کی حیثیت سے ساری دنیا کے سامنے پیش کیا:
’’  مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَ شِدَّائُ عَلٰی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاھُمْ رُکَّعاً سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًامِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَا ھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ أَثَرِالسُّجُوْدِ‘‘۔                                                  (الفتح:۲۹)
’’محمد( ا) اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیںاور جو ایماندار آپ (ا)کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں شفیق ہیں،تم ان کو دیکھو گے رکوع، سجدے میں۔ وہ چاہتے ہیں صرف اللہ کا فضل اوراس کی رضا مندی، ان کی علامت ان کے چہروں میں سجدے کا نشان ہے‘‘۔
گویا یہاں’’ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘(محمد -ا-اللہ کے رسول ہیں) ایک دعویٰ ہے اور اس کے ثبوت میں حضرات صحابہ کرامؓ کی سیرت وکردار کو پیش کیا گیا ہے کہ جسے آنحضرت ا کی صداقت میں شک وشبہ ہو، اسے آپ ا کے ساتھیوں کی پاکیزہ زندگی کا ایک نظر مطالعہ کرنے کے بعد خود اپنے ضمیر سے یہ فیصلہ لینا چاہیے کہ جس کے رفقاء اتنے بلند سیرت اور پاکباز ہوں وہ خود صدق وراستی کے کتنے اونچے مقام پر فائز ہوں گے:
’’ کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا ‘‘
ب:…حضراتِ صحابہؓ کے ایمان کو ’’معیارِ حق‘‘ قرار دیتے ہوئے نہ صرف لوگوں کو اس کا نمونہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی، بلکہ ان حضرات کے بارے میں لب کشائی کرنے والوں پر نفاق وسفاہت کی دائمی مہرثبت کردی گئی:
’’  وَإِذَا قِیْلَ لَھُمْ أٰمِنُوْا کَمَا أٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْا أَ نُؤْمِنُ کَمَا أٰمَنَ السُّفَہَائُ أَ لَا إِنَّھُمْ ھُمُ السُّفَہَائُ وَلٰـکِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ‘‘۔                                 (البقرۃ:۱۳)
’’اور جب ان (منافقوں) سے کہا جائے :تم بھی ایسا ہی ایمان لاؤ جیسا دوسرے لوگ (صحابہ کرامؓ) ایمان لائے ہیں،تو جواب میں کہتے ہیں ’’کیاہم ان بے وقوفوں جیسا ایمان لائیں؟ سن رکھو یہ خود ہی بے وقوف ہیں، مگر نہیں جانتے‘‘۔
ج:…حضراتِ صحابہ کرامؓ کو باربار’’ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْاعَنْہُ ‘‘(اللہ ان سے راضی ہوا، وہ اللہ سے راضی ہوئے) کی بشارت دی گئی اور اُمت کے سامنے یہ اس شدت وکثرت سے دہرایا گیا کہ صحابہ کرامؓ   کا یہ لقب امت کا تکیہ کلام بن گیا ،کسی نبی کا اسم گرامی آپ’’ علیہ السلام‘‘ کے بغیر نہیں لے سکتے اور کسی صحابی رسول ( ا ) کا نامِ نامی ’’رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ کے بغیر مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا، ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو دیکھ کرراضی نہیں ہوا، نہ صرف ان کے موجودہ کارناموں کو دیکھ کر، بلکہ ان کے ظاہروباطن اور حال ومستقبل کو دیکھ کر ان سے راضی ہوا ہے، یہ گویا اس بات کی ضمانت ہے کہ آخر دم تک ان سے رضائے الٰہی کے خلاف کچھ صادر نہیں ہو گا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس سے خداراضی ہوجائے، خدا کے بندوں کو بھی اس سے راضی ہو جاناچاہیے۔ کسی اور کے بارے میں توظن وتخمین ہی سے کہاجاسکتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں؟ مگر صحابہ کرامؓ کے بارے میں تونصِ قطعی موجود ہے، اس کے باوجوداگر کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا تو گویا اُسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے اور پھر اتنی بات کو کافی نہیں سمجھا گیا کہ ’’ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا‘‘بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہوئے، یہ ان حضرات کی عزت افزائی کی انتہا ہے۔
د:…حضرات صحابہ کرامؓ کے مسلک کو ’’معیاری راستہ‘‘قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کو براہِ راست رسول اللہ ا کی مخالفت کے ہم معنی قراردیا گیا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی:
’’  وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہٗ الْھُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَاتَوَلّٰی‘‘۔                                        (النساء:۱۱۵)
’’اور جو شخص مخالفت کرے رسول اللہ( ا) کی جب کہ اس کے سامنے ہدایت کھل چکی اور چلے مومنوں کی راہ چھوڑ کر، ہم اُسے پھیر دیں گے جس طرف پھرتا ہے‘‘۔
آیت میں ’’المؤمنین‘‘ کا اولین مصداق اصحاب النبی (ا) کی مقدس جماعت ہے، رضی اللّٰہ عنہم۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اتباعِ نبوی کی صحیح شکل صحابہ کرامؓ کی سیرت وکردار اور ان کے اخلاق و اعمال کی پیروی میں منحصر ہے او ریہ جب ہی ممکن ہے جب کہ صحابہؓ کی سیرت کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کیا جائے۔
ہ:…اور سب سے آخری بات یہ کہ اُنہیں آنحضرت ا کے سایۂ عاطفت میں آخرت کی ہر عزت سے سرفراز کرنے اور ہر ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایاگیا:
’’ یَوْمَ لَا یُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَہٗ نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ أَیْدِیْھِمْ وَبِأَیْمَا نِھِمْ‘‘۔                                                    (التحریم:۸)
’’جس دن رسوا نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ نبی کو اور جو مومن ہوئے آپ (ا) کے ساتھ،ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے داہنے‘‘۔
اس قسم کی بیسیوں نہیں، بلکہ سینکڑوں آیات میں صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب مختلف عنوانات سے بیان فرمائے گئے ہیں اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دین کے سلسلۂ سند کی یہ پہلی کڑی اور حضرت خاتم الا نبیاء ا کے صحبت یافتہ حضرات کی جماعتؓ-معاذ اللہ- ناقابل اعتماد ثابت ہو، ان کے اخلاق واعمال میں خرابی نکالی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ دین کی علمی وعملی تدبیر نہیں کرسکے تو دین اسلام کا سارا ڈھانچہ ہل جاتا ہے اور خاکم بدہن! رسالت محمدیہؐ مجروح ہوجاتی ہے۔
دنیا کا ایک معروف قاعدہ ہے کہ اگر کسی خبر کو رد کرنا ہو تو اس کے راویوں کو جرح وقدح کا نشانہ بناؤ، ان کی سیرت وکردار کو ملوث کرو اور ان کی ثقاہت وعدالت کو مشکوک ثابت کرو، صحابہ کرامؓ چونکہ دین محمدی کے سب سے پہلے راوی ہیں، اس لیے چالاک فتنہ پردازوںنے جب دین اسلام کے خلاف سازش کی اور دین سے لوگوں کو بدظن کرنا چاہا تو ان کا سب سے پہلا ہدف صحابہ کرامؓ تھے، چنانچہ تمام فرقِ باطلہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود جماعتِ صحابہؓ    کو ہدفِ تنقید بنانے میں متفق نظر آتے ہیں، ان کی سیرت وکردار کو داغدار بنانے اور ان کی شخصیت کو نہایت گھناؤنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی، اُن کے اخلاق واعمال پر تنقیدیں کی گئیں، ان پر مال وجاہ کی حرص میں احکامِ خداوندی سے پہلو تہی کرنے کے الزامات دھرے گئے۔ ان پر خیانت، غصب اور کنبہ پروری ، اقربانوازی کی تہمتیں لگائی گئیں اور غلو وانتہا پسندی کی حد ہے کہ جن پاکیزہ ہستیوں کے ایمان کو حق تعالیٰ نے ’’معیار‘‘ قرار دے کر ان جیسا ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی تھی: ’’  أٰمِنُوْا کَمَا أٰمَنَ النَّاسُ‘‘ انہی کے ایمان وکفر کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا، اورتکفیر وتفسیق تک نوبت پہنچا دی گئی، جن جانبازوں نے دین اسلام کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا، انہی کے بارے میں چیخ چیخ کر کہا جانے لگا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہے تھے، جن مردانِ خدا کے صدق وامانت کی خداتعالیٰ نے گواہی دی تھی:
’’ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَاعَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیلْاً‘‘۔                                     (الاحزاب:۲۳)
’’یہ وہ ’’مرد‘‘ ہیں جنہوںنے سچ کر دکھایا جو عہد انہوںنے اللہ سے باندھا، بعض نے تو جانِ عزیز تک اسی راستہ میں دے دی اور بعض (بے چینی سے) اس کے منتظر ہیں اور ان کے عزم واستقلال میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی‘‘۔
انہی کے حق میں بتایا جانے لگا کہ نہ وہ صدق وامانت سے موصوف تھے، نہ اخلاص وایمان کی دولت انہیں نصیب تھی، جن مخلصوں نے اپنے بیوی بچوں کو، اپنے گھر بار کو، اپنے عزیز واقارب کو، اپنے دوست احباب کو، اپنی ہر لذت وآسائش کو، اپنے جذبات وخواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے،اس کے رسول ا پر قربان کر دیا تھا، انہی کو یہ طعنہ دیا گیا کہ وہ محض حرص وہوا کے غلام تھے اور اپنے مفاد کے مقابلے میں خدا اور رسول ا کے احکام کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی،  لَقَدْ جِئْتُمْ شَیْئاً إِدًّا۔
ظاہر ہے کہ اگر امت کا معدہ ان بے ہودہ نظریات کی مردہ مکھی کو قبول کر لیتا اور ایک بار بھی صحابہ کرامؓ امت کی عدالت میں مجروح قرار پاتے تو دین کی پوری عمارت گرجاتی،قرآنِ کریم اور احادیثِ نبویہ سے امان اُٹھ جاتا اور یہ دین جو قیامت تک رہنے کے لیے آیا تھا، ایک قدم آگے نہ چل سکتا، مگر یہ سارے فتنے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے، علم الٰہی سے اوجھل نہیں تھے، اس کا اعلان تھا:
’’  وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ‘‘۔             (الصف:۸)
’’اور اللہ اپنا نور پورا کر کے رہے گا، خواہ کافروں کو کتنا ناگوار ہو‘‘۔
یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے باربار مختلف پہلوؤں سے صحابہ کرامؓ    کا تزکیہ فرمایا، ان کی توثیق وتعدیل فرمائی اور قیامت تک کے لیے یہ اعلان فرمادیا:
’’  أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَھُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ‘‘۔      (المجادلۃ:۲۲)
’’یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا ان کے دل میں ایمان اور مدد دی ان کو اپنی خاص رحمت سے‘‘۔
ادھر نبی کریم ا نے اپنے صحابہ کرامؓ کے بے شمار فضائل بیان فرمائے، بالخصوص خلفائے راشدینؓ: حضرت ابوبکر صدیق   ؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان ذو النورینؓ، حضرت علی مرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کی توانتہا کردی، جس کثر ت وشدت اور تواتروتسلسل کے ساتھ آنحضرت ا نے صحابہ کرامؓ کے فضائل ومناقب ، ان کے مزایا وخصوصیات اور ان کے اندرونی اوصاف وکمالات کو بیان فرمایا، اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ا اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افرادِ امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے، ان حضرات کا تعلق چونکہ براہِ راست آنحضرت ا کی ذاتِ گرامی سے ہے، اس لیے ان کی محبت عین محبتِ رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابلِ معافی جرم فرمایا:
’’  أللّٰہ أللّٰہ فی أصحابی، أللّٰہ أللّٰہ فی أصحابی، لا تتخذوھم غرضًا من بعدی، فمن أحبھم فبحبی أحبھم، ومن أبغضھم فببغضی أبغضھم ، ومن أٰذاھم فقد أٰذانی، ومن أٰذانی فقد أٰذٰی اللّٰہ ومن أٰذٰی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہٗ ‘‘۔
’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، ان کو میرے بعد ہدفِ تنقید نہ بنانا، کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی کی تومجھ سے بدظنی کی بنا پر، جس نے ان کو ایذا دی، اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی، اس نے اللہ کو ایذادی اور جس نے اللہ کوایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے‘‘۔
امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابیؓ کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی، اس لیے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق امت کے کسی فرد کو حاصل نہیں، ارشاد ہے:
’’  لا تسبوأصحابیؓ، فلوأن أحدکم أنفق مثل أحد ذھبًا مابلغ مُدّ أحدھم ولا نصیفہ‘‘۔                                                  (بخاری ومسلم)
’’میرے صحابہؓ   کو برابھلا نہ کہو (کیونکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہو سکتا ہے، چنانچہ) تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے عشرِ عشیر کو۔‘‘
مقامِ صحابہؓ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون ومردود سمجھیں، بلکہ برملا اس کا ظہار کریں، فرمایا:
’’   إذا رأیتم الذین یسبون أصحابیؓ فقولوا لعنۃ اللّٰہ علٰی شرکم‘‘۔
’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ   کو برابھلا کہتے اور انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے (یعنی صحابہؓ اور ناقدین صحابہؓ میں سے) جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت (ظاہر ہے کہ صحابہؓ   کو برا بھلا کہنے والا ہی بدترہوگا)‘‘۔(۱)

حاشیہ(۱):اس اصول کے علاوہ جو مولانا محترم مدفیضہم نے اس حدیث سے مستنبط کیا ہے، اس حدیث پاک کے مفہوم ومنطوق سے کئی اور اہم مسائل بھی مستنبط ہوتے ہیں، مختصراً ان کی طرف اشارہ کر دینا مفید ہوگا۔
۱:…حدیث میں ’’سَبَّ‘‘ سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں، بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مرادہے جو ان حضرات کے استخفاف میں کہاجائے، اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں، بلکہ وہ قائل کے ملعون ومطرود ہونے کی دلیل ہے۔   (حاشیہ جاری)
 یہاں تمام احادیث کا استیعاب مقصود نہیں، بلکہ کہنا یہ ہے کہ ان قرآنی ونبوی شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضرات صحابۂ کرامؓ میں عیب نکالنے کی کوشش کرے تو اس بات سے قطع نظر کہ اس کا یہ

(بقیہ حاشیہ )    ۲:…آنحضرت ا کے قلبِ اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے (وقد صرح بہ بقولہ فمن أٰذاھم فقد أٰذانی) اور آپ ا کے قلبِ اطہر کو ایذادینے میں حبطِ اعمال کا خطرہ ہے، لقولہ تعالٰی:  ’’أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُکُمْ وَأَنْتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ‘‘۔
۳:…صحابہ کرامؓ کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملتِ اسلامیہ کا فرض ہے ’’فإن الأمرللوجوب‘‘۔
۴:…آنحضرت ا نے یہ نہیںفرمایا کہ ناقدین صحابہؓ    کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے، کیونکہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا، بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے:’’ لعنۃ اللّٰہ علی شرکم‘‘۔
۵:…’’شرکم‘‘ اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے، اس میں آنحضرت ا نے ناقدین صحابہؓ کے لیے ایسا کنا یہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لیے تنقیدِ صحابہؓ کے روگ کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ خلاصہ اس کایہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہؓ کیسے ہی ہوں، مگر تم سے تو اچھے ہی ہوں گے، تم ہوا پر اُڑلو، آسمان پر پہنچ جاؤ، سوبار مرکرجی لو، مگر تم سے صحابیؓ تو نہیں بنا جاسکے گا، تم آخر وہ آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس نے جمالِ جہاں آرائے محمد(ا) کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلماتِ نبوت سے مشرف ہوئے ؟ ہاں وہ دل کہاں سے لاؤ گے جو انفاسِ مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤ گے جو انوارِ مقدس سے منور ہوئے؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤ گے جو ایک بار بشرۂ محمدی سے مس ہوئے اور ساری عمراُن کی بوئے عنبریں نہیں گئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤ گے جو معیتِ محمدی میں آبلہ پا ہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤ گے جب آسمان زمین پر اترآیا تھا؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤ گے جہاں کو نین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤ گے جہاں سعادتِ دارین کی شرابِ طہور کے جام بھر بھردیتے جاتے اور تشنہ کا ’’مان محبت‘‘ ’’ہل من مزید‘‘ کا نعرہ مستانہ لگا رہے تھے؟تم وہ منظر کہاں سے لاؤ گے جو’’کأنی أری اللّٰہ عیاناً ‘‘کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے جہاں’’ کأنما علی رؤسنا الطیر‘‘ کا سماں بندھ جاتاتھا؟ تم وہ صدرنشینِ تختِ رسالت کہاں سے لاؤ گے جس کی طرف ’’ھذا الأبیض المتکیٔ ‘‘سے اشارے کئے جاتے تھے؟ تم وہ شمیمِ عنبر کہاں سے لاؤ گے جو دیدارِ محبوب میں خوابِ نیم شبی کو حرام کردیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤ گے جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤ گے جو پیمانۂ نبوت سے ناپ ناپ کر اداکیے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤ گے جو آئینۂ محمدی سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤ گے جو ’’صبغۃ اللّٰہ‘‘ کی بھٹی میں دیا جاتاتھا؟تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤ گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنا دیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤ گے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکو گے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے؟
تم میرے صحابہؓ    کو لاکھ برا کہو، مگر اپنے ضمیر کادامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی میرے صحابہؓ برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید وملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت وغضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر تم میرے صحابہؓ   کو بدنام کرتے ہو تو کیا میرا خدا تمہیں سرِمحشر سب کے سامنے رسوا نہیں کرے گا؟ اگر تم میں انصاف وحیا کی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہؓ کے بارے میں زبان بند کرو اور اگر تمہارا ضمیر بالکل مسخ ہوچکا ہے تو بھری دنیا یہ فیصلہ کرے گی کہ میرے صحابہؓ پر تنقید کا حق ان کپوتوں کو حاصل ہونا چاہیے؟       (حاشیہ جاری)
طرزِ عمل قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ اور ارشاداتِ نبوت کے انکار کے متراد ف ہے، یہ لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نے نبی کریم ا پر جو فرائض بحیثیتِ منصب نبوت کے عائد کیے تھے اور جن میں اعلیٰ ترین منصب تزکیۂ نفوس کا تھا، گویا حضرت رسالتِ پناہ ا اپنے فرضِ منصبی کی بجا آوری سے قاصر رہے اور تزکیہ نہ کرسکے اور یہ قرآن کریم کی صریح تکذیب ہے، حق تعالیٰ تو ان کے تزکیہ کی تعریف فرمائے اور ہم انہیں مجروح کرنے میں مصروف رہیں۔
    اور جب نبی کریم ا ان کے تزکیہ سے قاصر رہے تو گویا حق تعالیٰ نے آپ کا انتخاب صحیح 

(بقیہ حاشیہ)    علامہ طیبیؒ نے اسی حدیث کی شرح میں حضرت حسانؓ   کا ایک عجیب شعر نقل کیا ہے:
أتھجوہ ولست لہ‘ بکفوء
فشرکما لخیرکما فداء
ترجمہ:’’کیا تو آپ (ا) کی ہجو کرتاہے جب کہ تو آپ (ا) کے برابر کانہیں ہے؟ پس تم دونوں میں بدتر تمہارے بہتر پرقربان‘‘۔     
    ۶:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقیدِ صحابہؓ    کا منشأناقد کا نفسیاتی شر اور خبث وتکبر ہے، آپ جب کسی شخص کے طرزِ عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشأیہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فروتراور گھٹیا ہے ، جب کوئی شخص کسی صحابیؓ کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہٗ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابیؓ کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے، گویا ان میں صحابیؓ سے بڑھ کر صفتِ عدل موجود ہے، یہ ہے تکبر کا وہ’’شر‘‘  اور نفس کا وہ ’’خبث‘‘ جو تنقید صحابہؓ پر ابھارتا ہے اور آنحضرت ا اسی ’’شر‘‘ کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔
۷:…حدیث میں بحث ومجادلہ کا ادب بھی بتایاگیا ہے، یعنی خصم کو براہِ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ: تم پر لعنت! بلکہ یوں کہاجائے کہ تم دونوں میں جوبرا ہواس پر لعنت!ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہونا چاہیے، اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں، اب رہا یہ قصہ کہ ’’تم دونوں میں برا‘‘ کا مصداق کون ہے؟خود ناقد؟یا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں، دونوں کے مجموعی حالات سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے نکال سکتا ہے کہ آنحضرت ا کا صحابیؓ برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟
۸:…حدیث میں’’فقولوا‘‘ کاخطاب امت سے ہے، گویا ناقدین صحابہؓ کو آنحضرت ا اپنی امت نہیں سمجھتے، بلکہ انہیں امت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں او ریہ ناقدین کے لیے شدید وعید ہے، جیسا کہ بعض دوسرے معاصی پر ’’فلیس منا‘‘ کی وعید سنائی گئی ہے۔
 ۹:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ا کو جس طرح ناموسِ شریعت کا اہتمام تھا، اسی طرح ناموسِ صحابہؓ کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا، کیونکہ ان ہی پر سارے دین کامدار ہے۔
۱۰:…حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدینِ صحابہؓ    کی جماعت بھی ان ’’مارقین‘‘ سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم امت کو دیا گیا ہے، یہ مضمون کئی احادیث میں صراحۃً بھی آرہا ہے، واللہ اعلم بالصواب۔انتہیٰ       (مدیر)
نہیں فرمایاتھا، إنا للّٰہ۔ بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں قصور نکلا تو اللہ تعالیٰ کا علم غلط ہوا، نعوذ باللّٰہ من الغوایۃ والسفاھۃ ۔چنانچہ اہل ہوا کی بڑی جماعت کا دعویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ’’ بدأ ‘‘ ہوتا ہے، یعنی اسے بہت سی چیزیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں بعد میں معلوم ہوتی ہیں اور اس کا پہلا علم غلط ہوجاتا ہے، جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو، رسول اور نبی ااور ان کے بعد صحابہ کرامؓ کا ان کے نزدیک کیا درجہ رہے گا…؟
 الغرض صحابہ کرامؓ پر تنقید کرنے، ان کی غلطیوں کو اچھالنے اور انہیں موردِ الزام بنانے کا قصہصرف ان ہی تک محدود نہیں رہتا، بلکہ خداورسول، کتاب وسنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے، بعید نہیں کہ آنحضر ت ا نے اپنے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کیا گیا ہے، اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہو:
’’ من أٰذاھم فقد أٰذانی ومن أٰذانی فقد أٰذی اللّٰہ، ومن أٰذی اللّٰہ فیوشک أن یأخذہ‘‘۔
’’جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذادی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے‘‘۔
اوریہی وجہ ہے کہ تمام فرقِ باطلہ کے مقابلہ میں اہل حق کا امتیازی نشان صحابہ کرامؓ کی عظمت ومحبت رہا ہے، تمام اہل حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیا ہے کہ:
’’ونکف عن ذکر الصحابۃؓ إلا بخیر‘‘۔
’’اور ہم صحابہؓ   کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے‘‘۔
گویا اہل حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابہ کرامؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے۔ جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو، ان کو موردِ الزام قرار دیتا ہو، اور ان پر سنگین اتہامات کی فردِ جرم عائد کرتا ہو، وہ اہل حق میں شامل نہیں ہے۔
جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی، اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے قبائح صحابہؓ   کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے ’’تحقیق‘‘ کا نام دیتے ہیں، انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسوید ِاوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے نام پر دین سے بیزار کر دیا جائے اور ہر ایرے غیرے کو صحابہ کرامؓ پر تنقید کی کھلی چھٹی دے دی جائے، جنہیں نہ علم ہے نہ عقل، نہ فہم ہے نہ فراست۔ اور یہ نرا اندیشہ ہی اندیشہ نہیں، بلکہ کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہونے لگا ہے، الأمان والحفیظ۔
کہا جاتا ہے کہ: ’’ہم نے کوئی نئی بات نہیں کہی، بلکہ تاریخ کی کتابوں میں یہ سارا مواد موجود تھا۔ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم نے اُسے جمع کردیا ہے۔‘‘ افسوس ہے کہ یہ عذرپیش کرتے ہوئے بہت سی اصولی اور بنیادی باتوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے، ورنہ بادنیٰ تأمل واضح ہوجاتا کہ صرف اتنا عذر طعنِ صحابہؓ   کی وعید سے بچنے کے لیے کافی نہیں، اور نہ وہ اتنی بات کہہ کر بری الذمہ ہوسکتے ہیں۔
اولاً:قرآن کریم کی نصوصِ قطعیہ، احادیث ثابتہ اور اہل حق کا اجماع‘ صحابہؓ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں، ان قطعیات کے مقابلہ میں ان تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں۔ تاریخ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی ہیں، صحت کا جو معیار ’’حدیث‘‘ میں قائم رکھا گیا ہے، تاریخ میں وہ معیار نہ قائم رہ سکتا تھا، نہ اُسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، اس لیے حضراتِ محدثین نے ان کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کر دیا ہے ۔
حافظ عراقیؒ فرماتے ہیں:
’’ولیعلم الطالب أن السیر یجمع ماقد صح وما قد أنکرا‘‘۔
’’یعنی علم تاریخ وسیر صحیح اور منکرسب کو جمع کر لیتا ہے‘‘۔
ا ب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لیے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے، اُسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر اندا زکرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے، بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لیے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہیے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟ اس اصول کی وضاحت کے لیے یہاں صرف ایک مثال کا پیش کرنا کافی ہوگا:
آپ’’خلیفہ راشد‘‘ اسے کہتے ہیں جو ٹھیک ٹھیک منہاجِ نبوت پر قائم ہو اور اس کا کوئی عمل اور کوئی فیصلہ منہاجِ نبوت کے اعلیٰ معیار سے ہٹا ہوا نہ ہو، اب آپ ایک صحابیؓ کوخلیفہ راشد تسلیم کرتے ہوئے اس پر یہ الزام عائد کرتے کہ انہوںنے بلا کسی استحقاق کے مالِ غنیمت کا پورا خمس (۵ لاکھ دینار) اپنے فلاں رشتہ دار کو بخش دیاتھا۔ سوال یہ ہے کہ ’’خلافت راشدہ‘‘ اور منہاجِ نبوت یہی ہے جس کی تصویر اس افسانے میں دکھائی گئی ہے؟ اور آج کے ماحول میں اس روایت کو من وعن تسلیم کرنے سے کیا یہ ذہن نہیں بنے گا کہ خلافتِ راشدہ کا معیار بھی آج کے جائر حکمرانوں سے کچھ زیادہ بلند نہیں ہوگا جو اپنے رشتہ داروں کو روٹ پر مٹ اور امپورٹ لائسنس مرحمت فرماتے ہیں؟ اسی پر ان دوسرے الزامات کو قیاس کرلیجئے جوبڑی شانِ تحقیق سے عائد کیے گئے ہیں۔
ثانیاً:یہ تاریخی روایات آج یکایک نہیں ابھرآئی ہیں، بلکہ اکابر اہلِ حق کے سامنے یہ سارا کچھ موجود رہا ہے اور وہ اس کی مناسب تاویل وتوجیہ کر چکے ہیں، جس سے معلوم ہوا کہ ان تاریخی واقعات کو بڑی آسانی سے کسی اچھے محمل پر محمول کیا جاسکتا ہے۔ اب ایک شخص اٹھتا ہے اور ’’بے لاگ تحقیق‘‘ کے شوق میں ان کے ایسے محمل تلاش کرتا ہے جس سے صحابہ کرامؓ کی صریح تنقیص اور ان کی سیرت وکردار کی گراوٹ مفہوم ہوتی ہے، کیا اس کے بارے میں یہ حسن ظن رکھا جائے کہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں وہ’’حسن ظن‘‘ رکھتا ہے؟
اور عجیب بات یہ کہ جب اس کے سامنے اکابر اہل حق کے طرزِ تحقیق کا حوالہ دیا جاتا ہے تو ان حضرات کو ’’وکیل صفائی‘‘ کہہ کر ان کی تحقیقات کو قابلِ التفات نہیں سمجھتا، غالباًیہ دنیا کی نرالی عدالت ہے جس میں ’’وکیل استغاثہ‘‘ کے بیان پر یک طرفہ فیصلہ دیا جائے اور ’’وکیل صفائی‘‘ کے بیانات کو اس جرم میں نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ کسی مظلوم کی طرف سے صفائی کا وکیل بن کر کیوں کھڑا ہوگیا ہے؟۔ اوپر قرآن وسنت کی جن نصوص کا حوالہ دیا گیا اور اہل حق کے جس اجماعی فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس سے معلوم ہوگا کہ صرف حافظ ابن تیمیہؒ اور شاہ عبدالعزیزؒ ہی نہیں، بلکہ خداورسول اور پوری امت کے اہل حق‘ صحابہ کرامؓ کے ’’وکیل صفائی‘‘ ہیں۔ اب یہ فیصلہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ وکیل صفائی کی صف میں شامل ہونا پسند کرتا ہے یا وکیل استغاثہ کی صف میں۔
ثالثاً: ان تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کرنا، انہیں ایک مربوط فلسفہ بنا ڈالنا، جزئیات سے کلیات اخذ کرلینا اور ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات جمانا، جنہیں آج کی چودھویں صدی کا فاسق سے فاسق بھی اپنی طرف منسوب کر نا پسند نہیں کرے گا، یہ نہ تو دین وملت کی کوئی خدمت ہے، نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جاسکتا ہے، البتہ اسے ’’تاریخ سازی‘‘ کہنا بجا ہوگا۔ بقول سعدیؒ  ع
’’ و لیکن قلم در کفِ دشمن است ‘‘
میں پوچھتا ہوں، کیا کوئی ادنیٰ مسلمان اپنے بارے میں یہ سننا پسند کرے گا کہ اس نے خدائی دستور کو بدل ڈالا؟ اس نے بیت المال کو گھرکی لونڈی بنالیا؟ اس نے مسلمانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کر لی؟ اس نے عدل وانصاف کی مٹی پلید کر ڈالی؟ اس نے دیدہ ودانستہ نصوصِ قطعیہ سے سرتابی کی؟اس نے خدائی قانون کی بالادستی کا خاتمہ کر ڈالا؟اس نے اقرباپروری وخویش نوازی کے ذریعہ لوگوں کی حق تلفی کی؟
 کیا کوئی معمولی قسم کا متقی اور پرہیزگار آدمی ان جگر پاش اتہامات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرے گا؟اگر نہیں… اوریقینا نہیں…تو کیا صحابہ کرامؓ ہم نالائقوں سے بھی گئے گزرے ہوگئے؟ کہ ایک دو نہیں، بلکہ مثالب وقبائح اور اخلاقی گراوٹ کی ایک طویل فہرست ان کے نام جڑدی جائے، پھر بے لاگ تحقیق کے نام سے اسے اچھالا جائے اور روکنے اور ٹوکنے کے باوجود اس پر اصرار کیا جائے۔
کیا صحابہ کرامؓ کی عزت وحرمت یہی ہے؟ کیا اسی کا نام صحابہؓ کا ’’ذکر بالخیر‘‘ ہے ؟ کیا رسول اللہ ا کے معزز صحابہؓ اسی احترام کے مستحق ہیں؟ کیا ایمانی غیرت کا یہی تقاضا ہے؟ کیا مسلمانوں کو رسول اللہ ا کا یہ ارشاد بھول جانا چاہیے؟
’’جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ کو برابھلا کہتے ہیں تو ان کے جواب میں یہ کہو: تم میں سے (یعنی صحابہ کرامؓ اور ان کے ناقدین میں سے) جو برا ہو اس پر اللہ کی لعنت!‘‘                                                        (ترمذی)
آنحضرت ا کے صحابہؓ    ‘بعد کی امت کے لیے حق وباطل کا معیار ہیں، اُنہیں معیتِ نبوی کا جو شرف حاصل ہوا، اس کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی فضیلت ایک جَوکے برابر بھی نہیں، کسی بڑے سے بڑے ولی اور قطب کوان کی خاکِ پابننے کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کے لیے مایۂ صد افتخار ہے، اس لیے امت کے کسی فرد کا… خواہ وہ اپنی جگہ مفکرِ دوران اور علامۂ زماں ہی کہلواتاہو… ان پر تنقید کرنا قلبی زیغ کی علامت ہے:
ایاز! قدرِ خویش بشناس!!
یہ دنیا حق وباط

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین