بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عصمتِ ابنیاء وحرمت صحابہ (دوسری قسط)

عصمتِ ابنیاء وحرمت صحابہ (۲)


ج: حضراتِ صحابہ کرام کو بار باررضی اللہ عنہم ورضواعنہ“ (اللہ ان سے راضی ہوا‘ وہ اللہ سے راضی ہوئے) کی بشارت دی گئی اور امت کے سامنے یہ اس شدت وکثرت سے دہرایا گیا کہ صحابہ کرام کا یہ لقب امت کا تکیہٴ کلام بن گیا‘ کسی نبی کا اسم گرامی آپ ”علیہ السلام“ کے بغیر نہیں لے سکتے اور کسی صحابی رسول ا کا نام نامی ”رضی اللہ عنہ“ کے بغیر مسلمان کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا‘ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف ظاہر کو دیکھ کر راضی نہیں ہوا‘ نہ صرف ان کے موجودہ کارناموں کو دیکھ کر‘ بلکہ ان کے ظاہر وباطن اور حال ومستقبل کو دیکھ کر ان سے راضی ہوا ہے‘ یہ گویا اس بات کی ضمانت ہے کہ آخر دم تک ان سے رضائے الٰہی کے خلاف کچھ صادر نہیں ہو گا اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جس سے خدا راضی ہوجائے‘ خدا کے بندوں کو بھی اس سے راضی ہو جانا چاہئے۔ کسی اور کے بارے میں تو ظن وتخمین ہی سے کہا جاسکتا ہے کہ خدا اس سے راضی ہے یا نہیں؟ مگر صحابہٴ کرام کے بارے میں تو نصِ قطعی موجود ہے‘ اس کے باوجود اگر کوئی ان سے راضی نہیں ہوتا تو گویا اسے اللہ تعالیٰ سے اختلاف ہے اور پھر اتنی بات کو کافی نہیں سمجھا گیا کہ : ”اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا“ بلکہ اسی کے ساتھ یہ بھی بتا یا گیا ہے کہ وہ اللہ سے راضی ہوئے‘ یہ ان حضرات کی عزت افزائی کی انتہاء ہے۔
د: حضراتِ صحابہ کرام کے مسلک کو ”معیاری راستہ“ قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کو براہِ راست رسول اللہ ا کی مخالفت کے ہم معنی قرار دیا گیا اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو وعید سنائی گئی چنانچہ ارشاد ہے:
”ومن یشاقق الرسول من بعد ما تبین لہ الہدی ویتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی“ ۔ ( النساء:۱۱۵)
ترجمہ:”اور جو شخص مخالفت کرے رسول اللہ ا کی جبکہ اس کے سامنے ہدایت کھل چکی اور چلے مومنوں کی راہ چھوڑ کر ہم اسے پھیر دیں گے جس طرف پھرتاہے“۔
آیت میں ”المؤمنین“ کا اولین مصداق اصحاب النبی ا کی مقدس جماعت ہے‘ رضی اللہ عنہم‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اتباعِ نبوی کی صحیح شکل صحابہ کرام کی سیرت وکردار اور ان کے اخلاق واعمال کی پیروی میں منحصر ہے اور یہ جب ہی ممکن ہے‘ جبکہ صحابہ کی سیرت کو اسلام کے اعلیٰ معیار پر تسلیم کیا جائے۔
ہ: اور سب سے آخری بات یہ کہ انہیں آنحضرت ا کے سایہ ٴ عاطفت میں آخرت کی ہر عزت سے سرفراز کرنے اور ہر ذلت ورسوائی سے محفوظ رکھنے کا اعلان فرمایا گیاجیساکہ ارشاد ہے:
”یوم لایخزی اللہ النبی والذین اٰمنوا معہ نورہم یسعی بین ایدیہم وبایمانہم“ ۔ (التحریم:۸)
ترجمہ:”جس دن رسوا نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ نبی کو اور جو مومن ہوئے آپ ا کے ساتھ‘ ان کا نور دوڑتا ہوگا ان کے آگے اور ان کے داہنے“۔
اس قسم کی بیسیوں نہیں‘ بلکہ سینکڑوں آیات میں صحابہ کرام کے فضائل ومناقب مختلف عنوانات سے بیان فرمائے گئے ہیں اور اس سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ دین کے سلسلہٴ سند کی یہ پہلی کڑی اور حضرت خاتم الانبیاء ا کے صحبت یافتہ حضرات کی جماعت -معاذ اللہ- ناقابل اعتماد ثابت ہو‘ ان کے اخلاق واعمال میں خرابی نکالی جائے اور ان کے بارے میں یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ دین کی علمی وعملی تدبیر نہیں کرسکے تو دینِ اسلام کا سارا ڈھانچہ ہل جاتا ہے اورخاکم بدہن رسالت محمدیہ ا مجروح ہوجاتی ہے۔ دنیا کا ایک معروف قاعدہ ہے کہ اگر کسی خبر کو رد کرنا ہو تو اس کے راویوں کو جرح وقدح کا نشانہ بناؤ‘ ان کی سیرت وکردار کو ملوث کرو اور ان کی ثقاہت وعدالت کو مشکوک ثابت کرو‘ صحابہ کرام چونکہ دینِ محمدی کے سب سے پہلے راوی ہیں‘ اس لئے چالاک فتنہ پر دازوں نے جب دینِ اسلام کے خلاف سازش کی اور دین سے لوگوں کو بدظن کرنا چاہا تو ان کا سب سے پہلا ہدف صحابہ کرام تھے‘ چنانچہ تمام فرقِ باطلہ اپنے نظریاتی اختلاف کے باوجود جماعتِ صحابہ  کو ہدف ِ تنقید بنانے میں متفق نظر آتے ہیں‘ ان کی سیرت وکردار کو داغدار بنانے اور ان کی شخصیت کو نہایت گھناؤ نے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی‘ ان کے اخلاق واعمال پر تنقیدیں کی گئیں‘ ان پر مال وجاہ کی حرص میں احکامِ خداوندی سے پہلو تہی کرنے کے الزامات لگائے گئے‘ ان پر خیانت‘ غصب اور کنبہ پروری‘ اقربا نوازی کی تہمتیں لگائی گئیں اور غلو وانتہاء پسندی کی حد ہے کہ جن پاکیزہ ہستیوں کے ایمان کو حق تعالیٰ نے ”معیار“ قرار دے کر ان جیسا ایمان لانے کی لوگوں کو دعوت دی تھی ”اٰمنوا کما اٰمن الناس“ انہی کے ایمان وکفر کا مسئلہ زیر بحث لایا گیا اور تکفیر وتفسیق تک نوبت پہنچا دی گئی‘ جن جانبازوں نے دینِ اسلام کو اپنے خون سے سیراب کیا تھا‘ انہی کے بارے میں چیخ چیخ کر کہا جانے لگا کہ وہ اسلام کے اعلیٰ معیار پر قائم نہیں رہے تھے‘ جن مردانٍ خدا کے صدق وامانت کی خدا تعالیٰ نے گواہی دی تھی:
”رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ فمنہم من قضیٰ نحبہ ومنہم من ینتظر وما بدلوا تبدیلا“ (الاحزاب:۲۳)
ترجمہ:”یہ وہ ”مرد“ ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا جو عہد انہوں نے اللہ سے باندھا‘ بعض نے تو جانِ عزیز تک اسی راستہ میں دے دی اور بعض (بے چینی سے) اس کے منتظر ہیں اور ان کے عزم واستقلال میں ذرا تبدیلی نہیں ہوئی“۔
انہیں کے حق میں بتایا جانے لگا کہ نہ وہ صدق وامانت سے موصوف تھے‘ نہ اخلاص وایمان کی دولت انہیں نصیب تھی‘ جن مخلصوں نے اپنے بیوی ‘ بچوں کو‘ اپنے گھر بارکو‘ اپنے عزیز واقارب کو‘ اپنے دوست احباب کو‘ اپنی ہر لذت وآسائش کو‘ اپنے جذبات وخواہشات کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اس کے رسول ا پر قربان کردیا تھا‘ انہی کو یہ طعنہ دیا گیا کہ وہ محض حرص وہوا کے غلام تھے اور اپنے مفاد کے مقابلے میں خدا اور رسول ا کے احکام کی انہیں کوئی پروا نہیں تھی‘
لقد جئتم شیئا ادا۔
ظاہر ہے کہ اگر امت کا معدہ ان بے ہودہ نظریات کی مردہ مکھی کو قبول کر لیتا اور ایک بار بھی صحابہ ٴ کرام امت کی عدالت میں مجروح قرار پاتے تو دین کی پوری عمارت گرجاتی‘ قرآن کریم اور احادیث نبویہ سے امان اٹھ جاتا اور یہ دین جو قیامت تک رہنے کے لئے آیا تھا‘ایک قدم آگے نہ چل سکتا‘ مگر یہ سارے فتنے جو بعد میں پیدا ہونے والے تھے علم الٰہی سے اوجھل نہیں تھے‘ اس کا اعلان تھا:
”واللہ متم نورہ ولو کرہ الکافرون“
یعنی اور اللہ اپنا نور پورا کرکے رہے گا‘ خواہ کافروں کو کتنا ناگوار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بار بار مختلف پہلوؤں سے صحابہ کرام کا تزکیہ فرمایا‘ ان کی توثیق وتعدیل فرمائی اور قیامت تک کے لئے یہ اعلان فرمادیا:
”اولئک کتب فی قلوبہم الایمان وایدہم بروح منہ“
یعنی یہی وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے لکھ دیا ان کے دل میں ایمان اور مدد دی ان کو اپنی خاص رحمت سے۔ ادھر نبی کریم ا نے اپنے صحابہٴ کرام کے بے شمار فضائل بیان فرمائے‘ بالخصوص خلفائے راشدین‘ حضرت ابوبکر صدیق‘ حضرت عمر‘ حضرت عثمان ذی النورین‘ حضرت علی المرتضیٰ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل کی تو انتہاء کردی‘ جس کثرت وشدت اور تواتر وتسلسل کے ساتھ آنحضرت ا نے صحابہ کرام کے فضائل ومناقب‘ ان کے مزایا وخصوصیات اور ان کے اندرونی اوصاف وکمالات کو بیان فرمایا‘ اس سے واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت ا اپنی امت کے علم میں یہ بات لانا چاہتے تھے کہ انہیں عام افرادِ امت پر قیاس کرنے کی غلطی نہ کی جائے‘ ان حضرات کا تعلق چونکہ براہ راست آنحضرت ا کی ذات گرامی سے ہے‘ اس لئے ان کی محبت عین محبتِ رسول ہے اور ان کے حق میں ادنیٰ لب کشائی ناقابلِ معافی جرم‘ فرمایا:
”اللہ اللہ فی اصحابی‘ اللہ اللہ فی اصحابی‘ لاتتخذوہم غرضاً من بعدب‘ فمن احبہم فبحبی احبہم ومن ابغضہم فببغضی ابغضہم‘ ومن آذاہم فقد آذانی‘ ومن آذانی فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ فیوشک ان یاخذہ“۔ (ترمذی)
ترجمہ:”اللہ سے ڈرو‘ اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ مکرر کہتا ہوں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملہ میں‘ ان کو میرے بعد ہدفِ تنقید نہ بنانا‘ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی بنا پر اور جس نے ان سے بدظنی کی تو مجھ سے بدظنی کی بناپر‘ جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذادی اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے“۔
امت کو اس بات سے بھی آگاہ فرمایا گیا کہ تم میں سے اعلیٰ سے اعلیٰ فرد کی بڑی سے بڑی نیکی ادنیٰ صحابی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا مقابلہ نہیں کرسکتی‘ اس لئے ان پر زبانِ تشنیع دراز کرنے کا حق امت کے کسی فرد کو حاصل نہیں‘ ارشاد ہے:
”لاتسبو اصحابی فلو ان احدکم انفق مثل احد ذہباً ما بلغ احدہم ولانصیفہ“۔ (بخاری ومسلم)
ترجمہ:․”میرے صحابہ کو برا بھلا نہ کہو (کیونکہ تمہارا وزن ان کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک تنکے کا ہو سکتا ہے‘ چنانچہ تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کردے تو ان کے ایک سیر جو کو نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس کے عشر عشیر کو“۔ مقام صحابہ کی نزاکت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ امت کو اس بات کا پابند کیا گیا کہ ان کی عیب جوئی کرنے والوں کو نہ صرف ملعون ومردود سمجھیں‘ بلکہ برملا اس کا اظہار کریں‘ فرمایا:
”اذا رایتم الذین یسبون اصحابی فقولوا لعنة اللہ علی شرکم“ (۱) (ترمذی)
ترجمہ:”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے اور انہیں ہدفِ تنقید بناتے ہیں تو ان سے کہو تم میں سے یعنی صحابہ اور ناقدین صحابہ میں سے جو برا ہے اس پر اللہ کی لعنت (ظاہر ہے کہ صحابہ کو برا بھلا کہنے والا ہی بدتر ہوگا) (اس اصول کے علاوہ جو مولانا محترم مدفیوضہم نے اس حدیث سے مستنبط کیا ہے) اس حدیث پاک کے مفہوم ومنطوق سے کئی اور اہم مسائل بھی مستنبط ہوتے ہیں‘ مختصراً ان کی طرف اشارہ کردینامفید ہوگا۔ ۱- حدیث میں ”سب“ سے بازاری گالیاں دینا مراد نہیں بلکہ ہر ایسا تنقیدی کلمہ مراد ہے جو ان حضرات کے استخفاف میں کہا جائے‘ اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ پر تنقید اور نکتہ چینی جائز نہیں‘ بلکہ وہ قائل کے ملعون ومطرود ہونے کی دلیل ہے۔ ۲- آنحضرت ا کے قلب اطہر کو اس سے ایذا ہوتی ہے (قد صرح بہ بقولہ فمن آذاہم فقد آذانی) اور آپ ا کے قلب اطہر کو ایذا دینے میں حبط اعمال کا خطرہ ہے لقولہ تعالی
”ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون“
۳- صحابہ کرام کی مدافعت کرنا اور ناقدین کو جواب دینا ملتِ اسلامیہ کا فرض ہے
”فان الامر للوجوب“۔
۴- آنحضرت ا نے یہ نہیں فرمایا کہ ناقدین صحابہ کو ایک ایک بات کا تفصیلی جواب دیا جائے‘ کیونکہ اس سے جواب اور جواب الجواب کا ایک غیر مختتم سلسلہ چل نکلے گا‘ بلکہ یہ تلقین فرمائی کہ انہیں بس اصولی اور فیصلہ کن جواب دیا جائے اور وہ ہے
لعنة اللہ علی شرکم
۵- ”شرکم“ اسم تفضیل کا صیغہ ہے جو مشاکلت کے طور پر استعمال ہوا ہے‘ اس میں آنحضرت ا نے ناقدین صحابہ کے لئے ایسا کنایہ استعمال فرمایا ہے کہ اگر وہ اس پر غور کریں تو ہمیشہ کے لئے تنقید صحابہ کے روگ کی جڑکٹ جاتی ہے‘ خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اتنی بات تو بالکل کھلی ہے کہ صحابہ کیسے ہی ہوں مگر تم سے تو اچھے ہی ہوں گے‘ تم ہوا پراڑلو‘ آسمان پر پہنچ جاؤ‘ سوبار مرکرجی لو‘ مگر تم سے صحابی تو نہیں بنا جاسکے گا‘ تم آخر وہ آنکھ کہاں سے لاؤ گے جس نے جمالِ جہاں آرائے محمد ا کا دیدار کیا؟ وہ کان کہاں سے لاؤ گے جو کلماتِ نبوت سے مشرف ہوئے؟ ہاں وہ دل کہاں سے لاؤگے جو انفاسِ مسیحائی محمدی سے زندہ ہوئے؟ وہ دماغ کہاں سے لاؤگے جو انوارِ مقدس سے منور ہوئے؟ تم وہ ہاتھ کہاں سے لاؤگے جو ایک بار بشرہ محمدی سے مسّ ہوئے اور ساری عمران کی بوئے عنبریں نہیں گئی؟ تم وہ پاؤں کہاں سے لاؤگے جو معیتِ محمدی میں آبلہ پا ہوئے؟ تم وہ زمان کہاں سے لاؤگے جب آسمان زمین پر اترآیا تھا؟ تم وہ مکان کہاں سے لاؤگے جہاں کونین کی سیادت جلوہ آرا تھی؟ تم وہ محفل کہاں سے لاؤگے جہاں سعادتِ دارین کی شراب طہور کے جام بھر بھر دیتے جاتے اور تشنہ ”کامان محبت“ ہل من مزید“ کا نعرہ مستانہ لگارہے تھے؟ تم وہ منظر کہاں سے لاؤگے جو
کأنی اری اللہ عیاناً
کا کیف پیدا کرتا تھا؟ تم وہ مجلس کہاں سے لاؤگے جہاں
کأنما علی رؤسنا الطیر
کا سماں بندھ جاتا تھا؟ تم وہ صدر نشین تخت رسالت کہاں سے لاؤگے جس کی طرف ہذا الابیض المتکئی سے اشارے کئے جاتے تھے؟ تم وہ شمیم عنبر کہاں سے لاؤگے جو دیدار محبوب میں خواب نیم شبی کو حرام کر دیتی تھی؟ تم وہ ایمان کہاں سے لاؤگے جو ساری دنیا کو تج کر حاصل کیا جاتا تھا؟ تم وہ اعمال کہاں سے لاؤگے جو پیمانہٴ نبوت سے ناپ ناپ کر ادا کئے جاتے تھے؟ تم وہ اخلاق کہاں سے لاؤگے جو آئینہٴ محمدی سامنے رکھ کر سنوارے جاتے تھے؟ تم وہ رنگ کہاں سے لاؤگے جو ”صبغة اللہ“ کی بھٹی میں دیا جاتا تھا؟ تم وہ ادائیں کہاں سے لاؤے گے جو دیکھنے والوں کو نیم بسمل بنا دیتی تھیں؟ تم وہ نماز کہاں سے لاؤگے جس کے امام نبیوں کے امام تھے؟ تم قدوسیوں کی وہ جماعت کیسے بن سکو گے جس کے سردار رسولوں کے سردار تھے۔ تم میرے صحابہ کو لاکھ برا کہو مگر اپنے ضمیر کا دامن جھنجھوڑ کر بتاؤ! اگر ان تمام سعادتوں کے بعد بھی میرے صحابہ برے ہیں تو کیا تم ان سے بدتر نہیں ہو؟ اگر وہ تنقید وملامت کے مستحق ہیں تو کیا تم لعنت وغضب کے مستحق نہیں ہو؟ اگر میرے صحابہ کو بدنام کرتے ہو تو کیا میرا خدا تمہیں سر محشر سب کے سامنے رسوا نہیں کرے گا؟ اگر تم میں انصاف وحیاکی کوئی رمق باقی ہے تو اپنے گریبان میں جھانکو اور میرے صحابہ کے بارے میں زبان بند کرو اور اگر تمہارا ضمیر بالکل مسخ ہو چکا ہے تو بھری دنیا یہ فیصلہ کرے گی کہ میرے صحابہ پر تنقید کا حق ان کپوتوں کو حاصل ہونا چاہئے؟ علامہ طیب نے اسی حدیث کی شرح میں حضرت حسان کا ایک عجیب شعر نقل کیا ہے:
اتہجوہ ولست لہ بکفوء فشرکما لخیر کما فداء
ترجمہ:۔”کیا تو آپ ا کی ہجو کرتا ہے جب کہ تو آپ ا کے برابر کا نہیں ہے؟ پس تم دونوں میں بدتر تمہارے بہتر پر قربان“۔
۶- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تنقید صحابہ کا منشا ناقد کا نفسیاتی شر اور خبث وتکبر ہے‘ آپ جب کسی شخص کے طرز عمل پر تنقید کرتے ہیں تو اس کا منشا یہ ہوتا ہے کہ کسی صفت میں وہ آپ کے نزدیک خود آپ کی اپنی ذات سے فرو تر اور گھٹیا ہے‘ اب جب کوئی شخص کسی صحابی کے بارے میں مثلاً یہ کہے گا کہ اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا تھا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اگر اس صحابی کی جگہ یہ صاحب ہوتے تو عدل وانصاف کے تقاضوں کو زیادہ بہتر ادا کرتے‘ گویا ان میں صحابی سے بڑھ کر صفت عدل موجود ہے‘ یہ ہے تکبر کا وہ ”شر“ اور نفس کا وہ خبث جو تنقید صحابہ پر ابھارتا ہے اور آنحضرت ا اسی ”شر“ کی اصلاح اس حدیث میں فرمانا چاہتے ہیں۔
۷- حدیث میں بحث ومجادلہ کا ادب بھی بتا یا گیا ہے یعنی خصم کو براہ راست خطاب کرتے ہوئے یہ نہ کہا جائے کہ تم پر لعنت! بلکہ یوں کہا جائے کہ تم دونوں میں جو برا ہو اس پر لعنت ! ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسی منصفانہ بات ہے جس پر سب کو متفق ہونا چاہئے‘ اس میں کسی کے برہم ہونے کی گنجائش نہیں‘ اب رہا یہ قصہ کہ ”تم دونوں میں برا“ کا مصداق کون ہے ؟ خود ناقد؟ یا جس پر وہ تنقید کرتا ہے؟ اس کا فیصلہ کوئی مشکل نہیں‘ دونوں کے مجموعی حالات سامنے رکھ کر ہر معمولی عقل کا آدمی یہ نتیجہ آسانی سے نکال سکتا ہے کہ آنحضرت ا کا صحابی برا ہوسکتا ہے یا اس کا خوش فہم ناقد؟
۸- حدیث میں” فقولوا“ کا خطاب امت سے ہے‘ گویا ناقدین صحابہ کو آنحضرت ا اپنی امت نہیں سمجھتے‘ بلکہ انہیں امت کے مقابل فریق کی حیثیت سے کھڑا کرتے ہیں اور یہ ناقدین کیلئے شدید وعید ہے‘ جیساکہ بعض دوسرے معاصی پر” فلیس منا “کی وعید سنائی گئی ہے۔
۹- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آنحضرت ا کو جس طرح ناموسِ شریعت کا اہتمام تھا‘ اسی طرح ناموسِ صحابہ کی حفاظت کا بھی اہتمام تھا‘ کیونکہ ان ہی پر سارے دین کا مدار ہے
۱۰- حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ناقدین صحابہ کی جماعت بھی ان ”مارقین“ سے ہے جن سے جہاد باللسان کا حکم امت کو دیا گیا ہے‘ یہ مضمون کئی احادیث میں صراحةً بھی آرہاہے ہے۔ یہاں تمام احادیث کا استیعاب مقصود نہیں بلکہ کہنا یہ ہے کہ ان قرآنی ونبوی شہادتوں کے بعد بھی اگر کوئی شخص حضرات صحابہٴ کرام میں عیب نکالنے کی کوشش کرے تو اس کا بات سے قطع نظر کہ اس یہ طرز عمل قرآن کریم کی نصوصِ قطعیہ اور ارشادات نبوت کے انکار کے مترادف ہے‘ یہ لازم آئے گا کہ حق تعالیٰ نے نبی کریم ا پر جو فرائض بحیثیت منصبِ نبوت کے عائد کئے تھے اور جن میں اعلیٰ ترین منصب تزکیہ ٴ نفوس کا تھا‘ گویا حضرت رسالت پناہ ا اپنے فرضِ منصبی کی بجا آوری سے قاصر رہے اور تزکیہ نہ کر سکے اور یہ قرآن کریم کی صریح تکذیب ہے‘ حق تعالیٰ تو ان کے تزکیہ کی تعریف فرمائے اور ہم انہیں مجروح کرنے میں مصروف رہیں اور جب نبی کریم ا ان کے تزکیہ سے قاصر رہے تو گویا حق تعالیٰ نے آپ کا انتخاب صحیح نہیں فرمایا تھا -انا للہ- بات کہاں سے کہاں تک پہنچ جاتی ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے انتخاب میں قصور نکلا تو اللہ تعالیٰ کا عمل غلط ہوا -نعوذ باللہ من الغوابة والسفاہة- چنانچہ اہل ہوا کی بڑی جماعت کا دعویٰ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ”بدأ“ ہوتا ہے‘ یعنی اسے بہت سی چیزیں جو پہلے معلوم نہیں تھیں‘ بعد میں معلوم ہوتی ہیں اور اس کا پہلا علم غلط ہوجاتاہے‘ جن لوگوں کا اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ تصور ہو‘ رسول اور نبی اور ان کے بعد صحابہ کرام کا ان کے نزدیک کیا درجہ رہے گا؟ الغرض صحابہ کرام پر تنقید کرنے‘ ان کی غلطیوں کو اچھالنے اور انہیں موردِ الزام بنانے کا قصہ صرف ان ہی تک محدود نہیں رہتا‘ بلکہ خدا ورسول‘ کتاب وسنت اور پورا دین اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور دین کی ساری عمارت منہدم ہوجاتی ہے‘ بعید نہیں کہ آنحضرت ا نے اپنے اس ارشاد میں جو اوپر نقل کیا گیا ہے‘ اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہو:
”من آذاہم فقد آذانی ومن آذانی فقد آذی اللہ‘ ومن آذی اللہ فیوشک ان یاخذہ“۔
ترجمہ:”جس نے ان کو ایذادی اس نے مجھے ایذادی اور جس نے مجھے ایذا دی‘ اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذادی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اسے پکڑلے“۔
اور یہی وجہ ہے کہ تمام فرقِ باطلہ کے مقابلہ میں اہلِ حق کا امتیازی نشان صحابہ کرام کی عظمت ومحبت رہا ہے ‘ تمام اہلِ حق نے اپنے عقائد میں اس بات کو اجماعی طور پر شامل کیا ہے کہ:
”وتکف عن ذکر الصحابة الا بخیر“
یعنی اور ہم صحابہ کا ذکر بھلائی کے سوا کسی اور طرح کرنے سے زبان بند رکھیں گے۔ گویا اہلِ حق اور اہل باطل کے درمیان امتیاز کا معیار صحابہٴ کرام کا ”ذکر بالخیر“ ہے جو شخص ان حضرات کی غلطیاں چھانٹتا ہو‘ ان کو موردِ الزام قرار دیتا ہو‘ اور ان پر سنگین اتہامات کی فرد جرم عائد کرتا ہو‘ وہ اہل حق میں شامل نہیں ہے۔ جو حضرات اپنے خیال میں بڑی نیک نیتی‘ اخلاص اور بقول ان کے وقت کے اہم ترین تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے قبائح صحابہ کو ایک مرتب فلسفہ کی شکل میں پیش کرتے ہیں اور اسے ”تحقیق“ کا نام دیتے ہیں‘ انہیں اس کا احساس ہو یا نہ ہو‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تسوید اوراق کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں کہ جدید نسل کو دین کے نام پر دین سے بیزار کردیا جائے اور ہر ایرے وغیرے کو صحابہ کرام پر تنقید کی کھلی چھٹی دے دی جائے جنہیں نہ علم ہے نہ عقل ‘ نہ فہم ہے نہ فراست۔ اور یہ نرا اندیشہ ہی اندیشہ نہیں بلکہ کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہونے لگا ہے ۔ الامان والحفیظ کہا جاتا ہے کہ: ”ہم نے کوئی نئی بات نہیں کہی، بلکہ تاریخ کی کتابوں میں یہ سارا مواد موجود تھا‘ ہمارا قصور صرف یہ ہے کہ ہم نے اسے جمع کردیا ہے‘ ‘۔ افسوس ہے کہ یہ عذر پیش کرتے ہوئے بہت سی اصولی اور بنیادی باتوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے‘ ورنہ بادنیٰ تامل واضح ہوجاتا کہ صرف اتنا عذر طعن صحابہ کی وعید سے بچنے کے لئے کافی نہیں اور نہ اتنی بات کہہ کر بری الذمہ ہوسکتے ہیں۔ اولاً: قرآنِ کریم کی نصوصِ قطعیہ‘ احادیثِ ثابتہ اور اہل حق کا اجماع صحابہ کی عیب چینی کی ممانعت پر متفق ہیں‘ ان قطعیات کے مقابلہ میں تاریخی قصہ کہانیوں کا سرے سے کوئی وزن ہی نہیں‘ تاریخ کا موضوع ہی ایسا ہے کہ اس میں تمام رطب ویابس اور صحیح وسقیم چیزیں جمع کی جاتی ہیں‘ صحت کا جو معیار ”حدیث“ میں قائم رکھا گیا ہے‘ تاریخ میں وہ معیار نہ قائم رہ سکتا تھا‘ نہ اسے قائم رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ اس لئے حضرات محدثین نے ان کی صحت کی ذمہ داری اٹھانے سے انکار کردیا ہے‘ حافظ عراقی فرماتے ہیں:
ولیعلم الطالب ان السیر
یجمع ما قد صح وما قد انکرا
یعنی علم تاریخ وسیر صحیح اور منکر سب کو جمع کرلیتا ہے۔ اب جو شخص کسی خاص مدعا کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی مواد کو کھنگال کر تاریخی روایات سے استدلال کرنا چاہتا ہے اسے عقل وشرع کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف یہ دیکھ لینا کافی نہیں ہے کہ یہ روایت فلاں فلاں تاریخ میں لکھی ہے‘ بلکہ جس طرح وہ یہ سوچتا ہے کہ یہ روایت اس کے مقصد ومدعا کے لئے مفید ہے یا نہیں؟ اسی طرح اسے اس پر بھی غور کرلینا چاہئے کہ کیا یہ روایت شریعت یا عقل سے متصادم تو نہیں؟ اس اصول کی وضاحت کے لئے یہاں صرف ایک مثال کا پیش کرنا کافی ہوگا۔ آپ ”خلیفہٴ راشد“ اسے کہتے ہیں جو ٹھیک ٹھیک منہاج نبوت پر قائم ہو اور اس کا کوئی عمل اور کوئی فیصلہ منہاج نبوت کے اعلیٰ معیار سے ہٹا ہوا نہ ہو‘ اب آپ ایک صحابی کو خلیفہٴ راشد تسلیم کرتے ہوئے اس پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے بلاکسی استحقاق کے مال غنیمت کا پورا خمس (۵/لاکھ دینار) اپنے فلاں رشتہ دار کو بخش دیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ ”خلافت راشدہ“ اور منہاج نبوت یہی ہے جس کی تصویر اس افسانے میں دکھائی گئی ہے؟ اور آج کے ماحول میں اس روایت کو من وعن تسلیم کرنے سے کیا یہ ذہن نہیں بنے گا کہ خلافت راشدہ کا معیار بھی آج کے جابر حکمرانوں سے کچھ زیادہ بلند نہیں ہوگا جو اپنے رشتہ داروں کو روٹ پرمٹ اور امپورٹ لائسنس مرحمت فرماتے ہیں؟ اسی پر ان دوسرے الزامات کو قیاس کر لیجئے جو بڑی شان تحقیق سے عائد کئے گئے ہیں۔ ثانیاً: یہ تاریخی روایات آج یکایک نہیں ابھر آئی ہیں‘ بلکہ اکابر اہل حق کے سامنے یہ سارا کچھ موجود رہا ہے اور وہ اس کی مناسب تاویل وتوجیہ کرچکے ہیں‘ جس سے معلوم ہوا کہ ان تاریخی واقعات کو بڑی آسانی سے کسی اچھے محمل پر محمول کیا جاسکتا ہے‘ اب ایک شخص اٹھتا ہے اور ”بے لاگ تحقیق“ کے شوق میں ان کے ایسے محمل تلاش کرتا ہے جس سے صحابہ کرام کی صریح تنقیص اور ان کی سیرت وکردار کی گراوٹ مفہوم ہوتی ہے‘ کیا اس کے بارے میں یہ حسنِ ظن رکھا جائے کہ صحابہ ٴ کرام کے بارے میں وہ ”حسن ظن“ رکھتا ہے؟ اور عجیب بات یہ کہ جب اس کے سامنے اکابر اہل حق کے طرز تحقیق کا حوالہ دیا جاتا ہے تو ان حضرات کو ”وکیلِ صفائی“ کہہ کر ان کی تحقیقات کو قابلِ التفات نہیں سمجھتا‘ غالباً یہ دنیا کی نرالی عدالت ہے جس میں ”وکیلِ استغاثہ“ کے بیان پر یک طرفہ فیصلہ دیا جائے اور وکیلِ صفائی کے بیانات کو اس جرم میں نظر انداز کردیا جائے کہ وہ کسی مظلوم کی طرف سے صفائی کا وکیل بن کر کیوں کھڑا ہوگیا ہے‘ اوپر قرآن وسنت کی جن نصوص کا حوالہ دیا گیا اور اہل حق کے جس اجماعی فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے معلوم ہوگا کہ صرف حافظ ابن تیمیہ اور شاہ عبد العزیز ہی نہیں‘ بلکہ خدا ورسول اور پوری امت کے اہل حق ‘ صحابہٴ کرام کے ”وکیل صفائی“ ہیں‘ اب یہ فیصلہ کرنا ہر شخص کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے کہ وہ وکیلِ صفائی کی صف میں شامل ہونا پسند کرتا ہے یا وکیل ِ استغاثہ کی صف میں۔ ثالثاً: ان تاریخی روایات کے متفرق جزئی واقعات کو چن چن کر جمع کرنا‘ انہیں ایک مربوط فلسفہ بنا ڈالنا‘ جزئیات سے کلیات اخذ کرلینا اور ان پر ایسے جلی اور چبھتے ہوئے عنوانات جمانا جنہیں آج کی چودھویں صدی کا فاسق سے فاسق بھی اپنی طرف منسوب کرنا پسند نہیں کرے گا‘ یہ نہ تو دین وملت کی کوئی خدمت ہے‘ نہ اسے اسلامی تاریخ کا صحیح مطالعہ کہا جاسکتا ہے‘ البتہ اسے تاریخ سازی کہنا بجا ہوگا۔ بقول سعدی
”ولیکن قلم درکف ِ دشمن است“
میں پوچھتا ہوں کیا کوئی ادنیٰ مسلمان اپنے بارے میں یہ سننا پسند کرے گا کہ اس نے خدائی دستور کو بدل ڈالا؟ اس نے بیت المال کو گھر کی لونڈی بنایا؟ اس نے مسلمانوں سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آزادی سلب کرلی؟ اس نے عدل وانصاف کی مٹی پلید کر ڈالی؟ اس نے دیدہ ودانستہ نصوصِ قطعیہ سے سرتابی کی؟ اس نے خدائی قانون کی بالادستی کا خاتمہ کرڈالا؟ اس نے اقربا پروری وخویش نوازی کے ذریعہ لوگوں کی حق تلفی کی؟ کیا کوئی معمولی قسم کا متقی اور پرہیزگار آدمی ان جگر پاش اتہامات کو ٹھنڈے دل سے برداشت کرلے گا؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو کیا صحابہ کرام ہم نالائقوں سے بھی گئے گذرے ہوگئے؟ کہ ایک دو نہیں‘ بلکہ مثالب وقبائح اور اخلاقی گراوٹ کی ایک طویل فہرست ان کے نام جڑدی جائے‘ پھر بے لاگ تحقیق کے نام سے اسے اچھالا جائے اور روکنے اور ٹوکنے کے باوجود اس پر اصرار کیا جائے۔ کیا صحابہ کرام کی عزت وحرمت یہی ہے؟ کیا اسی کا نام صحابہ کا ”ذکر بالخیر“ ہے؟ کیا رسول اللہ ا کے معزز صحابہ اسی احترام کے مستحق ہیں؟ کیا ایمانی غیرت کا یہی تقاضا ہے؟ کیا مسلمانوں کو رسول اللہ ا کا یہ ارشاد بھول جانا چاہئے:
”جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں تو ان کے جواب میں یہ کہو“ تم میں سے (یعنی صحابہ کرام اور ان کے ناقدین میں سے) جو برا ہو اس پر اللہ کی لعنت!“۔ (ترمذی)
آنحضرت ا کے صحابہ بعد کی امت کے لئے حق وباطل کا معیار ہیں‘ انہیں معیتِ نبوی کا جو شرف حاصل ہوا‘ اس کے مقابلہ میں کوئی بڑی سے بڑی فضیلت ایک جو کے برابر بھی نہیں‘ کسی بڑے سے بڑے ولی اور قطب کو ان کی خاکِ پابننے کا شرف حاصل ہوجائے تو اس کے لئے مایہٴ صد افتخار ہے‘ اس لئے امت کے کسی فرد کا خواہ وہ اپنی جگہ مفکر دور ان اور علامہٴ زماں ہی کہلواتاہو‘ ان پر تنقید کرنا قلبی زیغ کی علامت ہے ۔ ایاز! قدر خویش شناس!! یہ دنیا حق وباطل کی آما جگاہ ہے‘ یہاں باطل حق کا لبادہ اوڑھ کر آتا ہے‘ بسا اوقات ایک آدمی اپنے غلط نظریات کو صحیح سمجھ کر ان سے چمٹا رہتا ہے‘ جس سے رفتہ رفتہ اس کے ذہن میں کجی آجاتی ہے اور بالآخر اس سے صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کی استعداد ہی سلب ہوجاتی ہے اور یہ بڑی خطرناک بات ہے‘ اہل حق وتحقیق کی یہ شان نہیں کہ وہ ”میں یہ سمجھتا ہوں“ کی برخود غلط فہمی میں مبتلا ہوں اور جب انہیں اخلاص وخیر خواہی سے تنبیہ کی جائے تو تاویلات کا ”ضمیمہ“ لگانے بیٹھ جائیں‘ اہل حق کی شان تو یہ ہے کہ اگر ان کے قلم وزبان سے کوئی نامناسب لفظ نکل جائے تو تنبیہ کے بعد فوراً حق کی طرف پلٹ آئیں۔ حق تعالیٰ جل ذکرہ ہمیں اور ہمارے تمام مسلمان بھائیوں کو ہر زیغ وضلال سے محفوظ فرمائے‘ اور اتباعِ حق کی توفیق بخشے۔
ربنا لاتزغ قلوبنا بعد إذ ہدیتنا وہب لنا من لدنک رحمة إنک أنت الوہاب ۔ وصلی اللہ تعالی علیٰ خیر خلقہ صفوة البریة محمد وعلیٰ آلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔اٰمین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین