بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عصری تناظر میں مجتہد فیہ یعنی اختلافی مسائل میں  حاکم/قاضی کے فیصلہ کی حیثیت

عصری تناظر میں مجتہد فیہ یعنی اختلافی مسائل میں 
حاکم/قاضی کے فیصلہ کی حیثیت


  ہمارے فقہاء حنفیہ کے ہاں یہ ضابطہ مشہور ہے کہ حکمِ حاکم رافعِ خلاف ہوتا ہے، یعنی اگر کسی مجتہد فیہ مسئلہ میں حاکم مسلم نے کسی ایک جانب فیصلہ کیا تو اس فیصلہ پر عمل در آمد کرنا ضروری ہے، اور اس فیصلہ کے بعد عام لوگوں کے لیے اسی قول کے مطابق عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے ، جس پر فیصلہ کیا گیا ہے، اگر کسی دوسرے قاضی کے پاس ایسا فیصلہ پہنچ جائے اور اس کا اپنا موقف اس قول کے خلاف ہو جس کے مطابق قاضی اول نے فیصلہ کیا ہو تو بھی اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے ہی فیصلہ کو نافذ رکھے، البتہ اگر پہلا فیصلہ قرآن کریم کی کسی آیت، سنتِ مشہورہ، اجماعِ امت وغیرہ کے خلاف ہو تو دوسری بات ہے۔ اس ضابطہ سے متعلق درج ذیل چند باتوں کی تحقیق مطلوب ہے:
1:- کیا اس کے لیے ضروری ہے کہ حاکم کو اجتہادی مسئلہ اور اس میں اہلِ علم کے اقوال و آراء کا علم ہو اور اس میں غور کرنے کے بعد وہ کسی ایک قول کوراجح سمجھ کر اس کے مطابق فیصلہ کریں یا یہ ضروری نہیں؟ بلکہ اگر حاکم و قاضی کو مسئلہ کا علم نہ ہو، لیکن اتفاقی طور پر اس کا فیصلہ کسی مجتہد کے قول کے مطابق ہو جائے تو بھی یہ حکم رافعِ خلاف تصور ہوگا؟ 
2:- عصرِ حاضر میں اکثر ممالک میں اپنا اپنا دستور و قانون مقرر ہو تا ہے اور قاضی ہو یا منتخب ہونے والا حا کم ، وہ بہر حال اسی دستور و قانون کے مطابق کارروائی کرنے کا آئینی طور پر پابند ہوتا ہے، قضاۃ بھی اسی آئین و قانون کی روشنی میں فیصلہ کرنے کے مکلف ہوتے ہیں، جبکہ آئین و قانون مکمل طور پر اسلامی تعلیمات کا پابند نہیں ہوتا، اب اگر کوئی قاضی یا حاکم اسلامی تعلیمات سے قطع نظر کر کے صرف آئین و دستور کے پیش نظر کوئی قانون یا فیصلہ کرتا ہے اور وہ فیصلہ کسی مجتہد کے قول کے مطابق ثابت ہو جائے تو ان جیسے فیصلوں کی بھی وہی حیثیت ہو گی کہ ان کو رافعِ خلاف سمجھا جائے گا یا نہیں؟
3:- اجتہادی مسائل سے کیا مراد ہے؟ اس کا دائرہ کار کیا ہے؟ کیا اس سے وہی مسائل مراد ہیں جو ائمہ اربعہ رحمہم اللہ کے در میان محلِ اجتہاد رہے ہیں یا عموم مقصود ہے؟ پہلی صورت میں اگر کوئی حاکم مذاہبِ اربعہ کے خلاف کوئی فیصلہ کرتا ہے تووہ نافذ نہیں ہوگا، گو وہ ان حضرات ائمہ اربعہ کے علاوہ کسی امام ومجتہد کا موقف ہو، جبکہ دوسری صورت میں ایسے فیصلے بھی نافذ قرار دیئے جائیں گے؟
4:-کیا مقلد(یا اجتہادی صلاحیت سے قطعاً محروم) کو اختیار ہے کہ اجتہادی مسئلہ میں کسی بھی قول کے مطابق فیصلہ کریں؟ یا جس طرح مقلد مفتی عام حالات میں اپنے مذہب کے خلاف فتویٰ صادر نہیں کر سکتا، بلکہ اس کے لیے کچھ اصول و شرائط ہیں، جس کی پابندی کرنی ضروری ہے، یوں ہی درج بالا حاکم کے لیے بھی اجتہادی مسائل میں فیصلہ کرنے کے لیے کوئی ضابطہ مقرر ہے؟
برائے کرم ان سوالات کا جواب دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا جزیلا                                                    مستفتی: عبیدالرحمٰن،(مردان)

الجواب باسمہٖ تعالی
 

واضح رہے کہ ’’ اجتہاد ‘‘ کا لغوی معنیٰ کوشش کرنا ہے، اور شرعاً ’’اجتہاد‘‘ اس کوشش کو کہتے ہیں جو کوئی مجتہد سطح کا عالمِ دین کسی ایسے دینی مسئلہ کا حکم معلوم کرنے کے لیے کرتا ہے جس میں قرآن و سنت کا کوئی واضح حکم موجود نہ ہو۔ 
پھر اجتہاد کی پہلی قسم ’’اجتہادِ مطلق‘‘ ہے جس کا دائرہ اجتہاد کے اصولوں کی تشکیل و تدوین اور قواعد و ضوابط کی ترتیب کو بھی محیط ہے، اس پر بیسیوں اصحابِ علم نے کام کیا، لیکن امت کے اصحابِ علم میں سب سے زیادہ پذیرائی ائمہ اربعہ کے کام کو حاصل ہوئی اور اسی کی بنیاد پر مستقل فقہی مذاہب تشکیل پاگئے۔ 
اور دوسری قسم ’’عملی اجتہاد‘‘ ہے جس کی اب بھی جزوی پیش آمدہ اور فروعی مسائل میں ضرورتِ شرعیہ کے موقع پرگنجائش ہے ، البتہ اس میں ماضی کے اجتہادات کو ترجیح حاصل  ہے۔
انہی قواعد و ضوابط میں سے سوال میں مذکور فقہاءِ حنفیہ کا ایک ضابطہ یہ ہے کہ: ’’حکمِ حاکم مجتہد فیہ مسائل میں رافعِ اختلاف ہوتا ہے، یعنی مسلمان حاکم نے مجتہد فیہ مسئلہ میں کسی ایک قول پر فیصلہ کیا تو اس فیصلہ پر عمل کرنا ضروری ہوجاتا ہے اور اس فیصلہ کے بعد کسی کو دوسرے قول پر فیصلہ دینے کا حق نہیں رہتا۔‘‘
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ ’’مجتہد فیہ مسائل‘‘ سے کیا مراد ہے؟ تاکہ اجتہادی مسائل کی تعیین ہوجائے اور اس میں حاکم کا فیصلہ رافعِ اختلاف متصور کیا جائے۔ چنانچہ فقہاءِ کرام کی عبارتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہ مسائل ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان مختلف فیہ رہے ہوں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم  کا اختلاف حلت و حرمت، جواز وعدم جواز، اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہوگا، جب کہ ائمہ اربعہ کے اقوال میں اختلاف در حقیقت صحابہؓ کا ہی اختلاف ہے، کیوں کہ صحابہؓ کے درمیان جو اختلاف تھا، اس میں کسی تیسرے قول کی گنجائش ہی نہیں، وہ یا تو حلال ہوگا یا حرام، جائز ہوگا یا ناجائز، اولیٰ ہوگا یا غیر اولیٰ، اور ائمہ اربعہ بھی اختلاف کرکے اس سے باہر نہیں نکل سکتے، لہٰذا صدرِ اول (زمانۂ صحابہؓ اور ائمہ اربعہ) کا اختلاف ہی مجتہد فیہ مسائل میں داخل ہے، اس کے بعدکے علماء و فقہاء کا اختلاف مجتہد فیہ مسائل میں داخل نہیں اور نہ ایسے اختلافی مسئلہ میں حکمِ حاکم رافعِ اختلاف ہوگا۔ذیل میں فقہاء کرام کی عبارتیں نقل کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں:
’’فتح القدیر‘‘ میں ہے:
’’قال (وإذا رفع إلی القاضي حکم حاکم أمضاہ إلا أن يخالف الکتاب أو السنۃ أو الإجماع بأن يکون قولا لا دليل عليہ. وفي الجامع الصغير: وما اختلف فيہ الفقہاء فقضی بہ القاضي، ثم جاء قاضٍ آخر يری غير ذٰلک أمضاہ) والأصل أن القضاء متی لاقی فصلا مجتہدا فيہ ينفذہ ولا يردہ غيرہٗ، لأن اجتہاد الثاني کاجتہاد الأول، وقد يرجح الأول باتصال القضاء بہٖ فلا ينقض بما ہو دونہ. (ولو قضی في المجتہد فيہ مخالفا لرأيہٖ ناسيا لمذہبہٖ نفذ عند أبي حنيفۃ - رحمہ اللہ - وإن کان عامدا ففيہ روايتان) ووجہ النفاذ أنہٗ ليس بخطأ بيقين وعندہما لا ينفذ في الوجہين لأنہ قضی بما ہو خطأ عندہٗ وعليہ الفتوی، ثم المجتہد فيہ أن لا يکون مخالفا لما ذکرنا. والمراد بالسنۃ المشہورۃ منہا وفيما اجتمع عليہ الجمہور لا يعتبر مخالفۃ البعض وذلک خلاف وليس باختلاف والمعتبر الاختلاف في الصدر الأول.
وفی فتح القدیر تحت قولہٖ: (وفي الجامع الصغير: وما اختلف فيہ الفقہاء فقضی بہ القاضي ثم جاء قاضٍ آخر يری غير ذٰلک أمضاہ) ۔۔۔ الٰی قولہٖ: قال: وإليہ أشار أبو بکر الرازي لأن ذلک کما قال المصنف خلاف لا اختلاف، ثم قال المصنف: المعتبر الاختلاف في الصدر الأول: يعني أن يکون المحل محلَ اجتہاد يتحقق الخلاف فيہ بين الصحابۃؓ. وقد يحتمل بعض العبارات ضم التابعين ۔۔۔ إلٰی قولہ: وبناء علی اشتراط کون الخلاف في الصدر الأول في کون المحل اجتہاديًا قال بعضہم: إن للقاضي أن يبطل ما قضی بہ القاضي المالکي والشافعي برأيہ: يعني إنما يلزم إذا کان قول مالک أو الشافعي وافق قول بعض الصحابۃؓ أو التابعين المختلفين فلا ينقض باعتبار أنہ مختلف بين الصدر الأول لا باعتبار أنہ قول مالک والشافعي، فلو لم يکن فيہا قول الصدر الأول بل الخلاف مقتضب فيہا بين الإمامين للقاضي أن يبطلہ إذا خالف رأيہ. وعندي أن ہٰذا لا يعول عليہ، فإن صح أن مالکا وأبا حنيفۃ والشافعي مجتہدون فلا شک في کون المحل اجتہاديا وإلا فلا، ولا شک أنہم أہل اجتہاد ورفعۃ ولقد نری في أثناء المسائل جعل المسألۃ اجتہاديۃ بخلاف بين المشايخ حتی ينفذ القضاء بأحد القولين، فکيف لا يکون کذٰلک إذا لم يعرف الخلاف إلا بين ہٰؤلاء الأئمۃ، يؤيدہ ما في الذخيرۃ عن الحلواني أن الأب إذا خلع الصغيرۃ علی صداقہا ورآہ خيرا لہا بأن کانت لا تحسن العشرۃ مع زوجہا، فإن علی قول مالک يصح ويزول الصداق عن ملکہا ويبرأ الزوج عنہ، فإذا قضی بہ قاضٍ نفذ. وفي حيض منہاج الشريعۃ عن مالک فيمن طلقہا فمضی عليہا ستۃ أشہر لم تر دمًا، فإنہا تعتد بعدہٗ بثلاثۃ أشہر، فإذا قضی بذٰلک قاض ينبغي أن ينفذ لأنہ مجتہد فيہ، إلا أنہ نقل مثلہ عن ابن عمرؓ قال: وہٰذہ المسألۃ يجب حفظہا لأنہا کثيرۃ الوقوع، ثم ذکر في المنتقی أن العبرۃ بکون المحل مجتہدا فيہ اشتباہ الدليل لا حقيقۃ الخلاف. قال: ألا تری أن القاضي إذا قضی بإبطال طلاق المکرہ نفذ لأنہ مجتہد فيہ لأنہ موضع اشتباہ الدليل إذ اعتبار الطلاق بسائر تصرفاتہ ينفي حکمہ، وکذا لو قضی في حد أو قصاص بشہادۃ رجل وامرأتين ثم رفع إلی قاض آخر يری خلاف ذلک ينفذہ، وليس طريق القضاء الأول کونہ في مختلف فيہ، وإنما طريقہ أن القضاء الأول حصل في موضع اشتباہ الدليل لأن المرأۃ من أہل الشہادۃ، إذ ظاہر قولہٖ تعالی {فَرَجُلٌ وَّامْرَأَتَانِ} [البقرۃ: ۲۸۲] يدل علی جواز شہادتہن مع الرجال مطلقا وإن وردت في المداينۃ لأن العبرۃ لعموم اللفظ، ولم يرد نص قاطع في إبطال شہادۃ النساء في ہٰذہ الصورۃ؛ ولو قضی بجواز نکاح بلا شہود نفذ لأن المسألۃ مختلف فيہا، فمالک وعثمان البتي يشترطان الإعلان لا الشہود، وقد اعتبر خلافہما لأن الموضع موضع اشتباہ الدليل، إذ اعتبار النکاح بسائر التصرفات يقتضي أن لا تشترط الشہادۃ انتہی. ولا يخفی أنہ إذا کانت معارضۃ المعنی للدليل السمعي النص توجب اشتباہ الدليل فيصير المحل محل اجتہاد ينفذ القضاء فيہ، فکل خلاف بين الشافعي ومالک أو بيننا وبينہم أو أحدہم محل اشتباہ الدليل حينئذ إذ لا يخلو عن مثل ذلک فلا يجوز نقضہ من غير توقف علی کونہ بين الصدر الأول۔
‘‘(فتح القدیر، ج:۷، ص:۳۰۰ تا ۳۰۵، کتاب أدب القاضی، فصل في قضاء المرأۃ، ط:دار الفکر)
’’بدائع الصنائع‘‘ میں ہے:
’’(وأما) الذي يرجع إلٰی نفس القضاء فأنواع: منہا أن يکون بحق وہو الثابت عند اللہ - عز وجل - من حکم الحادثۃ، إما قطعا بأن قام عليہ دليل قطعي وہو النص المفسر من الکتاب الکريم أو الخبر المشہور والمتواتر والإجماع، وإما ظاہرا بأن قام عليہ دليل ظاہر يوجب علم غالب الرأي وأکثر الظن من ظواہر الکتاب الکريم والمتواتر والمشہور وخبر الواحد والقياس الشرعي، وذٰلک في ‌المسائل ‌الاجتہاديۃ التي اختلف فيہا الفقہاء -رحمہم اللہ - والتي لا روايۃ في جوابہا عن السلف بأن لم تکن واقعۃ حتی لو قضی بما قام الدليل القطعي علی خلافہ ، لم يجز؛ لأنہ قضاء بالباطل قطعا، وکذا لو قضی في موضع الخلاف بما کان خارجا عن أقاويل الفقہاء کلہم، لم يجز؛ لأن الحق لا يعدو أقاويلَہم، فالقضاء بما ہو خارج عنہا کلہا يکون قضاء باطلا قطعا۔‘‘ (بدائع الصنائع، ج:7، ص:4، کتاب آداب القاضی، فصل فی بیان شرائط جواز القضاء، ط:سعید)
’’البحر الرائق‘‘ میں ہے:
’’وذلک في ‌المسائل ‌الاجتہاديۃ التي اختلف فيہا الفقہاء أو التي لا روايۃ فيہا عن السلف، فلو قضی بما قام الدليل القطعي علی خلافہ لم يجز؛ لأنہ قضی بالباطل قطعا، وکذا لو قضی في موضع الاختلاف بما ہو خارج عن أقاويل الفقہاء لم يجز؛ لأن الحق لم يعدوہم، ولذا لو قضی بالاجتہاد فيما فيہ نص ظاہر بخلافہ لم يجز؛ لأن القياس في مقابلۃ النص باطل ولو ظاہرا۔‘‘(البحر الرائق، ج:۶، ص:۲۷۷، کتاب القضاء، ط:دار الکتاب الإسلامي)
’’نہایۃ الوصول في درایۃ الأصول‘‘ میں ہے:
’’وأما المجتہد فيہ: فہو کل حکم شرعي ليس فيہ دليل قاطع. ۔۔۔ الی قولہ: وقال أبو الحسين البصری: (المسألۃ الاجتہاديۃ ہي التي اختلف فيہا المجتہدون في الأحکام الشرعيۃ). قال الإمام- رحمہ اللہ-: وہذا ضعيف؛ لأن جواز اختلاف المجتہدين فيہا مشروط بکون المسألۃ اجتہاديۃ، فلو عرفنا کونہا اجتہاديۃ باختلافہم فيہا لزم الدور. و فی ہذا التضعيف نظر؛ لأن التعريف إنما وقع بالاختلاف لا بجواز الاختلاف، وہو غيرہ، ومثلہ لا يتأتی في نفس الاختلاف، لأنا نمنع أن الاختلاف فيہا مشروط بکون المسالۃ اجتہاديۃ، وہذا لأنہ قد يقع الاختلاف في الأحکام الشرعيۃ في غير المسألۃ الاجتہاديۃ۔‘‘(نہایۃ الوصول في درایۃ الأصول، ج:۸، ص:۳۷۸۷/ ۳۷۸۸، النوع السابع عشر: فی الاجتہاد، المقدمۃ، ط:المکتبۃ التجاریۃ)
’’الأشباہ والنظائر للسبکي‘‘ میں ہے:
’’تنبيہ: قدمنا أنہ لا نقض في المسائل الاجتہاديۃ المختلف فيہا، فہل يلحق بہا ما يقع للناس من حوادث ليس فيہا خلاف للمتقدمين وإنما فيہا آراء تتجاذب؟  قد کان يقع في الذہن أنہا مثل الأول فلا ينقض فيہ، ولکن قال الشيخ الإمام رضي اللہ عنہ ومن خطہ نقلت في المسألۃ التي أشرت إليہا: إنما يطلق المختلف فيہ علی ما فيہ خلاف لمن تقدم، وأما ما يقع لنا من صور المسائل وتتجاذب الآراء فيہا فلا يقال: إنہا من المختلف فيہ، بل ينبغي أن ينظر فيہا، فإن اتضح دليل عليہا اتبع وإلا فلا، وإن حکم حاکم منہا بحکم ولم يکن عليہ دليل ينبغي جواز بعضہ، وإن کان عليہ دليل لم ينقض. انتہی. ومن خطہ نقلت وقد تستغرب ہذا ولا غرابۃ فيہ، بل الأمر إن شاء اللہ کما قال، وعليہ تحمل أقضيۃ صدرت من شريح وغيرہ نقضہا علي وغيرہ في مسائل لم يکن يقدم فيہا خلاف ولا عليہا دلالۃ قاطعۃ۔‘‘(الأشباہ والنظائر للسبکي، ج:۱، ص:۴۱۱، الکلام فی القواعد الخاصۃ، القول في المناکحات، ط:دار الکتب العلمیۃ)
’’موسوعۃ القواعد الفقہیۃ‘‘ میں ہے:
’’والخلاف: المراد بہ المسائل الخلافيۃ بين الأئمۃ - وہي ‌المسائل ‌الاجتہاديۃ۔‘‘ (ج:۱۰، ص:۵۶۰، ‌‌القاعدۃ الثالثۃ والأربعون بعد الثلاثمئۃ، ط:مؤسسۃ الرسالۃ)
 ان عبارات سے واضح ہوا کہ اجتہادی مسائل کا دائرہ کار اور اس کی حدود کیا ہیں، اس کے علاوہ بھی مذکورہ ضابطہ کے متعلق فقہ کی کتابوں میں کافی شرائط اور حدود کا ذکر ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ضابطہ مطلق وعام نہیں، وہ شرائط یہ ہیں:
۱:- حاکم کا فیصلہ ظلم پر مبنی نہ ہو، یعنی کتاب اللہ اور سنتِ رسول کے خلاف نہ ہو۔
۲:-ایسا مجتہد فیہ مسئلہ ہو کہ جس میں اختلاف کرنے والوں کا اختلاف بھی معتبر ہو،جمہور کے قول اور اجماعی فیصلہ سے ہٹ کر کوئی متروک و مہجور قول نہ ہو۔
۳:-  وہ حکم منسوخ نہ ہوچکا ہو۔
۴:- فیصلہ کرنے والا حاکم یا قاضی مجتہد اور صاحبِ رائے ہو، تبھی اس کا فیصلہ مجتہد فیہ مسئلہ میں معتبر ہوگا ، اگرچہ فیصلہ کرتے وقت اسے اس مسئلہ میں اپنے مذہب کا علم نہ ہو یا علم تو ہو، لیکن فیصلہ اپنے مذہب کے خلاف ہو، البتہ قاضی مقلد کا فیصلہ اپنے مذہب کے خلاف معتبر نہیں۔
۵:- وہ فیصلہ ایسے مسئلہ میں ہو جس کے اندر عمومِ بلویٰ ہو، یعنی جس کے حل کےلیے لوگوں کا قاضی یا حاکم کے پاس بہت آنا جانا ہو۔
مذکورہ تمہید وتفصیل کی روشنی میں سوالوں کے جواب ملاحظہ فرمائیں: 
1 صورتِ مسئولہ میں حاکم کو اجتہادی مسئلہ کے اندر اہلِ علم کے اقوال و آراء کا علم ہونا ضروری ہے، تبھی اس کا حکم رافعِ خلاف متصور ہوگا، ورنہ اجتہادی مسئلہ میں بغیر علم کے اگر اتفاقی طور پر حاکم کا کوئی فیصلہ کسی مجتہد کے قول کے مطابق ہوجائے تو وہ رافعِ خلاف نہیں، بلکہ الٹا اس حاکم کی پکڑ اور گناہ کا ذریعہ ہوگا۔
2 حاکم کا اسلامی تعلیمات سے منہ موڑ کر خالص ملکی قانون کو سامنے رکھ کر کیا جانے والا  فیصلہ بھی رافعِ خلاف نہ ہوگا، اگرچہ کسی مجتہد کے قول کے مطابق وہ فیصلہ کیوں نہ ثابت ہوجائے۔
3 پیچھے تفصیل سے گزر چکا ہے کہ اجتہادی مسائل سے مراد وہ مسائل ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان مختلف فیہ رہے ہوں، صحابہ کرامؓ کا اختلاف حلت و حرمت، جواز وعدمِ جواز، اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہوگا، جب کہ ائمہ اربعہ کے اقوال میں اختلاف در حقیقت صحابہؓ کا ہی اختلاف ہے، کیوں کہ صحابہؓ کے درمیان جو اختلاف تھا، اس میں کسی تیسرے قول کی گنجائش ہی نہیں، وہ یا تو حلال ہوگا یا حرام، جائز ہوگا یا ناجائز، اولیٰ ہوگا یا غیر اولیٰ، اور ائمہ اربعہ بھی اختلاف کرکے اس سے باہر نہیں نکل سکتے، لہٰذا صدرِ اول (زمانۂ صحابہؓ اور ائمہ اربعہؒ) کا اختلاف ہی مجتہد فیہ مسائل میں داخل ہے، اس کے بعدکے علماء و فقہاء کا اختلاف مجتہد فیہ مسائل میں داخل نہیں اور نہ ایسے اختلافی مسئلہ میں حکمِ حاکم رافعِ اختلاف ہوگا۔
4 مفتی مقلد کی طرح غیر مجتہد مقلد حاکم بھی اپنے امام کے مذہب سے ہٹ کر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا، فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے۔
’’فتاویٰ شامی‘‘ میں ہے:
’’مطلب في قضاء القاضي بغير مذہبہٖ
(قولہ: قضی في مجتہد فيہ) أي في أمر يسوغ الاجتہاد فيہ بأن لم يکن مخالفا لدليل کما مر بيانہ، وقولہ: بخلاف رأيہ متعلق بقضی، وحاصل ہذہ المسألۃ أنہ يشترط لصحۃ القضاء أن يکون موافقا لرأيہ أي لمذہبہ مجتہدا کان أو مقلدا، فلو قضی بخلافہ لا ينفذ، لکن في البدائع أنہ إذا کان مجتہدا ينبغي أن يصح، ويحمل علی أنہ اجتہد فأداہ اجتہادہ إلی مذہب الغير، ويؤيدہ ما قدمناہ عن رسالۃ العلامۃ قاسم مستدلا بما في السير الکبير فراجعہ، وبہ يندفع تعجب صاحب البحر من صاحب البدائع۔
‘‘ (فتاویٰ شامی، ج:۵، ص:۴۰۷، کتاب القضاء، فصل فی الحبس، مطلب فی قضاء القاضی بغیر مذہبہ، ط:سعید)
’’فتاویٰ ہندیہ‘‘ میں ہے:
’’قضاء القاضي في المجتہدات نافذ لکن ينبغي أن يکون عالما بمواضع الخلاف ويترک قول المخالف ويقضي برأيہ حتی يصح علی قول جميع العلماء وإن لم يعرف مواضع الاجتہاد والاختلاف ففي نفاذ قضائہ روايتان والأصح أنہ ينفذ، کذا في خزانۃ المفتين۔‘‘                (فتاویٰ ہندیہ، ج:۳  ،ص:۳۵۷ ،کتاب ادب القاضی، ط: ماجدیہ)
’’فتاویٰ قاضی خان‘‘ میں ہے:
’’(فصل فیما یقضی في المجتہدات وما ينفذ قضاؤہ فيہ ومالا ينفذ)القاضي إذا کان مجتہدا لہ أن يقضي برأي نفسہ في المجتہدات، وہذہ المسئلۃ علی وجہين:
أحدہما:  إذا کان مجتہدا وہو يعمل برأي نفسہ، فقضی برأي غيرہ. قال أبويوسف رحمہ اللہ تعالی: لا ينفذ قضاؤہ، وہو إحدی الروايتين عن محمد رحمہ اللہ تعالی، واختلفت الروايات عن أبي حنيفۃ رحمہ اللہ تعالی، في أظہر الروايات عنہ، ينفذ قضاؤہ ولا يرد،  وبہ أخذ الشيخ الإمام أبو بکر محمد بن الفضل رحمہ اللہ تعالی، وعليہ الفتوی. 
والثانيۃ:  إذا کان مجتہدا فنسي مذہبہ وقضی برأي غيرہ ثم تذکر رأيہ،  قال أبو حنيفۃ رحمہ اللہ تعالی: ينفذ قضاؤہ ولا يرد ويعمل برأيہ في المستقبل، وقال أبو يوسف رحمہ اللہ تعالی: يرد قضاؤہ وہو الصحيح من قول محمد  رحمہ اللہ تعالی أيضا، وإن لم يکن لہ رأي في المسئلۃ فاستفتی مفتيا فأفتاہ فقضی بفتواہ ثم حدث لہ رأي لا يرد قضاؤہ ويعمل برأيہ الحادث في المستقبل۔
‘‘(فتاویٰ قاضی خان، ج:۲،ص:۴۲۴، کتاب القضاء، فصل فیما یقضی فی المجتہدات،ط:دار الکتب العلمیۃ)
’’الغیث الہامع شرح جمع الجوامع‘‘ میں ہے:
’’ثم ذکر المصنف أنہ ينقض الحکم في ‌المسائل ‌الاجتہاديۃ في صورتين: إحداہما: أن يحکم المجتہد علی خلاف اجتہاد نفسہ، فہو باطل لمخالفتہ ما وجب عليہ العمل بہ من الظن. ثانيہما: أن يحکم المقلد بخلاف اجتہاد إمامہ اللہم إلا أن يفعل ذلک لتقليدہ غيرہ ويجوز ذلک فإنہ حينئذ لا ينقض، وفي الحقيقۃ صار ذلک المجتہد الثاني ہو مقلدہ في تلک الواقعۃ۔‘‘(الغیث الہامع شرح جمع الجوامع، ص:۷۰۸، الکتاب السابع فی الاجتہاد، ط:دار الکتب العلمیۃ)
’’الفتح الرباني للإمام الشوکاني‘‘ میں ہے:
’’ومما ينبغي التنبيہ لہ: أن نصوص المذھب قاضيۃ بأن الحاکم الذي لا يجوز نقض حکمہ ہو حاکم المجمع عليہ الذي کملت لہ الشروط المعتبرۃ، وأما من کان فاقدًا لبعض تلک الشروط أو لغالبہا فأہل المذہب الشريف لا يجعلون حکمہ حکمًا ولا يمنعون من نقضہ إذا خالف الحق۔‘‘(الفتح الرباني للإمام الشوکاني، ج:۵، ص:۲۲۹۳، الفقہ واصولہ، بحث فی نقض الحکم اذا لم یوافق الحق، ط:مکتبۃ الجیل)
     

  

فقط واللہ اعلم

الجواب صحیح

الجواب صحیح

کتبہ

ابوبکر سعیدالرحمن  

محمد انعام الحق

اعجاز احمد ہزاروی

  

تخصص فقہ اسلامی

  

جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین