بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو الحجة 1446ھ 02 جون 2025 ء

بینات

 
 

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط تأثرات، گزارشات (چوتھی قسط)

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط

 

تأثرات، گزارشات

 

(چوتھی قسط)


عربی ادب میں مقامہ نگاری اور اس کا تعارف

ہر قوم کی ایک ادبی تاریخ ہوتی ہے، اور ایک سیاسی واجتماعی تاریخ، بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں تاریخیں ایک دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہیں تو بے جا نہ ہوگا؛ کیوں کہ ادبی تاریخ کا ظہور اور فکر وتخیلات پہلے وجود میں آتی ہیں، اس کے نتیجے میں سیاسی، اجتماعی اور انقلابی تاریخ ظہور پذیر ہوتی ہے۔
فنِ ’’مقامۃ‘‘ عربی ادب کی ایک عمدہ اور قدیم تخلیقی، فنی اور پیچیدہ صنف ہے، جس نے ادبی فنکاروں اور زبان دانوں کو ہمیشہ متأثر کیا ہے۔ اس میں زبان کی چابک دستی، خیال کی ندرت، اور انسانی نفسیات کی گہرائی کو انتہائی خوبصورتی سے پیش کیا جاتا ہے۔ عربی ادبیات میں مقامہ نگاری نے نثر کو وہ مقام دیا جو عام طور پر شاعری کو حاصل تھا۔اس کی ابتدا چوتھی صدی ہجری میں ہوئی، اور ہر دور کے اندر اس فن میں بہت سے نامور اُدباءنے اپنےعمدہ جوہر دکھائے، چنانچہ ذیل کی سطور میں ’’مقامۃ‘‘ کے لغوی، تحقیقی اور تاریخی پہلؤوں کو اُجاگر کیا جائے گا۔
’’مقامۃ‘‘ کی لغوی تحقیق
لفظِ ’’مقامۃ‘‘ اسمِ ظرف ہے، اہلِ لغت کے ہاں اس کا استعمال کئی معانی میں ہوتاہے، ان میں سے چند کا یہاں ذکر کیا جاتا ہے:
1- کھڑے ہونے کی جگہ، پھر اس میں وسعت پیدا ہوئی، حتیٰ کہ مجلس ومکان کے لیے استعمال ہونے لگا۔
2- مجلس اور جگہ، اس معنی میں اس کا استعمال بکثرت پایاجاتاہے، پھر کثرتِ استعمال کی وجہ سے اہلِ مجلس پر بولا جانے لگا، جیسے کہ اہلِ مجلس کو مجلس کہتے ہیں۔
3- وعظ ونصیحت کا معنی بھی مستعمل ہے، جیسے: مقامات الخطباء (خطباء کی نصائح)، مقامات القُصَّاص (قصہ گوئیوں کی نصائح)، مقامات الزُّہاد (زاہدوں کی نصائح) اسی پر ایک کتاب ہے جس کانام: ’’مقامات العلماء بين يدي الأمراء والخلفاء‘‘ ہے، جو علماء کی ان نصائح ومواعظ پر مشتمل ہے جو انہوں نے امراء وسلاطین کی مجالس میں مختلف مواقع پر بیان فرمائی تھیں۔
4- ’’مقامۃ‘‘ ایک خاص ادبی صنف، کہانی، لطیفہ، چٹکلہ کے لیے بھی استعمال ہوتاہے، جس کی عبارت مقفّٰی اور مسجّع ہوتی ہے، جیسا کہ عنقریب اس کا تفصیلی تذکرہ اگلی سطور میں آرہاہے، او ر یہاں یہی چوتھا معنی مراد ہے۔ 

’’مقامۃ‘‘ کا تحقیقی تعارف

’’مقامۃ‘‘ میں عموماً مؤلف اپنی باتوں کی نسبت کسی اور کی طرف کرتے ہیں، گویا ساری باتیں وہ بیان کررہے ہوتے ہیں، اور وہی بنیادی کردار ہوتے ہیں، پھر ان باتوں کو نقل کرنے والا کوئی اور ہوتاہے، جسے راوی کہاجاتاہے، جبکہ یہ دونوں حضرات حقیقت میں فرضی نام ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر احمد حسن زیات ’’مقامۃ‘‘ پر روشنی ڈالتے ہوئےلکھتے ہیں:
’’مقامۃ‘‘ ایک مختصر اور خوبصورت اُسلوب پرمشتمل حکایت کو کہتے ہیں جو نصیحت یا چٹ پٹی باتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔‘‘ ۔۔۔آگے لکھتے ہیں: ’’یہی وہ زمانہ تھا جس میں ادب اور انشاء پردازی عروج پر تھی، اس فن میں بدیع الزمان نے ایسی عمدگی اور جدت پیدا کی کہ اسے اس فن کا امام تصور کیاجانے لگا۔ ‘‘
ڈاکٹر شوقی ضیف لکھتے ہیں:
’’مقامۃ‘‘ عربی ادب میں ایک منفرد صنف ہے جس میں نثر اور بعض اوقات شعر کا امتزاج ہوتا ہے، اور اسے مکالماتی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ‘‘
’’مقامۃ‘‘ کا بنیادی مقصد ادبی اور لسانی مہارت کا اظہار تھا، جس میں فصیح اور بلیغ زبان استعمال کی جاتی تھی۔ یہ ایک ادبی کھیل یا چالاکی کا اظہار بھی تھا، جہاں کہانی کا مرکزی کردار، عام طور پر ایک چالاک شخص اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے۔
’’مقامۃ‘‘ کی ساخت پر بات کرتے ہوئےشوقی ضیف لکھتے ہیں: 
’’مقامۃ‘‘ میں اکثر ایک کہانی سنانے والا (راوی) اور ایک چالاک، ذہین کردار (عام طور پر ابو الفتح الاسکندری اور حارث بن ہمام جیسے کردار) شامل ہوتے ہیں۔ یہ کردار مختلف شہروں میں گھومتے ہیں اور اپنے فن یا چالاکی سے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘
علاوہ ازیں اس میں نہ صرف ادبی خوبصورتی اور لسانی مہارت دکھائی جاتی ہے، بلکہ اس میں سماجی و اخلاقی مسائل پر طنز و مزاح بھی ہوتا ہے۔ ان مقامات میں کرداروں کے مکالمات کے ذریعے مختلف معاشرتی مسائل کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ عباسی دور کے بعد اس صنف کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی، لیکن اس کا اثر بعد کے ادبی دور میں بھی نظر آتا ہے۔ 
یہ فن‘ عباسی دور میں ظہور پذیر ہوا۔ عباسی دور کے دو مراحل ہیں: پہلا مرحلہ: ۷۵۰عیسوی (۱۳۲ھ) سے‎۸۱۳‎ عیسوی مطابق (۱۹۸ھ) تک ہے۔ اس کے بعد عباسی دور کا دوسرا مرحلہ: ‎۸۱۳ عیسوی (۱۹۸ھ) سے ‎۱۲۵۸‎ عیسوی (۶۵۶ھ) تک ہے۔ اس کا عرصہ تقریباً ۵۲۴ سال پر محیط رہا۔ عمومی طور پر دونوں ادوار میں علمی وادبی ترقی ہوئی، جب کہ فنِ ’’مقامۃ‘‘ دوسرے عباسی دور کا خاصہ رہاہے۔ 

’’مقامۃ‘‘ کا واضع اور اس کی ابتدا

اس سلسلے میں مختلف آراء پائی جاتی ہیں کہ ’’مقامۃ‘‘ کب سے شروع ہوا اور اس کی بنیاد کس نے ڈالی؟ 
۱- چنانچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مقامہ نویسی کی ابتدا بنی عباس کے زمانے کے وسط میں ہوئی، کہتے ہیں کہ مقامہ نگاری کی ابتدا ابن فارس نے کی ہے، پھر ان کی تقلید میں ان کے شاگرد بدیع الزمان ہمذانی نے گداگری اور دیگر موضوعات پر چار سو مقامات املا کروائے، جو اتنے عمدہ اور دلچسپ تھے کہ ان کی وجہ سے وہ اس فن کے امام بن گئے، لیکن اس کے مقامات میں سے صرف ۵۳‎ مقامات مل سکے ہیں، بعد ازاں علامہ حریری نے پچاس مقامے لکھے، جن میں بدیع الزمان ہمذانی کی پیروی کی، ان بلند پا یہ ادیبوں کے بعد بہت سے اِنشا پردازوں نے مقامہ نگاری کو اپنا موضوع بنایا، لیکن وہ ان دونوں کے مرتبہ کو نہ پہنچ سکے۔ 
۲- مؤرخین اور ادباء اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے پہلے مقامات لکھنے والے علامہ بدیع الزمان ہیں، علامہ حریری نے بھی اپنی مقامات کے مقدمہ میں ان کو مقامہ کا واضعِ اول قرار دیا ہے۔ 
۳- زکی مبارک کی رائے یہ ہے کہ مقامہ کا سب سے پہلے واضع تیسری صدی کے ماہرِ لغت عالم ابن درید (۲۲۳ھ- ۳۲۱ھ) ہیں، جب کہ نامور ادیب علامہ مصطفیٰ صادق الرافعی نے اس نظریہ کی تردید کی ہے۔ 
 بعض لوگوں نے دونوں کی را ئے میں تطبیق دی ہے کہ زکی مبارک نے جن عبارات سے استدلال کیا ہے، اگر ان عبارات سےان کا مقصد یہ ہوکہ بدیع الزماں نے ابن درید کے اسلوب سے استفادہ کیا ہے تو یہ درست ہے، چنانچہ مقاماتِ ہمذانی میں اس کے کئی قرائن موجود ہیں، اور اگرز کی کا مقصد یہ ہے کہ اس فن کا مؤسس اور بانی ابن درید ہے تو یہ غلط ہے اور رافعی کا نظریہ درست ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ فن مقامہ کے واضع اول علامہ بدیع الزمان ہیں، لیکن انہوں نے ابن درید کے طریق کار اور اسلوب سے استفادہ کیا ہے، اور علامہ حریری نے ان کے طرز پر اپنی کتاب مقاماتِ حریری ترتیب دی ہے، ان کے بعد کئی لوگوں نے ان کی پیروی کی۔

مقامہ نگاری کے مقاصد

اس سلسلہ میں اُدباء کا مرکزی نکتہ اور بنیادی غرض اپنی ادبی صلاحیتوں کا اظہار اور مضامین میں جدت اور تنوُّع پیش کرنا ہے، اگر اس کے ساتھ ساتھ مختلف اُدباء کے مقامات مختلف موضوعات کا فائدہ بھی دیتے ہیں، مثلاً:
1- علامہ حریری کی غرض جمعِ لغات رہی ہے، اور یقیناً حریری اس میں کامیاب رہے ہیں۔ 
2- ابن جوزی اور زمخشری نے وعظ و نصیحت اور اخلاق کو موضوع بنا کر مقامات پیش کیے۔
3- محض اپنی مہارت اور تفوُّق جتلانا، اکثر اُدباء نے اسی غرض سے مقامات تالیف کیے۔ ان میں مشہورترین مؤلف نا صیف یاز جی نصرانی ہے۔ 
4- علوم کو معمات اور چٹکلوں میں پیش کرنا، چنانچہ بہت سے اُدباء نے لغوی، حرفی، نحوی، فقہی مباحث کو لطائف ومعمات میں پیش کیا ہے، جیسے علامہ زمخشری، عائض قرنی، و غیرہ۔
5- جانوروں کی زبانی بحث واعتراض، جدل و مناقشہ کے نئے نئے طریقے پیش کرنا، ابن الوردی اور ابن الحبیب کی مقامات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ 
6- نقد و معارضہ کرنا، اُدباء کی ایک جماعت نے اپنے پیش رو اُد باء پر نقد و جرح اور معارضہ کرنے کے لیے بھی فنِ مقامہ کا انتخاب کیا، چنانچہ علامہ آلوسیؒ نے زمخشری، شیخ عثمان نے حریری کے معارضہ ومقابلہ میں مقامات لکھے ۔ ایسے ہی سیوطیؒ نے اپنے معاصر اہل علم پر نقد کو اپنے مقامات کا موضوع بنایا ہے ۔ 

مقامات نامی چند کتابیں

علامہ بدیع الزمان ہمذانی نے جب اپنے مقامات تحریر کیے اور حریری نے اس فن کے ستون مضبوط کیے تو اس کے بعد کئی لوگوں نے اس فن میں اپنی تحریریں شامل کرنے کی کوشش کی، لیکن کسی بھی مصنف کو ایسا نیا اضافہ کرنے میں کامیابی نہ مل سکی جو ہمذانی اور حریری کی تحریروں کا مقابلہ کر سکے، چنانچہ حریری اور ہمذانی کے بعد مقامات لکھنے والے اُدباء کی ایک لمبی فہرست ہے، ان کے بعد کئی اُدباء نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کی، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
1- مقاماتِ ہمذانی : یہ علامہ بدیع الزمان ہمذانی (۳۵۸-۳۹۸ھ) کی ہے،جس نے سب سے پہلے مقامات تصنیف کیے۔ ان کے تحریر کردہ مقاموں کی تعداد چار سو ہے، جن میں صرف ۵۳ مقامے مطبوع اور دستیاب ہیں، اس میں ابو الفتح اسکندری کی طرف نسبت کی گئی ہے، جبکہ راوی ابن ہشام ہے۔
2- مقاماتِ حریری: یہ علامہ ابو محمد قاسم بن علی محمد البصری حریری (متوفی: ۵۱۶ھ/ ۱۱۲۲ء) کی ہے، ان مقامات کی کل تعداد پچاس ہے، جن میں دس مقامے درسِ نظامی میں شامل ہیں؛ اسی وجہ سے رائج نسخے دس مقاموں پر مشتمل ہیں، علامہ حریری نے کم و بیش ۹ سال اس پر محنت کرنےکے بعد ۵۰۴ھ میں اسے مکمل کیا۔
3- مقاماتِ سرقسطی: یہ علامہ السرقسطی ابن الاشتر کوفی (متوفی: ۳۵۸ھ/ ۹۶۸ء) یہ پچاس مقامات پر مشتمل ہے، اس میں منذر بن حمام کی زبانی سائب بن تمام کا واقعہ بیان کیا ہے۔
4- مقاماتِ زمخشری: یہ علامہ ابو القاسم محمود بن عمر بن محمد جار اللہ زمخشری (متوفی: ۵۳۸ھ/ ۱۱۴۳ء) کی ہے۔
5- مقاماتِ اعظم رازی: یہ علامہ احمد بن محمد رازی کی مقامات ہے، یہ علامہ اعظم رازی کے نام سے مشہور تھے، جس کے مقاموں کی تعداد ۱۲ ہے۔ ان مقامات کا راوی القعقاع بن زنباع ہے۔ اعظم رازی اس کی تحریر وتالیف سے ۶۳۰ ھ میں فارغ ہوئے۔
6- المقامات المسیحیۃ: یہ علامہ ابو العباس یحییٰ بن سعید ابن ماری نصرانی بطری الطبیب (متوفی: ۵۸۶ھ/۱۱۹۰ء) کی ہے۔ 
7- المقامات الزینیۃ: یہ علامہ زین الدین بن صیقل الجزری (متوفی: ۷۰۱ھ/ ۱۳۰۱ء) کی ہے، مقامات کی تعداد پچاس ہے، اس کی نسبت ابو نصر مصری کی طرف ہے، اور راوی قاسم بن جریان دمشقی ہیں۔
8- مقاماتِ سیوطی: یہ علامہ جلال الدین سیوطی ؒ (متوفی: ۹۱۱ھ/ ۱۵۰۵ء) کی ہے۔‎جلال الدین سیوطیؒ (جو نویں صدی ہجری کے مشہور علماء میں سے ہیں) نے بھی اپنی بعض تحریروں کو ’’مقامہ‘‘ کا عنوان دیاہے، مگر انہوں نے اس کی ساخت اور انداز پر زیادہ توجہ نہیں دی، بلکہ موضوع اور معانی پر زیادہ زور دیا۔ 
احمد شوقی نے درست لکھا ہے کہ حریری کے بعد انہی کی مقامات اہلِ ادب کے لیے قبلہ و کعبہ بن گئی ۔
یہ ’’مشتے از خروارے‘‘ کے طور پر مشہور مقامات کے نام ذکر کیے گیے ہیں، کچھ تووہ حضرات ہیں جنہوں نے مقامات کے نام سے مستقل تالیف کی، تاہم کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک یا دو مقامے تحریر کیے ہیں۔ اکثر مقامات مرورِ زمانہ کی وجہ سے ناپید ہو چکی ہیں۔ ان کے علاوہ ان علماء کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے مقامات تحریر کیے ہیں، جن کے نام ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔

(جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین