بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

بینات

 
 

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط تأثرات، گزارشات (پہلی قسط)

عربی زبان وادب کے اصولِ تدریس وضوابط

تأثرات، گزارشات

(پہلی قسط)


عربی زبان کی اہمیت و ضرورت

اللہ تعالیٰ تمام کائنات اور زبانوں کا خالق ہے، اس نے اپنی کمالِ حکمت کے مطابق عربی کو اپنے محبوب دینِ اسلام، اپنے آخری نبی حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  اور اپنی آخری اَبدی کتاب قرآن حکیم کے لیے منتخب فرمایا ہے، اب یہ اسلام کے تمام چشموں کی محافظ اور امین ہے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی عبادت اور قرب ومناجات کا ذریعہ بنایا ہے۔ عربی کی یہ منفرد حیثیت اسے دوسری تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ اس طرح چشمۂ اسلام سے فیض یابی کے لیے عربی زبان کی مناسب تعلیم کے حصول کو ہر مسلمان کے لیے ضروری اور لازمی قرار دیا گیا ہے۔ یوں ہر باشعور مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بنیادی عربی زبان سیکھ کر قرآن کریم کوسمجھے اور اپنے محبوب دینِ اسلام کی بنیادی تعلیمات سے براہِ راست آگاہی کا شرف حاصل کرے، اور کم ازکم اپنی نماز اور عبادت کے کلمات اور اذکار کو سمجھ کرادا کرے اور اپنے خالق سے براہِ راست مناجات کا قرب حاصل کرے اور حتی المقدور ایمان کی لذت اور حلاوت حاصل کرے۔ 
عربی زبان کی اہمیت دینی اور دنیاوی دونوں مقاصد کے لیے ناگزیر ہے، چنانچہ حضرت علامہ بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  لکھتے ہیں: 
’’الغرض دینی علوم ہوں یا اسلامی تاریخ، وحی الٰہی کا منبع ہو یا تعلیم وتربیتِ نبوی کا سرچشمہ، اتحادِ اسلامی کا عظیم مقصد ہو، یا بین المملکتی سیاسی مفاد ومصالح، ہر لحاظ اور ہر حیثیت سے عربی زبان کی اہمیت سے انکار جنون کے مرادف ہے۔‘‘                   (بصائر وعبر ، ج: ۱، ص:۲۴۰)
عربی زبان سیکھنے کے دو پہلو ہیں: ایک یہ کہ اتنی عربی سیکھی جائے جس سے انسان روز مرہ کی بول چال پر قادر ہوسکے، یہ ایک عام پہلو ہے جسے صرف ونحو سے ناواقف عام آدمی بھی چند ماہ میں سیکھ سکتاہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ عربی زبان کے ادب ولغت کی مہارت، اور لسانی علوم وفنون سے واقفیت حاصل کی جائے، اس کے لیے ایک عرصہ درکا ر ہوتاہے، یہ پہلو بہت کم افراد کے حصہ میں آتاہے، چنانچہ حضرت بنوریؒ ان دونوں پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں: 
’’عربی زبان سیکھنے کے لیے جہاں تک معمولی نوشت و خواند کا تعلق ہے، صرف تین چار ماہ کا عرصہ کافی ہے، ہاں! عربی زبان و ادب کی مہارت اور لسانی علوم وفنون: صرف ونحو، معانی و بیان و بدیع، لغت و اشتقاق و محاضرات، قرآنی اعجاز کے حقائق تک پہنچنا اس کے لیے تو بے شک عمریں درکار ہیں اور یہ مرحلہ اتنا مشکل ہے کہ اُمتِ محمد یہ کے مخصوص افراد کے حصہ میں بھی بمشکل ہی آتا ہے۔ مشہور ہے کہ قرآنی اعجاز کی نقاب کشائی امت میں صرف شیخ عبد القاہر جرجانی اور علامہ زمخشری ہی کر سکے ہیں، چنانچہ مشہور مقولہ ہے کہ : 
’’لم يدر إعجاز القرآن إلا الأعرجان۔‘‘
’’قرآنی اعجاز کی دقیق معرفت تک دو ہی ہستیاں پہنچیں اور اتفاق دیکھئے کہ وہ دونوں اَعرج (لنگڑے) تھے۔‘‘
ہمارے شیخ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ قدس اللہ سرہٗ اس پر ذیل کا جملہ اضافہ فرماتے ہیں: ’’أحدہما من زمخشر والآخر من جرجان۔‘‘ ، ’’ایک زمخشر کا رہنے والا ہے اور دوسرا جر جان کا۔ ‘‘
اور فصیح عربی زبان کے مقابلہ میں عوامی بول چال کی عربی تو اور بھی آسان ہے، اس میں صرف ونحو کے قواعد کی پابندی نہیں کرنی پڑتی، اگر عربی کو عربی میں پڑھا جائے اور ذراسی لکھنے کی مشق کرائی جائے تو چند ہفتوں میں اچھی خاصی عربی بول چال اور نوشت و خواند کی مہارت پیدا ہو جاتی ہے۔
حاصل یہ ہے کہ اگر دین کی ضرورت پیش نظر ہو تب بھی عربی علوم سے استغنا ممکن نہیں اور اگر دنیا کے مصالح خصوصاً اقتصادی و سیاسی مفادات پیش نظر ہوں تب بھی عربی زبان و ادب سے استغنا صحیح اور معقول نہیں۔‘‘                                    (بصائر وعبر، ج: ۱، ص: ۲۴۲)

عربی زبان کی تعلیم و ترویج 

سرزمینِ پاکستان میں سینکڑوں ایسے مدارس ومعاہد وجود میں آئے ہیں جو عربی زبان کی تعلیم وترویج کے لیے کوشاں ہیں، کچھ مدارس نے درسِ نظامی کی تکمیل کے بعد فضلاء کےلیے سالانہ دوروں اور تخصصات کا بھی آغاز کیا ہے جو ہمارے ملک میں عربی کی ترقی کے لیے خوش آئند بات ہے۔
ہمارے تعلیمی اداروں میں عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے دوران کئی صورتوں میں اس کے عملی استعمال کی راہیں نکل سکتی ہیں، چنانچہ عربی زبان کو رائج کرنے کی چند آسان تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں، بطور مثال چند صورتیں درج ذیل ہیں:
۱-ہماری نصابی کتابوں میں تمرین وتربیت کی مشقیں شامل کردی جائیں۔
۲- اساتذہ بول چال اور تحریر کی مشقیں کرانے کا اہتمام کریں۔
۳-عربی زبان پڑھانے کے لیےاداروں میں تشریح وتعلیم کے لیے تختۂ سیاہ کا استعمال لازم قرار دیا جائے۔
۴- اداروں کے داخلی ماحول میں عربی بول چال کا ماحول پیدا کیا جائے۔
۵-ہمارے اساتذہ بھی اپنے اسباق کے دوران کلاس میں ایسا عربی ماحول پیدا کریں، جس سے استاذ اور طلبہ کے درمیان باہمی گفتگو میں عربی زبان کے روزمرہ محاورے استعمال ہوں۔
۶- اس طرح طلبہ کو صرف عربی الفاظ یا عبارتوں کا مقامی زبان اردو یا پشتو وغیرہ میں ترجمہ نہ کرایا جائے، بلکہ عربی الفاظ وعبارات کی قراءت کے بعد اس کے عملی استعمال کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ 
یوں اپنے تمام اسباق اور تمام تعلیمی مراحل میں عربی زبان کو عملاً اور مسلسل رائج کریں۔ اس سے طلبہ وطالبات میں عربی جیسی آسان زبان کو بھی لکھنے اور بولنے کی غیر معمولی صلاحیت پیدا ہوجائے گی۔ 

ادبِ عربی کی تدریس کے مختلف طرق واَسالیب

ہمارے ہاں عربی ادب کی کتابوں کے مختلف طریقے رائج ہیں، بطور مثال یہاں ’’القراءۃ الراشدۃ‘‘ کے مختلف تدریسی طریقے لکھے جاتے ہیں، پھر ہر ایک پر گفتگو ہوگی۔

پہلا طریقہ 

ایک طریقہ یہ ہے کہ استاذ ’’القراءۃ الراشدۃ‘‘ کے سبق کی عبارت خود پڑھے، اور طلبہ کو اس کے الفاظ اور جملوں کا لفظی اردو ترجمہ بتائے، جسے وہ سنیں اور ذہن نشیں کریں، یا اسے کاپیوں میں نوٹ کریں۔ اس طرح تمام طلبہ اپنے معلم سے سبق کی عبارت کا لفظی اردو ترجمہ پڑھ کر اُسے یاد کرتے ہیں۔ ’’القراءۃ الراشدۃ‘‘ پڑھانے والے استاذ کے پاس اپنی تیاری کے لیے اس کتاب کی اردو شرح یا اس کا صرف اردو ترجمہ موجود ہو، جس سے آئندہ سبق کی تیاری کرے۔ اس طرزِ تدریس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ طلبہ کو سبق کی عبارت کا صرف لفظی اردو ترجمہ سمجھ میں آجاتاہے۔

دوسرا طریقہ 

دوسرا طریقۂ تدریس یہ ہے کہ استاذ سبق کے آغاز میں تختۂ سیاہ پر مناسب اور خوبصورت خط سے سبق کے منتخب الفاظ کی تشریح لکھے، جس میں عربی افعال کے معانی اور ان کے ماضی، مضارع اور مصدر، نیز اسم مفرد کا معنی اور جمع، اور جمع اسم کا معنی اور مفرد وغیرہ۔ طلبہ الفاظ کی اس تشریح کو اپنی کاپیوں میں نقل کرکے اسے یاد کرلیتے ہیں۔ بعد ازاں استاذ سبق کی تدریس اس طرح کرتا ہے کہ ایک طالب علم سبق کی عبارت پڑھتا ہے اور استاذ اس کا اردو ترجمہ کرتا جاتا ہے۔ یوں پہلے سبق مکمل کیا جاتا ہے اور طلبہ سبق کی عبارت کا اُردو ترجمہ آسانی سے سمجھ جاتے ہیں، اور مختلف عربی الفاظ کی تشریح سے واقف ہوتے ہیں۔ اس طریقۂ تدریس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ طلبہ سبق کی عبارت کا اردو ترجمہ اورالفاظ کی تشریح سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔

تیسرا طریقہ

تیسرا طریقہ یہ ہے کہ استاذ اور ہر طالب علم کے پاس ’’القراءۃ الراشدۃ‘‘ کی ’’کراسۃ الواجب‘‘ موجود ہو۔ وہ اس ’’کراسۃ الواجب‘‘ کے مطابق سبق کے آغاز میں بورڈ پر سبز مارکر سے منتخب الفاظ کے معنی اور تشریح لکھے، جسے ہر طالب علم بلند آواز سے پڑھے، اور اس کے صحیح تلفظ کی مشق کرے۔ اس کے بعد وہ اسے اپنی کاپی میں درج کرلے۔ 
اس کے بعد استاذ عربی میں کہے: ’’الآن بدأ الدرس، الآن نبدأ الدرس۔‘‘ اور سبق کی تدریس شروع ہوجائے، تو سبق کو استاذ خود نہ پڑھے، بلکہ اسے باری باری مختلف طلبہ سے پڑھوائے، اور استاذ اس کا بامحاورہ اردو ترجمہ بتاتار ہے۔ پھر وقتاً فوقتاً طلبہ کو مناسب ہدایات دیتے ہوئے عربی بولے، مثلاً: ’’الآن اقرأ أنت یاخالد!، الآن اقرأ أنت یا حمزۃ!‘‘ اور کسی طالب علم کے اچھے نطق پر ’’أحسنت! بارک اﷲ فیک‘‘ اور کسی سے غلطی سرزد ہونے پر ’’لا، یا عبدَالرحمٰن‘‘ اور سبق کے اختتام پر ’’الآن انتہی الدرس، الآن انتہت الحصۃ‘‘ وغیرہ۔ نیز استاذ طلبہ کو جملوں کا لفظی ترجمہ سکھانے کے بجائے ان کا بامحاورہ ترجمہ بتائے۔ اس طرح استاذ پہلے سبق کی تدریس مکمل کرلے۔
پھر طلبہ کو ’’کراسۃ الواجب‘‘ کے مطابق اس سبق پر عربی میں بول چال کی مشق کرائے، جو دو مشقوں پر مشتمل ہو۔ پہلی مشق میں سبق کے مضمون کے بارے میں عربی زبان میں چھوٹے چھوٹے سوال دے۔ استاذ ایک سوال بولے تو طلبہ اس کا جواب دیں۔ اگر طلبہ کا جواب غلط یا ناقص ہو تو استاذ اُسے درست کرائے۔ دوسری مشق میں سبق کے بارے میں لکھے ہوئے جملوں میں خالی جگہوں کو مناسب الفاظ سے پُرکرنے کی مشق کرائی جاتی ہے۔
عربی بول چال کی ان دونوں مشقوں کو طلبہ دو بار زبانی اور تحریری دونوں طرح حل کرلیں؛ پہلے کلاس میں اپنے استاذ کی نگرانی میں زبانی حل کریں، اور پھر انہیں اپنی کاپیوں میں تحریری طور پر حل کرکے لائیں اور استاذ اس کی حسب ضرورت تصحیح کرتا رہے۔ 
اس طریقۂ تدریس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ طلبہ سبق کی عبارت کا با محاورہ اردو ترجمہ سیکھ جاتے ہیں اور مختلف عربی الفاظ کی لغوی تشریح کے ساتھ ان کے تلفظ کی صحت سیکھتے ہوئے روزمرہ کی ابتدائی عربی زبان کو سمجھنے، لکھنے اور بولنے لگتے ہیں ؛کیونکہ انہیں عربی لکھنے اور بولنے کا اچھا ماحول میسر آیا ہے۔

چوتھاطریقہ 

بعض مدارس میں عربی سکھانے کےلیے تصاویر پر مشتمل کتب پڑھائی جاتی ہیں، جن کتابوں میں جاندار کی تصاویر نقش ہوں ان کا پڑھانا درست نہیں، تاہم صرف بے جان چیزوں کی تصاویر کی گنجائش ہے۔
 اس کا طریقہ یہ ہو کہ ایسی کتابیں جو تصاویروالی ہوں، چونکہ ہر چیز کی تصویر کے ساتھ اس کا عربی نام لکھا ہوا ہوتا ہے؛ اس لیے اس میں الفاظ کا اردو ترجمہ نہ کرایا جائے، بلکہ ہر چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کا عربی نام پڑھنے کی مشق کرائی جائے، اور اگر طالب علم سے کسی اسم کی خواندگی میں تلفظ کی غلطی واقع ہو تو اُسے درست کرایا جائے۔ اگرچہ کلاس کے طلبہ بالکل نئے ہوں اور پہلے دن عربی زبان پڑھنے لگے ہوں، اس کے باوجود انہیں سبق براہِ راست عربی میں پڑھنا آجائے اور بولنے کی مشق کرا ئی جائے۔ تمام طلبہ کو ضروری ہدایات بھی عربی میں دی جائیں، اور جہاں دِقت پیش آئے، اشارے سے کام لیا جائے۔  
اس کے بعد پہلا سبق ختم ہوجائے تو استاذ انہیں کسی چیز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ’’ما ہٰذا؟‘‘ سے سوال کرنا سکھا دے، اور اس کا جواب بھی ’’ہٰذا قلم‘‘ وغیرہ سمجھا دیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک اہم اضافی مشق یعنی کسی شخص کے بارے میں سوال کرتے ہوئے ’’من ہٰذا؟‘‘ اور اس کا جواب بھی سکھا دیا جائے، اور اس کے لیے کلاس کے طلبہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ’’من ہٰذا؟ ہٰذا أکرم، من ہٰذا؟ ہٰذا جمیل الرحمٰن‘‘ وغیرہ کی مشق کرادی جائے، اور اس نہج کو جاری رکھتے ہوئے سبق کی تینوں مشقیں بھی حل کر ا دی ہیں۔
یوں یہ نووارد طلبہ پہلے سبق میں ہی اٹھارہ بیس چیزوں کے عربی نام سیکھ لیں گے، اوران کے بارے میں سوال وجواب کی مشق بھی ہوجائے گی، اور مجموعی طور پر پہلے ہی دن ’’ہٰذا ۔۔۔، ہٰذا ۔۔۔‘‘ کی طرح کے تیس سے زیادہ عربی جملے فرفر بول سکیں گے۔پھر استاذ طلبہ کو ہدایت دے کہ وہ کل ان مشقوں کو اپنی کاپیوں میں تحریر کرکے لائیں۔
اس طرزِ تدریس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طلبہ سبق کے جملوں کو براہِ راست سمجھنے کے علاوہ انہیں باربار پڑھنے بولنے اور لکھنے کے قابل ہوجائیں گے، اور ان کے تلفظ کی تصحیح بھی کرچکے ہوں گے؛ کیونکہ انہیں خالص عربی ماحول میں بول چال کی مشق کرنے کا موقع میسر آگیا ہوگا۔

ادبِ عربی کا معیاری طریقۂ تدریس

گزشتہ سطور میں بنیادی عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے جن چار مختلف طریقوں کا ذکر کیا گیاہے، آپ غور کرکے دیکھیں کہ تدریس کا پہلا طریقہ بالکل سادہ ہے، اور اس میں عربی عبارت کا صرف لفظی اردو ترجمہ سکھایا جاتا ہے، جس سے طلبہ کو ادبی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
دوسرے طریقے میں اردو ترجمہ کے ساتھ منتخب الفاظ کی تشریح سکھائی جا تی ہے، جبکہ تیسرا طریقۂ تدریس کئی طرح کی محنت اور منصوبہ بندی سے تیار کیا جاتا ہے اور اس سے پانچ فوائد حاصل ہوتے ہیں: ۱-بامحاورہ اردو ترجمہ، ۲-الفاظ کی تشریح، ۳-نطق کی تصحیح، ۴-عبارت کا مکمل فہم اور ۵-عربی لکھنے بولنے کی استعداد۔
اسی طرح چوتھا طریقۂ تدریس بھی بڑی مہارت اور توجہ سے تیار کیا گیا ہے۔ یہ کسی زبان کی تدریس کا سب سے زیادہ مؤثر اور نہایت کامیاب طریقۂ تدریس ہے، اور تمام مقاصد اور فوائد کی تکمیل کرتا ہے۔ اس سے طلبہ کو اردو ترجمہ کے بجائے براہِ راست عربی زبان میں غور وفکر کرتے ہوئے اسے پڑھنے لکھنے اور بولنے کی مہارت حاصل ہوجاتی ہے۔                                          (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین