بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عربی زبان سیکھنے کے اہم اصول وضوابط (پہلی قسط)


عربی زبان سیکھنے کے اہم اصول وضوابط

                      (پہلی قسط)

عربی زبان کی دو حیثیتیں ہیں: پہلی حیثیت: تو یہ کہ عربی زبان قرآن وسنت کی زبان ہے، اور اس میں مسلمانوں کی دینی اصطلاحات والفاظ کا بیان ہے، اسے سمجھے بغیر اسلام کے نظام واحکام کو سمجھنا اور اس کے ساڑھے چودہ سو سال پر محیط عظیم تاریخی ذخیرہ سے استفادہ کرنا مشکل ہے۔ یہ حیثیت اہم ترین اور مسلمانوں کی اس زبان سے وابستگی اور دلچسپی کی اصل وجہ ہے، اور اس کی وجہ سے ہر مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اسے بے تکلف اور صحیح طور پر سمجھتے اور پڑھ سکتے ہوں۔ دوسری حیثیت: یہ ہے کہ عربی زبان ابتدائے اسلام سے لے کر آج تک اسلامی تاریخ کے ہر دور میں ایک زندہ زبان رہی ہے، اور فی زمانہ بھی ایک زندہ، ترقی یافتہ زبان ہے جوکہ اظہارِ خیال کی پوری صلاحیت رکھتی ہے، اور قرآن کریم کی وجہ سے اپنی اصلی حالت میں محفوظ ہے، اس حیثیت کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمانوں کا اس سے ایک مضبوط اور عملی تعلق ہو،اس میں بے تکلفی سے تقریر وتحریر کرسکتے ہوں، حتیٰ کہ وہ عام لوگوں کی مجالس کی زبان ہو، بڑی عجیب او رناقابلِ فہم بات ہے کہ کوئی فرد یا جماعت اپنی زندگی کا ایک معتدبہ حصہ اور ذہنی صلاحیتیں ان علوم کے پڑھنے پڑھانے میں صرف کرے جو عربی زبان میں لکھی گئی ہیں، لیکن اس زبان میں عام گفتگو کرنےسے بالکل معذور اور قاصر ہو، زبان فہمی کا یہ عجیب وغریب سلسلہ صرف ہمارے ہاں برِصغیر پاک وہند کی خصوصیت ہے، جو کہیں اور نہیں پائی جاتی ۔
اس کمزوری کی اصل وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کو کبھی بطور زبان پڑھنے پڑھانے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ اسے ایک کتابی فن کی نظر سے دیکھا گیا اور صرف کتاب فہمی تک محدود رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی عملی مشق اور تحریر وانشاء کی طرف توجہ نہیں دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے مدارس کے فضلاء عربی زبان میں چند سطریں لکھنے یا چند منٹ گفتگو کرنے پر قادر نہیں ہوتے، خصوصاً جب کہ یہ تحریر یا گفتگو عام زندگی یا روزمرہ کی ضرورت سے متعلق ہو اور خالص دینی یا علمی بحث میں محدود نہ ہو، یہ کمی پہلے اہلِ نظر کومحسوس ہوتی تھی، لیکن اب جب کہ عربی ممالک کے علماء وفضلاء سے اختلاط وروابط بڑھنے لگے اور دینی خدمات کا میدان زیادہ وسیع ہوگیا ہے، یہ کمی زیادہ شدت سے محسوس کی جانے لگی ہے، جس کے پیشِ نظر مختلف مناہج ونصابوں کو مرتب کیا گیا، تاکہ جدید دور کی اشیا ء کے استعمال اور ان کے ناموں کی پہچان کرائی جاسکے۔
اسی طرح عربی زبان کے سیکھنے کے بھی دو اہم پہلو ہیں، جن میں سے ہر پہلو اہمیت کا حامل اور تفصیل طلب ہے، لہٰذا ہم یہاں دونوں پہلوؤں پر تفصیلی اصول اور کچھ ضوابط ذکر کریں گے، تاکہ شائقینِ عربی زبان اور طالب علموں کو اس کے سیکھنے میں آسانی اور رہنمائی مل سکے۔

عربی زبان سیکھنے کا پہلا مرحلہ

عربی زبان سیکھنے کی اولین سطح یہ ہے کہ آدمی عربی زبان کے صرف ونحو کے قواعد وضوابط اچھی طرح جان لے، عبارت کی تمام خوبیوں اور خرابیوں سے واقف ہو، اس کی ہر مشکل گرہ کھولنے پر قادر ہو اور نتیجتاً اس کے مطالب ومعانی کو خوب سمجھ سکے اور غلط کو خود ہی درست کرسکے، کوئی غلط فہم شخص اُسے کسی عبارت کا غلط مطلب مان لینے پر مجبور نہ کرسکے، اگرچہ وہ عربی کو لکھ اور بول نہ سکےاور اس مرحلے کا تعلق مشق واِجراء سے ہے، قواعدِ نحو وصرف پر جتنی مضبوط گرفت اور تطبیق واجراء ہوگا، اتنا ہی اس مرحلے میں پختگی ہوگی، اس مرحلے کی عربی جاننا ہر اس طالب علم کے لیے ناگزیر ہے جو دینی علوم کا حصول چاہتاہو، اس لیے کہ اس کے بغیر نہ تو وہ کسی عبارت کو سمجھ سکتاہے اورنہ ہی کسی مطلب تک اس کی رسائی ہوسکتی ہے، اور اگر کوئی کم علم یا کم فہم یا بد فہم اسے کسی عبارت کا غلط مطلب سمجھادے تو اس کی غلطی کو بھی معلوم نہیں کرسکتا، کیونکہ عبارت فہمی ہی واحد ذریعہ ہے جس سے انسان کسی عبارت کے غلط یا صحیح مطلب میں امتیاز کرسکتاہے، کسی بھی طالب علم کی ننانوے فیصد کامیابی یہی ہے کہ وہ عبارت کو اس حد تک ضرور سمجھ لے۔ اس کے بغیر دینی تعلیم کا حصول، کتاب وسنت کا فہم اور علومِ شرعیہ کا اکتساب محض ایک خواب ہی ہے، جس کی کوئی تعبیر نہیں ہے۔
عربی زبان سیکھنے کا دوسرا مرحلہ
عربی زبان سیکھنے کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر عربی زبان میں کچھ تحریر کرنے اور لکھنے پر عبور حاصل ہو اور بلا جھجک اپنے ما فی الضمیر کو اوراق پر قلمبند کرسکے۔ اس سلسلے میں ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو کافی حد تک کوتاہی برتی گئی ہے، لیکن اب مسئلہ مستقبل کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال کا ہے۔ کچھ عرصہ سے تمام باطل تحریکوں اور نظریات نے، نیز مسلمانوں کی طرف منسوب بعض خطرناک تصورات کی حامل جماعتوں اور فرقوں نے عربی زبان پر قبضہ جمارکھاہے۔ یہ فرقے اسلام پر اور مسلمانوں کی راہِ اعتدال پر قائم جماعت پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں اور مسلمہ قواعد واصول اور اکابرِ امت کی عظمت کی تمام عمارتوں کو مسمار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ زبان اس وقت بطور خاص ایک ترقی یافتہ ہتھیار بن چکی ہے۔ اس وقت کی تحریکیں دیگر وسائل کے ساتھ بڑے بڑے معرکے زبان، لٹریچر اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہی سر کرتی رہی ہیں۔ ہمارے ہاں اس سلسلے میں بڑی حد تک کوتاہی برتی گئی ہے اور اس حوالے سے جس احساس اور احساس کے بعد جس فکر وعمل کی ضرورت ہے، وہ یکسر مفقود ہے۔
عربی زبان کے حصول کی چند اہم ہدایات
دیکھیے! زبان کے حصول کی کچھ چیزیں اتنی اہم ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک کے اندر بھی غفلت برتی جائے تو گویا کہ اس زبان کے حصول کی کوشش ناقص اور کافی حد تک بے نتیجہ رہ جاتی ہے۔ ہم یہاں ان چیزوں کو بطور ہدایات قدرے تفصیل سے بیان کریں گے، تاکہ بات پوری واضح ہوسکے۔
پہلی ہدایت: تکلم اورگفتگو میں مہارت کا طریقہ
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ زبان کو بولنے، اپنی عام گفتگو میں جاری کرنے، نیز تقریر کرنے اور اپنے ما فی الضمیر کو زبانی طور پر اس میں ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کی جائے، یعنی یہ کہ زبان کو ’’نطقاً ‘‘ حاصل کیا جائے، اگر ہمیشہ، ہر وقت اور ہر جگہ اپنی گفتگو اسی زبان میں کی جائے تو بولنا آسان ہوجاتاہے۔ اگر کم بولا جائے اور اس سلسلے میں شرم محسوس کی جائے کہ لوگ ہنسیں گے، مذاق اُڑائیں گےتو پھر عربی زبان کو نطقاً حاصل کرنا یکسر مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتاہے۔
دوسری ہدایت: تحریر سیکھنے کا طریقہ کار
دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی زبان کو کما حقہ سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے ’’کتابتاً‘‘ بھی حاصل کرلیا جائے ، بلکہ ’’کتابتاً‘‘ حاصل کرنا ’’نطقاً ‘‘ اور’’خطابتاً‘‘ سیکھنے سے زیادہ ضروری ہے، اس لیے کہ تقریر اور گفتگو کا فائدہ عموماً وقتی ہوا کرتا ہے، جبکہ تحریر کا فائدہ دیرپا اور دور رس ہوا کرتا ہے۔ گفتگو کرنے والے کی گفتگو اور مقرر کی تقریر، خواہ وہ مقرر کتنا ہی لسَّان اور قادر الکلام ہو، اس کے دنیا سے جانے کے بعد بعض اوقات اس کی زندگی میں ہی ختم ہوجاتی ہے، لیکن اہلِ قلم کا مضمون اور مؤلف کی تالیفات بعض دفعہ صدیوں بلکہ ہمیشہ باقی رہتی ہیں۔ اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، جیسے درس نظامی وغیرہ کی کتابیں درس میں پڑھتے ہیں یا مطالعہ کرتے ہیں، ان کے لکھنے والے صدیوں پہلے اس جہانِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں، لیکن ان کی نگارشات اور رشحاتِ قلم سے ہم جیسے طالب علم فیض یاب ہورہے ہیں اور ان کے لیے دل وزبان سے دعا کرنے کو ذریعۂ نجات سمجھتے ہیں ۔ 
بہرحال تحریر وتقریر دونوں کی صلاحیت پیدا کرنا ضروری ہے، البتہ تحریر پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے۔ اس میں یہ بات یاد رہے کہ زبان کو بولنے کی حدتک حاصل کرنا آسان ہے اور بہت تھوڑے ہی عرصے کاکا م ہے؛ لیکن کتابت وتحریر قدرے محنت طلب، صبر آزما اور بامشقت کام ہے جوکہ نفس پر سخت بھاری پڑتا ہے۔ اس کے برعکس نطق چند ماہ کی محنت سے سیکھا جاسکتا ہے اور اس کے لیے تو قواعد جاننے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، صَرف ونحو کے بغیر بھی لوگ عربی زبان بول لیتے ہیں، اگر چہ ہم عجمیوں کےلیے ذرا مشکل بھی ہے، لیکن اس کے باوجود اگر کسی کو ما حول مل جائے یا عربو ں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع مل جائےتو زیادہ مشکل نہیں ہوتی۔ 
آج کل ساری دنیا کے عجم معاش کی تلاش میں عرب ممالک کا رُخ کررہے ہیں اور بالکل اَن پڑھ لوگ بھی وہاں چند سال گزارنے کے بعد غلط سلط ہی سہی، لیکن رواں دواں عربی بولنے لگتے ہیں، یہاں تک کہ وہاں کی مقامی زبان کو تو پڑھے لکھے لوگوں سے بھی اچھی بولنے لگتے ہیں۔ خلاصہ اس تفصیل کا یہ ہوا کہ کسی بھی زبان کو صرف بولنے کے دائرے میں سیکھنا آسان ہے، جبکہ تحریر کے لیے زبان کے قواعد وآداب کی رعایت رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
تیسری ہدایت: کثرتِ مشق اور قدیم نگارشات سے وابستگی
زبان پر کما حقہ عبور حاصل کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس زبان میں کثرتِ مشق اور قدیم نگارشات سے گہری وابستگی، مسلسل لکھتے رہنا، اساتذۂ ادب اور ان کی رشحاتِ قلم سے واقفیت کے ساتھ ساتھ گہرا مطالعہ اور استفادہ کرنا۔ جس زبان کو بھی سیکھاجائے اُس میں مختلف مصنفین کی کتابیں پڑھنا، ان کا اسلوبِ بیان سمجھنا بہت ضروری امر ہے جس کے بغیر تحریر میں عمدگی اور کلام کی شائستگی کا حصول محال کے درجے میں ہے۔ کسی لکھاری کی تحریر میں ایسی عمدگی اور خاص قسم کا طرزِ سخن پیدا ہونا کہ قاری جب مضمون یا کتا ب کو ہاتھ میں لے تو اُسے اول سے آخر تک پڑھے بغیر چین نہ آئے۔ اس درجہ کا حصول تب ممکن ہوگا جب ترتیب، تقدیم وتاخیر، بوقتِ ضرورت تفصیل واختصار، سہولت، سلاست، شیرینی، ادائےپرکشش، ایک خاص قسم کا اُتار چڑھاؤ، موضوع کی مناسبت سے الفاظ کا انتخاب اور دیگر محاسن وعناصر تحریری کی رعایت کی گئی ہو، اس کے بعد ہی کسی تحریر کو صحیح معنوں میں تحریر کہا جاسکتا ہے۔ ان عناصر سے خالی نگارشات کو صرف معتقدین یا متعلقہ افراد جن کے لیے اُن کاپڑھنا او ر اُن سے فائدہ اُٹھانا‘ناگزیر ہوتاہے، پڑھتے ہیں، ان کے علاوہ دیگر قارئین اُنھیں ہاتھ بھی نہیں لگاتے۔    (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین