بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی راہنما حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی  رحمۃ اللہ علیہ 

عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے مرکزی راہنما حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی  رحمۃ اللہ علیہ 


عقیدۂ ختمِ نبوت اسلام کی اَساس ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو ایمان اور اسلام محفوظ ہے، اگر یہ عقیدہ محفوظ نہیں تو نہ اسلام محفوظ ہے اور نہ ہی نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دیگر عبادات کی کوئی اصل و حقیقت باقی رہتی ہے۔ اس عقیدہ پر سب سے پہلا پہرہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  اور یمامہ میں لڑنے والے صحابہ کرام ] نے دیا اور آج کے زمانہ میں حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی قدس سرہٗ کے بقول وہ جماعت ہے ، جس کے بانی حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری نوراللہ مرقدہٗ ہیں۔ حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ نے مجلسِ تحفظِ ختمِ نبوت کی بنیاد ۱۹۴۹ء میں رکھی اور آپ ہی اس کے پہلے امیر منتخب ہوئے۔ ہمارے ممدوح حضرت مولانا حافظ محمد اکرم طوفانی  رحمۃ اللہ علیہ  حضرت شاہ صاحبؒ کی جماعت کے ایک عظیم سپاہی تھے، جنہوں نے پوری زندگی حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی عزت و ناموس اور عقیدئہ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے لگادی ہے۔
آپ کی پیدائش علاقہ چھچھ ضلع اٹک میں محترم جناب غلام یحییٰ کے گھر ۱۹۳۲ء میں ہوئی، آپ کا خاندان آٹھ سو سال پہلے افغانستان سے ہجرت کرکے یہاں پہنچا تھا۔ عصری تعلیم آٹھ جماعت تک حاصل کی، اس کے بعد دینی تعلیم کا شوق ہوا، درسِ نظامی کے تحتانی درجات مکمل کرنے کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد شفیع سرگودھوی رحمۃ اللہ علیہ  کے ادارہ مدرسہ عربیہ سراج العلوم سے دورئہ حدیث ۱۹۶۴ء میں کیا۔ فراغت کے بعد کچھ عرصہ مدرسہ امینیہ سرگودھا میں تدریس کی ، نورالانوار تک اسباق پڑھائے۔ ۱۹۸۰ء میں آپ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت سے وابستہ ہوئے، درخواست خواجۂ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد قدس سرہٗ کے ہاں جمع کرائی۔ حضرت خواجہ صاحبؒ نے اس درخواست پر یہ تاریخی جملہ لکھا کہ: ’’میں سرگودھا میں مولانا محمد اکرم طوفانی کو بطور مبلغ رکھتا ہوں۔‘‘ حضرت طوفانی صاحب نے پہلی بیعت حضرت سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری قدس سرہٗ سے کی، اس کے بعد حضرت مولانا خواجہ خان محمد نوراللہ مرقدہٗ سے کی، ان کے بعد ان کی آنکھوں میں کوئی جچا نہیں، بس ختمِ نبوت کے کام کو ہی اپنا وظیفہ اور اپنے سلوک کی تکمیل کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ آپ نے عقیدئہ ختمِ نبوت کے تحفظ کے لیے کئی ممالک کا سفر بھی کیا۔ ۱۹۹۰ء سے ۲۰۰۲ء تک ہر سال برطانیہ تشریف لے جاتے تھے، اسی لیے آپ نے انہی اسفار میں انگریزی بھی سیکھ لی۔ آپ کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہٗ سے آپ کی خط و کتابت رہی، شیخ التفسیر امام الاولیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری، حضرت مولانا محمد عبداللہ بہلوی اور حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی نوراللہ مراقدہم سے آپ کو صحبت کے ایام میسر آئے۔ انہی بزرگوں کی صحبتوں کی برکت سے آپ فنا فی ختم النبوۃ بنے۔ کئی قادیانیوں کو مسلمان کیا، ساری زندگی عقیدئہ ختمِ نبوت کے تحفظ میں گزار دی۔
چناب نگر میں قادیانیوں نے دل کا ہسپتال بنایا، تقریباً اردگرد کے پانچ اضلاع میں دوسرا کوئی ایسا ہسپتال نہ تھا، مسلمان بھی اپنے علاج کے لیے قادیانیوں کے اس ہسپتال میں جاتے تھے ، اور غریب مسلمانوں سے وہ اپنا فارم پُر کراتے تھے، جس میں نعوذباللہ! ختمِ نبوت کا انکار لازمی امر تھا، اور ظاہر ہے کئی لوگ بائی پاس آپریشن کامیاب نہ ہونے کی بنا پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے، اسی لیے حضرت مولانا محمد اکرم طوفانی صاحبؒ نے رات دن ایک کرکے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کی غرض سے ان کے لیے ’’خاتم النبیین میڈیکل ہارٹ سینٹر‘‘ بنایا، جس کے لیے غالباً دس بارہ کروڑ سے زائد سرمایہ اکٹھا کرکے اس پر صرف کیا۔ یہ آپ کا ایک مجددانہ کارنامہ ہے۔
کچھ عرصہ پہلے آپ پر کسی بدبخت نے گاڑی چڑھادی، جس کی بناپر آپ کے پاؤں اور گھٹنے میں چوٹیں آئیں، پاؤں تو صحیح ہوگیا، لیکن گھٹنے کی تکلیف اخیر عمر تک رہی۔ ۲۶؍ دسمبر ۲۰۲۲ء بروز اتوار تقریباً گیارہ بجے آپ کا انتقال ہوا۔ راقم الحروف سہ روزہ جماعتی پروگرام کے لیے لاڑکانہ اور اس کے گردو نواح میں گیا ہوا تھا، وہیں اطلاع ملی اور تقریباً مغرب کے بعد سرگودھا کا سفر کیا، تاکہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس عاشق زار کے جنازہ میں شرکت کرکے اپنی نجاتِ اخروی کا سامان کیا جائے۔ 
بروزپیر دوپہر دس بجے دفتر ختمِ نبوت سرگودھا سے ان کا جسدِ خاکی اُٹھایا گیا۔ سرگودھا میں آپ کے خویش قبیلہ نہ ہونے کے باوجود سرگودھا کے مردوزن سراپا غم میں نڈھال تھے، سرگودھا کی تاجر برادری نے آپ کے احترام میں پورا بازار اس دن بند رکھا اور دفتر سے لے کر جہاں جہاں سے ایمبولینس آپ کے جسدِ خاکی کو لے کر گزرتی رہی، سرگودھا کی عوام پھول نچھاور کرتی رہی، بازار کی سڑکیں پھولوں سے سجی ہوئی تھیں اور رات ہی رات آپ کے مداحوں نے آپ کو خراجِ عقیدت اور اپنی محبت کے اظہار کے لیے بینر اور اشتہارات آویزاں کیے ہوئے تھے۔ سرگودھا کی عیدگاہ اور قرب وجوار کی تمام سڑکیں آپ کی نمازِ  جنازہ میں شرکت کرنے والوں سے اَٹی ہوئی تھیں اور اپنی کشادگی کے باوجود تنگ دامنی کا ثبوت دے رہی تھیں۔
نمازِ جنازہ عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے نائب امیرِمرکزیہ حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد دامت برکاتہم نے پڑھائی، جس میں عالمی مجلس تحفظِ ختمِ نبوت کے اکابرین، مبلغین، مدارس کے اساتذہ وطلبہ کے علاوہ بلامبالغہ لاکھوں لوگ شریک تھے۔ نمازِ جنازہ کے بعد سرگودھا کے مقامی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرتؒ کی حسنات کو قبول فرمائے، آپ کو جنۃ الفردوس کا مکین بنائے اور آخرت میں ہم سب کو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شفاعت کا مستحق بنائے، آمین۔ ان کے تفصیلی حالات کے لیے ان شاء اللہ! الگ مضمون لکھا جائے گا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین