بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عاریت پر لی گئی کتب سے متعلق چند گزارشات!


عاریت پر لی گئی کتب سے متعلق چند گزارشات!


قراءتِ کتب کی اہمیت اور اس کا تحصیلِ علم میں نافع ہونا کسی بھی سمجھدار شخص پر مخفی نہیں۔ نیز اس قابلِ اقتداء عمل کی صحت سے متعلق کوئی دو رائے نہیں۔ استفادہ بذریعہ کتب اپنے ماسویٰ دیگر جدید ذرائع ابلاغ سے سہل ترین ہے، اس میں بغیر کسی جدید ترین ٹیکنالوجی سے بہرہ یاب ہوئے بخوبی استفادہ کیا جانا ممکن ہے، البتہ اس کے لیے طبعی رغبت اور شوق ضروری ہے۔ کتاب سے استفادے کی متعدد صورتیں ہیں، مثلاً: کسی کتاب کو خریدنا، اجارہ پر مدتِ معلومہ کے لیے اُٹھانا، عاریۃً (بلا عوض) مطالعہ کرنا۔ ان تمام صورتوں کی شریعتِ اسلامیہ نے چند منضبط احکام وقواعد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اجازت مرحمت کی ہے، جن کی تفصیل کتبِ مطولات میں درج ہے۔اس مضمون میں عاریت پر لی گئی کتب سے متعلق چند گزراشات پیش خدمت ہیں:

عاریت کی لغوی واصطلاحی تحقیق:

’’التّداوُل فِي الشَّيْءِ يَکُوْنُ بَيْنَ اثْنَيْنِ‘‘ یعنی عاریت لغت میں عاقدین کے درمیان ہونے والے اُدھار پر مبنی لین دین کو کہتے ہیں۔(۱)جبکہ اصطلاحِ فقہ میں ’’تملیک المنافع بغیر عوض‘‘ یعنی بغیر عوض کے منافع کا مالک بنادینے کو عاریت کہتے ہیں۔(۲)
ملاحظہ:تعریف میں ’’تملیک‘‘ کی قید جمہور حنفیہ کے نزدیک ہے، اس کے برخلاف شوافع حضرات ؒاور احناف میں سے امام کرخی ؒ اباحتِ انتفاع کے قائل ہیں۔(۳)

کتب کو عاریت پر دینے سے متعلق احکام اور فقہاءِ کرام کی آراء

کتب کو عاریت پر دینے سے متعلق بنیادی طور پر چار طرح کی آراء ملتی ہیں: 

1:وجوب

اس جماعت کے نزدیک کتابوں کو عاریت پر دینا امرِ وجوبی ہے، اور اس میں بُخل ’’غلول الکتب‘‘ (کتابوں کی روک تھام) میں داخل ہے، جیسا کہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب میں ایک روایت نقل کی ہے، جس میں امام زہری ؒ اپنے شاگرد یونس کو ناصحانہ خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ’’یایونس! إیاک وغُلول الکتب‘‘، پھر 'غلولِ کتب کی خود تفصیل فرمائی: ’’ حَبْسُھا علی أصحابھا‘‘ یعنی صاحبِ کتاب کے پاس کتاب کا محبوس رہنا یہ غلول میں داخل ہے۔ (۴) جبکہ بطریقِ خلال روایت کے کلمات یوں ہیں: ’’حبسُھا عن أھلھا‘‘ یعنی اس کتاب کے مطالعہ واستفادہ کی صلاحیت واستعداد کے حامل شخص سے کتاب کو محبوس رکھنا یہ ’’غلول الکتب‘‘ ہے۔(۵)
اس جماعت میں ابن مبارک ، سفیان ثوری اور امام شافعی رحمہم اللہ شامل ہیں۔ابن جوزی ؒ فرماتے ہیں: 
’’ینبغي لمن ملک کتابا أن لایبخل بإعارتہ لمن ھو أہلہ، وکذٰلک ینبغي بالدلالۃ علی الأشیاخ، وتفھیم المشکل، فإن الطلبۃ قلیل، وقد عمّھم الفقر، فإذا بخل علیھم بالکتاب والإفادۃ کان سبباً لمنع العلم۔‘‘(۶)
’’یعنی صاحبِ کتاب کو چاہیے کہ وہ باصلاحیت واہلیت کے حامل اشخاص کو عاریۃً کتب حوالہ کرنے پر بخل کا اظہار نہ کرے، اسی طرح اساتذہ ومشائخ کی جانب رہنمائی کرنے اور مُغلق وگنجلک عبارات کا عقدہ حل کرنے میں کنجوسی سے کام نہ لے، چونکہ (حقیقی) طلبۂ علم کی تعداد قلیل ہے، طُرّہ یہ کہ ان پر فقر وفاقہ نے ڈیرہ ڈال رکھا ہے، لہٰذا اگر کتاب وافادہ سے بخل کرے گا تو یہ شخص حصولِ علم میں مانع اوررکاوٹ کا باعث بنے گا۔‘‘

2:مندوب

یہ جمہور علماء کی رائے ہے، جن میں خطیب بغدادی اور بدر ابن جماعہ رحمہم اللہ جیسی نمایا ںشخصیات موجود ہیں۔ خطیب بغدادی ؒ رقم طراز ہیں:
’’قال أبوبکر: إذا کان لرجل کتاب مسموع من بعض الشیوخ الأحیاء فطلب منہ لیسمع من ذٰلک الشیخ فیستحبّ أن لایمتنع من إعارتہ، لما في ذٰلک من البر واکتساب المثوبۃ والأجر۔‘‘(۷)
’’ ابوبکرؒ فرماتے ہیں: جب کسی شخص کے پاس بقید حیات مشائخ سے سنی گئی روایات کا مجموعہ محفوظ ہو، اور کوئی دوسرا شخص اس سے سوال کرے تو بہتر یہ ہے کہ وہ عاریتاً سپردگی سے منع نہ کرے، اس میں اس عاریت پر دینے والے شخص کے لیے نیکی اور اجر وثواب کے حصول کا نادر موقع ہے۔‘‘
اس سے متعلق امام شافعیؒ کا مشہور شعر ہے:

يا ذا الذي لم تر عين من رآہ مثلہ
العلم يأبی أہلہ أن يمنعوہ أہلہ

ترجمہ: ’’اے وہ شخص جس کا مثل و نظیر دیکھنا اس آنکھ کو نصیب نہ ہوا، علم تو اپنے اہل ومستحق افراد سے روکے جانے سے اِنکاری ہے۔‘‘ (۸)
چنانچہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے: 
’’ولاینبغي للمتعلم أن یکون بخیلاً بعلمہ، إذا استعار منہ إنسان کتاباً أو استعان بہ في تفھیم المسئلۃ أو نحو ذٰلک، ولاینبغي أن یبخل بہٖ؛ لأنہٗ یقصد بتعلمہٖ منفعۃ الخلق، فلا ینبغي أن یمنع منفعتہٗ في الحال۔‘‘(۹)

3: مباح

یہ جمہور فقہاء حنفیہ ومالکیہ کا مسلک ہے(۱۰)، چونکہ ضابطہ یہ ہے: ’’کل عین فیھا نفع یجوز إعارتہ‘‘ ۔۔۔ ’’ہر وہ چیز جس کا عین قابلِ انتفاع ہو، اس کو عاریت پر دینا جائز ہے۔‘‘
اسی طرح نبی پاک  صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم  کا عمل ماثور اس کی اباحت کے لیے کافی شافی دلیل ہے۔ ابو داود کی روایت ہے : 
’’أن رسول اللہ - صلی اللہ عليہ وسلم - استعار منہ (صفوان بن أمیۃ) أدْراعاً يَومَ حُنَينٍ، فقال: أغَصْبٌ يا محمد؟ فَقَالَ: ’’لا، بل عاريَّۃٌ مضمونَۃٌ۔‘‘(۱۱)
’’جنگِ حنین کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے (حضرت صفوان رضی اللہ عنہ  ) سے کچھ زرہیں عاریۃًطلب کیں، (اس وقت وہ مسلمان نہ ہوئے تھے) انہوں نے پوچھا کہ: اے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم ! غصب کی نیت سے لے رہے ہو؟ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نہیں، عاریت کی نیت سے، جس کا میں ضامن ہوں۔‘‘

4: مکروہ

یہ قول ابن حجر ہیتمی ؒ نے ’’الفتاوی الحدیثیۃ‘‘ میں صیغۂ تمریض کے ساتھ ذکر کیا ہے، اور خود ہی اس کی پُرزور تردید فرمائی ہے۔خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب جامع میں علی بن قادمؒ سے نقل کیا ہے کہ میں نے سفیان ثوری ؒ کو فرماتے ہوئے سنا: ’’لاتعرِ أحداً کتاباً‘‘ (۱۲) یعنی ’’کسی شخص کو عاریۃً کتاب مت دو۔‘‘

5:تحریم

اہلِ علم کے طبقہ میں سے کسی سے بھی اس کی حرمت کا قول نہیں ملتا ہے، البتہ بعض مخصوص حالات و صورتوں کی بنا پر تحریم کا فتویٰ دیا جائے گا، مثلاً کسی کافر کو عاریتاً مصحف یا کتبِ شرعیہ سپرد کرنا، جس کی جانب سے ہتکِ حرمت کا قوی اندیشہ ہو، اسی طرح نابلد وجاہل افراد کو اہلِ بدعت وضلال کی کتب عاریۃً دینا۔

کتابوں کو عاریت پر دینے سے متعلق چند شرائط

عاریت بھی عقودات میں سے ہے، لہٰذا اس کے لیے بھی چند شرائط ہیں:
1  : مُعیر (عاریت پر دینے والے شخص) کا اہلیت رکھنا، یعنی اس کا عاقل وبالغ ہونا، اسی طرح اگر وہ کتاب معیر کی نہ ہو تو مالک کی اجازت سے سپرد کرنا۔
2  : مُستعیر (عاریتاً طلب کرنے والے شخص) کا اہلیت رکھنا، یعنی عاقل وبالغ ہونا، اور کتبِ شرع جن میں آیاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ لکھی گئی ہوں ان کو حوالہ کرنے کی صورت میں مستعیر کا مسلمان ہونا۔
3  : عاریت پر دی جانے والی کتب باطل وگمراہ کن نظریات و عقائد کی عکاسی نہ کرتی ہوں، اگر وہ دین وشریعت سے متعلق شکوک وشبہات کا باعث ہوں تو ان کو عاریۃً دینا کسی صورت بھی جائز نہیں۔ (۱۳)

عاریت پر دی جانے والی کتب سے متعلق ضمان کا حکم

ہلاکت کی صورت میں عاریت پر دی جانے والی کتب پر ضمان کے وجوب اورعدمِ وجوب سے متعلق علماء کی مختلف آراء ملتی ہیں:
1  : جمہور اہلِ علم جن میں شوافع وحنابلہ داخل ہیں، ان حضرات کے نزدیک عقدِ اعارہ مقتضیِ ضمان ہے، نیز قاضی شریح  ؒ بھی اسی کے مطابق فیصلہ فرماتے ہیں، اس مسلک میں مقتدیٰ شخصیت ترجمان القرآن حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  ہیں۔مصنف عبدالرزاق میں یوں روایت درج ہے :
’’عَنِ ابْنِ اَبِيْ مُلَيْکَۃَ، وَکَانَ قَاضِيًا قَالَ: سَاَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: اَضْمَنُ الْعَارِيَۃَ؟ فَقَالَ: ’’نَعَمْ إِنْ شَاءَ اَہْلُہَا۔‘‘ (۱۴)
’’ابن ابی ملیکہ سے روایت ہے-وہ منصب قضاء کے عہدے پر فائز تھے- کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما  سے دریافت کیا کہ عاریت پر لی گئی چیز قابل ضمان ہے؟ فرمایا : ’’ہاں اگر اس کا مالک ضمان کا مطالبہ کرنا چاہے۔‘‘
2  : بعض اہلِ علم جیسے حسن، سفیان، شعبی،عمربن عبدالعزیز، قاضی شریح  رحمۃ اللہ علیہم  نے ضمان کی مطلق نفی فرمائی ہے، (۱۵)ان حضرات نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کے آثار سے استدلال کیا ہے:
’’عَنِ الْحَکَمِ بْنِ عُتَيْبَۃَ، اَنَّ عَلِيَّ بْنَ اَبِيْ طَالِبٍ قَالَ: ’’لَيْسَ عَلٰی صَاحِبِ الْعَارِيَۃِ ضَمَانٌ۔‘‘ (۱۶)
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ جس شخص کو عاریتاً چیز سپرد کی گئی (سو اس شئے کی ہلاکت کی صورت میں) کوئی ضمان لازم نہیں ہوگا ۔‘‘
3  : البتہ احناف کے نزدیک عاریت اصلاً موجبِ ضمان نہیں، الا یہ کہ مستعیر کی جانب سے تعدّی ہو تو پھرضمان عائد ہوگا۔(۱۷)
جو حضرات بغیر تعدّی کے عدمِ ضمان کے قائل ہیں، ان کی دلیل یہ مرفوع روایت ہے:
’’عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ اَبِيْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّی اللہُ عَلَيْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَيْسَ عَلَی الْمُسْتَعِيْرِ غَيْرِ الْمُغِلِّ ضَمَانٌ وَلَا عَلَی الْمُسْتَوْدِعِ غَيْرِ الْمُغِلِّ ضَمَانٌ۔‘‘ (۱۸)
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: عاریت پر لینے والے شخص پر جو خیانت نہ کرے ضمان لازم نہیں، اسی طرح ودیعت پر چیز رکھنے والا شخص جو خائن نہ ہو اس پر ضمان لازم نہیں۔‘‘

عاریت پر لی گئی کتب میں تصرف کی گنجائش

کیا مستعیر کے تصرفات کو شریعت نے روا رکھا ہے؟ اور کونسی صورتیں تعدی وزیادتی تصور کی جائیں گی؟ 

1: کتاب کو نقل وکاپی کرنا

اس کو فقہاء کرام ؒ نے مالک کی اجازت کے بغیر ممنوع قرار دیا ہے، جیسا کہ ابن مفلح  ؒ نے ذکر کیا ہے:
’’قَالَ الْمَـرُوْذِيُّ: قُلْت لِأبِيْ عَبْدِ اللہِ: رَجُلٌ سَقَطَتْ مِنْہُ وَرَقَۃٌ فِيْہَا اَحَادِيْثُ فَوَائِدُ فَاَخَذْتُہَا، تُرَی اَنْ اَنْسَخَہَا وَاَسْمَعَہَا؟ قَالَ: لَا إلَّا بِإِذْنِ صَاحِبِہَا۔‘‘ (۱۹)
’’مروذیؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابوعبداللہ سے دریافت کیا کہ ایک شخص سے اس کے چند صفحات گرے، جس میں احادیث سے متعلق فوائد تھے، کیا میرے لیے ان کو الگ سے لکھنا اور آگے بیان کرنا شرعاً درست ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، مگر مالک کی اجازت حاصل ہو ۔‘‘

2: کتاب کے اطراف میں حاشیہ وتعلیق کا اضافہ کرنا

اس کو بھی منع لکھا گیا ہے، چونکہ یہ اصل مالک کے لیے قلبی کدورت کا باعث ہے۔ نیز یہ عمل فریقین کے مابین چپقلش پیدا کرسکتا ہے، اسی طرح یہ عمل کتاب کے صفحات پر سیاہی ملنے کے مترادف ہے۔

3: غلطی کی اصلاح کرنا

اس کا جواز بھی مالک کی طبیعت ورضا پر موقوف ہے، چونکہ یہ غیر کی ملکیت میں تصرف کرنا ہے۔ البتہ شوافع حضرات نے اس پر مزید دو شرائط کا اضافہ کیا ہے: 
(الف) اس غلطی کی اصلاح خوش خط سے کی جائے، لہٰذا اگر اس طرح اصلاح کی گئی جس سے وہ عیب دار معلوم ہو تو اجازت نہیں ۔
 (ب) حد سے زائد اصلاح نہ کرے، جس کی وجہ سے مالک اسے قبول کرنے سے ہی پس وپیش کربیٹھے، وگرنہ یہ موجبِ ضمان ہوگا ۔

4: کسی اور کو آگے عاریتاً کتاب دینا

اس سے متعلق علماء کی دونوں طرح کی آراء ملتی ہیں، یہی حکم ودیعت رکھوانے کا ہے، اس نزاع کی بنیادی وجہ اس بات میں اختلاف ہونا ہے کہ اِعارۃ تملیک المنافع کا نام ہے، یا اباحتِ منافع کا؟ جس کی تفصیل اوپر درج کی جاچکی ہے۔ بدر بن جماعہ ؒ اپنی مایہ ناز کتاب ’’تذکرۃ السامع والمتکلم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:
 ’’ولایعیرہ غیرہ، ولایودّعہ لغیر ضرورۃ حیث یجوز شرعا۔‘‘(۲۰)
’’عاریت والی چیز کسی دوسرے کو عاریتاً سپرد نہ کرے، اور بغیر ضرورت ودیعت کے طور پر بھی نہ رکھوائے جہاں رکھوانا درست ہو۔‘‘
 

عاریۃً کتب کے لین دین سے متعلق ضروری آداب

1  : معیر سے وابستہ فرائض وآداب

کتاب کسی کو سپرد کرنے سے قبل اس شخص میں موجود اہلیت ولیاقت کی جانچ پڑتال کرلے، اگر وہ شخص اس کتاب کے پڑھنے کی استعداد سے عاری ہے، یا پڑھنے کی صلاحیت تو رکھتا ہے، مگر اس قدر بے احتیاطی سے مطالعہ کرتا ہے جو اس کتاب کی جلد میں خرابی کا باعث ہو تو ایسی صورت میں وہ کتاب ہرگز سپرد نہ کرے، نیز بعض اسلاف کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ کسی کو کتاب حوالہ کرنے سے قبل اس کو کتاب سمیت بلاتے، اگر اس کی کتاب محفوظ ہوتی تو اسے بطیب ِخاطر دیتے، لیکن اگر وہ غبار آلود اور کمزور جلد کی حامل ہوچکی ہوتی تو معذرت کرلیتے تھے۔(۲۱) 
اسی طرح اتنی مدت اس کو مطالعہ کے لیے فراہم کرے کہ وہ بآسانی مطالعہ کرکے اپنے ہدف تک رسائی ممکن بنالے، البتہ مستعیر بھی ضرورت سے زائد اس کو اپنے پاس روکے رکھنے سے اجتناب کرے، جیسا کہ ابوبکر خطیبؒ نے ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ:’’ ایک شخص کتاب عاریتاً لینے کی امید سے آیا تو معیر نے کتاب اس کے سپرد کرتے ہوئے کہا کہ: ’’لاتکن في حبسک لہٗ کصاحب القربۃ‘‘ ۔۔۔ ’’کتاب کو روکے رکھنے میں مشکیزہ والے شخص کی مانند مت بن جانا۔‘‘ مستعیر بھی سمجھدار تھا، اس نے فوراً کہا: ’’لاتکن أنت في ارتجاعک کصاحب المصباح‘‘ ۔۔۔ ’’تم بھی سوال کرنے میں چراغ والے کا رویہ مت اختیار کرنا ۔‘‘ذکر کردہ پہلی ضرب المثل کا پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص نے عاریۃً مشکیزہ لیا، اور جلد لوٹانے کا وعدہ کیا، مگر عرصہ دراز بعد اس نے مشکیزہ لوٹایا، جبکہ وہ مشکیزہ ناقابلِ استعمال ہوگیا تھا۔ دوسری ضرب المثل کا پس منظر  یہ ہے کہ ایک شخص نے دن کے اوقات میں اپنے پڑوسی سے رات آنے والے مہمان کی ضیافت کی غرض سے چراغ عاریۃً لیا، ابھی کچھ ہی لمحات گزرے ہوں گے کہ معیر جو کہ جلد باز قسم کا شخص تھا، وہ اس کی واپسی کا مطالبہ کرنے پہنچ گیا، مستعیر کو کافی حیرت ہوئی، معیر نے کہا کہ تم نے چراغ دن میں استعمال کے لیے لیا تھا یا رات کے؟ اس نے کہا کہ رات اندھیرے میں استعمال کی غرض سے۔ اس پر معیر نے کہا کہ رات تو ابھی تک نہیں آئی، لہٰذا میں واپسی کا مطالبہ کرنے آگیا ۔ (۲۲)

2  : مستعیر سے وابستہ فرائض وآداب

کتاب کو محفوظ طریقہ سے پڑھنے کا اہتمام کرے، واپسی لوٹانے میں تفریط سے کام نہ لے، اسی طرح اس کو آگے عاریۃً، ودیعۃً دینے یا بطور رہن رکھوانے سے گریز کرے۔ نیز کتاب کی سپردگی کے وقت معیر کا شکریہ ادا کرے، جیسا کہ مندرجہ ذیل اشعار میں شاعر نے کتبِ علمیہ کے ساتھ اپنے بے انتہا شغف کا اظہار کیا ہے:

اَجُوْدُ بِجُلِّ مَالِيْ لَا اُبَالِيْ
وَاَبْخَلُ عِنْدَ مَسْاَلَۃِ الْکِتَابِ
وَذٰکَ لِاَنَّنِيْ اَنْفَقْتُ حِرْصًا 
عَلٰی تَحْصِيْلِہٖ شَرْخَ الشَّبَابِ

ترجمہ: ’’میں اپنے تمام مال کی سخاوت کروں، مجھے اس کی کچھ پرواہ نہیں ہے، لیکن کتاب کی طلب پر بخل کا مظاہرہ کرتا ہوں، کیونکہ ان کتب کے حصول میں اپنی جوانی کی طاقت و قوت کو صرف کیا ہے۔‘‘

حواشی وحوالہ جات

۱:لسان العرب: ۴/۶۱۸ 

۲:التعریفات للجرجاني، صفحہ: ۱۴۶
۳:البنایۃ شرح الھدایۃ: ۱۰/۱۳۶، ط: دار الکتب العلمیۃ، بیروت، لبنان 
۴: الجامع لأخلاق الراوي، وآداب السامع للخطیب: ۱/۲۴۲
۵:الآداب الشرعیۃ لابن مفلح والمنح المرعیۃ: ۲/۱۶۸
۶:أیضاً

۷: الآداب الشرعیۃ لابن مفلح والمنح المرعیۃ: ۲/۱۶۸
۸:تذکرۃ السامع والمتکلم لابن جماعۃ، الباب الرابع، ص: ۱۶۸، ط: دار الکتب العلمیۃ
۹:الفتاوی الھندیۃ: ۴/۳۷۸ 

۱۰:البنایۃ شرح الھدایۃ : ۱۰/۱۳۶، ط: دار الکتب العلمیۃ
۱۱:سنن أبي داؤد، کتاب البیوع، باب في تضمین العاریۃ، رقم الحدیث: ۳۵۶۲
۱۲:الجامع لأخلاق الراوي، باب کراھۃ حبس الکتب المستعارۃ عن أصحابھا۔
۱۳: إعارۃ الکتب أحکامھا وآدابھا في الفقہ الإسلامي، لصالح بن محمد الرشید، ص :۲۰ ، ط: دار الصمیعي
۱۴:مصنف عبدالرزاق: ۳/۱۸۰، رقم الحدیث: ۱۴۷۹۱، ط: المجلس العلمي، الھند
۱۵:البنایۃ شرح الھدایۃ : ۱۰/۱۴۲، ط:دار الکتب العلمیۃ

 ۱۶:مصنف عبدالرزاق : ۱۴۷۸۶
۱۷:مختصر اختلاف العلماء للطحاوي ـ اختصار الجصاص :۴/۱۸۶ 
۱۸:دار قطني: ۳/۴۵۶، رقم الحدیث:۲۹۶۱، مؤسسۃ الرسالۃ، بیروت، لبنان 
۱۹:الآداب الشرعیۃ لابن مفلح، ص: ۱۶۰، فصل في بذل العلم، الناشر: عالم الکتب
۲۰:تذکرۃ السامع والمتکلم لبدر ابن جماعۃ، ص: ۲۳۱
۲۱:تقیید العلم لأبي بکر الخطیب البغدادي، ص:۱۴۶، ط: إحیاء السنۃ النبویۃ، بیروت
۲۲:تقیید العلم للخطیب البغدادي، ص: ۱۴۸

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین