بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر  ؒ کی یاد میں


عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر  ؒ کی یاد میں

 

اب اُنہیں ڈھونڈ چراغِ رُخِ زیبالے کر

 

بہت سارے لوگ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، ان کا نام تک نہیں رہتا، مگر کچھ ایسے بھی اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے اس دنیا میں تشریف لاتے ہیں، جو عوام وخواص کے دلوں پر حکومت کرکے تشریف لے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے بھی محبوب ہوتے ہیں اور اللہ کے بندوں کے بھی محبوب ہوتے ہیں۔ ان کا دائرہ کارلوگوں کے عقائد کی اصلاح، عوام کی اصلاح و فلاح، دعوت الی اللہ، احقاقِ حق اور ابطالِ باطل ہوتا ہے۔ چونکہ یہ مقصد عالمگیر اور ہمہ جہت ہے، اس لیے اس کا اثر بھی عالمگیر اور ہمہ جہت ہوتا ہے، اور ایسی شخصیات بھی عالمگیر اور ہمہ جہت بن جاتی ہیں، اسی لیے فرمایا گیا کہـ: ’’موت العالِم موت العالَم‘‘ …یعنی’’ ایک عالم کی موت پورے جہاں کی مو ت ہوتی ہے‘‘ گویا کہ جب ایک عالم کامل یہ جہاں چھوڑتا ہے تو اس کی وجہ سے پورا جہاں یتیم ہو جاتا ہے۔
عارف باﷲ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ گویا کہ ایک عالِم کی موت نے عالَم کو یتیم کر دیا۔ حضرت والاؒ کو اللہ تعالیٰ نے بہت بڑا مقام عطا فرمایا تھا، ان کے ذریعے سے رشد و ہدایت کا ایک طویل سلسلہ قائم تھا، آپؒ اکابر کی یادگار تھے۔ آپؒ کی وفات سے امت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے، آپ امت کے لیے بارانِ رحمت سے کم نہ تھے۔
جس طرح ایک نبی انسانوں کے قلوب کو فتح کرتا ہے اور پھر ان کے دلوں میں اللہ کی عظمت بسا دیتا ہے، اسی طرح ایک ولی بھی اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے انسانوں کے قلوب کو مسخر کرتا ہے اور ان کے دلوں میں اللہ کی محبت کو بھر دیتا ہے۔ ایک عالم، ایک فاضل، ایک ولی اللہ، ایک رہبر و رہنما، ایک پیر طریقت، ایک مرشد کامل، ایک عارف باللہ اور ایک داعی الیٰ اللہ کی حیثیت سے ان کے مقام کاتعین علماء کرام، اولیاء اللہ اور اللہ کے برگزیدہ بندے ہی کرسکتے ہیں۔ ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بیشمار ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں بھی ان کا ایک ادنیٰ سا عقیدت مند تھا اور ہوں۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ اللہ پاک کا میرے اوپر کتنا بڑا احسان اور کتنا بڑا کرم تھا کہ مجھے زندگی میں کچھ وقت حضرت والاؒ کی خدمت میں گزارنے کا موقع ملا، اس پر میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں، وہ کم ہے۔
سچی بات یہ ہے کہ: حضرت والاؒ کا وجود ایک گھنے سایہ دار درخت کی مانند تھا، جس کے سائے تلے بہت سارے لوگوں نے اپنا تھوڑا یا زیادہ وقت بڑے آرام اور اطمینان کے ساتھ گزارا۔ آپؒ کی خانقاہ میں ذکر و فکر کی مجالس، علمی اور روحانی بیانات اور شریعت اور طریقت کے اسباق جس طرح پڑھائے جاتے تھے، اس سے قرونِ اولیٰ کے بزرگوں کی یاد تازہ ہو جاتی تھی، پتھر دل موم بن جاتے تھے۔ ان کے بیانات، ملفوظات اور ارشادات کو سامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ: کاتب تقدیر نے ان کی ذات کو انسانوں کی ہدایت کے لیے خصوصی طور پر منتخب کیا تھا۔ سید کائنات ا کا ارشاد ہے کہ : ’’دنیا سے علم یوں اٹھایا جائے گا کہ اہل علم دنیا سے اٹھالیے جائیں گے‘‘۔ــ
یہ قربِ قیامت کی علامت ہے کہ علماء کرام، مشائخ عظام اور اہل اللہ رحلت فرمانے لگیں۔ حضرت والاؒ کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے، وہ صدیوں میں بھی پُر نہیں ہو سکے گا، آپؒ کی رحلت سے صرف آپؒ کے متعلقین، مریدین اور عقیدت مند ہی یتیم نہیں ہوئے، بلکہ پوری امت یتیم ہو گئی ہے، ایسے لوگ روز روز پیدا نہیں ہوتے:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
حضرت والاؒ توحید و سنت کے علمبردار تھے اور شرک و بدعات کی بیخ کنی کے لیے تیغ بے نیام تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذات میں عاجزی، انکساری، تواضع، حلم وبردباری، تقویٰ، طہارت، اخلاص اور للہیت کی صفات کو کُوٹ کُوٹ کر بھر دیا تھا۔ آپؒ کی خانقاہ پر انواع و اقسام کے غمگین اور دکھی لوگ حاضر ہوتے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی قلبی تشنگی کو مقدور بھر سیرابی اور سیر چشمی سے ہمکنار کرکے شاداں اور فرحاں واپس جایا کرتے تھے۔ کئی لوگ بے بسی اور بے کسی کے پہاڑلے کر بے قرار اور بے چین روحوں اور اسفار کی صعوبتوں سے نڈھال ہوکر آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، اور بڑا سکون اور بڑا چین لے کر واپس ہوتے تھے۔ آپؒ کی خدمت میں بہت سارے لوگ ٹوٹے ہوئے دلوں کے ساتھ حاضر ہوتے تھے، اور آپؒ بڑی محبت سے ان کے دلوں میں جوڑ لگایا کرتے تھے۔ آپؒ روحانی بیماریوں کے علاج کے ماہر ڈاکٹر اور اسپیشلسٹ تھے۔ آپ ایک عالم با عمل، ایک صوفی با صفا، ایک محبت بھرے انسان، اللہ اور اللہ کے رسول اکے عاشقِ صادق، قرآن اور سنت کی پاکیزہ تعلیمات کے عظیم مبلغ اور اپنے دور کے بہت بڑے داعی الیٰ اللہ تھے۔ آپؒ کی وفات سے پورا چمن اداس نظر آ رہا ہے:
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
آپؒ کی وفات کی وجہ سے دل حزیں ہے، قلب غمگین ہے، جگر شق ہونے کو ہے، آنکھوں سے آنسو رواں ہیں، اس لیے کہ برصغیر ایک ایسی عظیم ہستی سے محروم ہو گیا ہے، جس کا وجود اُمت مسلمہ کے لیے اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا عطیہ تھا۔ بلا شبہ حضرت والاؒعالم اسلام کی ایک نابغہ روزگار شخصیت تھے، وہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ جانے والے تو چلے جاتے ہیں، لیکن نقصان ان کا ہوتا ہے جو باقی رہ جاتے ہیں۔ حضرت والاؒ جیسی نفوس قدسیہ کو اللہ تعالیٰ نے تمام فتنوں کو روکنے والا دروازہ  بنایا  ہوتا ہے، جب یہ لوگ تشریف لے جاتے ہیں تو گویا وہ دروازہ ٹوٹ جاتا ہے اور نئے نئے فتنے سر اٹھانے لگتے ہیں، جس سے ہم جیسے کمزور لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، اور پھر کوئی ایسا بندہ بھی نظر نہیں آتا جو مستجاب الدعوات ہو کہ چلو اپنے اعمال کے ذریعے نہ سہی، بزرگوں کی دعائوں سے باطل پر غلبہ حاصل کرلیں۔ جب اللہ والے اٹھ جاتے ہیں تو صورتحال کچھ یوں ہو جاتی ہے:
شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا! کوئی دیوار ہی نہیں
جب ہم حضرتؒ کی خدمت میں آتے تھے، ان کے ملفوظات سنتے تھے تو بڑے بڑے حقائق منکشف ہو جاتے تھے۔ حضرت والاؒ کی زندگی امراض باطنہ کے علاج میں گزری۔ حضرتؒ کی خانقاہ سے بہت سارے بیمار شفایاب ہوئے۔ ان کے بیانات کا خلاصہ یہ ہوتا تھا کہ انسان صرف ظاہری ڈھانچے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل جوہر اس کا باطن ہے، جس کو قلب اور روح کے الفاظ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں بھی یہ بتلایا گیا ہے کہ: انسان کے ظاہری اعمال کی صحت و فساد اور بنائو و بگاڑ بھی اس کے باطن کے بنائو اور بگاڑ پر موقوف ہے ۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ: جس طرح ظاہری بدن کبھی تندرست ہوتا ہے اور کبھی بیمار ہوتا ہے اور تندرستی قائم رکھنے کے لیے غذا وغیرہ سے تدبیر کی جاتی ہے اور بیماریوں کو دفع کرنے کے لیے دوائوں سے علاج کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح انسان کے باطن کی تندرستی کی تدبیر اپنے خالق اور مالک کو پہچاننا، اس کا ذکر اور شکر کرنا، اور اس کے احکام کی ہمہ وقت اطاعت کرنا ہے، اور اس کی بیماری اللہ کی یاد سے غفلت، اور اس کے احکام کی خلاف ورزی ہے۔ یہ دل کی بیماریاں کفر، شرک، نفاق، حسد، کینہ، تکبر، نخوت، حرص، بخل، حب جاہ اور حب مال وغیرہ ہیں۔ اور تندرستی یہ ہے کہ اپنے مالک حقیقی کو پہچانے، تمام نفع نقصان، تکلیف اور راحت کا مالک اس کو سمجھے، اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرے، کوئی تکلیف پیش آئے تو صبر سے کام لے، تمام معاملات میں اللہ پر بھروسہ کرے، اس کی رحمت سے اُمید رکھے، اس کے عذاب سے ڈرتا رہے، اس کی رضا جوئی کی فکر کرے، اور انتہائی سچائی، ایمانداری اور اخلاص کے ساتھ اس کے ساتھ اس کے تمام احکام بجا لائے۔
قرآن مقدس میں ارشاد ربانی ہے کہ:
’’وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَاھُوَ شِفَائٌ وَّرَحْمَۃٌ‘‘۔                                 (بنی اسرائیل: ۸۲)
 ترجمہ:…’’ہم نازل کرتے ہیں قرآن سے وہ چیز جو شفا اور رحمت ہے مومنین کے لیے‘‘۔ 
دوسری جگہ ارشاد ہے: 
’’قُلْ ھُوَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا ھُدًی وَّشِفَائٌ‘‘۔                                                      (حم السجدۃ: ۴۴)
ترجمہ:…’’ آپ (ا)کہہ دیجئے کہ یہ قرآن ایمان والوں کے لیے ہدایت ہے اور شفا‘‘۔
لیکن باطنی بیماریوں اور ان کے علاج میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ ظاہری بیماریاں تو آنکھوں اور دُوسرے حواس سے محسوس کی جاسکتی ہیں، نبض کی حرکت خون اور فضلات کا امتحان کرکے معلوم کی جاسکتی ہیں، ان کے معالجات بھی محسوس آلات اور دوائوں سے کیے جاتے ہیں۔ لیکن باطنی امراض نہ آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں، نہ نبض وغیرہ سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے، اسی طرح ان کا علاج بھی محسوس غذائوں اور دوائوں سے نہیں ہوتا، ان امراض کی تشخیص اور علاج کی تجویز صرف قرآن و سنت کے بتلائے ہوئے اُصولوں ہی سے ہو سکتی ہے۔
قرآن و سنت میں انسان کے ظاہری اعمال او معاملات اور باطنی عقائد اور اخلاق سب ہی کی اصلاح کا مکمل نظام موجود ہے۔ اُمت میں صحابہ کرامؓ اور حضرات تابعینؒ سے لے کر موجودہ زمانے کے صالحین کاملین تک جس کو جو کچھ حاصل ہوا ہے، وہ صرف اسی نظام عمل کی مکمل پابندی سے ہوا ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکاۃ اور نکاح و طلاق اور اس قسم کے دیگر معاملات کو علم فقہ میں اور اعمالِ باطنہ میں سے عقائد کو علمِ عقائد میں اور اخلاق اور معاشرت کو علم تصوف میں جمع کردیاگیا ہے۔مگر ایک طویل زمانے سے عام مسلمانوں کی اکثریت اپنی غفلت کے نتیجہ میں علوم دینیہ سے بے بہرہ ہوتی چلی جا رہی ہے، خاص طور پر آخر الذکر علم جس کا تعلق اصلاحِ باطن سے ہے، وہ تو ایسا متروک ہو چکا ہے کہ عوام تو عوام، خواص یعنی علماء کی بھی ایک بہت بڑی تعداد اس سے لاتعلق ہوکر رہ گئی ہے، جس کی وجہ سے بہت بڑی خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں۔ شاید لوگوں نے صرف اعمال ظاہرہ کو ہی کامل اور مکمل دین سمجھ لیاہے۔ صدق و اخلاص، توحید و توکل، صبر و شکر، تقویٰ و پرہیزگاری کے الفاظ صرف زبانوں پر ہی رہ گئے۔ حب جاہ، حب مال، کبر و نخوت، غیظ و غضب، کینہ و حسد جیسے مہلک امراض سے نجات حاصل کرنے کی فکر بھی دلوں سے محو ہوکر رہ گئی۔
آج ہمارا حال یہ ہے کہ اپنے ظاہر کو تو ہم نے کچھ نہ کچھ شریعت کے مطابق بنادیا ہے، ظاہری اعمال کی بھی ہم کچھ نہ کچھ پابندی کرہی لیتے ہیں، تاکہ لوگوں کی نظروں سے گر نہ جائیں۔ ایسے گناہوں سے بھی کسی نہ کسی حد تک ہم اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں، جو گناہ عوام کی نظر میں علم اور علماء کے منصب کے خلاف سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن باطنی گناہوں سے جو ظاہری گناہوں سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، اپنے آپ کو بچانے کی کوئی فکر نہیں کرتے اور اس حوالے سے ہمارا حال انتہائی قابل تشویش ہے۔
یہاں پر ہم سب کو اپنے نفس سے ایک سوال کرنا چاہیے کہ نماز روزے کا اہتمام اور چوری، بدمعاشی، عیاشی، سود خوری، رقص و سرود اور کھیل تماشوں کی محفلوں سے اجتناب اگر واقعی خوف خدا کے نتیجہ میں ہے تو پھر کیا سبب ہے کہ ہم لوگوں سے چُھپ چُھپا کر ایسے گناہ کیا کرتے ہیں، جن سے شیطان بھی شرما جاتا ہے؟ ان مواقع پر خوفِ خدا اور فکر آخرت ہمارے سامنے کیوں نہیں آتے؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ یہ ہمارا ظاہری تقویٰ صرف لوگوں کو دکھانے کے لیے ہم نے اختیار کیا ہوا ہے، اس لیے ہم صرف ان گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرتے ہیں، جن کی وجہ سے ہماری امامت اور خطابت پر حرف آتا ہے۔باقی جن باطنی گناہوں پر جبہ و دستار کا پردہ ڈالا جاسکتا ہے، ان کو ہم نے شیر مادر سمجھ کر اختیار کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری تقریروں میں، خطبوں میں اور بیانات میں کوئی اثر نہیں، اللہ والوں کی خانقاہوں میں، ان باطنی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے اور اللہ والوں کی صحبت کی وجہ سے دلوں میں خشیت الٰہی، تقویٰ و پرہیزگاری اور اخلاص اور سچائی پیدا ہو جاتی ہے۔
حضرت والا ؒ اللہ تعالیٰ کے ذاکر بندوں میں سے تھے، وہ ہر حال میںاللہ تعالیٰ کو یاد کیا کرتے تھے، قرآن کریم میں بھی ان لوگوں کو عقلمند کہا گیا ہے، جو کھڑے ہوئے، بیٹھے ہوئے اور لیٹے ہوئے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمان اور زمین کی چیزوں میں فکر کرتے ہیں، اور بے ساختہ پکار اٹھتے ہیں کہ: ’’اے پروردگار!یہ سب آپ نے بیکار میں پیدا نہیں کیا، بلکہ ایک مقصد کے لیے دنیا کو امتحان گاہ بنایا ہے، اصل تو آخرت ہے تو آپ ہمیں آگ کے عذاب سے بچادیجئے‘‘۔
ایک عقل معاد ہے: یعنی وہ عقل جوآخرت کے لیے استعمال ہو، اور دوسری عقل معاش ہے: یعنی وہ عقل جو دنیا کے لیے کمائی کے نت نئے طریقوں کے لیے استعمال ہو۔ لوگ عام طور پر عقل معاش والے کو عقلمند سمجھتے ہیں، حالانکہ اصل تو عقل معاد ہے، جو آخرت بنانے کے لیے استعمال ہوتی ہے، عقل معاش تو کافروں کو بھی حاصل ہے۔
جسے ذکر مل گیا، اسے ولایت الٰہی اور محبت الٰہی کا دُستور مل گیا۔ آدمی اگر ذاکر نہیں تو غافل ہے اور غافل سے شیطان اس طرح کھیلتا ہے، جس طرح کھلاڑی گیند سے کھیلتا ہے۔ ذکر کی برکت سے غفلت نکل جاتی ہے، اور آدمی کو فضول کاموں سے نفرت ہو جاتی ہے۔ ذکر کرتے کرتے ذکر جاری ہوجاتا ہے اور ذکر کا ایسا مزاج بن جاتا ہے کہ آدمی ذکر کو چھوڑنا بھی چاہے تو چھوڑ نہیں سکتا، ذکر اس کی طبیعت بن جاتا ہے، ذکر اس کی زندگی بن جاتی ہے، ذکر اس کی خوراک بن جاتی ہے، ذاکر بندہ ذکر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ حضرت والاؒ کی خانقاہ میںذکر الٰہی کی ضربیں لگتی تھیں، جن کی وجہ سے مردہ دل زندہ ہوجاتے تھے۔ اللہ والوں کی صحبت سے مردہ دل زندہ ہوتے ہیں،بیمار دل تندرست ہو جاتے ہیں، اور غافل دل غفلت سے نکل آتے ہیں۔ اللہ والوں کی صحبت سے نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔ شیطان ہر ایک سے ایک جیسے گناہ نہیں کراتا، بلکہ شیطان ہر شخص سے اس کے لحاظ سے گناہ کرواتا ہے، مثلاً: وہ علماء اور دین داروں کو حسد، بغض، کینہ، غیبت، حب جاہ اور حب مال کی بیماریوں میں مبتلا کرتا ہے۔ عورتوں کو فیشن اور بے پردگی کی بیماریوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ طلبہ کو ذہنی انتشار میں گرفتار کردیتا ہے، اور فکر معاش ان پر مسلط کردیتا ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد تو اپنا پیٹ کس طرح پالے گا۔ اللہ والوں کی صحبت میں ذکر کی برکت سے ان بیماریوں میں مبتلا لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے صحتیاب ہو جاتے ہیں؟ ان کو اللہ پر اعتماد ہو جاتا ہے، وہ احساس کمتری سے باہر نکل آتے ہیں، ان کو ایمان کی حلاوت اور اسلام کی لذت محسوس ہونے لگتی ہے، جس طرح میلے کچیلے سیپ میں چھپے ہوئے موتی کو اپنی قیمت معلوم نہیں ہوتی، اسی طرح عام طور پر ایک کلمہ پڑھنے والے کو بھی اپنی قدر و قیمت کا حقیقی اندازہ نہیں ہوتا، لیکن اللہ والوں کی صحبت سے اس پر حقیقت کھل جاتی ہے۔
آج کل ہمارے اکثر علماء و طلبہ کو فنون تو بہت آتے ہیں، لیکن وہ ان فنون سے علم کی عمارت کو بنا نہیں پاتے۔ علم کی عمارت تزکیۂ قلب کے بغیر بن ہی نہیں سکتی۔ ہزار اینٹوں کا جمع کردینا الگ بات ہے، لیکن ان اینٹوں سے عمارت تعمیر کرنا الگ بات ہے ، اللہ والوں کی صحبت سے یہ گُر حاصل ہوجا تا ہے۔ اللہ والوں کے بیانات سے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کی زندگیاں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں، بہت ساری مغرب زدہ خواتین اللہ والوں کے بیانات سننے کے نتیجہ میں صالحہ بن جاتی ہیں، ان میں عفت اور پاکدامنی، حسن  اخلاق، نماز کی پابندی، قرآن و سنت کے احکامات کی پاسداری اور تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا ہو جاتی ہے۔ حضرت والاؒ کے ایمان افروز بیانات کے نتیجہ میںبے شمار لوگوں کو ہدایت ملی۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اللہ پاک اپنے اس محبوب بندے کے درجات کو بلند فرمائے، ان کی خدماتِ جلیلہ کو قبول فرمائے، ان کی قبر کو جنت کا باغ بنائے، ان کے جانشینوں کو جانشینی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور مجھ سمیت حضرت کے تمام عقیدت مندوں کو صبر جمیل کے ساتھ ساتھ صحیح معنوں میں متبع سنت بنائے، اور زندگی بھر قرآن اور سنت کے احکامات کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!۔ 
٭٭٭

ایصالِ ثواب کی درخواست

جامعہ کے سابق استاذ مفتی محمد ولی درویش رحمہ اللہ کے بڑے بھائی جناب صوبیدار سیف الرحمن صاحب ۲۰؍ رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ مطابق ۳۰؍ جولائی ۲۰۱۳ء بوقت شب۱۲ بجے آبائی وطن میں انتقال کرگئے۔ قارئین بینات سے ان کے ایصالِ ثواب اور مغفرت کے لیے خصوصی دعا کی درخواست ہے۔


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین