بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

ظالم اور مظلوم میں فرق کیا جائے!!

ظالم اور مظلوم میں فرق کیا جائے!!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

اسلام امن اور سلامتی کا مذہب ہے، جو اپنے ماننے والوں کو صلح وآشتی اور سلامتی وعافیت کا درس اور سبق دیتا ہے اور یہ درس صرف انسانیت کے لیے ہی نہیں، بلکہ جانوروں، پرندوں، حتیٰ کہ کیڑوں اور مکوڑوں کے لیے بھی ہے۔ اسلام صرف حالتِ جنگ میں ہتھیار اُٹھانے کی اجازت دیتا ہے ، اور اس میں بھی یہ تلقین کرتا ہے کہ یہ ہتھیار صرف اس کے خلاف استعمال ہو جو تمہارا محارب اور مقابل ہے۔ جو شخص گھر میں بیٹھا ہے اور تمہارے خلاف نہیں لڑرہا تو اس سے کسی قسم کا تعرض نہیں کرنا۔ بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو کچھ نہیں کہنا۔ جو اپنے عبادت خانے میں عبادت میں لگا ہوا ہے، اس کو بھی نشانہ پر نہیں لینا۔ اسی طرح جو غیر مسلم اجازت لے کر مسلمان ملک میں آیا ہوا ہے، اُس کی جان ، مال اور عزت وآبرو کی حفاظت کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے۔ اسلام تو اپنے ماننے والوں کو یہاں تک تلقین کرتا ہے کہ ہتھیار تو دور کی بات ہے، حقیقی اور کامل مسلمان ہی وہ ہے جو دوسرے مسلمانوں کے خلاف اپنی زبان اور ہاتھ کو محفوظ رکھے۔ آج کوئی مذہب، کوئی معاشرہ اور کسی قوم کی تہذیب اس کی مثال پیش نہیں کرسکتی۔
یہ اسلام کی ہدایات اور تعلیمات ہیں جن پر آج کا مسلمان بھی اسی طرح عمل پیرا ہے، جس طرح اُس کے اسلاف اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین عمل پیرا تھے۔ لیکن کیا کیا جائے کہ آج یہودی اور عیسائی ایک ہوچکے ہیں۔ یہودی‘ عیسائیوں کو یہ باور اور اُن کے ذہنوں میں یہ بات بٹھاچکے ہیں کہ جب تک تم ہماری بات نہیں مانوگے، اس وقت تک تم دنیا پر اپنا تسلُّط اور غلبہ اور مسلمانوں کے خلاف کامیابی حاصل نہیں کرسکتے ۔وہ انہیں کہہ چکے ہیں کہ تمہارے اس نیوورلڈ آرڈر کی کامیابی کا راز یہ ہے کہ تم مسلمانوں کے خلاف ہر جگہ، ہر اعتبار اور ہر چیز سے جارحیت کا ارتکاب کرو، اس لیے گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء کے ورلڈ سینٹر کی تباہی کے ڈرامہ کے بعد اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے اپنی تقریر میں کروسیڈ (صلیبی جنگ) کا لفظ استعمال کیا، اس وقت سے آج تک مغربی دنیا اور اس کے پالتو لوگ اسی فلسفہ اور نظریہ پر عمل کرتے ہوئے عالم دنیا میں مسلمان ممالک، ان کے سربراہان، علمائے کرام، قدآور دینی اور مذہبی شخصیات اور عام دین دار مسلمانوں کو نشانہ پر رکھے ہوئے ہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، اُردن، برما، یمن، فلسطین، کشمیر اور پاکستان وغیرہ سب اس کی واضح مثالیں ہیں۔ 
نوبت بایں جا رسید کہ اب ٹرمپ کے مداح، اسلام دشمنی میں سرتا پا شرابور، اصلی حقیقی دہشت گرد، صلیبی فوجی وردی میں ملبوس ’’برینٹن ٹارنٹ‘‘ نامی درندہ صفت شخص نے ۱۵ مارچ ۲۰۱۹ء کو نیوزی لینڈ کے تیسرے بڑے شہر کرائسٹ چرچ کی دو مساجد: مسجد النور اور مسجد لین روڈ میں نمازِ جمعہ کے لیے موجود ۵۰ سے زائد مسلمانوں کو شہید اور ۴۵ کو زخمی کرکے بش کے فرمان کی تصدیق کردی۔ اس لیے کہ وہ جس گن سے ان نہتے مسلمانوں پر بارود کی آگ برسارہا تھا، اس پر صلیبی نعرے ، صلیبی جنگجوؤں کے نام اور علامات درج تھیں، خاص طور پر ان جنگوں کے نام جن میں مسلمانوں کو شکست ہوئی۔ یہ واقعہ دنیائے انسانیت کے چہرہ پر ایک بدنما داغ ہے، کیونکہ دنیا میں دہشت گردی کے متعدد اور مختلف نوعیت کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں، لیکن جس تعصب، نفرت اور سفاکیت کا مظاہرہ اس شخص نے کیا، تاریخ میں قریب قریب اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
طریقۂ واردات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ محض ایک شخص کی کارروائی نہیں تھی، بلکہ اس منصوبے میں کئی لوگ شریک تھے، جن میں سے صرف چار افراد کی گرفتاری کی خبریں تو منظر عام پر لائی گئی ہیں، باقی اس کے پیچھے کتنے لوگ ، کونسی جماعت ، یا کونسا ملک پشت پناہ ہے، اس کو ابھی تک منظر عام پر نہیں لایا گیا۔ بہت سے ممالک نے اس کو بدترین دہشت گردی قرار دیا ہے، لیکن صدرٹرمپ نے نہ تو اس کو دہشت گردی قرار دیا ہے اور نہ ہی مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کا کوئی کلمۂ خیر کہا ہے۔ اخبارات میں ہے کہ صدر ٹرمپ نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو ٹیلیفون کیا اور پوچھا کہ امریکہ آپ کی کیا مدد کرسکتا ہے؟ ا س پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے اُسے مشورہ دیا کہ ’’امریکہ تمام مسلم کمیونٹی سے محبت اور ہمدردی کا اظہار کرے۔‘‘ اس کے باوجود صدرٹرمپ نے نہ تو جھوٹے منہ اس واقعہ کو دہشت گردی کہا، نہ مسلمانوں سے اظہارِ ہمدردی کیا، بلکہ اس کے دس گھنٹے بعد اس نے گول مول الفاظ میں صرف قتلِ عام کی مذمت کی۔ 
یاد رہے کہ نیوزی لینڈ میں ۲۰۱۳ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوںکی تعداد ۴۶۰۰۰ بتائی جاتی ہے۔ فائرنگ کے وقت ۱۵ ممالک کے مسلمان جن میں پاکستان، سعودی عرب، ترکی، مصر، اُردن، انڈونیشیا اور ملائیشیا کے نمازی اور مقامی نومسلم حضرات موجود تھے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق یہ ہیں: ۱:-سہیل شاہد، ۲:- سید جہان داد علی، ۳:-سید اریب احمد، ۴:-محبوب ہارون، ۵:- نعیم راشد، ۶:- اور اُن کے بیٹے طلحہ نعیم راشد۔ تین پاکستانیوں کی شناخت ابھی تک نہیں ہوسکی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام شہداء کے درجات بلند فرمائے۔ حملہ آور کا تعلق آسٹریلیا سے بتایا جاتا ہے، جس کا نام ’’برینٹن ٹارنٹ ‘‘ ہے۔ یہ جم کا ٹرینر رہا ہے اور خود کو صلیبی سپاہی بھی کہتا ہے۔ سرپر لگے کیمرے کی مدد سے النور مسجد میں نمازیوں پر حملے کو فیس بک پر لائیودکھاتا رہا، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ مسجدمیں مردوں، عورتوں اور بچوں پر فائرنگ کررہا ہے۔ یہ دہشت گرد ہتھیار گاڑی سے نکالتا ہے ، جن پر مختلف عبارتیں لکھی ہوئی ہیں، اس نے یقینی بنایا کہ کوئی نمازی مسجد سے بچ کر نہ جاسکے، تین دفعہ وہ مسجد سے باہر گیا اور مسجد کے اندر آیا۔ مسجد کے مردانہ حصے سے فارغ ہوکر عورتوں کے نماز والے حصہ میں گیا اور ان پر فائرنگ کی، فائرنگ کے بعد اس نے دونوں ہالوں کا جائزہ لیا اور تمام افراد کی بظاہر موت کا یقین ہونے کے بعد یہ یہاں سے گیا۔ اب بتایا جائے کہ یہ جارج بش کے کروسیڈ (صلیبی جنگ) کے نظریہ کی عمل داری نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا مغربی دنیا اسے کسی دہشت گرد کی دہشت گردی کہتی ہے یا اس گھناؤنے عمل کو دہشت گرد کے مذہب سے جوڑتی ہے؟! یہ بھی مغرب کی منصف مزاجی کا بڑا امتحان ہے! نیوزی لینڈ میں مساجد کے نمازیوں پر یہ حملہ اور دہشت گردی کوئی پہلا واقعہ نہیں، بلکہ نائن الیون کے ڈرامہ اور اس کے وقت کے صدر جارج بش کے اس ’’کروسیڈ‘‘ کے لفظ کے بعد پوری دنیا میں کئی مساجد اور مسلمانوں پر کئی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق:
’’نیوزی لینڈ میں مساجد پر ہونے والا یہ پہلا حملہ نہیں، بلکہ آسٹریلیا، جرمنی، فرانس میں بھی مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق صرف ۲۰۱۰ء میں جرمنی میں ۲۷ مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ ۲۰۱۷ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ گئی۔ ۹۵۰ واقعات مسلمانوں کے خلاف رپورٹ ہوئے اور ۷۳ مساجد نشانہ بنیں۔ ۲۰۱۶ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ کئی مساجد کو آگ لگائی گئی۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان حملوں کو دہشت گردی قراردینے یا دہشت گردوں کو گرفتار کرنے کی بجائے ان حملوں کو اسلامی شدت پسندی سے جوڑا گیا۔ برطانیہ میں ۲۰۱۳ء سے ۲۰۱۷ء تک ۱۶۷ مساجد کو نشانہ بنایا گیا۔ یہی عالم امریکا کا بھی رہا۔ کیلی فورنیا، واشنگٹن، اوہائیو، ٹیکساس، فلوریڈا، ورجنیا، مشی گن، نیوجرسی اور میسا چوٹس وہ ریاستیں ہیں جہاں مساجد کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا گیا۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ۲۹ جولائی ۲۰۱۷ء کو ایک حملہ آور نے مسجد کے نمازیوں کو گاڑی کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی۔ اسی طرح فرانس کے دیگر حصوں میں مساجد پر حملے ہوئے، مگر ان کا سدباب کرنے کی بجائے بیسیوں مساجد کو بند کردیا گیا۔ کینیڈا کے شہر کیوبک میں فرانسیسی نژاد الیگزنڈر اسٹنٹ نے مسجد پر حملے کرکے ۶ افراد کو شہید اور ۸ کو زخمی کیا۔ بلغاریہ میں بھی مسلمانوں کی تاریخی مسجد کو شہید کردیا گیا۔‘‘                          (روزنامہ اسلام، کراچی، اتوار، ۱۷ مارچ ۲۰۱۹ء)
چونکہ تمام تر میڈیا ان یہودیوں کے کنٹرول میں ہے، اس لیے کسی سفید فام اور غیرمسلم کے دہشت گردانہ حملوں کے ذمہ دار کو دہشت گرد کہنے سے احتراز برتا جاتا ہے، اس کے لیے ’’مسلح حملہ آور‘‘ یا ’’ذہنی معذور‘‘ کے الفاظ کا استعمال کرکے اس کے جرم کی سنگینی کو کم کرنے کی مقدور بھر کوشش کی جاتی ہے، اسے ہائی لائٹ کرنے سے بھی حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی حملہ آور مسلمان ہو تو ’’دہشت گردی‘‘ کا واویلا کیا جاتا ہے، نہ صرف اُسے ضرورت سے زیادہ بڑھاچڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، بلکہ نعوذ باللہ! اُسے اسلام اور پیغمبرِ اسلام a کی تعلیمات سے بھی جوڑدیا جاتا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس دردناک سانحے کے بعد اقوامِ عالم کے سربراہان مل بیٹھتے اور دہشت گردی کے خلاف مذہبی اور نسلی منافرت سے ہٹ کر کوئی ٹھوس اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرتے، مگر المیہ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ میں بہنے والا خون مسلمانوں کا ہے، جو دنیا میں پانی سے زیادہ سستا سمجھ لیا گیا ہے، حالانکہ جنوری ۲۰۱۵ء میں فرانس میں دہشت گردی کے ایک حملہ میں ۱۷ افراد مارے گئے تھے، جس پر دنیا بھر کے مسلم اور غیر مسلم چالیس ملکوں کے سربراہان نے لاکھوں افراد کے ہمراہ پیرس میں جمع ہوکر دہشت گردی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا۔ کیا سمجھا جائے کہ فرانس میں بہنے والا خون سفید چمڑی والے غیرمسلموں کا تھا ، اس لیے وہ دہشت گردی بھی تھی، ظلم بھی تھا اور اس میں کام آنے والے مظلوم بھی تھے، لیکن یہاں بہنے والا خون مسجد میں موجود مسلمانوں کا ہے، جو نہ تو دہشت گردی کے زمرہ میں آتا ہے اور نہ ہی اس میں شہادت کا رُتبہ پانے والے نمازی حضرات مظلوم ہیں۔ آخر دونوں میں فرق کیوں؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جہاں بھی اور جس کے خلاف بھی ظلم ہو تو ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم کہا جائے، تاکہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں اور دنیا میں امن وامان قائم کرنے میں مدد ملے، لیکن ہائے افسوس! کہ دنیا آج اس انصاف اور فرق سے عاری نظر آتی ہے۔ 
اس سانحے پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم نے جس جرأت، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ غم اور ہمدردی کا ثبوت دیا، اس پر پاکستانی قوم کے علاوہ پوری اُمتِ مسلمہ انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ اس واقعہ سے اگلے جمعہ کو مسلمان عورتوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے طور پر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم سمیت وہاں موجود تمام غیر مسلم خواتین نے سرپر دوپٹہ اوڑھا، جمعہ کی اذان سرکاری طورپر پورے ملک میں نشر کی گئی، جس کا دنیا بھر میں بہت اچھا اثر مرتب ہوا، کئی غیر مسلم اس واقعہ کے بعد مسلمان ہوگئے، وہاں وزیراعظم نے نیوزی لینڈ کی پارلیمنٹ میں اجلاس کا آغاز قرآن کریم کی تلاوت سے کرایا، اپنے خطاب کا آغاز ’’السلام علیکم‘‘ اور حضور اکرم a کی حدیث سے کیا، اس نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب میں کہاکہ: 
’’اس حملہ آور کو کئی چیزیں مطلوب تھیں، ایک ان میں شہرت بھی تھی، وہ دہشت گرد ہے، وہ مجرم ہے، وہ انتہاء پسند ہے۔‘‘ اس نے کہا: میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ ان کا نام لیں جنہوں نے اس واقعہ میں جان گنوائی ہے، نہ کہ اس کا جس نے اسے انجام دیا۔ وزیراعظم نے پاکستانی نوجوان نعیم راشد کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ نعیم راشد جس کا تعلق پاکستان سے ہے، حملہ آور سے بندوق چھیننے کی دوڑ میں شہید ہوگئے، انہوں نے مسجد میں عبادت کرنے والے لوگوں کو بچانے کے لیے اپنی جان گنوادی، مرنے والوں کا تعلق اس مذہب سے تھا جو کشادہ دل کے ساتھ سب کا استقبال کرتے ہیں، ان کی بہادری اور جرأت کو نیوزی لینڈ کی قوم ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اسی طرح حاجی داؤدنبی ۷۱ سال کا ایک شخص تھا جس نے النور مسجد کا دروازہ ان الفاظ کے ساتھ کھولا : ہیلوبرادر! خوش آمدید، یہ آخری الفاظ تھے، انہیں نہیں پتا تھا کہ دروازہ کے پیچھے کس قدر نفرت ہے، لیکن ان کا استقبال کا طریقہ بتاتا ہے کہ وہ ایسے مذہب کے رکن تھے جو تمام لوگوں کو کشادہ دلی اور فکر کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے۔‘‘                            (روزنامہ ایکسپریس، کراچی، ۲۰ مارچ ۲۰۱۹ء)
اب خبریں آرہی ہیں کہ اس قاتل کو ہیروبنانے کی عدالتی سازش ہورہی ہے، کیونکہ اخبارات کے مطابق: ’’سفاک قاتل نے عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی سفید فاموں کی برتری ظاہر کرنے والا خصوصی نشان بنارکھا تھا، جس پر اسے عالمی سطح پر بالخصوص یورپی ممالک میں مسلمانوں سے نفرت رکھنے والے نسلی انتہاپسندوں کی جانب سے خاصی مقبولیت اور پذیرائی مل گئی ہے۔ باخبر ذرائع کا ماننا ہے کہ اسے عدالت میں ایسا موقع دینے کی خفیہ تیاریاں کی جارہی ہیں کہ وہ عدالت کو اپنے کیے کی سزا پانے کی بجائے ایک منبر کے طور پر استعمال کرسکے۔ بے رحم دہشت گرد عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوکر میڈیا کے سامنے مزید اشتعال انگیز بیان دینے کی ریہرسل کررہا ہے اور اس کے وکلاء اور قانونی ماہرین اس کی مدد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بہرحال اب نیوزی لینڈ کی حکومت اور ذمہ داران کا امتحان ہے کہ وہ اس سفاک قاتل کو کیفرِ کردار تک کب پہنچاتے ہیں اور ان کے پیچھے کارفرما نظریہ اور منصوبے کو کس طرح خاک میں ملاتے ہیں؟ !
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس، نائب رئیس اور جملہ اساتذہ کرام نیوزی لینڈ کی مساجد میں شہادت کا رتبہ پانے والوں کے لیے رفع درجات کی دعا کرتے ہیں اور ان کے پسماندگان اور لواحقین سے تعزیت کرتے ہوئے اُن کے صبر جمیل کے لیے دعا گوہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ تمام شہداء کی مغفرت فرمائے، ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے بچوں کی کفالت وکفایت اور اعزہ واقرباء کو صبر جمیل کی توفیق نصیب فرمائے، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین