بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

طلبہ کرام کے لیے چند مفید نصائح!

طلبہ کرام کے لیے چند مفید نصائح!


مورخہ ۸؍ ربیع الاول ۱۴۴۴ھ مطابق ۵؍اکتوبر ۲۰۲۲ء بروز بدھ حضرت مفتی رضاء الحق صاحب مدظلہٗ (جامعہ کے متخصص و سابق استاذ و حال شیخ الحدیث ورئیسِ دار الافتاء دار العلوم زکریا، جنوبی افریقہ) پاکستان کے سفر کے دوران جامعہ تشریف لائے۔ اس موقع پر حضرت نے جامعہ کی مسجد میں اساتذہ وطلبہ سے ایک علمی خطاب فرمایا، جسے جامعہ کے تخصص فی الدعوۃ والارشاد کے طالب علم مولوی آصف ملک نے ریکارڈنگ سے کاغذ پر منتقل کیا ہے۔ افادۂ عام کی غرض سے ہدیۂ قارئین کیا جارہا ہے۔         (ادارہ)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ نحمدہٗ ونصلي ونسلم علی رسولہ الکریم وعلی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین، أما بعد:

محترم علماء کرام اور طلباء کرام !

حضرت مولانا احمد بنوری حفظہ اللہ تعالیٰ ورعاہ نے میرے بارے میں جو فرمایا، یہ ان کا حسنِ ظن ہے، جو بعض کتابوں میں حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کی طرف یہ قول منسوب کیا گیا ہے (۱) اور بہت اچھا قول ہے کہ جب سامنے کسی کی تعریف کی جائےتو وہ یہی کلمات کہہ دے: ’’اَللّٰہُمَّ لَاتُؤاخِذْنِيْ بِمَا يَقُوْلُوْنَ‘‘ اے اللہ! میری پکڑ نہ کر اس پر جو یہ لوگ میری تعریف فرماتے ہیں۔ ’’وَاغْفِرْ لِيْ مَالَايَعْلَمُوْنَ ‘‘ اور میرے بخش دے وہ گناہ جو یہ نہیں جانتےاور میں جانتا ہوں۔ ’’ وَاجْعَلْنِيْ کَمَايَظُنُّوْنَ۔ ‘‘ یہ تیسرا جملہ بہت اچھا ہے، اے اللہ! مجھے اس طرح بنادے جیسا کہ ان حضرات کا گمان ہے۔ 
دوسری بات یہ ہے کہ یہ اساتذہ کرام جو آپ کا امتحان لیتے ہیں، آپ کے لیے پرچے بناتے ہیں، اور پرچے دیکھتے ہیں اور محنت کرتے ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ امتحان کے ذریعے سے اور پاس ہونے کے ذریعے سےاونچے درجے پر پہنچیں، اگر ایک پاس طالب علم سو فیصد نمبر لے چکا ہو، اور پچانوے فیصد نمبر لے چکا ہو، اور جو اساتذہ کرام ہیں، اسی کتاب میں ان کے اسی فیصد نمبر ہوں تووہ استاذ خوش ہوگا، وہ کہے گا کہ: الحمد للہ میرا شاگرد مجھ سے آگے بڑھ گیا، اور باپ بیٹے کی طرف سے کیسے خوش ہوتا ہے؟ باپ اگر چوکیدار ہے تو وہ چاہتا ہے کہ میرا بیٹا آفیسر بن جائے، ڈاکٹر بن جائے، عالم بن جائے، مفتی بن جائے، قاضی بن جائے، وہ یہ نہیں کہے گا کہ میں چوکیدار ہوں تو میرا بیٹا بھی چوکیدار بنے۔ یہی اساتذہ کرام آپ کے استاذ ہیں، مربی بھی ہیں، اورمعلم بھی ہیں، والد یاوالدین صرف مربی ہوتے ہیں، اور ان کی تربیت بھی بے چاروں کی ناقص ہوتی ہے، بچے ان کے کنٹرول میں نہیں ہوتے، اور جو آپ کے اساتذہ کرام ہیں، وہ آپ کے معلم بھی ہیں، اور مربی بھی ہیں، وہ آپ کے بالوں کو دیکھیں گے کہ آپ کے بال شریعت کے موافق ہیں یا نہیں؟ آپ کی قمیص کو دیکھیں گے، آپ کی شلوار کو دیکھیں گے کہ ٹخنوں سے نیچے ہے یا نہیں؟ اور اگر ہو تو پھر حکم دیں گے کہ کاٹناچاہیے اور اوپر کرنا چاہیے، وہ آپ کے چہرے کو دیکھیں گے کہ داڑھی کے ساتھ آپ کیا عمل کرتے ہیں؟ وہ آپ کی آنکھوں کو دیکھیں گے یہ کہاں استعمال ہورہی ہیں؟ آپ کے کان کہاں استعمال ہورہے ہیں؟ آپ کے ہاتھ کہاں استعمال ہورہے ہیں؟ آپ کے پیر کہاں استعمال ہورہے ہیں؟ تو یہ اساتذہ کرام آپ کے معلم بھی ہیں اور آپ کے مربی بھی ہیں۔ 

واقعہ

اور میں یہ واقعہ بیان کرتا ہوں، ہندوستان میں ایک شاعر تھا، وہ اسٹیج سیکرٹری میں بڑا ماہر تھا، وہ سکھ تھا، مہندر سنگھ بیدی غالباً نام تھا، تو ایک مشاعرہ میں ایک شاعر کو اسٹیج پر بلارہا ہے، اس شاعر کا لقب و تخلص تھا ’’عرش‘‘، تو اس نے اس شاعر کے بلانے کے لیے ایک شعر کہا جو بہت اچھا شعر ہے، کہا کہ:

اب تمہیں معجزہ دکھاتا ہوں
عرش کو فرش پر بٹھاتا ہوں

تو اس شعر کو تو چھوڑدیجئے اور اس کی جگہ ہم کہیں گے کہ: 
یہ اساتذہ کرام، یہ کرامت تمہیں دکھاتے ہیں اور فرش کو عرش سے ملاتے ہیں۔ 
آپ کو فرش سے عرش پر ملاتے ہیں، قرآن کریم عرش سے اُترا ہے، وحی عرش سے اُتری ہے، تو آپ کو وحی سے ملاتے ہیں، تو یہ اساتذہ کرام اس پر خوش ہیں کہ ہمارے نمبر تو ہوگئے اسی فیصد، اور ماشاء اللہ! ہمارے تلامذہ اور ہمارے شاگردوں نے نوے فیصد نمبرات لیے ہیں۔ 

واقعہ

ایک واقعہ سناکر بات ختم کرتا ہوں۔ کہتے ہیں کہ تقی الدین سبکی کے صاحبزادے تھے بہاء الدین سبکی، کسی نے تقی الدین سبکی سے کہا کہ آپ کے بیٹے کا درس آپ کے درس سے اچھا ہے، آپ کا بیٹا بہترین درس دیتا ہے، آپ سے بھی اچھا، تو اس نے ایک شعر کہا جو مختلف الفاظ میں منقول ہے، لیکن اس کے کچھ الفاظ یوں بھی ہیں :
 

دُرُوْسُ اِبْنِيْ خَیْرٌ مِّنْ دُرُوْسِ أبٍ
فَذَاکَ مِنْ اَبِيْہِ غَايَۃُ الْاَمَلِ(۲)

 

’’ لوگ کہتے ہیں بیٹے کا درس باپ سے بھی اچھا ہے، اور یہ تو والد کی انتہائی اور بہت اعلیٰ درجہ کی تمنا ہے کہ میرا بیٹا مجھ سے آگے بڑھ جائے۔‘‘
یہی اساتذہ کرام چاہتے ہیں کہ آپ کادرجہ، آپ کا مرتبہ اپنے اساتذہ سے بلند ہوجائے، جیسے باپ چاہتا ہے کہ میرابیٹا مجھ سے آگے بڑھے، اس لیے اپنے اساتذہ کو اگر خوش کرنا یا ان کے دلوں کو سکون پہنچانا مقصود ہو تو اچھی طرح محنت کریں۔

بِـقَـدْرِ الْکَـدِّ تُـکْـتَـسَـبُ الْـمَعَالِيْ
وَمَنْ طَلَـبَ الْعُلَا سَـہِـرَ اللَّـيَـالِيْ

تَـرُوْمُ الْعِزَّ ثُمَّ تَـنَـامُ لَـيْلاً
يَـغُوْصُ الْـبَحْرَ مَـنْ طَلَـبَ الْلُّآلِيْ
وَمَـنْ طَلَـبَ الْعُـلٰی مِـنْ غَـيْـرِ کَـدٍّ 
اَضَـاعَ الْـعُـمْـرَ فِيْ طَلَـبِ الْمُـحَـالٖ(۳)

 

ویسی ہی عمر ضائع کریں گے اگر بغیر محنت کے پڑھیں گے، بغیر محنت کے تو کام نہیں چلتا۔ ’’لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍ‘‘ (سورۃالبلد:۴) آپ پڑھتے ہیں، اللہ تبارک و تعالیٰ نے قسمیں کھائیں کہ مکہ مکرمہ کو دیکھو شاہد کے طور پر، گواہی کے طور پر، ’’لَا أُقْسِمُ بِہٰذَا الْبَلَدِ‘‘ مکہ مکرمہ میں کتنی محنت اٹھائی گئی، حضرت ابراہیم  علیہ السلام نے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے، والد اور ولد کو دیکھو کہ والدین کتنی مشقت اٹھاتے ہیں، یہ بھی ایک گواہی ہے اور استشہاد ہے، اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِيْ کَبَدٍ‘‘ انسان کو تو ہم نے مشقت کے اندر ڈوبا ہوا پیدا کیا ہے۔ ’’کَبَد‘‘ اصل میں ’’کَبِدَ یَکْبَدُ‘‘ (بابِ) ’’سَمِعَ یَسْمَعُ‘‘ سے ہے، جگر کے درد کو کہتے ہیں۔ جگر کا درد، دل کا درد بہت سخت ہوتا ہے، اتنا سخت ہوتا ہے کہ آدمی مرجاتا ہے، تو سخت مشقت کو ’’کَبِد‘‘ کہتے ہیں کہ یہ انسان سخت مشقت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، تو اللہ تعالیٰ (علم کی خاطر) مشقت (برداشت کرنے) کی توفیق عطا فرمائے۔ 

چند مفید کتب

پیارے بچو! حضرت مولانا علی میاں فرماتے تھے اور حضرت مولانا مسیح اللہ صاحب بھی فرماتے تھے: علم میں اخلاص ہونا چاہیے اور اختصاص ہونا چاہیے۔ اخلاص تو ہے ہی ضروری، اور اختصاص کا مطلب ہے کہ آدمی اسپیشلائزیشن کو حاصل کرے، تخصص کو حاصل کرے ہر فن میں، تخصص فی الفقہ، خصوصاً تخصص فی الحدیث، تخصص فی التفسیر، اس میں خوب تخصص حاصل کرنا چاہیے، ہمارے اکابر حضرت مولانا بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرمایا کرتے تھے: فقہ میں طالب علم کو ’’تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے، بہت مفید کتاب ہے، اور مولانا سعید احمد پالن پوری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ: فقہ میں ’’ملتقی الأبحر‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہیے، اور آج کل جو ’’ملتقی الأبحر‘‘ ہے، اس پر وہبی سلیمان غاؤجی کی بہترین تعلیقات آئی ہیں جن میں ہمارے اکابر کے علوم کو جمع کیا گیا ہے۔
 اور ہمارے جامعہ (بنوری ٹاؤن)کے فاضل مولانا امین اورکزئیؒ جو یہاں کے استاذ تھے، وہ فرماتے تھے کہ: طالب علم کو ’’شرح النقایۃ‘‘ جو ملا علی القاریؒ کی کتاب ہے، بمع تعلیقات کے آج کل آئی ہے، اس کا مطالعہ کرنا چاہیے، اور اسی طرح آج کل جو ’’تنویر الأبصار‘‘ جو درِمختار کا متن ہے، اس پر ایک پرانے ترکی عالم نے شرح لکھی ہے جو کہ چھپ گئی ہے: ’’الجوہر المنیر في شرح التنویر‘‘ جب تخصص والے تخصص کرتے ہیں تو اس کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے، اس لیے کہ ’’تنویر الأبصار‘‘ کا متن مشابہ بالفتاویٰ ہے، اس میں فتاویٰ کی باتیں بھی آتی ہیں اور متن بھی ہے۔ ابھی ان شاء اللہ انعامات کی تقسیم ہوگی۔ 
اتفاق کی بات یہ ہے مجھے اپنا کلام یاد نہیں رہتا(۴)، ایک شاعر فارسی کا شعر کہتا ہے کہ:

ما ہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
الا حدیثِ یار کہ تکرار می کنیم

جو کچھ ہم نے پڑھا تھا، لکھا تھا، تقریباً سب بھول گئے ہیں، الاحدیث یار، یار کی حدیث قرآن وحدیث مبارکہ کے ساتھ تعلق ہے، بس اسی کا تکرار کرتے ہیں، بس افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ مجھے اپنا کلام یاد نہیں ہوتا، اس لیے میں معذور ہوں، حضرت (مولانا احمد یوسف بنوری مدظلہٗ ) سے معذرت کرتا ہوں، ہمارے محترم ہیں، ہمارے شیخ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے پوتے ہیں۔ اور ایک واقعہ میں سناتا ہوں مجھے ایک واقعہ یاد آیا۔ 

حضرت بنوری  رحمۃ اللہ علیہ  کی کرامت کا واقعہ

یہ حضرت مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی کرامت ہے، ہمارے مہتمم مولانا شبیر صاحب جب تیسرے یا چوتھے درجے میں پڑھتے تھے، حضرت مولانا صاحبؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، یہاں سبزہ تھا جہاں حضرتؒ کی مجلس لگتی تھی، اس سبزہ میں حضرتؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے، حضرتؒ بیان فرماتے تھے، کبھی واقعات سناتے تھے، جب بھی ہمارے مہتمم مولانا شبیر احمد حضرتؒ کے پاس آتے تھے تو حضرتؒ ان سے کہتے تھے کہ شبیر! تم مدرسہ کب قائم کروگے؟ تمہارے مدرسہ کا کیا بنا؟ وہ حیران ہوتے تھے، اس زمانے میں ساؤتھ افریقہ میں مدرسے کا تصور بھی نہیں تھا، مدرسہ کا ماحول بھی نہیں تھا، ہندوستان و پاکستان میں وہاں سے لڑکے آتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو توفیق دی، مدرسہ قائم ہوا، وہ مہتمم بن گئے، اس کے بعد پتہ چلا، یہ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  کی کرامت تھی کہ وہ مدرسے کو اس زمانے میں کشف کی نگاہ سے دیکھتے تھے، جس زمانے میں کسی مدرسے کا وجود وہاں نہیں تھا، گویاکہ یہ مدرسہ(مدرسہ دارالعلوم زکریا، ساؤتھ افریقہ) جس میں ہم ہیں، یہ مدرسہ حضرت بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کی کرامت ہے۔ (آخر میں حضرت مفتی صاحب نے دعا کروائی۔)

حواشی وحوالہ جات

۱:مذکورہ قول حضرت ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  کے علاوہ حضرت علی، حضرت عمر بن عبد اللہ مولی غفرہ  رضی اللہ عنہم  کی طرف بھی منسوب ہے، اور امام بیہقی، ابن حجر، ابن بطال، اور ابن الملقن رحمۃ اللہ علیہم   نے اس قول کو بعض سلف کی طرف منسوب کیا ہے، اور بعض کتابوں میں ’’عن رجل‘‘ کے ساتھ منقول ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: کتاب الزہد والرقاق لابن المبارک (ج:۲/۱۴)۔ شعب الإیمان (۶/۵۰۴)۔ کنز العمال (۱۲/۷۶۵)۔ شرح سنن أبي داؤد لابن رسلان (۱۸/۴۷۷)۔ فتح الباري لابن حجر (۱۰/۴۷۸)۔ شرح صحیح البخاري لابن بطال (۸/۴۸)۔ تہذیب الأسماء واللغات للنووي (۲/۱۹۰)۔ التوضیح لابن الملقن (۱۶/۶۰۱)، السراج المنیر شرح الجامع الصغیر (۲/۲۲۷)۔ إحیاء علوم الدین (۴/۲۷۷)
۲: الدررالکامنۃ في أعیان المأۃ الثامنۃ لابن حجرؒ: ۱/۲۴۹، ط: مجلس دائرۃ المعارف العثمانیۃ
۳: دیوان الإمام الشافعي بتحقیق الدکتور محمد عبدالمنعم خفاجي، قافیۃ القاف، تحت العنوان ’’طریق المعالي‘‘ (ص:۱۰۸)، ط: مکتبۃ الکلیات الأزہریۃ

۴: تقسیمِ انعامات کے بعد حضرت مولانا سید احمد یوسف بنوری مدظلہٗ نے حضرت سے اپنے کلام میں سے کچھ سنانے کی درخواست پیش کی تو حضرت مفتی صاحب نے یہ جواب دیا۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین