بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

طلاق کیا ہے؟ ضرورت کے وقت طلاق دینے کا صحیح طریقہ!

طلاق کیا ہے؟

ضرورت کے وقت طلاق دینے کا صحیح طریقہ!


بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرپرستی میں مرکزی حکومت نے تین طلاق دینے والے شخص کے لیے تین سال کی جیل والا وہ قانون آخر کار پاس کر ہی ڈالا جو دنیا کے کسی بھی چپہ میں نہ نافذ ہے اور نہ ہی آج تک اس نوعیت کا کوئی قانون اللہ کی سرزمین میں نافذ ہوا ہے، اور نہ ہی تین طلاق دینے والے شخص کو دی جانے والی اِن سزاؤں کا کوئی تعلق قرآن وحدیث سے ہے جو شریعتِ اسلامیہ کے دو اہم مآخذ ہیں، یعنی اب ہمارے بھارت مہان میں اگر کسی بھی شخص کی بیوی نے تھانہ جاکر یہ شکایت درج کی کہ اُس کے شوہر نے اسے تین طلاق دی (خواہ واقعتا دی ہوں یا نہ) تو شوہر کو تین سال تک جیل میں تکلیفیں اور پریشانیاں برداشت کرنی ہی ہوں گی اور شو ہر کو تین سال تک جیل میں رہتے ہوئے اپنی بیوی اور بچوں کے تمام اخراجات بھی برداشت کرنے ہوں گے۔ حکومت تین طلاق کے نام پر عورت کے ساتھ ہمدردی کا ڈھکوسلا تو کرتی ہے، مگر شوہر کے جیل کے دوران بھی اُس کے بچوں یا بیوی کا کوئی بھی خرچہ حتیٰ کہ اُن کی تعلیم یا بیمار ہونے پر علاج کے اخراجات بھی برداشت کرنے کے لیے حکومت تیار نہیں ہے۔ جیل سے باہر آنے کے بعد آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ شوہر اپنی بیوی کے ساتھ کیا برتاؤ کرے گا؟! 
سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جائز کاموں میں سب سے برا عمل طلاق کو قرار دیا ہے، مگر اس قانون کے بعد طلاق مذاق بن جائے گا، جس سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقاصد ہی پورے ہوں گے، یعنی مسلم میاں بیوی کے اختلاف کی صورت میں بیوی اس قانون سے ناجائز فائدہ اٹھاکر شوہر کو جیل بھیج کر کسی بھی مسئلہ پر پیدا ہوئے اپنے جھگڑے کا بدلہ لے گی اور اُس کے بعد دونوں خاندانوں میں جنگ ہوتی رہے گی۔ چنانچہ میاں بیو ی کے مختلف پرانے جھگڑوں میں عورت کے گھر والوں نے اس قانون کا ناجائز فائدہ اُٹھاکر شوہر کے خلاف تین طلاق کا کیس دائر کرنا شروع کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ موجودہ حکومت اپنے مذموم ارادوں کو پورا کرنے کے لیے پہلی فرصت میں شوہر کو جیل بھیجنے کے لیے احکام جاری کرے گی۔
تین طلاق پر تین سال کی جیل والا قانون بننے کے بعد اب ہمیں ہندوستان کے موجودہ تناظر میں عوام میں یہ بیداری پیدا کرنی ہی ہوگی کہ کوئی بھی مسلمان چھوٹی چھوٹی بات پر ایک ہی ساتھ تین طلاق نہ دے، بلکہ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلافات دور نہ ہوں تو قرآن کریم (سورۃ النساء: ۳۵) کی تعلیم کے مطابق دونوں خاندانوں کے چند افراد کو حکم بناکر معاملہ طے کرنا چاہیے۔ غرضیکہ ہر ممکن کوشش کی جانی چاہیے کہ ازدواجی رشتہ ٹوٹنے نہ پائے، لیکن بعض اوقات میاں بیوی میں صلح مشکل ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے دونوں کا مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے تو ایسی صورت میں ازدواجی تعلق کو ختم کرنا ہی طرفین کے لیے مناسب معلوم ہوتا ہے، اسی لیے شریعتِ اسلامیہ نے طلاق کو جائز قرار دیا ہے۔ یہ تو مذہبِ اسلام کا امتیازی وصف ہے کہ دونوں میاں بیوی میں نبھاؤ نہ ہونے کی شکل میں طلاق دے کر خوش اسلوبی کے ساتھ ازدواجی تعلق کو ختم کردیا جائے۔
طلاق میاں بیوی کے درمیان نکاح کے معاہدہ کو توڑنے کا نام ہے،جس کے لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ دو اہم شرائط کے ساتھ صرف ایک طلاق دے دی جائے: 
پہلی شرط:-عورت پاکی کی حالت میں ہو۔ 
دوسری شرط:-شوہر عورت کی ایسی پاکی کی حالت میں طلاق دے رہا ہو کہ اس نے بیوی سے ہم بستری نہ کی ہو۔ 
صرف ایک طلاق دینے پر عدت کے دوران رجعت بھی کی جاسکتی ہے، یعنی میاں بیوی والے تعلقات کسی نکاح کے بغیر دوبارہ بحال کیے جاسکتے ہیں۔ عدت گزرنے کے بعد اگر میاں بیوی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ نیز عورت عدت کے بعد کسی دوسرے شخص سے نکاح بھی کرسکتی ہے۔ غرضیکہ اس طرح طلاق واقع ہونے کے بعد بھی ازدواجی سلسلہ کو بحال کرنا ممکن ہے اور عورت عدت کے بعد دوسرے شخص سے نکاح کرنے کا مکمل اختیار بھی رکھتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر میاں بیوی کے درمیان صلح کرانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں اور طلاق دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوتو صرف ایک طلاق دے دی جائے، تاکہ غلطی کا احساس ہونے پر عدت کے دوران رجعت اور عدت گزرنے کے بعد دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ کھلا رہے۔ ایک ساتھ تین طلاق دینے سے بالکل بچنا چاہیے، کیونکہ اس کے بعد رجعت یا دوبارہ نکاح کرنے کا راستہ بظاہر بند ہوجاتا ہے۔ 

طلاق کا اختیار مرد کوہے 

مرد میں عادتاً وطبعاً عورت کی بہ نسبت فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، نیز انسانی خلقت ، فطرت، قوت اور صلاحیت کے لحاظ سے اور عقل کے ذریعہ انسان غوروخوض کرے تو یہی نظر آئے گا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قوت مرد کو عطا کی ہے، بڑے بڑے کام کرنے کی جو صلاحیت مرد کو عطا فرمائی ہے، وہ عورت کو نہیں دی گئی۔ لہٰذا امارت اور سربراہی کا کام صحیح طور پر مرد ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس مسئلہ کے لیے اپنی عقل سے فیصلہ کرنے کے بجائے اس ذات سے پوچھیں جس نے اِن دونوں کو پیدا کیا ہے، چنانچہ خالقِ کائنات نے قرآن کریم میں واضح الفاظ کے ساتھ اس مسئلہ کا حل پیش کردیا ہے: {وَلِلرِّجَالِ عَلَیْہِنَّ دَرَجَۃٌ} (البقرۃ: ۲۲۸) {الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ} ( النساء: ۳۴) ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں ذکر فرمادیا کہ: مرد ہی زندگی کے سفر کا سربراہ رہے گا اور فیصلہ کرنے کا حق مرد ہی کو حاصل ہے، اگرچہ مرد کو چاہیے کہ عورت کو اپنے فیصلوں میں شامل کرے۔ اسی وجہ سے شریعتِ اسلامیہ نے طلاق دینے کا اختیار مرد کو دیا ہے۔

خُلَع

لیکن عورت کو مجبورِ محض نہیں بنایا کہ اگر شوہر بیوی کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کررہا ہے، یا بیوی کسی وجہ سے اس کے ساتھ ازدواجی رشتہ کو جاری نہیں رکھنا چاہتی تو عورت کو شریعتِ اسلامیہ نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے۔ اگر عورت واقعی مظلومہ ہے تو شوہر کی شرعی ذمہ داری ہے کہ اس کے حقوق کی ادائیگی کرے، ورنہ عورت کے مطالبہ پر اسے طلاق دے دے، خواہ مال کے عوض یا کسی عوض کے بغیر۔ لیکن اگر شوہر طلاق دینے سے انکار کررہا ہے تو بیوی کو شرعی عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے، تاکہ مسئلہ کا حل نہ ہونے پر قاضی شوہر کو طلاق دینے پر مجبور کرے۔ اس طرح عدالت کے ذریعہ طلاق واقع ہوجائے گی اور عورت عدت گزارکر دوسری شادی کرسکتی ہے۔ خلع کی شکل میں طلاقِ بائن پڑتی ہے، یعنی اگر دونوں میاں بیوی دوبارہ ایک ساتھ رہنا چاہیں تو رجعت نہیں ہوسکتی، بلکہ دوبارہ نکاح ہی کرنا ہوگا، جس کے لیے طرفین کی اجازت ضروری ہے۔ 

طلاق کی قسمیں

عمومی طور پر طلاق کی تین قسمیں کی جاتی ہیں: 
۱:-طلاقِ رجعی        ۲:- طلاقِ بائن         ۳:-طلاقِ مغلظہ

طلاقِ رجعی

واضح الفاظ کے ذریعہ بیوی کو ایک یا دو طلاق دے دی جائے، مثلاً: شوہر نے بیوی سے کہہ دیا کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ یہ وہ طلاق ہے جس سے نکاح فوراً نہیں ٹوٹتا، بلکہ عدت پوری ہونے تک باقی رہتا ہے۔ عدت کے دوران مرد جب چاہے طلاق سے رجوع کرکے عورت کو پھر سے بغیر کسی نکاح کے بیوی بنا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شرعاً رجعت کے لیے بیوی کی رضامندی ضروری نہیں ہے۔

طلاقِ بائن

ایسے الفاظ کے ذریعہ جو صراحتاً طلاق کے معنی پر دلالت کرنے والے نہ ہوں، جیسے: کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا کہ ’’تو اپنے میکے چلی جا‘‘، ’’میں نے تجھے چھوڑ دیا‘‘۔ اس طرح کے الفاظ سے طلاق اسی وقت واقع ہوگی جبکہ شوہر نے ان الفاظ کے ذریعہ طلاق دینے کا ارادہ کیا ہو، ورنہ نہیں۔ ان الفاظ کے ذریعہ طلاق بائن پڑتی ہے، یعنی نکاح فوراً ختم ہوجاتا ہے، اب نکاح کرکے ہی دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حلال ہوسکتے ہیں۔ 

طلاقِ مغلظہ

اکٹھا طور پر یا متفرق طور پر تین طلاق دینا طلاقِ مغلظہ (سخت) ہے، خواہ ایک ہی مجلس میں ہوں یا ایک ہی پاکی میں دی گئی ہوں۔ ایسی صورت میں نہ تو مرد کو رجوع کا حق حاصل ہے اور نہ ہی دونوں میاں بیوی نکاح کرسکتے ہیں، الاّ یہ کہ عورت اپنی مرضی سے کسی دوسرے شخص سے باقاعدہ نکاح کرے اور دونوں نے صحبت بھی کی ہو، پھر یا تو دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا دوسرا شوہر اپنی مرضی سے اسے طلاق دیدے تو پھر یہ عورت دوسرے شوہر کی طلاق یا موت کی عدت کے بعد پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام (سورۃ البقرۃ آیت: ۲۳۰) میں اس طرح بیان فرمایا ہے: 
’’فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتَّی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ، فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْہِمَا اَن یَّتَرَاجَعَا اِنْ ظَنَّا اَن یُّقِیْمَا حُدَوْدَ اللّٰہِ۔‘‘
’’پھر اگر شوہر (تیسری) طلاق دیدے تو وہ (مطلقہ) عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک وہ کسی اور شوہر سے نکاح نہ کرے۔ ہاں! اگر (دوسرا شوہر بھی) اسے طلاق دیدے تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے کے پاس (نیا نکاح کرکے) دوبارہ واپس آجائیں، بشرطیکہ انہیں یہ غالب گمان ہو کہ وہ اب اللہ کی حدود قائم رکھیں گے۔‘‘
 اسی کو حلالہ کہا جاتا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں ہے۔ اس کے صحیح ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں: 
۱:-دوسرا نکاح صحیح طریقہ سے منعقد ہوا ہو۔ 
۲:-دوسرے شوہر نے ہم بستری بھی کی ہو۔
۳:-دوسرا شوہر اپنی مرضی سے طلاق دے یا وفات پاجائے اور دوسری عدت بھی گزر گئی ہو۔

 حلالہ کے لیے مشروط نکاح کرنا حرام ہے۔ 

اسلامی تعلیمات کا تقاضا ہے کہ نکاح کا معاملہ عمر بھر کے لیے کیا جائے اور اس کو توڑنے اور ختم کرنے کی نوبت ہی نہ آئے، کیونکہ اس معاملہ کے ٹوٹنے کا اثر نہ صرف میاں بیوی پر ہی پڑتا ہے، بلکہ اولاد کی بربادی اور بعض اوقات خاندانوں میں جھگڑے کا سبب بنتا ہے، جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے شریعتِ اسلامیہ نے دونوں میاں بیوی کو وہ ہدایات دی ہیں جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ رشتہ زیادہ سے زیادہ مضبوط اور مستحکم ہوتا۔ اگر میاں بیوی کے درمیان اختلاف رونما ہوں تو سب سے پہلے دونوں کومل کر اختلاف دور کرنے چاہئیں۔ اگر بیوی کی طرف سے کوئی ایسی صورت پیش آئے جو شوہر کے مزاج کے خلاف ہوتو شوہر کو حکم دیا گیا کہ افہام وتفہیم اور زجر وتنبیہ سے کام لے۔ دوسری طرف شوہر سے بھی کہا گیا کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ نہ سمجھے، بلکہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں، جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان ونفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں) کی نظر میں اچھا ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو اُن کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔ آخر میں ایک بار پھر اُمتِ مسلمہ سے درخواست کرتا ہوں کہ ایک ساتھ تین طلاق ہرگز نہ دیں۔ اگر طلاق کی نوبت ہی آئے تو صرف ایک طلاق دیں۔ طلاق ہونے پر طرفین کو عدالت اور کچہری کے چکر لگانے کے بجائے علماء کرام سے رجوع کرنا چاہیے، تاکہ شریعتِ اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کیا جاسکے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین