بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

 طبّ ِنبوی اور شہد 

 طبّ ِنبوی اور شہد 
 


دینِ اسلام کا طرّۂ امتیازہے کہ یہ اپنے پیروکاروںکو افراط وتفریط سے بالاتر رکھ کر شاہراہِ اعتدال پر گامزن رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ کسی بھی شعبہ سے متعلق اس کے ارشادات وفرمودات کا جائزہ لیا جائے تو وصفِ اعتدال اس کے ہر ہر جزو میں واضح نظر آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان مصائب و تکالیف ،امراض واسقام کا شکار ہوتا ہے تو شریعت اس کو اپنے پرودگار کی طرف رجوع اور اس سے توبہ و استغفار کرنے کے ساتھ ساتھ جائز اسباب اختیار کرنے کی تعلیم بھی دیتی ہے ، بلکہ بہت سی بیماریوں کا علاج خود شریعتِ مطہرہ نے انسانیت کے فائدہ کی خاطر تجویز بھی فر مادیا ہے ، جس کا علم احادیثِ مبارکہ کے مطالعہ سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور اسی کو دنیائے حکمت میں طبِ نبوی کے عنوان سے موسوم کیا جاتا ہے۔
اسلام سے قبل تاریخ کے جائزہ سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اُس دور میںطبی علم تقریباً بھلایا جاچکا تھا، یہی نہیں بلکہ طبی علاج ومعالجہ کوغیر دینی عمل تصور کیا جاتا تھا، تعویذ گنڈوں کا عروج تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیماتِ مبارکہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو ان فر سودہ خیالات واعتقادات سے نجات ملی اور علاج ومعالجہ کا صحیح اور دینی تصور قائم ہوا، چنانچہ مشہور مؤرخ ـڈگلس گتھری بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میںطبی سائنس کی گہری دلچسپی اور فروغ کی اصل وجہ وہ ارشادات اور احکام تھے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوںکو دیئے تھے۔
اسی طرح بعد کے ادوار میں بھی جب یورپ اس حوالے سے انحطاط کا شکار تھا، دنیائے اسلام کے زعمائے طب نے طبِ اسلامی کو خوب فروغ دیا، جس کی گواہی دیتے ہوئے ڈونالڈکیمبل اپنی کتابArabian Medicine  میں اس طرح رقم طراز ہے:
’’اسلامی سائنس (کے فروغ) کے دور میں یورپ تاریکی کے دور سے گزر رہا تھا۔‘‘ آگے لکھتا ہے: ’’جن دنوں عیسائی دنیا تاریک دور سے گزر رہی تھی، اس وقت اسلام کے عالموں نے علم الطب میں حیرت انگیز سرگرمی کا مظاہرہ شروع کردیا ۔‘‘
طبِ اسلامی کی اہمیت اور اہلِ اسلام کی اس میںترقی اور برتری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا کے بہترین ہسپتالوںکی بنیاد بغداد، دمشق، قاہرہ، غرناطہ، قرطبہ اور اشبیلیہ وغیرہ میں پڑی اور مسلم اطباء کی ’’القانون‘‘ اور ’’الحاوی‘‘ جیسی تصنیفات کو یورپ کی میڈیکل یونیورسٹیوں میں چھ سو سال سے زیادہ عرصہ تک پڑھایا جاتا رہا ہے ۔
لیکن صد افسوس!کہ طبِ نبوی جو دنیائے اسلام کا ایک مقدس موضوعِ فکرومطالعہ تھا، جس کی روشنی میںتجاویز کردہ امور دوا اور غذا کا بہترین مرکب اور قدرتی فوائدسے بھرپور ہوتے تھے، وہ اب محض کتابوں کی نذر ہو کر رہ گیا ہے، اور بقول ِحکیم سعیدؒ: 
’’افسوس کہ تیرگیِ خِرد نے اور نیرنگیِ عصرِحاضر نے آج کی دنیائے اسلام کے زعمائے طب کو مرکزِ گریز بنا دیا اور وہ خود بھی آواز ِمغرب سے ایسے مرعوب ہوئے کہ اپنے ورثہ ہائے علمی کے ناقد بن گئے، پھر یہ تنقید تنقیص میں بدل گئی۔‘‘
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ طب سے متعلق ذخیرئہ احادیث کو امت کے سامنے پیش کیا جائے، اور اس حوالے سے حکمائے اسلام کی تحقیقات اور تجاویز کو اہلِ اسلام کے سامنے اُجاگر کیا جائے، چنانچہ اسی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ذیل میں بھی شہد سے متعلق فرمودات ِنبویہ اور اس کے چند فوائد کو ذکر کیا جاتا ہے۔
لفظِ شہد اردو زبان کا لفظ ہے، جبکہ فارسی اور ہندی میںبھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ،اور عربی میں اس کو ’’عَسَل‘‘ انگریزی میں Honey ، فرانسیسی میں Miel، جرمن میںHonig، یونانی میں Meliاور بنگالی میں مودھو کہا جاتا ہے۔ 
رب ِ ذوالجلال نے شہد کو باعثِ شفاء قرار دیا ہے ،چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے: 
’’فِیْہِ شِفآئٌ لِلنَّاسِ۔‘‘                                       (النحل:۶۹) 
ترجمہ: ’’اس(شہد) میںلوگوں (کی بہت سی بیماریوں) کے لیے شفا ہے۔‘‘
اسی آیت کے تحت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحبؒ اپنی شہرہ آفاق تفسیر معارف القرآن (۵/۳۵۲) میں لکھتے ہیں:
’’اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرتِ کاملہ کی قاطع دلیل موجود ہے کہ ایک چھوٹے سے جانور کے پیٹ سے کیسا منفعت بخش اور لذیذمشروب نکلتا ہے، حالانکہ وہ جانور خود زہریلا ہے،زہر میں سے یہ تریاق واقعی اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ کی عجیب مثال ہے ،پھر قدرت کی یہ بھی عجیب صنعت گری ہے کہ دودھ دینے والے حیوانات کا دودھ موسم اور غذا کے اختلاف سے سرخ و زرد نہیں ہوتا اور مکھی کا شہد مختلف رنگوں کا ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 
’’یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہٗ۔‘‘                            (النحل:۶۹) 
 ’’اس کے پیٹ میںسے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کی رنگتیں مختلف ہوتی ہیں۔‘‘
محسنِ انسانیت، طبیب ِکائنات جنابِ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمودات سے بھی شہد کی اہمیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے، جن میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے :
۱:…’’عن أبي ھریرۃؓ قال: قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم :’’مَنْ لَعِقَ الْعَسَلَ ثَلاثَ غَدَوَاتٍ کُلَّ شَھْرٍ لَمْ یُصِبْہ عَظِیْمٌ مِنَ الْبَلاءِ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ:۴/۱۲۴، حدیث نمبر:۳۴۵۰، دارالجیل، بیروت) 
ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ: جو شخص ہر مہینے تین دن تک صبح میں شہد چاٹے، تو اس کو کوئی بڑی مصیبت نہیں پہنچے گی۔
۲:… ’’عن عبداللہؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’عَلَیْکُمْ بالشِّفائَیْنِ: العَسَلِ وَالْقُرْآنِ۔‘‘ (سنن ابن ماجہ: ۴/۱۲۴،حدیث نمبر: ۳۴۵۲، دارالجیل، بیروت) 
ترجمہ: ’’حضرت عبد اﷲ  رضی اللہ عنہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان نقل فر ماتے ہیں کہ: دو باعثِ شفاء چیزوں کو لازم پکڑ لو :۱-شہد، ۲-قرآن۔ 
رسولِ اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم   کی یہ حدیث ِمبارک بڑی جامعیت کی حامل ہے ، اس میں طبِ الٰہی وبشری، دواء ارضی و سماوی اورطبِ جسدی و نفسی کو جمع فرماکر دونوں کو اختیاررکھنے کا حکم دیا گیا ہے، لہٰذا جسمانی امراض کے لاحق ہونے کی صورت میں جس طرح اطباء وحکماء کی طرف رجوع کرکے علاج کرانا سنت ہے، بالکل اسی طرح روحانی امراض (تکبر،عجب، حسد،ریاء، وغیرہ) سے اپنے قلب کو پاک رکھنے کے لیے قرآن کریم کی تلاوت، علماء کی راہنمائی میں احادیث کا مطالعہ اور اہل اﷲ کی صحبت اختیار کرکے اپنی اصلاح کروانا بھی لازم اور راحت ِدنیاوی واُخروی کے حصول کی شاہِ کلید ہے۔
۳:… ’’عن عائشۃؓ قالت: ’’کَانَ النَّبِيُ صلی اللہ علیہ وسلم یُعْجِبُہ الْحَلْوَاءُ وَالْعَسَلُ۔‘‘(صحیح البخاری، باب: الدواء بالعسل: ۵/۲۱۵۲، حدیث نمبر: ۵۳۵۸، دار ابن کثیر، دمشق، بیروت) 
ترجمہ: ’’ام ّالمؤمنین حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ: آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیز اور شہد مرغوب تھا۔‘‘
۴:…’’عن أبي سعیدؓ اَنَّ رَجُلاً اَتَی النَّبِيَّ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: اَخِیْ یَشْتَکِي بَطْنہٗ ، فَقَالَ: ’’اِسْقِہِ عَسَلاً‘‘، ثُمَّ اَتَاہ الثَّانِیَۃَ ،فَقَالَ:’’اِسْقِہ ،عَسَلاً‘‘، ثُمَّ اَتَاہ الثَّالِثَۃَ، فَقَالَ: ’’اِسْقِہِ عَسَلاً‘‘، ثُمَّ اَتَاہ، فَقَالَ: قَدْ فَعَلْتُ، فَقَالَ: ’’صَدَقَ اللہُ وَکَذَبَ بَطْنُ اَخِیْکَ، اِسْقِہِ عَسَلاً‘‘، فَسَقَاہ فَبَرِئَ‘‘(صحیح البخاری،کتاب الطبّ، باب الدواء بالعسل، ۵/۲۱۵۲، حدیث نمبر :۵۳۶۰، باب: دواء المبطون: ۵/۲۱۶۱، حدیث نمبر:۵۳۸۶، دارابن کثیر، دمشق، بیروت) 
ترجمہ: ’’حضرتِ ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ:ایک آدمی سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور کہا: میرا بھائی پیٹ کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اس کو شہد پلاؤ، وہ دوسری بار آیا تو پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو شہد پلانے کی تاکید کی، اسی طرح تیسری مرتبہ بھی ،جب چوتھی بار بھی آ کر اس نے شکایت کی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: تمہارے بھائی کا پیٹ تو جھوٹا ہوسکتا ہے، لیکن اﷲکا کلام تو سچاہی ہے۔ اس کو پھر شہد پلاؤ، اس نے اس مرتبہ جا کر جب شہد پلایا تو اس کو شفاء نصیب ہو گئی۔‘‘
اس حدیث سے امراضِ بطن میںافادیتِ شہد کا علم ہونے کے ساتھ ساتھ طبّ کے ایک بنیادی اور اہم ترین اصول کی طرف راہنمائی بھی ملتی ہے کہ کسی بھی مرض کے علاج کے لیے دوا کی مقدار، اس کی کیفیت اور مریض کی قوت کی رعایت اور لحاظ رکھنا دوا کے مفید ہونے کے لیے انتہائی ضروری ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں چوتھی بارشہد کے استعمال کرنے پر مرض سے افاقہ حاصل ہوا۔
شہد کی افادیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ خود  رسول اﷲ  صلی اللہ علیہ وسلم  بھی اہتمام سے اس کو استعمال فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا معمول تھا کہ ہر صبح شہد کے شربت کا پیالہ نوش فرماتے اور کبھی عصر کے بعد بھی پیتے تھے ،ان اوقات میں جب پیٹ خالی ہو اور آنتوں کی قوتِ انجذاب دوسری چیزوں سے متاثر نہ ہو، شہد پینا جسم کے اکثر و بیشتر مسائل کا حل ہے ۔
حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ اُن کے بدن پر اگر پھوڑا بھی نکل آتا تو اس پر شہد کا لیپ کرکے علاج کرتے، بعض لوگوں نے وجہ دریافت کی تو فرمایا کہ: کیا اﷲتعالیٰ نے اس کے متعلق یہ نہیں فرمایا: ’’فِیْہِ شِفآئٌ لِّلنَّاسِ‘‘ (النحل:۶۹)
 ترجمہ: ’’اس میںلوگوں کے لیے شفا ہے۔‘‘ (معارف القرآن: ۵/۳۵۳) 
اب سائنسی تحقیقات سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ قدرت کی طرف سے جتنی اشیاء غذا کے طور پر انسان کو مہیا کی گئی ہیں، ان میں شہد سب سے زیادہ مکمل اور جامع غذا ہی نہیں، بلکہ اپنی طبّی خصوصیات کی بنا پر غذا اور دوا کے طور پر لا ثانی ہے ، چنانچہ یورپ اور دوسرے ممالک میں ایلو پیتھک کی متعدد دواؤں میں اس کا بے پناہ استعمال کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح یورپ کے ہسپتالوں میں چہرے کی حفاظت کے لیے جو Face pack   بنائے جاتے ہیں، ان میں شہد ایک لازمی جزو ہوتا ہے ۔ شہد میں بہترین Presevative   ہونے کی بنا پر اُسے پھلوں کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے، کیونکہ یہ خود بھی خراب نہیں ہوتا اور دوسری اشیاء کی بھی طویل عرصہ تک حفاظت کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہا سال سے اطباء اس کو الکحل کی جگہ استعمال کرتے آئے ہیں۔ ماہرینِ طب نے اپنی تحقیقات اور تجربات کی روشنی میں شہد کے کئی فوائد ذکر کیے ہیں، جن میں سے چند فوائد ہدیۂ ناظرین کیے جاتے ہیں:
۱:شہد پیاس کو بجھاتا ہے ۔
۲:حافظہ کو قوت بخشتا ہے ،چنانچہ امام زہری ؒکا ارشاد ہے: ’’عَلَیْکَ بِالْعَسَلِ فَاِنَّہٗ جَیِّدٌ لِلْحِفْظِ۔‘‘ ... ’’شہد کا اہتمام کرو، کیونکہ یہ حافظہ کے لیے بہترین ہے ۔‘‘
۳:شہد ردی رطوبتیں نکالتا ہے ۔
۴:اس کا کثرتِ استعمال استسقاء،یرقان ، عسرالبول ،ورمِ طحال،فالج، لقوہ، زہروں کے اثرات اور امراضِ سر وسینہ میں مفید ہے۔
۵:پتھری کو خارج کرتا ہے ۔
۶:باہ ، بصارت ،اور جگر کو قوت ملتی ہے۔
۷:بو علی سینا اسے مقویِ معدہ بھی قرار دیتے ہیں۔
۸:دانتوں کے لیے شہد ایک بہترین ٹانک ہے، اسے سرکہ میں حل کرکے دانتوں پر ملنا ان کو مضبوط کرتا ہے، اور مسوڑھوں کے ورم دور کرنے کے علاوہ دانتوں کو چمکدار بناتا ہے، گرم پانی میں شہد اور سرکہ کے ساتھ نمک ملا کر غرارہ کرنے  سے گلے اور مسوڑھوںکا ورم جاتا رہتا ہے۔
۹:نہار منہ شہد پینے سے پرانی قبض ٹھیک ہو جاتی ہے،کھٹے ڈکار آنے بند ہو جاتے ہیں اور اگر پیٹ میںہوا بھر جاتی ہو تو وہ نکل جاتی ہے ۔
۱۰:اطباء قدیم نے افیون، پوست اور بھنگ کے نشہ کو زائل کرنے کے لیے گرم پانی میں شہد مفید بتایا ہے۔ 
۱۱:انسان بڑھاپے میں عموماًتین مسائل کا شکار ہو تا ہے :۱- جسمانی کمزوری، ۲-بلغم، ۳-جوڑوں کا درد۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ شہد کے استعمال سے یہ تینوں مسائل آسانی سے حل ہوجاتے ہیں۔
۱۲: شہد میںAntiseptic  خصوصیات ہونے کی بنا پر زخموں پر لگانا یا جلی ہوئی جلد پر لگانا نہایت مفید پایا گیا ہے۔
۱۳:چہرے سے مہاسے اور پھنسیاںدور کرنے کے لیے بہت اچھا علاج سمجھا جا تا ہے ۔
۱۴:طبِ نبوی کے مشہور مرتب علاء الدین کحال (م:۷۲۰ھ -۱۳۲۰ء) نے شہد کو اِسہال کے علاوہ غذائی سمیت یعنی Food poisining   میں مفید قرار دیا ہے۔
۱۵:طالب علموں کے لیے انتہائی مفید بتایا جاتا ہے، زیادہ دیر تک پڑھ سکنے کا باعث اور ان کی یادداشت کے بہتر رہنے کا ذریعہ ہے۔
۱۶:دل کے مریضوں کو اسے پینے کے دوران دورے نہیں پڑتے۔
یہ شہد کی چند گو ناگوں خصوصیات تھیں، جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قدرت کا یہ عظیم الشان تحفہ کتنی اہمیت و افادیت کا حامل ہے ،جوایک معمولی سی لطیف گشتی مشین جو ہر قسم کے پھل پھول سے مقوّی عرق اور پاکیزہ جوہر کشید کرکے اپنے محفوظ گھروں میںذخیرہ کرتی ہے، اس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ ربّ ذوالجلال سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی نعمتوںکی کما حقّہ قدردانی اور اپنے حبیب جناب ِنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے قیمتی ارشادات کو اپنے سینوں سے لگانے کی توفیق عطا فرمائے، اور اپنے آباء واجداد کے حقیقی وارث بن کر ان کے علمی سرمایہ سے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر لانے کے لیے قبول فرمائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین