بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

طائف کا مظلوم مبلغ(صلی اللہ علیہ وسلم)

طائف کا مظلوم مبلغ(صلی اللہ علیہ وسلم)


دعوتِ دین اور اشاعتِ اسلام ایک اہم فریضہ ہے، اُمتِ محمدیہ کی فلاح و کامیابی اسی میں مضمر اور پوشیدہ ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب تک اُمتِ مرحومہ نے اس فریضہ کو بحسن و خوبی اداکیا، کامیابی و کامرانی ان کی حلیف رہی، عروج و اقبال مندی ان کے ہم آغوش رہی ، اور جب بھی اُمتِ مرحومہ نے اس فریضہ کی ادائیگی میں سستی اور سہل انگاری کا مظاہرہ کیا، ذلت و ناکامی کی عمیق کھائیوں میں جاگری ، شکستہ مائی اور زبوں طالعی اس کا مقدر ہوئی۔ 
دین کی دعوت اور اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے مسلسل جدو جہد اور پیہم قربانیوں کی ضرورت پڑتی ہے ، جب تک اس مہتم بالشان عمل کے لیے قربانی نہیں دی جائے گی، یہ عمل مطلوبہ حد تک نتیجہ خیز اور بار آور ثابت نہیں ہوسکتا۔ آپ aکی پوری زندگی اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے ، آپa کی زندگی کا ایک اہم پہلو بلکہ آپ aکی زندگی کا بنیادی مقصد دین کی دعوت اور پیامِ حق کو پوری انسانیت تک پہنچانا تھا ، آپa نے اس عمل کے لیے کتنی قربانیاں دی ہیں؟ اور اس راہ میں کتنی مشقتیں اور مصیبتیں جھیلی ہیں، اس کے لیے طائف کا دعوتی سفر ہمارے لیے انمول اور قابلِ تقلید ہے۔
نبوت کا دسواں سا ل جس کوعام الحزن یعنی غم کا سال کہا جاتا ہے، اسی سال ہمارے پیارے نبیa کے مشفق چچا ابوطالب اور وفا شعار رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ t کا انتقال ہوا تھا، چچا ابوطالب کے انتقال پر آپa بہت زیادہ مغموم ہوئے، کیونکہ ابوطالب کفارِ مکہ کے مقابلہ میں نبی کریم a کا دفاع کررہے تھے، ایک توظاہری اسباب کے دائرہ میں چچا ابوطالب کی حمایت و مدد اُن کے انتقال کے وجہ سے ختم ہوچکی تھی ،دوسرے چچا ابوطالب کا انتقال کفر پر ہوا، اس کا بھی آپaکو بہت قلق تھا ، پھر تھوڑے ہی دنوں بعد حضرت خدیجہt کا انتقال ہوا جو نہ صرف آپ a کی بیوی تھیں، بلکہ حق کی آواز، سب سے پہلے لبیک کہنے والی اور گلشنِ اسلام کی پہلی کلی تھیں ، جب کبھی آپaکفار و مشرکین کی ایذا رسانی سے ملولِ خاطر ہوتے تو حضرت خدیجہt آپa کی غمگسار ہوتیں اور آپa کو تسلی دیتیں۔ ان دونوں شخصیات کی وفات کے ساتھ ہی کفار ِ مکہ کے ظلم و ستم کا بادل آپaپر پیہم برسنے لگا ، طاغوتی طاقتوں نے مکرو فریب کے ترکش خالی کرنا شروع کردیئے، قریش کا یہ غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک نہ صرف پیغمبر اسلامa کے ساتھ تھا، بلکہ وہ تمام مسلمانوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے تھے، ان میں آپa کا چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل، حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط اور اس کے ساتھیوں نے دوسروں کے مقابلے بہت زیادہ ایذاء و تکلیف پہنچائی۔ 
ابولہب آپ a کا حقیقی چچا تھا، مگر حضوراقدس a کا سخت دشمن تھا۔ ہر لمحہ آپ aکو تکلیف دینے کے در پے رہتا، موسم حج ہویا مکہ کا بازار جہاں بھی آپ aکو دین کی تبلیغ کرتے ہوئے پاتا آپ aکو پیچھے سے آواز لگاتا اورکہتا کہ: لوگو! یہ شخص بد دین اور جھوٹا ہے، اس کی باتوں میں مت آؤ ،اور دوسروں کو آپa کے خلاف بھڑکاتا، چنانچہ قریش آوارہ لڑکوں اور اپنے اوباش غلاموں کو آپa کے راستے پر بٹھا دیتے اور جب آپ aاس راستے سے گزرتے تو سب آپa کے پیچھے لگ جاتے، آپa کا مذاق اُڑاتے،آپa پر طعنے کستے ، ان ہی حالات کی وجہ سے مکہ کی سرزمین آپaپر تنگ ہوگئی ،آپa نے یہ دیکھا کہ نبوت کا بادل پیہم برس رہا ہے، لیکن مکہ کی سرزمین بنجر اور غیر صالح ثابت ہورہی ہے، اسی لیے آپa نے طائف کا رخ کیا جو آبادی اور خوشحالی کے اعتبار سے مکہ کے بعد دوسرے نمبر پر تھا، جیسے مکہ ہبل کی عبادت کا مرکز تھا تو طائف میں لات کی پوجا پاٹ ہوتی تھی۔
 خاندانِ بنو ہاشم کی طائف میں رشتہ داریاں تھیں، چند قبیلوں کو رسول اللہ a کے ماموؤں کا خاندان کہا جاتا ہے، مکہ کے اہلِ ثروت تجارت اور گرمیاں گزارنے طائف آیا کرتے تھے۔ زرخیز زمین، خوبصورت موسم اور باغات کی کثرت کی وجہ سے یہاں کے باشندے کافی خوش حال تھے، مگر رسول اللہ a نے یہ سفر نہ وہاں کے باشندوں کی خوش حالی اور زرخیزی سے متاثر ہوکر کیا تھا اور نہ ہی آپa اپنے ننھیالی رشتہ داروں سے ملنے اور خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے آئے تھے،بلکہ آپ a نے یہ سفرپیدل چلتے ہوئے خالص توحید کے پیام کو عام کرنے اور انسانیت کو کفروشرک کے ظلمات سے نکال کر ایمان و یقین کے روشنی سے منور کرنے کے لیے کیا تھا اور اس اُمید سے آئے تھے کہ یہاں کے لوگ پیامِ توحید قبول کرلیں اور آپa کو محفوظ ٹھکانہ دے دیں، مگر طائف والوں نے آپa کے ساتھ وہ سلوک کیا جس کی اہلِ مکہ کو بھی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ 
طائف کا دن آپa کی زندگی کا سخت ترین دن تھا، چنانچہ صحیحین میں ہے کہ ایک مرتبہ ام المومنین حضرت عائشہt نے سوال کیا: یا رسول اللہ! آپ کی زندگی میں اُحد سے بھی زیادہ سخت ترین دن کوئی گزرا ہے؟ آپ aنے فرمایا: ہاں عائشہ! طائف کا دن بڑا سخت ترین دن تھا جب میں نے اپنے آپ کو وہاں کے سرداروں کے سامنے پیش کیا تھا۔
طائف مکہ مکرمہ سے ۱۲۰؍ کلومیٹر کے فاصلے پر مشرقی جانب اور سطح سمندر سے تقریباً  ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے، اس سفر میں آپa نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہq کو ساتھ رکھا۔ اسلام کی تبلیغ کے لیے جب وہاں کے سرداروں سے آپa نے ملاقات کی جو آپaکے ننھیالی رشتہ دار بھی تھے، ان دنوں طائف میں عمرو بن عمیر بن عوف کے تین لڑکے عبدیالیل ، مسعود اور حبیب بنو ثقیف کے سردار تھے، آپ aنے مذکورہ بالا تینوں سرداروں سے ملاقات کی اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور اپنی مدد کی درخواست کی، آپ a نے مسلسل دس دن وہاں قیام کرکے ان کو سمجھانے کی پوری کوشش کی ، کفر و شرک چھوڑ کر ایمان کی طرف آنے کی دعوت دی، لیکن ان تینوں نے نہایت گستاخانہ جواب دیا۔
ایک نے کہا:تمہارے سوا اللہ کو اور کوئی نہ ملا جسے نبی بناتا؟ دوسرے نے کہا: کعبۃ اللہ کی اس سے بڑی اور کیا توہین ہوگی کہ تم سا شخص پیغمبر ہو؟ تیسرا بولا: میں تم سے ہر گز بات نہ کروں گا ، اگر تم سچے ہو تو تم سے گفتگو خلافِ ادب ہے اور اگر جھوٹے ہو تو گفتگو کے قابل نہیں۔ مذکورہ سرداروں نے نہ صرف ہدایت کو قبول نہیں کیا، بلکہ آپ aکو یہ حکم بھی دیا کہ بہت جلد آپ یہ بستی چھوڑ دیں۔ ان بدبختوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، طائف کے بدمعاشوں اور اوباشوں کو آپ a کے پیچھے لگادیا کہ وہ آپa کا مذاق اُڑائیں ، چنانچہ انہوں نے راستہ سے گزرتے وقت آپa پر پتھر مارنے شروع کردیئے۔
 حضرت زیدبن حارثہq ان پتھروں کے لیے سپر بن جاتے، یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا، حضورaکا جسم لہو لہان ہوگیا اور آپaکی جو تیاں خون سے بھر گئیں ، جب آپa زخموں سے چور ہوکر بیٹھ جاتے تو بازو تھام کر کھڑا کردیتے اور پھر آپaجب چلنے لگتے تو پتھر برساتے ، ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور تالیاں بجاتے، پتھروں کے برسانے سے آپaکوبہت چوٹیں آئیں اور آپ aزخموں سے بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ 
حضرت زیدq آپaکو اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر آبادی سے باہر عتبہ اور شیبہ کے باغ میں لے آئے،عتبہ اور شیبہ باوجود کفر پر قائم ہونے کے شریف الطبع اور نیک نفس تھے، اس باغ میں بیٹھ کر آپaنے دعا فرمائی جو دعائے مستضعفین کے نام سے مشہور ہے، اس دعا کا ایک ایک فقرہ معلوم ہوتا ہے کہ عبدیت اور تواضع و انکساری کے سانچے میں ڈھلا ہوا اور سوزو گداز اور درد و کرب کے عطر میں بسا ہواہے ، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ طائف کے لوگوں نے آپa سے جو بدسلوکی کی اور بدتمیزی کی اس کی وجہ سے آپa کس قدر مغموم اور رنجیدہ تھے۔ آپa نے فرمایا: 
’’بارالٰہا! میں تجھ ہی سے اپنی کمزوری و بے بسی اور لوگوں کے نزدیک اپنی بے قدری کا شکوہ کرتاہوں، یا ارحم الراحمین! تو کمزوروں کا رب ہے اور تو ہی میرا رب ہے، تو مجھے کس کے حوالہ کررہا ہے؟ کیا کسی بے گانہ کے جو میرے ساتھ تندی سے پیش آئے یا کسی دشمن کے جس کو تو نے میرے معاملہ کا مالک بنا دیا ہے؟ اگر مجھ پر تیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، لیکن تیری عافیت میرے لیے زیادہ کشادہ ہے، میں تیرے چہرہ کے اس نور کی پناہ چاہتاہوں جس سے تاریکیاں روشن ہوگئیں اور جس پر دنیا و آخرت کے معاملات درست ہوئے کہ تو مجھ پر اپنا غضب نازل کرے یا تیرا عتاب مجھ پر وارد ہو، تیری رضا مطلوب ہے، یہاں تک کہ تو خوش ہوجائے اور تیرے بغیر کوئی زور اور طاقت نہیں۔ ‘‘
عتبہ اور شیبہ کے اسی باغ میں عداسؓ نامی ایک شخص نے آپaکے دستِ حق پرست پر اسلام قبول کیا، وہ آپaکے پاس کچھ انگور لے کر آیا اورآپa کے سامنے رکھ دیئے، آپa  بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ کر انگورکھانے لگے تو عداس حیرت سے آپaکی صور ت دیکھنے لگا، آپa نے پوچھا: تم کہاں کے ہو اور تمہارا دین کیا ہے؟ اس نے کہا کہ: وہ عیسائی ہے اور نینویٰ کا رہنے والا ہے۔ حضورaنے فرمایا:کیا تم اس صالح انسان کی بستی کے ہوجن کانام یونس بن متیm تھا؟ عداس نے پوچھا کہ آپ کس طرح انہیں جانتے ہیں؟ تو حضورaنے جواب دیا کہ: وہ میرے بھائی ہیں، وہ بھی نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں، عداس نے آپa کا نا م پوچھا تو آپa نے فرمایا: ’’محمد‘‘ تب عداس نے کہا کہ: میں نے توریت میں آپ کا اسمِ مبارک دیکھا ہے اور آپ کے اوصاف بھی پڑھے ہیں ،اس کے بعد اس نے کہا کہ: میں ایک عرصہ سے یہاں آپ کے انتظار میں ہوں، مجھے اسلام کی تعلیم دیجئے، آپa کے اسلام پیش فرمانے پر وہ فوری مسلمان ہوگیا اور جھک کر حضور aکے سر، ہاتھ اور پاؤں چومنے لگا۔
طائف کے اس سفر میں بہت سی باتیں قابلِ توجہ اورلائق تقلید ہیں، پہلی یہ کہ آپ aلوگوں کی ہدایت کے لیے بہت فکر مند اور بے چین رہا کرتے تھے ، مکہ کے مشرکین نے جب دینِ اسلام کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو آپa نے طائف کے لوگوں کوسمجھانے کے لیے وہاں کا سفر کیا ، یہ دلیل ہے اس بات کی کہ آپ a اُمت کے ہر فردِ بشر کو اسلام کے رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ نبی aکے اسی درد اور جذبہ کو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان کیا: ’’شاید اے محمد! آپ تو اہل مکہ کے ایمان نہ لانے کے غم میں اپنی جان کھودیں گے ۔‘‘ (الشعراء:۳)
سفرِ طائف سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ دشمنوں کے ساتھ آپa کا برتاؤ بہت بہتر تھا اور آپa کے اخلاق بہت اعلیٰ تھے ، اور اسی اعلیٰ اخلاق کے ساتھ آپa طائف کے سرداروں اور لوگوں سے ملے اور ان کے نازیبا سلوک کے باوجود اپنے عالی اخلاق کو پیش کیا، اور اُمت کو بھی یہ تعلیم دی کہ دعوت و تبلیغ کے لیے داعی کے اندر عمدہ اخلاق اور صبر و تحمل کا ہونا ضروری ہے۔ نبیa کے انہی اخلاق کو قرآ ن مجید میں اخلاقِ عظیمہ کہا گیا اور اسی کی تکمیل کے لیے آپ aکو مبعوث کیا گیا۔
اس سفر میںایک نصیحت یہ بھی ہے کہ انسان ہر حال میں اللہ کی طرف متوجہ رہے، خوشی ہو یا غم ، راحت ہو یا مصیبت، ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرنا کامیاب انسان کی دلیل ہے۔ رسو ل اللہa نے طائف کے سفر میں یہی کام کیا، جب طائف والوں نے آپa کو سخت ترین تکلیفیں دیں آپa کا پورا جسم لہو لہان ہوگیا، اس وقت بھی آپa اللہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اللہ ہی سے مدد کے طلب گار ہوئے۔
واقعۂ طائف میں ایک بات جو سب سے زیادہ اہم اور قابلِ توجہ ہے وہ آپa کا عفو و درگزر ہے ، بے انتہا تکلیف دینے والو ں کو آپa نے معاف کردیا ، جبکہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کا فرشتہ بھی بھیج دیا تھا اور آپa کی اجازت کی ضرورت تھی ؛ لیکن آپa نے کہا کہ: اے جبرئیل!  ان کو عذاب میں مبتلامت کرو، ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوجائیں جو میرے دین کو ماننے والے ہوںگے، اسی عفو و درگزر اور صبر و تحمل کا نتیجہ تھا کہ چند ہی سالوں میں طائف کے لوگ ایمان سے مشرف ہوئے ۔
اس سفر میں آپa تمام تر مصائب و تکالیف کے باوجود تبلیغ کا اہم فریضہ انجام دیتے رہے، جس بستی سے گزر تے، وہاں کے باشندوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عتبہ اور شیبہ کے باغ میں کام کرنے والے شخص عداس نے ایمان قبول کیا۔ علماء نے لکھا کہ عداسq کا ایمان قبول کرنا اس سفر کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین