بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صورت اور حقیقت!

صورت اور حقیقت! صورت اور حقیقت میں بڑا فرق ہے     ہرایک چیز کی ایک صورت ہوتی ہے اور ایک حقیقت، ان دونوں میں بہت بڑی مشابہت کے باوجود بہت بڑا فرق بھی ہوتا ہے۔ آپ روز مرہ کی زندگی میں صورت اور حقیقت اور ان کے فرق سے خوب واقف ہیں، میں اس کی دومثالیں دیتا ہوں: آپ نے مٹی کے پھل دیکھے ہوںگے جو بالکل اصلی پھل معلوم ہوتے ہیں، لیکن صورت وحقیقت میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ اصل آم کوئی اور چیز ہے اور مٹی کا نقلی آم کوئی اور چیز۔ مٹی کے آم میں نہ اصلی ذائقہ ہے نہ خوشبو، نہ رس، نہ نرمی، نہ اس کی خاصیتیں، صرف آم کی شکل ہے، اور اس کا رنگ وروغن، اس لیے اس کو آم کہیں گے مگرمٹی کا آم، یہ مٹی کا آم دیکھنے بھر کا ہے، نہ کھانے کا، نہ سونگھنے کا، نہ ذائقہ، نہ خوشبو۔     آپ مردہ عجائب خانہ میں گئے ہوںگے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں سب درندے اور سب جانور موجود ہیں، شیر بھی ہے اور ہاتھی بھی، تیندوا بھی، اور چیتا بھی مگر بے حقیقت، بھس بھری ہوئی کھالیں جن میں نہ کوئی جان ہے نہ طاقت، شیر ہے مگر نہ اس کی آواز ہے نہ غصہ، نہ طاقت ہے نہ ہیبت۔ حقیقت کے مقابلہ میں صورت کی شکست     اب میں یہ کہنا چاہتاہوں کہ صورت کبھی حقیقت کے قائم مقام نہیں ہوسکتی، صورت سے حقیقت کے خواص کبھی ظاہر نہیں ہوسکتے، صورت کبھی حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی، صورت کبھی حقیقت کا بوجھ سنبھال نہیں سکتی۔ جب صورت کسی حقیقت کے مقابلے میں آئے گی اس کوشکست کھانا پڑے گی، جب صورت پر کسی حقیقت کا بوجھ ڈالا جائے گا صورت کی پوری عمارت زمین پر آرہے گی۔     صورت اور حقیقت کا یہ فرق ہرجگہ نمایاں ہوگا،ہرجگہ صورت کی حقیقت کے سامنے پسپا ہونا پڑے گا، یہاں تک کہ عظیم سے عظیم اور مہیب سے مہیب صورت اگر حقیر سے حقیر حقیقت کے مقابلہ میں آئے گی تو اس کو مغلوب ہونا پڑے گا، اس لیے ہر چھوٹی سے چھوٹی حقیقت ہر بڑی سے بڑی صورت کے مقابلہ میں زیادہ طاقت رکھتی ہے۔ حقیقت ایک طاقت ہے، ایک ٹھوس وجود ہے۔ صورت ایک خیال ہے۔ دیکھئے! ایک چھوٹا سا بچہ اپنے کمزور ہاتھ کے اشارے سے ایک بھس بھرے مردہ شیر کو دھکا دے سکتا ہے، اس کو زمین پر گرا سکتا ہے، ا س لیے کہ بچہ خواہ کتنا ہی کمزور سہی ایک حقیقت رکھتا ہے، شیر اس وقت صرف صورت ہی صورت ہے، بچہ کی حقیقت شیر کی صورت پر آسانی سے غالب آجاتی ہے۔ نفس کا دھوکا     یہ عالم حقائق کا مجموعہ ہے، اللہ تعالیٰ نے ہرچیز میں ایک حقیقت رکھی ہے۔ مال کی بھی ایک حقیقت ہے، اس کی محبت طبعی اور اس کی خواہش فطری ہے۔ اگر حقیقت نہ ہوتی تو اس سے متعلق احکام کیوں ہوتے؟ اس میں کشش کیوں ہوتی؟ اولاد ایک حقیقت ہے، اس سے طبعی محبت اور فطری تعلق ہوتا ہے، اگر اولاد ایک حقیقت نہ ہوتی تو شریعت میں اس کی پرورش ونگہداشت کے احکام وفضائل کیوں ہوتے؟ اسی طرح طبعی ضروریات اور خواہشات کی بھی ایک حقیقت ہے۔ ان حقیقتوں پر ایک بالاتر، قوی حقیقت ہی غالب آسکتی ہے، کوئی صورت غالب نہیں آسکتی۔ یہ حقائق کتنے باطل آمیز سہی ان پر فتح حاصل کرنے کے لیے اسلام وایمان کی حقیقت درکار ہے۔ اسلام کی صورت کتنی ہی مقدس سہی ان پر فتح حاصل نہیں کرسکتی، اس لیے کہ اُدھر حقیقتیں ہیں، اِدھر صرف صورت۔ آج ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ صورتِ اسلام ادنیٰ ادنیٰ حقائق پر غالب نہیں آرہی ہے، اس لیے کہ صورت میں دراصل کچھ بھی طاقت نہیں۔ ہماری صورتِ اسلام، صورتِ کلمہ، صورتِ نماز ہم سے ادنیٰ ترغیبات چھڑانے سے قاصر ہے، ادنیٰ عادات پر غالب آنے سے عاجز ہے، ہم کو موسم کی ادنیٰ سختی اور حقیر ترین خواہش کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا نہیں کرتی۔ آپ کا یہ کلمہ جو کبھی گردن کٹوادینے کی طاقت رکھتا تھا، جو مال اور اولاد کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں بے تکلف قربان کرادینے کی قوت رکھتا تھا، جو وطن چھڑادینے اور تختہئ دار پر چڑھادینے کی قوت رکھتا تھا، آج وہ ان سردیوں میں صبح کی نماز کے لیے اُٹھانے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جو کلمہ زندگی بھر کی منہ لگی شراب کو شریعت کے حکم پر ہمیشہ کے لیے چھڑاسکتا تھا، آج اگر ضرورت پڑجائے تو آپ کی ادنیٰ مرغوب چیز یا معمولی عادت بھی نہیں چھڑا سکتا، ا س لیے کہ وہ کلمہ کی حقیقت تھی جس کے کارنامے آپ تاریخ اسلام میں پڑھتے ہیں، یہ کلمہ کی صورت ہے جس کی بے اثری آپ دن رات دیکھتے ہیں۔ ہم غلطی یہ کرتے ہیں کہ صحابہ کرامs کی تاریخ کو اپنے اوپر اوڑھنا چاہتے ہیں، اس کو اپنے اوپر منطبق کرنا چاہتے ہیں، جب وہ منطبق نہیں ہوتی، جب وہ لباس ہمارے اوپر راست نہیں آتا، جب جگہ جگہ جھول پڑجاتے ہیں، تو ہم شکایت کرتے ہیں، تعجب کرتے ہیںکہ وہ بھی پڑھتے تھے، ہم بھی پڑھتے ہیں، نماز وہ بھی پڑھتے تھے ہم بھی پڑھتے ہیں، پھر کیوں اسی طرح کے واقعات ظہور میں نہیں آتے؟ کیوں اسی طرح کے نتائج وثمرات برآمد نہیں ہوتے؟ دوستو اور بزرگو! اپنے نفس کو دھوکہ نہ دو، وہاں کلمہ کی حقیقت تھی، ایمان کی حقیقت تھی، یہاں کلمہ کی صورت ہے، ایمان کی صورت ہے، نماز کی صورت ہے۔ جس طرح املی کے بیج سے آم کے پھل کی توقع فضول ہے، اسی طرح صورت سے حقیقت کے خواص کی امید بے کار ہے اور فریبِ نفس ہے۔ حقیقتِ اسلام     حضرت خبیبq کا واقعہ آپ نے سنا ہے، پھانسی کے تخت پر اُن کو چڑھایاگیا، چاروں طرف سے نیزوں کی نوکوں نے ان کو نوچنا شروع کیا، برچھیوں نے ان کے جسم کو چھلنی کردیا، وہ صبر واستقامت کے ساتھ مقابلہ کرتے رہے، عین اس حالت میں ان سے کہا جاتا ہے کیا تم اس پر راضی ہو کہ تمہاری جگہ رسول اللہ (a) ہوں؟ وہ تڑپ کر جواب دیتے ہیں کہ میں تو اس پر بھی راضی نہیں کہ مجھے چھوڑ دیا جائے اور حضور a کے تلوہ میں کوئی کانٹا بھی چبھے۔ حضرات! کیا یہ صورت اسلام تھی جس نے ان کو تختہ دار پر ثابت قدم رکھا اور ان کی زبان سے یہ الفاظ کہلوائے؟ نہیں، وہ اسلام کی حقیقت تھی جو اُن کے ہر زخم پر مرہم رکھتی تھی، جو ہر نیزے کی چبھن پر ان کے سامنے جنت کا نقشہ لاتی تھی اور اُنہیں دکھاتی تھی کہ یہ تمہاری اس تکلیف کا صلہ ہے، بس چند لمحوں کا معاملہ ہے، یہ جنت تمہاری منتظر ہے، یہ خدا کی رحمت تمہاری منتظر ہے، اگر تم نے اس فانی جسم کی تکلیف کو گوارا کرلیا تو غیر فانی زندگی کی غیر فانی راحت تمہارا حصہ ہے۔ یہ عشق ومحبت کی حقیقت تھی، جب ان سے کہا گیا کہ کیا تم کو یہ منظور ہے کہ تمہاری جگہ رسول اللہ (a) ہوں؟تو حضور a کی صورت بن کر ان کے سامنے آگئی اور ان کو گوارا نہیں ہوا کہ اس جسم اقدس a کو ایک کانٹے کی بھی تکلیف ہو۔     یہ چند پاک اور بلند حقائق تھے جو درد وتکلیف کی حقیقت پر غالب آئے، صورتِ اسلام میں اس حقیقتِ درد وتکلیف کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ پہلے تھی، نہ اب ہے۔ صورتِ اسلام تو تکلیف کے تصورات اور خیالات کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی، ہم کو اور آپ کو معلوم ہے کہ گزشتہ فسادات کے موقع پر خیالی خطرات کی بنا پر لوگوں نے صورتِ اسلام بدل دی، مسلمانوں نے سروں پر چوٹیاں رکھیں اور غیر اسلامی شعار اختیار کیے، اس لیے کہ اُن غریبوں کے پاس صرف صورتِ اسلام تھی جو اس میدان میں ٹھہر نہیں سکتی تھی۔     آپ نے سنا ہے کہ حضرت صہیب رومیq ہجرت کرکے جانے لگے تو کفارِ مکہ نے ان کو راستہ میں روکا اور کہا کہ صہیب! تم جاسکتے ہو، مگر یہ مال نہیں لے جا سکتے جو تم نے ہمارے شہر میں پیدا کیا ہے۔ اب حقیقتِ مال سے مقابلہ تھا، حقیقتِ اسلام اپنی مقابل حقیقت پر غالب آئی۔ صورتِ اسلام ہوتی تو وہ حقیقتِ مال کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔     آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابوسلمہq جب ہجرت کرکے جانے لگے تو کفار اُن کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے، انہوں نے کہا کہ تم جاسکتے ہو مگر ہماری لڑکی ام سلمہ(t) کو نہیں لے جاسکتے۔ اب حقیقت اسلام کا ایک حقیقت سے مقابلہ تھا، وہ حقیقت کیا تھی؟ بیوی کی محبت، جو ایک حقیقت تھی، لیکن اسلام کی حقیقت مومن کے لیے دل میں ہر حقیقت سے زیادہ طاقتور اور گہری ہوتی ہے۔ انہوں نے بیوی کو اللہ کے حوالہ کیا اور تن تنہا چل دیئے۔ کیا صورتِ اسلام میں اتنی طاقت ہے کہ آدمی بیوی کو چھوڑدے؟ ہم نے تو دیکھا ہے کہ لوگوں نے بیوی اور بچوں کے لیے کفر تک اختیار کرلیا اور صورتِ اسلام کی ذرا پروا نہیں کی ہے۔     آپ نے سنا ہے کہ حضرت ابوطلحہq نماز پڑھ رہے تھے کہ ان کے باغ میں ایک چھوٹی سی چڑیا آگئی اور اس کو پھر جانے کا راستہ نہ ملا، حضرت ابوطلحہq کی توجہ بٹ گئی، نماز کے بعد انہوں نے پورا باغ صدقہ کردیا، اس لیے کہ حقیقتِ نماز اس شرکت کو گوارا نہیں کرسکتی تھی۔ باغ کی بھی ایک حقیقت ہے، اس کی سرسبزی، اس کی فصل، اس کی قیمت ایک حقیقت ہے، اس حقیقت کامقابلہ کرنے کی صورت نماز نہیں کرسکتی تھی، اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت حقیقتِ صلوٰۃ ہی میں ہے۔ آج ہماری آپ کی نماز ادنیٰ ادنیٰ حقیقتوں کا مقابلہ اس لیے نہیں کرسکتی کہ وہ حقیقت سے خالی اور ایک صورت ہے۔     آپ نے سنا ہوگا کہ یرموک کے میدان میں چند ہزار مسلمان تھے اور کئی لاکھ رومی۔ ایک عیسائی (جو مسلمانوں کے جھنڈے کے نیچے لڑرہا تھا) کی زبان سے بے اختیار نکلا کہ رومیوں کی تعداد کا کچھ ٹھکانہ ہے؟ حضرت خالدq نے کہا: خاموش! خدا کی قسم اگر میرے گھوڑے اشقر کے سم درست ہوتے تو میں رومیوں کو پیغام بھیجتا کہ اتنی ہی تعداد اور میدان میں لے آئیں۔حضرات! حضرت خالدq کو یہ اطمینان واعتماد کیوں تھا اور وہ رومیوں کی تعداد کو بے حقیقت کیوں سمجھتے تھے؟ اس لیے کہ وہ حقیقتِ اسلام رکھتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اس کے مقابل صرف رومیوں کی صورتیں ہیں جو ہر طرح کی حقیقت سے خالی ہیں۔ یہ لاکھوں صورتیں اسلام کی حقیقت کے سامنے ٹھہرنہیں سکتیں۔     ہم یقینا کلمہ پڑھتے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ کلمہ کے معنی سے واقف ہیں، لیکن حقیقتِ کلمہ کوئی اور چیز ہے، وہ ان الفاظ اور معنی سے بہت بلند ہے۔ کلمہ کی یہ حقیقت صحابہ کرامs کو حاصل تھی، جب وہ کہتے تھے: '' لا إلہ إلا اللّٰہ'' تو واقعۃً سمجھتے تھے کہ اللہ کے سوا کوئی حاکم وبادشاہ نہیں، اللہ کے سوا کوئی محبت وخوف کے لائق نہیں، اللہ کے سوا کسی کی ہستی کوئی ہستی نہیں۔ کیا یہ حقیقتیں ہم سب کے دل میں اتری ہوئی ہیں؟ ہمارے دماغ کے اندر بسی ہوئی ہیں؟ ہماری زندگی کے اندر جڑ پکڑے ہوئے ہیں؟ اگر ہم ان حقیقتوں سے واقف بھی ہوتے تو ''لا إلہ إلا اللّٰہ'' کہتے ہوئے ہمیں احساس ہوتا کہ ہم کتنی بڑی بات کہہ رہے ہیں۔ جس کو اس حقیقت کا ذرا بھی احساس ہے، اسلام کا دعویٰ کرتے ہوئے سمجھتا ہے کہ وہ کتنا بڑا دعویٰ کررہا ہے؟ چوں می گویم مسلمانم بلرزم کہ دانم مشکلاتِ لا الٰہ را     ہم جب جانتے ہیں کہ آخرت برحق ہے، جنت ودوزخ برحق ہیں، مرنے کے بعد یقینا زندہ ہونا ہے، لیکن کیا سب کو ایمان کی وہ حقیقت حاصل ہے جو صحابہs کو حاصل تھی؟ اس حقیقت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابیq کھجور کھاتے پھینک دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے ختم ہونے کا انتظار کرنامیرے لیے بہت مشکل ہے اور فوراًبڑھ کر شہادت حاصل کرتا ہے، ا س لیے کہ جنت اس کے لیے ایک حقیقت تھی اور وہ حقیقت اس کے سامنے تھی۔ اس کی حقیقت جس کو حاصل تھی وہ قسم کھا کر کہتا تھا کہ مجھے اُحد پہاڑ کے اس طرف سے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔ یرموک کے میدان میں ایک صحابی ابوعبیدہq کے پاس آتے ہیںاور کہتے ہیں کہ امیر! میں سفر کے لیے تیار ہوں، کوئی پیغام تو نہیں کہنا ہے؟ وہ کہتے ہیں: ہاں! رسول اللہ a کی خدمت میں ہمارا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ آپ نے ہم سے جو وعدے فرمائے تھے وہ سب پورے ہورہے ہیں، یہ ہے یقین کی حقیقت، اس حقیقت پرکون سی قوت غالب آسکتی ہے؟ اور ایسی حقیقت رکھنے والی جماعت پرکون سی جماعت غالب آسکتی ہے؟ صورتِ اسلام حفاظت کرنے کے لیے کافی نہیں     اُمت میں جو سب سے بڑا انقلاب ہوا' وہ یہ کہ اس کی ایک بڑی تعداد اور شاید سب سے بڑی تعداد میں صورت نے حقیقت کی جگہ لے لی۔ یہ آج کی بات نہیں، یہ صدیوں پرانی حقیقت ہے۔ صدیوں سے صورت نے حقیقت کی جگہ حاصل کررکھی ہے۔عرصہ تک دیکھنے والوں کو صورت پر حقیقت کا دھوکا ہوتا رہا اور حقیقت کے ڈر سے اس صورت کے قریب آنے سے بچتے رہے، لیکن جب کسی نے ہمت کرکے اس صورت کو چھوا تو معلوم ہوا کہ اندر سے پول ہے اور حقیقت غائب ہوچکی ہے۔     آپ نے دیکھا ہوگا کبھی کبھی کاشت کار کھیت میں ایک لکڑی گاڑ کر اس پر کوئی کپڑا ڈال دیتا ہے جس کو دیکھ کر پرندوں اور جانوروں کو شبہ ہوتا ہے کہ کوئی آدمی رکھوالی کررہا ہے، لیکن اگر کبھی کوئی سیانا کوا یا ہوشیار جانور ہمت کرکے کھیت میں جا پڑے تو ظاہر ہے کہ وہ بے جان شبیہ کچھ نہیں کرسکتی، پھر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جانور اس کھیت کو روند ڈالتے ہیں اور پرندے اس کاستیاناس کردیتے ہیں۔     مسلمانوں کے ساتھ یہی واقعہ پیش آیا ہے، ان کی صورت حقیقت بن کر برسوں ان کی حفاظت کرتی رہی، قومیں ان کے قریب آنے سے ڈرتی تھیں، حقیقت اسلام کے واقعات ان کے ذہن میں تازہ تھے اور کسی کو مسلمانوں پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، لیکن کب تک؟ جب تاتاریوںنے بغداد پر چڑھائی کی- جس پر حملہ کرنے سے وہ برسوں احتیاط کرتے رہے- تواس صورت کی حقیقت کھل گئی اور مسلمانوں کا بھرم جاتا رہا۔ اس وقت صورتِ اسلام حفاظت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے، اب صرف حقیقتِ اسلام ہی اس امت کی حفاظت کرسکتی ہے۔ ہماری خطأ     آپ تاریخِ اسلام میں مسلمانوں کی ناکامی کی تلخ داستانیں پڑھتے ہیں، یہ حقیقت کی شکست کے واقعات نہیں، یہ سب صورت کی شکست وہزیمت کے واقعات نے ہم کو ہرمعرکہ میں رسوا وذلیل کیا ہے۔ لیکن خطا ہماری تھی، ہم نے غریب صورت پر حقیقت کا بوجھ رکھنا چاہا، وہ اس بوجھ کو سہارنہ سکی، خود بھی گری اور عمارت کو بھی زمین پر لے آئی۔ حقیقتِ اسلام مدتوں سے میدان میں آئی ہی نہیں     عرصہ دراز سے صورتِ اسلام معرکہ آزما ہے اور شکست پر شکست کھارہی ہے اور حقیقتِ اسلام مفت میں بدنام اور دنیا کی نگاہوں میں ذلیل ہورہی ہے۔ دنیا سمجھ رہی ہے کہ ہم اسلام کو شکست دے رہے ہیں، اس کو خبر نہیں کہ حقیقتِ اسلام تو مدت سے میدان میں آئی ہی نہیں، اس کے مقابلہ میں مسلمانوں کی صرف صورت ہے، نہ کہ اسلام کی حقیقت۔     یورپ کی قوموں کے مقابلہ میں ترکی میدان میں آیا، لیکن اسلام کی ایک نڈھال صورت لے کر، یہ نحیف ونزار صورت مقابلہ میں ٹھہر نہ سکی، فلسطین میں تمام عرب قومیں اور سلطنتیں مل کر یہودیوں کے مقابلہ میں آئیں، لیکن حقیقتِ اسلام، شوقِ شہادت، جذبہئ جہاد اور ایمانی کیفیات سے اکثر عاری، عربی قومیت کے نشہ میں سرشار صرف اسلام کے نام ونسب سے آراستہ، نتیجہ یہ ہوا کہ اس بے روح صورت نے یہودیوں کی جنگی قوت وتنظیم واسلحہ کی حقیقت سے مات کھائی، اس لیے کہ صورت حقیقت کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ یہودی ایک حقیقت رکھتے تھے، اگرچہ سرتاپا مادی۔ عرب صرف ایک صورت رکھتے تھے، اگرچہ مقدس، لیکن صورت صورت ہے اور حقیقت حقیقت ہے۔ رحمت ونصرت، تائید واعانت کے وعدے حقیقت سے متعلق ہیں     اسلام کی صورت اللہ کے یہاں ایک درجہ رکھتی ہے، اس لیے کہ اس میں مدتوں اسلام کی حقیقت بسی ہوئی رہی ہے اور یہ کہ حقیقت کا قالب ہے۔ اسلام کی صورت بھی اللہ کو پیاری ہے، اس لیے کہ اس کے محبوبوں کی پسندیدہ صورت ہے، اسلام کی صورت بھی اللہ کی ایک بڑی نعمت ہے، اس لیے کہ اس صورت سے حقیقتِ اسلام کی طرف منتقل ہونا نسبتاً آسان ہے، جہاں صورت بھی نہیں وہاں حقیقت پر پہنچنا بہت مشکل ہے، لیکن دوستو! اللہ تعالیٰ کی رحمت ونصرت کے وعدے دنیا میں اور مغفرت ونجات اور ترقیِ درجات کے وعدے آخرت میں سب حقیقت سے متعلق ہیں، نہ کہ صورت سے، حدیث میں ہے: ''إن اللّٰہ لاینظر إلٰی صورکم وأموالکم ولکن ینظر إلٰی قلوبکم وأعمالکم۔'' ''اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا، وہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔'' (مشکوٰۃ، کتاب الایمان)      جو لوگ صرف صورت کے حامل تھے اور حقیقت سے یکسر خالی تھے، ان کو وہ ان لکڑیوں سے تشبیہ دیتا ہے جو کسی سہارے رکھی ہوئی ہیں، وہ فرماتاہے: ''وَإِذَا رَأَیْتَہُمْ تُعْجِبُکَ أَجْسَامُہُمْ وَإِنْ یَّقُوْلُوْا تَسْمَعْ لِقَوْلِہِمْ کَأَنَّہُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَۃٌ یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْہِمْ۔'' (المنافقون:٤) ''اگر تم ان کو دیکھو تو تم کو ان کے جسم بڑے بھلے معلوم ہوںگے، وہ بات کریںگے تو تم کان لگاکر سنوگے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ لکڑیاں ہیں جو سہارے سے رکھی ہوئی ہیں، ہر آواز کو وہ اپنے خلاف ہی سمجھتے ہیں۔'' دین کے اقتدار اورامن واطمینان کا وعدہ     دنیا میں بھی فتح ونصرت وتائید واعانت کے وعدے حقیقتِ ایمان کے ساتھ مشروط ہیں، اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے: ''وَلَاتَہِنُوْا وَلَاتَحْزَنُوْا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔'' (آل عمران:١٢٩) ''سست وغمگین نہ ہو، تم ہی سربلند ہو، اگر تم (حقیقۃً) صاحبِ ایمان ہو۔''     ظاہر ہے کہ اس آیت میں خطاب مسلمانوں ہی کو ہے، لیکن پھر بھی شرط لگائی ہے کہ اگر تم میں حقیقتِ ایمان پائی جاتی ہے تو پھر تمہاری سربلندی میں شک نہیں۔     دوسری آیت میں بھی صفت ایمان ہی پر اپنی مدد کا وعدہ فرمایا: ''إِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا فِیْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْأَشْہَادُ۔'' (المؤمن:٥١) ''ہم ضرور ضرور اپنے پیغمبروں کی مدد کریںگے اور ان لوگوں کی جو صفتِ ایمان سے متصف ہیں دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی، جب اللہ کے گواہ کھڑے ہوں گے۔''     اسی حقیقتِ ایمان پر خلافتِ ارضی، دین کے اقتدار اور امن واطمینان کا وعدہ فرمایاہے: ''وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ آمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّہُمْ فِیْ الْأَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمْ دِیْنَہُمُ الَّذِیْ ارْتَضٰی لَہُمْ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِہِمْ أَمْنًا۔'' (النور:٥٥) ''ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے عمل صالح ہیں اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین کی خلافت سے سرفراز کرے گا جیسے ان لوگوں کو سرفراز کیا جو اُن سے پہلے تھے اور ان کے دین کو جو اللہ کا پسندیدہ ہے اقتدار عطا فرمائے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔''     لیکن باوجود اس کے کہ یہ سارے وعدے ایمان وعمل صالح کی بنیاد پر تھے، پھر یہ شرط فرمائی کہ یہ ضروری ہے کہ ان میں اسلام کی حقیقت (توحید کامل) پائی جائے: ''یَعْبُدُوْنَنِیْ لَایُشْرِکُوْنَ بِیْ شَیْأاً۔'' (النور) ....... ''(اس شرط سے) کہ میری عبادت کریںگے، میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریںگے۔'' اُمت کی سب سے بڑی خدمت     پس اس وقت سب سے بڑا کام اور اُمت کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس کے عوام اور سوادِ اعظم کو صورت سے حقیقت کی طرف سفر کرنے کی دعوت دی جائے۔ صورتِ اسلام میں روحِ اسلام اور حقیقتِ اسلام پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس وقت اُمت کی سب سے بڑی احتیاج یہی ہے کہ اسی سے اس کے حالات اور اس کے نتیجہ میں دنیا کے حالات بدلیں گے۔ دنیا کے حالات اس امت کے حالات کے اور اس امت کے حالات اس حقیقت کے تابع ہیں۔ یہ امت حضرت مسیح m کے الفاظ میں زمین کا نمک ہے، دیگ کا مزا نمک کے تابع ہے اور نمک کا مزا اس کی نمکینی پر موقوف ہے، اگر نمک کی نمکینی ختم ہوجائے تو وہ نمک کس کام کا؟ اور پھر کھانے کو خوش ذائقہ بنانے والی چیز کہاں سے آئے گی؟ آج ساری زندگی بے کیف اور بے روح ہے، اس لیے کہ اس اُمت کی بڑی تعداد حقیقت سے عاری اور روح سے خالی ہے، پھر زندگی میں روح اور حقیقت کہاں سے آئے گی؟ اقوامِ عالم کی جڑیں خشک ہوچکی ہیں     دنیاکی اور قومیں بھی ہیں جو ہزاروں برس سے اپنے مذہب اور روح سے خالی ہوچکی ہیں اور ان میں صرف چند بے روح رسمیں اور چند بے حقیقت صورتیں رہ گئیں ہیں، لیکن ان قوموں کی دینی وروحانی زندگی ختم ہوچکی ہے، ان کی زندگی کے سوتے خشک ہوچکے ہیں۔ آج دنیا کی کوئی طاقت، کوئی شخصیت، کوئی اصلاح ان میں دینی زندگی اور حقیقی روح پیدا نہیں کرسکتی۔ ایک نئی قوم کا بن جانا ان قوموں کی دوبارہ زندگی سے آسان ہے۔ جن لوگوں نے ان قوموں میں از سر نو دینی زندگی اور اخلاقی روح پیدا کرنے کی انتہائی جد وجہد کی، وہ زمانہ حال کے وسائل اور سہولتوں کے باوجود سخت ناکام رہے، اس لیے کہ درحقیقت ان میں ایمان ویقین اور دینی روح پیدا کرنے کا سرچشمہ عرصہ ہوا خشک ہوچکا ہے، زندگی کا سرا اور راشتہ کٹ چکا ہے، جب کسی درخت کی جڑ خشک ہوچکی ہو اور اس کی رگیں زمین چھوڑ چکی ہوں تو اس کی پتیوں کو پانی دینے سے کچھ نہیں ہوتا۔ مسلمان کے لیے حقیقت کی طرف ترقی کرنے کی ضرورت     لیکن اس امت کی زندگی کا سرچشمہ موجود ہے، اس امت کی زندگی کا سرا موجود ہے اور یہ امت اس سے وابستہ ہے، وہ ہے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان، آخرت اور حساب کتاب کا یقین ''لا إلٰہ إلا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ'' کا اقرار اس اُمت کا اس گئی گزری حالت میں بھی اللہ اور اس کے رسول سے جو تعلق ہے وہ دوسری قوموں کے خواص کو بھی نصیب نہیں، اس انحطاط کے زمانہ میں بھی جتنی حقیقت اس میں پائی جاتی ہے وہ دوسری قوموں میں مفقود ہے۔ اس کی کتابِ آسمانی (قرآن مجید) محفوظ ہے اور اس کے ہاتھوں میں ہے، اس کے پیغمبر کی سیرت اور زندگی جو آج بھی ہزاروں لاکھوں دلوں کو گرمادینے اور زمانے کے خلاف لڑا دینے کی طاقت رکھتی ہے، مکمل طریقہ پر موجود ہے اور آنکھوں کے سامنے ہے۔ صحابہ کرامs کی زندگی اور ان کی زندگی کا انقلاب اور ان کی کوششوں سے دنیا کاانقلاب نظر کے سامنے موجود ہے۔ یہ سب زندگی کے سرچشمے ہیں، یہ حرارت اور روشنی کے مرکز ہیں، صرف اس کی ضرورت ہے کہ اس امت میں صورت سے حقیقت کی طرف ترقی کی ضرورت کا عام احساس پیدا ہو، زندگی کے ان مرکزوں سے تعلق پیدا ہو اور مادی ومعاشی انہماک سے ان کو مرکزوں سے اکتسابِ فیض کی فرصت ملے اور وہ اپنی اصلی زندگی کے چند دن گزا رکر اپنی زندگی میں انقلاب اور اپنی پوری زندگی میں ایمان واحتساب اور اللہ کے وعدوں پر یقین اور اس کی رضا کے شوق میں کام کی روح پیدا کرے۔ہماری دعوت صرف یہ ہے کہ: ''یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا آمِنُوْا۔'' ......''اے مسلمانو! صورتِ اسلام سے حقیقتِ ایمان کی طرف ترقی کرو۔''     ہمارے مستقل ہفتہ وار اجتماعات جن کی ہم شہر شہر اور قصبہ قصبہ دعوت دیتے ہیں، اسی لیے ہیں کہ ہر آبادی میں ایسے مرکز قائم ہوں جہاں مسلمان جمع ہوکر اپنی زندگی کا بھولا ہوا سبق یاد کریں، جہاں سے انہیں حقیقتِ اسلام کا پیغام ملے ، جہاں سے ان کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی کا سراغ لگے، جہاں سیرتِ نبویہ (l) اور اصلی اسلامی زندگی کے واقعات اور دین کی بنیادی واصولی دعوت کے ذریعہ ان میں دینی انقلاب کی خواہش پیدا ہو، اگر یہ مرکز اور اس طرح کے اجتماعات نہ ہوئے تو بڑے پیمانے پر اور طاقتور اور مؤثر طریقہ پر اُمت کی اکثریت میں ''حقیقتِ اسلام'' اور روحِ اسلام پیدا ہونے کی کیا توقع ہے؟     پھر ہم مسلمانوں کو اس کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ کچھ دن حقیقتِ اسلام کو حاصل کرنے اور اس کو اپنے میں راسخ کرنے کے لیے اپنے اوقات فارغ کریں اور اس ماحول سے نکل کر جس میں حقیقتِ اسلام پنپنے اور ایمانی کیفیات اُبھرنے نہیں پاتیں۔ ایک ایسے ماحول میں وقت گزاریں جہاں اصلی زندگی کی جھلک موجود ہو، جہاں علم وذکر، دعوت وتبلیغ، خدمت وایثار، تواضع وخُلُق، محنت وجفا کشی کی زندگی ہو، ہم اس وقت مسلمانوں کو اس مقصد کے لیے جماعتوں کی شکل میں نکلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر مسلمانوں کی بڑی تعداد اس کو جزء زندگی بنالے اور اس کا رواج پڑجائے تو ہم کو اللہ کی ذات سے امید ہے کہ کروڑوں مسلمانوں تک حقیقتِ اسلام کا یہ پیغام پہنچ جائے گا اور لاکھوں مسلمانوں کی زندگی میں دینی روح، ایمان واسلام کی حقیقت اور اس کی صفات وکیفیات پیدا ہوجائیں گی۔ حقیقتِ اسلام دو بارہ پیدا ہوسکتی ہے     حضرات! ہم اس سے بالکل مایوس نہیں ہیں کہ اس زمانہ میں حقیقتِ اسلام پیدا نہیں ہوسکتی، ہم کسی ایسے زمانہ اور انقلاب کے قائل نہیں جس میں حقیقتِ اسلام دوبارہ پیدا نہیں کی جاسکتی۔ آپ پیچھے مڑکر دیکھئے! تاریخ کے سمندر میں آپ کو حقیقتِ اسلام کے جزیرے بکھرے ہوئے نظر آئیںگے۔ بارہا حقیقت اسلام اُبھری اور ایمانی کیفیات پیداہوئیں، وہی اللہ اور رسول پر یقین واعتماد، وہی شہادت کا ذوق، جنت کا شوق، وہی دنیا پر آخرت کی ترجیح، جب کبھی اور جہاں کہیں حقیقتِ اسلام پیدا ہوگئی اس نے ظاہری قرائن وقیاسات کے خلاف حالات اور مخالف طاقتوں پر فتح پائی ہے، تمام گزرے ہوئے واقعات کو دہرادیا ہے اور قرنِ اول کی یاد تازہ کردی ہے۔ حقیقتِ اسلام میں آج بھی طاقت ہے     حقیقتِ اسلام اور حقیقتِ ایمان میں آج بھی وہی طاقت ہے جو ابتدائے اسلام میں تھی۔ آج بھی اس سے وہ تمام واقعات ظاہر ہوسکتے ہیں جو اس سے پہلے ظاہر ہوئے ہیں، آج بھی اس کے سامنے دریا پایاب ہوسکتے ہیں، سمندر میں گھوڑے ڈالے جاسکتے ہیں، درندے جنگل چھوڑ کر جاسکتے ہیں، بھڑکتی ہوئی آگ گلزار بن سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ حقیقتِ ابراہیمی موجود ہو: آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایمان پیدا آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا  

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین