بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات 


صلہ رحمی کی اہمیت اور اس کے ثمرات 

 

سیرتِ طیبہ کی روشنی میں


اس پرفتن دور میں ہمارا معاشرہ بہت سارے مسائل کا شکار ہے، ان میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ اہلِ معاشرہ میں محبت وہم آہنگی اور اتفاق کا فقدان، ایک دوسرے سے نفرت، عصبیت، حسد، بغض کا بڑھ جانا ہے، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو اللہ رب العزت نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ صلہ رحمی، عفو و درگزر کرنے اور آپس میں بھائی چارگی کی تعلیم دی ہے اور ان پر انعامات کا وعدہ فرمایا ہے۔ مسلمان تو مسلمان! دینِ اسلام میں تو ذمیوں کے حقوق کی بھی رعایت رکھی گئی ہے، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے اقوال و افعال کے ذریعہ صلہ رحمی کی اہمیت و ضرورت کو بیان کیاہے۔

صلہ رحمی کا معنی و مفہوم

صلہ رحمی کا مطلب ہے: اپنے نسبی عزیزوں اور رشتہ دارو ں سے اچھا سلوک کرنا، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کے احوال کی رعایت کرنا۔ نسبی رشتہ دار سے مراد وہ ہے جو آپ کا پیدائشی رشتہ دار ہو، چاہے وہ والد کی طرف سے ہو یا والدہ کی طرف سے ہو، قریب کا ہو یا دور کا ہو، چنانچہ علامہ ابن الاثیر  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:
’’صلۃ الرحم، وہي کنايۃ عن الإحسان إلی الأقربين، من ذوي النسب والأصہار، والتعطف عليہم، والرفق بہم، والرعايۃ لأحوالہم۔‘‘ (۱)
اور یہی معنی مشہور حنفی محدث و فقیہ ملا علی قاری  رحمۃ اللہ علیہ  نے ’’مرقاۃ المفاتیح‘‘ میں علامہ ابن الاثیرؒ کے حوالے سے نقل کیاہے۔ (۲)

صلہ رحمی اورارشادِ باری تعالیٰ
 

اللہ رب العزت کا ارشادِ گرامی ہے: 
’’وَالَّذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ أَمَرَ اللہُ بِہٖ أَنْ يُّوْصَلَ وَيَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ وَيَخَافُوْنَ سُوْٓءَ الْحِسَابِ‘‘(۳)
ترجمہ: ’’ اور یہ ایسے ہیں کہ اللہ نے جن علاقوں کے قائم رکھنے کا حکم کیا ہے، ان کو قائم رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور سخت عذاب کا اندیشہ رکھتے ہیں۔‘‘             (ترجمہ بیان القرآن)
 اس آیتِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اہلِ ایمان کو صلہ رحمی کی تعلیم دی ہے، چنانچہ علامہ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ  اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: 
’’من صلۃ الأرحام، والإحسان إليہم‘‘(۴) 
یعنی قریبی رشتہ داری نبھائے رکھنا، اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا، اور اسی پر بس نہیں، بلکہ قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے اس مرجعِ کائنات کی بھی تعیین کردی، جس کی بنی آدم کو سخت ضرورت تھی، چنانچہ اللہ رب العزت کا فرمانِ گرامی ہے:
’’لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنْ کَانَ یَرْجُوْ اللہَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِيْرًا‘‘ (۵)
ترجمہ: ’’ تم لوگوں کے لیے یعنی ایسے شخص کے لیے جو اللہ سے اور روزِ آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکرِ الٰہی کرتا ہو ، رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔‘‘    (ترجمہ بیان القرآن)
چنانچہ اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے تمام احکامات پر چاہے ان کا تعلق بدن سےہو، مال سے ہو، عمل کرنے کے ایک مشکل ترین مسئلے کا حل بتلا کر تمام مشکلات آسان فرماکر امت کو ایک بہترین مرجع عطا فرمادیا، اسی آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’ہٰذہ الآيۃ الکريمۃ أصل کبير في التأسي برسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم في أقوالہٖ وأفعالہٖ وأحوالہٖ۔‘‘(۶)
یعنی یہ آیتِ کریمہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے اقوال، افعال، اور احوال کی پیروی کرنے میں ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ پس معلوم ہوا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی زندگی کا ہر پہلو قابلِ عمل ہے، چاہے اس کا تعلق اقوال سے ہو، افعال سے ہو، احوال سے ہو، (الا یہ کہ جو افعال رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ساتھ خاص ہیں)، اور کیوں نہ ہو، جبکہ اللہ رب العزت نے اس آیتِ مبارکہ کے ذریعہ’’ يَٓأَيُّہَا الَّذِيْنَ ءَامَنُوْٓا اَطِيْعُوا اللہَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَلَا تُبْطِلُوْٓا أَعْمَالَکُمْ۔‘‘ (۷)  روزِ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو ایک اصول فراہم کردیا، اور اُمتِ مسلمہ کو اپنے اعمال پرکھنے کے لیے ایک کسوٹی مہیاکردی کہ ہر عمل رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقوں پر ہو، اور اسی میں دونوں جہاں کی کامیابی کا راز مضمر ہے۔ علامہ ابن کثیر  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:
’’ثم أمر تبارک وتعالٰی عبادَہ المؤمنين بطاعتہٖ وطاعۃ رسولہ التي ہي سعادتہم في الدنيا والآخرۃ۔‘‘ (۸)
 ترجمہ: ’’پھر اللہ رب العزت نے اپنے ایمان والے بندوں کواپنی، اور اپنے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اس اطاعت کا حکم دیا، جوکہ دنیا وآخرت دونوں میں ان کے لیے نیک بختی کا ذریعہ ہے۔‘‘

صلہ رحمی کی اہمیت اور رسو ل اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات

جب جب ضرورت پڑتی گئی جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنی امت کو منشا خداوندی کے مطابق مختلف تعلیمات سے آشنا کرتے گئے، یہ تعلیمات کبھی آپ نے اپنے اقوالِ مبارکہ کے ذریعہ دی تو کبھی ان اقوالِ مبارکہ کو اپنے افعالِ مبارکہ کے سانچے میں ڈھال کر اُمت کے سامنے پیش کرکے ان کی آنے والی مشکلات کوآسان فرمایا، چنانچہ بہت ساری احادیث مبارکہ جن میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی امت کو صلہ رحمی کی تعلیم دی، کبھی تویہ تعلیمات آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صلہ رحمی کی اہمیت اجاگر کرکے دیں، تو کبھی صلہ رحمی اور دینِ اسلام کے درمیان ایک مضبوط تعلق بتلا کر دیں، تو کبھی بذاتِ خود اپنے قریبی رشتہ داروں کی خدمت کرکے ان تعلیمات سے ہمیں روشناس کیا۔ امی عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  سےروایت کرتی ہیں:
۱:’’الرحم معلقۃٌ بالعرش تقول: من وصلني وصلہ اللہ ومن قطعني قطعہ اللہ‘‘(۹)
ترجمہ: ’’رحم یعنی رشتہ داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے اور کہتی ہے کہ جس نے مجھے جوڑدیا، اللہ رب العزت اس کو جوڑدے گا، اور جس نے مجھے توڑدیااللہ رب العزت اسے توڑدے گا۔ ‘‘
اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نےصلہ رحمی کی اہمیت کے ساتھ ساتھ صلہ رحمی اور دینِ اسلام کاآپس میں ایک گہرے تعلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے صلہ رحمی کی عظمت، اس کے جوڑنے والے کی عظمت، اور اس کے توڑنے والےکواس کے وبال کے مستحق ہونے کی خبر دی ہے، چنانچہ قاضی عیاض مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں:
’’وذکر مقامہا وتعلقہا ہنا ضرب، وحسن استعارۃ علی مجاراۃ کلام العرب لتعظيم شأن حقہا۔‘‘ (۱۰)
قاضی عیاض  رحمۃ اللہ علیہ  کی اس عبارت کا مفہوم علامہ نووی  رحمۃ اللہ علیہ  اس طرح بیان کرتے ہیں:
’’والمراد تعظيم شأنہا وفضيلۃ واصليہا وعظيم إثم قاطعيہا بعقوقہم‘‘ (۱۱)
’’مراد اس سے صلہ رحمی کی عظمتِ شان، اور اس کے جوڑنے والے کی فضیلت اور اس کے توڑنے والے کے وبال کے مستحق ہونے کو بیان کرنا ہے۔‘‘
اسی طرح حضرت اسماء بنت ابی بکر  رضی اللہ عنہا  جوکہ امی عائشہ صدیقہ  رضی اللہ عنہا  کی بڑی بہن ہیں، وہ فرماتی ہیں:
۲:’’قدمت علي أمي وہي مشرکۃ في عہد قريش، فقلت: يارسول اللہ! إن أمي قدمت علي وہي راغبۃ، أفأصلہا؟ قال: نعم صليہا۔‘‘(۱۲) 
یعنی: ’’میری والدہ شرک کی حالت میں (مکہ سے مدینہ) آئی، جبکہ قریش کے ساتھ صلح کا زمانہ تھا (مراد اس سے صلح حدیبیہ ہے، چونکہ صلح حدیبیہ میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوچکا تھا اور اسی صلح کے زمانے میں آپ ؓ کی والدہ مدینہ آئی تھیں۔‘‘
پس میں نے دریافت کیا: اے اللہ کےرسول! میری والدہ میرے پاس آئی ہیں، حالانکہ وہ اسلام کے قبول کرنے میں کوئی دلچسپی نہی رکھتیں، کیا میں ان کےساتھ اچھاسلوک کروں؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔
معلوم ہوا کہ قریبی رشتہ داراگر مشرک ہوتب بھی شریعت محمدیہ میں اس کے حقوق کی رعایت رکھی گئی ہے، اور اس کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، چنانچہ علامہ قاضی عیاض مالکی  رحمۃ اللہ علیہ  رقم طراز ہیں:
’’فيہ جواز صلۃ المشرک ذي القرابۃ۔‘‘(۱۳)
اسی طرح رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ایک فعلی حدیث ہے جس کے راوی حضرت ابو الطفیل  رضی اللہ عنہ  ہیں، وہ فرماتے ہیں:
۳: ’’رأيت النبي صلی اللہ عليہ وسلم يقسم لحمًا بالجعرانۃ إذ أقبلت امرأۃ حتی دنت إلی النبی صلی اللہ عليہ وسلم، فبسط لہا رداءہٗ، فجلست عليہ، فقلت: من ہي؟ فقالوا: ’’ہٰذہ‘‘ أمہ التي أرضعتہ۔‘‘ (۱۴)
ترجمہ: ’’میں نے جعرانہ میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کودیکھا کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  گوشت تقسیم فرمارہےتھے کہ اچانک ایک عورت آئیں، یہاں تک کہ وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے قریب پہنچی توآپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنی چادر مبارک ان کے لیے بچھادی، سو وہ اس پر بیٹھ گئیں، میں نےپوچھا کہ یہ عورت کون ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ ماں ہے، جنہوں نے آپ کو دودھ پلایاتھا۔‘‘

صلہ رحمی کے ثمرات رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کے تناظر میں

ذخیرۂ احادیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے صلہ رحمی کےفائدے بتلاتے ہوئے کہیں تو اس کورزق کی فراخی کا سبب، کہیں عمر دراز ہونے کاذریعہ، کہیں رشتہ دارو ں کی باہمی محبتو ں کی زیادتی کاسبب، کبھی رحمتوں کے نزول کاوسیلہ، کہیں جہنم جیسے عذاب سے خلاصی کا ذریعہ، یہاں تک کہ جنت جیسی عظیم نعمت کے حصول کا سبب قرار دیا۔ حضرت انس  رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
۴:’’مَنْ أحَبَّ أنْ يُّبْسَطَ لَہٗ فِيْ رِزْقِہٖ وَيُنْسَأ لَہٗ فِيْ أثَرِہٖ، فَلْيَصِلْ رَحِمَہٗ۔‘‘ (۱۵)
ترجمہ: ’’جو شخص چاہتاہےکہ اس کےرزق میں فراخی اور عمر میں برکت ہو تو اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔‘‘
اسی طرح ایک دوسری روایت میں جناب رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
۵:’’تَعَلَّمُوْا مِنْ أنْسَابِکُمْ مَا تَصِلُوْنَ بِہٖ أرْحَامَکُمْ، فَإِنَّ صِلَۃَ الرَّحِمِ مَحَبَّۃٌ فِي الْأہْلِ، مَثْرَاۃٌ فِي الْمَـالِ، مَنْسَأۃٌ فِي الْأثَرِ۔‘‘ (۱۶)
’’تم اپنے انساب میں سے اتنا سیکھو کہ جس کے ذریعہ تم اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرسکو، بے شک قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کرناباہمی محبت کاسبب، کثرتِ مال کا ذریعہ اور درازیِ عمر کا باعث بنتا ہے۔‘‘ 
چنانچہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صلۂ رحمی کو بارانِ رحمت کاسبب بتلاتے ہوئے فرماتے ہیں :
۶:’’لَاتَنْزِلُ الرَّحْمَۃُ عَلٰی قَوْمٍ فِيْہِمْ قَاطِعُ رَحِمٍ۔‘‘ (۱۷)
’’اس قوم پر رحمت نہیں اترتی جس میں قطع رحمی کرنے والا ہو۔‘‘
اس حدیث مبارک میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  صلہ رحمی کی اہمیت بتلانے کے ساتھ ساتھ یہ خبربھی دے رہے ہیں کہ تم میں سے جو رب ذوالجلا ل کی رحمت کا متقاضی ہو، اسے چاہیے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھااسلوک کرے، یہاں تک کہ ایک روایت میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
۷:’’لَايَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَاطِعٌ۔‘‘ (۱۸)
ترجمہ: ’’قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘
 اس حدیث میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  قطع رحمی کرنے والے کی دخولِ جنت سے نفی فرماکر جنت کے حصول کا سبب بھی اسی کو قرار دے رہے ہیں۔ پس یہ تمام احادیث جو ہم نے ماقبل میں ذکر کیں اہلِ معاشرہ کو اُخوت، بھائی چارگی، باہمی محبت اور اتفاق واتحاد کادرس دے رہی ہیں اور ایک بہترین معاشرہ فراہم کرنے کے اصولوں کی نشاند ہی کررہی ہیں۔ 
جبکہ آج ہمارا معاشرہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کوپس پشت ڈالنے کی وجہ سے ہی دن بہ دن تنزلی کی طرف گامزن ہےاور یہی وجہ ہے کہ آج قریب سے قریب تر رشتہ دار چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر آنا جانا بند کردیتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے سے اپنے حقوق کاتقاضا کرتے ہوئے علیحدگی کی راہ اختیار کرلیتےہیں، یہاں تک کہ سگے بھائی میراث کی تقسیم میں ادنیٰ سے اختلاف پر قتل و قتال کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہیں، پس لا محالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ طلاق کی شرح روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے، قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوتا چلاجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک اچھا بھلا معاشرہ تباہی کے آخری درجہ پر پہنچ جاتاہے۔
اگر صبر وتحمل کامظاہرہ کیا جائے اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی بتلائی ہوئی ان تعلیمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان پر عمل کیا جائے اور ان تعلیمات کو اہلِ معاشرہ میں عام کیا جائے اور اس کی تعلیم سے ان کے سینوں کو مزین کرنے کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کو جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ذخیرۂ احادیث میں ہمیں ملتے ہیں، ان کو اصلاحِ معاشرہ کے لیے بروئے کار لایا جائے، تاکہ معاشرے میں روز مرہ کی بنیاد پر پیش آنے والے نِت نئے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔ 

حوالہ جات

۱: النہايۃ في غريب الحديث والأثر للعلامۃ أبي السعادات المبارک بن محمد الجزري ابن الأثير (المتوفي سنۃ:۶۰۶ﻫ)، ۵/۱۹۱، ’’باب الواو مع الصاد‘‘، الناشر: المکتبۃ الإسلاميۃ
۲: مرقاۃ المفاتيح :۹/۱۸۹ ’’باب البر والصلۃ‘‘، الناشر: مکتبۃ امداديۃ، ملتان
۳: القرآن سورۃ الرعد، رقم الآيۃ:۲۱
۴: تفسير القرآن العظيم للحافظ عماد الدين إسماعيل بن عمر ابن کثير الدمشقي المتوفي سنۃ: ۷۷۴ﻫ، ۴/۳۸۷، ’’سورۃ الرعد‘‘، الناشر: دار الکتب العلميۃ، ط: الأولي ۱۴۱۹ﻫ/۱۹۹۸ء
۵: القرآن، سورۃ الأحزاب، رقم الآيۃ:۲۱
۶: تفسير ابن کثير:۶/۳۵۰  ’’سورۃ الأحزاب‘‘
۷:القرآن، سورۃ محمد، رقم الآيۃ: ۳۳
۸:تفسير ابن کثير: ۷/۲۹۸، ’’سورۃ محمد‘‘
۹: صحيح مسلم:۱/۱۹۸۱، ’’باب صلۃ الرحم، وتحريم قطيعتہا من کتاب البر والصلۃ والآداب‘‘، الناشر: دار إحياء الکتب العربيۃ، ط: الأولي ۱۴۱۲ﻫ-۱۹۹۱ء، (رقم الحديث:۶۶۱۱)
۱۰: إکمال المعلم بفوائد مسلم للحافظ عياض بن موسي (المتوفي سنۃ:۵۴۴ﻫ)، ۸/۱۹، ’’باب صلۃ الرحم، وتحريم قطيعتہا‘‘، الناشر: دار الوفاء، ط: الأولي ۱۴۱۹ﻫ-۱۹۹۸ء
۱۱: صحيح مسلم بشرح النووي، ۱۶/۱۱۲، ’’باب صلۃ الرحم وقطيعتہا‘‘ الناشر: المطبعۃ المصريۃ، ط: الأولي ۱۳۴۹ﻫ-۱۹۳۰ء
۱۲: صحيح البخاري: ۴/۱۰۳ (رقم الحديث :۳۱۸۳)
۱۳: إکمال المعلم بفوائد مسلم: ۳/۵۲۳، (باب فضل النفقۃ والصدقۃ علي الأقربين)
۱۴: سنن أبي داود للحافظ سليمان ابن الأشعث السجستاني (المتوفي:۲۷۵)، ۴/۳۳۷، ’’کتاب الأدب‘‘ الناشر: المکتبۃ العصريۃ
۱۵: صحيح البخاري: ۸/۵، ’’باب من بسط لہ في الرزق بصلۃ الرحم‘‘ (۵۹۸۶)
۱۶: سنن الترمذي لأبي عيسي محمد بن عيسي بن سورۃ (المتوفي سنۃ:۲۹۷ﻫ)، ۴/۳۵۱، ’’باب ماجاء في تعليم النسب‘‘، (۱۹۷۹ء)، ناشر: شرکۃ ومطبعۃ مصطفي البابي الحلبي، ط:الأولي ۱۳۸۲ﻫ/۱۹۶۲ء
۱۷:شعب الإيمان للحافظ أبي بکر أحمد بن الحسين البيہقي (المتوفي سنۃ:۴۵۸ﻫ): ۱۰/۳۳۸، (۷۵۹۱) ناشر: مکتبۃ الرشد، ط: الأولٰي ۱۴۲۳ﻫ-۲۰۰۳م
۱۸:صحيح مسلم، ۱/۱۹۸۱، ’’باب صلۃ الرحم وتحريم قطيعتہا‘‘

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین