بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صفر کے مہینے میں شادی کرنا !

صفر کے مہینے میں شادی کرنا !

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ: کیا صفر کے مہینے میں شادی شرعاً جائز ہے اور قرآن وحدیث کی رو سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اس مہینے میں سختی ہے؟ نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی کریم a اس مہینے کے پہلے بارہ دن بیمار رہے تو اس لیے شروع کے بارہ دن میں شادی نہیں کرنی چاہیے۔               مستفتی:وجاہت جاوید،کراچی الجواب باسمہٖ تعالٰی واضح رہے کہ ماہِ صفر الخیر اور اس میں خصوصاً ابتدائی ایام کو منحوس سمجھنا اور اس میں عقدِ نکاح یا اسفار وغیرہ نہ کرنا، یہ اور اس طرح کے دیگر تمام فاسد توہمات اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہیں، درحقیقت زمانہ جاہلیت میں لوگ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے تھے اور اسی وجہ سے حضور اکرم a نے حدیث مبارکہ میں متعدد جگہ ان خیالات وتوہمات کی سخت الفاظ میں تردید فرمائی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وقت، دن، مہینہ یا تاریخ منحوس نہیں ہوتی، بلکہ نحوست تو بندوں کے اعمال وافعال پر منحصر ہے، چنانچہ جس وقت کو انسان نے عبادت میں مشغول رکھا وہ وقت اس کے حق میں مبارک ہوتا ہے اور جس وقت کو گناہ کے کاموں میں صرف کیا وہ اس کے لیے (بوجہ معصیت) منحوس ہے، اصل بات یہ ہے کہ عبادات مبارک ہیں اور معصیات منحوس ہیں، وقت اور زمانہ منحوس نہیں بلکہ ہمارے برے اعمال اور غیر اسلامی عقائد منحوس ہوتے ہیں۔ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں صفر کا مہینہ عام مہینوں کی طرح ہے اور جس طرح عام مہینوں میں کوئی نحوست نہیں، اسی طرح پورے صفر کے مہینہ میں بھی کوئی نحوست نہیں ہے۔ بنابریں ماہِ صفر اور اس کے ابتدائی ایام کو منحوس سمجھ کرشادی، منگنی اور سفر وغیرہ سے رُک جانا بے سند، بے دلیل اور گناہ ہے، اس ماہ میں شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے شادی بیاہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ باقی جہاں تک حضور اکرم a کا صفر کے ابتدائی بارہ دن بیمار رہنے کا واقعہ ہے تو یہ بھی سراسر غلط اور بے بنیادہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ آنحضرت a کی بیماری کا آغاز ۲۸؍ صفر الخیر کو ہوا تھا، مگر اس لحاظ سے بھی ماہِ صفر منحوس نہیں ہوسکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماہِ صفر کے بالکل آخری ایام میں حضور اکرم aکی طبیعت ِ مبارکہ خراب ہونی شروع ہوئی تھی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ماہِ صفر کی وجہ سے طبیعت بگڑی تھی اور اگر آپ a اس ماہ میں بیمار نہ بھی ہوتے تو کسی نہ کسی مہینہ میں بیمار ہوتے اور وہ آپ a کی وفات کاسبب بنتا۔ ماہِ صفر میں حضور a کا بیمار ہونا اگر صفر کے مہینہ کی نحوست کی دلیل ہوسکتی ہے تو جس مہینہ میں حضور a کی وفات ہوئی وہ بطریق اولیٰ منحوس ہونا چاہیے، تاہم کسی ادنیٰ مسلمان کا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ وہ منحوس مہینہ ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ نحوست کسی سال یا دن یا ماہ کے ساتھ مخصوص نہیں، بلکہ جہاں کہیں ایمان اور عمل صالح خارج ہوجاتا ہے وہاں یقینا اُس کو نحوست گھیر لیتی ہے۔ مشکاۃ المصابیح میں ہے: ’’وعن جابرؓ قال: سمعت النبی a یقول: لاعدوٰی ولاصفر ولاغول۔‘‘ (المیزان،ص:۳۹۲) ایک اور حدیث میں ہے: ’’عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: قال اللّٰہ تعالٰی: یؤذینی ابن آدم یسب الدہر وأنا الدہر، بیدی الأمر ، أقلب اللیل والنہار‘‘۔  (مشکاۃ ،ج:۱،ص:۱۳،قدیمی) بخاری شریف میں ہے: ’’عن أبی ہریرۃؓ قال: قال رسول اللّٰہ a: لاعدوٰی ولاطیرۃ ولاہامۃ ولاصفر‘‘۔                                             (صحیح البخاری،ج:۱،ص:۸۵۷)  مزید تفصیلات کے لیے ’’شمس التواریخ‘‘ ج:۲، ص:۱۰۰۸ اور ’’فتاویٰ رحیمیہ‘‘ ج:۱، ص:۶۸ و۶۹ ملاحظہ فرمائیں۔ فقط واللہ اعلم             الجواب صحیح                  الجواب صحیح                    کتبہ        محمد عبد المجید دین پوری           محمد شفیق عارف                محمد انس انور                                                     دار الافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین