بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صد سالہ ’’تاسیسِ جمعیۃ‘‘ کا عالمی اجتماع

صد سالہ ’’تاسیسِ جمعیۃ‘‘ کا عالمی اجتماع

    برصغیر جنوبی ایشیاء میں آزادی کی پہلی جدوجہد سید احمد بریلوی شہیدv اور شاہ اسماعیل شہید دہلویv کی زیرقیادت تھی۔ ۶؍مئی ۱۸۳۱ء کو ان کی شہادت بالاکوٹ میں ہوئی۔ پھر ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی، علماء صادق پور کی مساعی جمیلہ، مقدمہ انبالہ کی ان تمام کاوشوں کا سلسلہ ۱۸۸۲ء تک چلتا ہے۔ یہ تمام مساعی ’’مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا‘‘ کا مصداق قرار دی جاسکتی ہیں۔     ۱۸۶۷ء میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی گئی، جس نے مذہبی اور تعلیمی سرگرمیوں میں اسلامیانِ عالم کی گرانقدر مثبت، پرامن اور آئین کے دائرہ میں رہ کر وہ گرانقدر خدمات سرانجام دیں جس پر دنیا کے تمام انصاف پسند موافق ومخالف خراجِ تحسین پیش کرنے پر مجبور ہوئے۔     ۱۹۰۵ء میں دارالعلوم دیوبند کی مسندِ صدارت پر شیخ الہند مولانا محمود حسنv براجمان ہوئے۔ متحدہ ہندوستان کی آزادی کے لیے مختلف انداز وجہات سے جدوجہد جاری رہی۔ اس دوران خلافت عثمانیہ پر کڑا وقت آیا۔ تب متحدہ ہندوستان کی قیادت نے ترک مسلمانوں کی مدد کے لیے دن رات ایک کردئیے۔ ۲۲؍نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی میں خلافت کانفرنس تھی۔ اس میں اتحادیوں اور حکومت برطانیہ سے ان وعدوں کے ایفاء کا مطالبہ کیاگیا جو جنگ کے دوران مسلمانوں سے انہوں نے کیے تھے۔ خلافت کانفرنس دہلی میں شرکت کے لیے تمام صوبوں سے علماء کرام کی ایک کثیر تعداد شریک ہوئی۔ ان میں سے پچیس سرکردہ علماء کرام کا ایک علیحدہ اجلاس ہوا، اس میں فیصلہ کیاگیا کہ ہندوستان کے تمام مکاتب فکر کے نمائندہ علماء کرام پر مشتمل ایک علماء کی جماعت ہونا چاہیے جو مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لیے سچی مذہبی خیرخواہی اور ہمدردی کے ساتھ ان کی رہنمائی کرے۔ تمام مذہبی فرقوں میں اتحاد ویگانگت اور متفقہ لائحہ عمل ہونا چاہیے۔     ان پچیس علماء کرام نے اس اجلاس میں ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے نام پر جماعت کی تشکیل کی۔ ۲۲؍نومبر ۱۹۱۹ء کو دہلی کے اجلاس میں شریک علماء کرام: مولانا عبدالباری فرنگی محلی، مولانا محمد انیس، پیر محمد امام سندھی، مولانا میر ابراہیم سیالکوٹی، مولانا قدیر بخش بدایونی، مولانا خدا بخش مظفرپوری، مولانا محمد اکرم خان ایڈیٹر اخبار محمدی، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا سلامت اﷲ، مولانا اسد اﷲ سندھی، مولانا خواجہ نظام الدین بدایونی، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا تاج محمد، مولانا مولابخش امرتسری، مولانا منیرالزمان، مولانا سید اسماعیل، مولانا آزاد سبحانی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری، مولانا سید محمد فاخر (الہ آباد)، مفتی کفایت اﷲ، مولانا سید کمال الدین، مولانا محمد ابراہیم دربھنگ، مولانا عبدالحکیم گیاوی، مولانا محمد صادق کراچی، مولانا محمد عبداﷲ۔     اس اجلاس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے فرمائی۔ مولانا ثناء اﷲ امرتسری کی تجویز پر مولانا مفتی کفایت اﷲ کو صدر، مولانا احمد سعید دہلوی کو عارضی ناظم مقرر کیا گیا۔ مفتی کفایت اﷲ، مولانا محمد اکرم خان پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی جو ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کے دستور کے خدوخال متعین کرے۔ دہلی کے اس اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ دسمبر ۱۹۱۹ء میں مسلم لیگ کا اجلاس امرتسر میں منعقد ہورہا ہے، اس موقع پر اکثر یہ علماء کرام اس اجلاسِ مسلم لیگ میں شریک ہوں گے، اس اجلاس کے بعد امرتسر میں ہی ۲۸؍دسمبر ۱۹۱۹ء سے یکم؍جنوری ۱۹۲۰ء تک ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کا اجلاس منعقد کیا جائے گا۔ چنانچہ اجلاس منعقد ہوا، اس اجلاس کی صدارت مولانا عبدالباری فرنگی محلی نے کی۔ پہلے اجلاس کے پچیس علماء کرام سمیت اس اجلاس میں پچاس علماء کرام نے شرکت فرمائی۔ پانچ دن اجلاس جاری رہا، اس میں دستور منظور ہوا، سابقہ اجلاس کے فیصلہ کی توثیق کی گئی۔ یوں جمعیۃ علماء ہند کے پہلے مستقل صدر اور جنرل سیکرٹری مفتی کفایت اﷲ اور مولانا احمد سعید دہلوی منتخب ہوئے۔     اس اجلاس میں پہلے متذکرہ حضرات کے علاوہ مولانا معین الدین اجمیری، مولانا عبدالصمد بدایونی، مولانا ابوتراب عبدالحق، مولانا نور احمد امرتسری، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا لقاء اﷲ عثمانی، مولانا ابویوسف اصفہانی، مولانا عبدالسلام ہمدانی، مولانا انتظار النبی، مولوی سید عطاء اﷲ صاحب (غالباً حضرت امیرشریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ مراد ہیں)، سعید جالب۔     اس وقت کے ان تمام متذکرہ اسماء گرامی پر نظر ڈالیں، پھر ’’جمعیۃ علماء ہند‘‘ کی جامعیت کو ملاحظہ کریں کہ پورے ملک کی اس اجلاس میں نمائندگی اور تمام مکاتب فکر، تمام اہم خانقاہوں کی بھرپور قیادت موجود تھی۔ آج جب ’’جمعیۃ علمائ‘‘ کی غرض وغایت، اہداف ومقاصد پڑھتے ہیں تو وجد کی کیفیت طاری ہوتی ہے کہ کس طرح جامعیت کا حامل مؤقر پلیٹ فارم تشکیل دیا گیا۔ مذہبی نقطۂ نظر سے اہل اسلام کی سیاسی وغیرسیاسی امور میں راہنمائی کرنا، اسلام، شعائر اسلام، اسلامی قومیت کو ضرر پہنچانے والے اثرات کی شرعی حیثیت سے مدافعت کرنا، مشترکہ مذہبی حقوق کی تحصیل وحفاظت، علماء کو ایک مرکز پر جمع کرنا، مسلمانوں کی تنظیم، اخلاقی ومعاشرتی اصلاح، غیرمسلم برادرانِ وطن کے ساتھ ہمدردی اور اتفاق کے تعلقات اس حد تک قائم رکھنا جہاں تک شریعتِ اسلامیہ نے اجازت دی ہو، شرعی نصب العین کے مطابق مذہب ووطن کی آزادی، اندرون وبیرونِ ممالک میں تبلیغِ اسلام کرنا۔     ان اہداف کے حصول کے لیے اسلامیانِ متحدہ ہند کی ہر موڑ پر جس طرح ’’جمعیۃ علمائ‘‘ نے رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ ۱۹۲۰ء کے اوائل سے لے کر آزادی اور اس کے بعد تک کوئی ایسی تحریک نہیں جس میں مسلمانوں کی خدمت، اسلام کی ترویج و اشاعت کا کوئی دقیقہ فروگزاشت کیا ہو۔ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیع عثمانیؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، غرض مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی میں علماء کرام کے ایک بڑے حصہ نے قائداعظم اور لیگ کا ساتھ دیا تھا۔ ملک آزاد ہوا، دو مملکتیں معرض وجود میں آئیں، اپنے اپنے ملک کے معروضی حالات کے مطابق علماء کرام نے اپنا مؤقف اختیار کیا۔ پاکستان بننے کے بعد یہاں پر آئین پاکستان بنانا تھا، اس کے لیے ہر مرحلہ پر علماء نے اپنا فرض سرانجام دیا۔ پاکستان کے آئین کی تشکیل اور قراردادِ مقاصد کی ترتیب ومنظوری کے لیے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ اور دیگر حضرات نے دن رات ایک کیے۔ اسے کوئی دیانت دار مصنف نظر انداز نہیں کرسکتا۔     علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے وصال کے بعد آگے چل کر نت نئے حالات پیدا ہونے لگے، جس کے لیے اسلامیانِ وطن کی مذہبی وسیاسی رہنمائی دینی نقطۂ نظر سے ضروری تھی، اس کے لیے حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کی قیادت وسیادت میں علماء کرام کو ایک پلیٹ فارم کی تشکیل کے لیے ضروری قرار دیا۔ چنانچہ حضرت مولانا خیرمحمد جالندھریؒ نے مفکر اسلام مولانا مفتی محمودؒ، مولانا سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ سے مشاورت کے بعد حضرت مولانا مفتی محمد حسنؒ خلیفہ اعظم حضرت تھانویؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ اور دیگر حضرات سے مشاورت کر کے فیصلہ کیا کہ پاکستان میں علماء کرام کی جدوجہد کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لیے کسی نئے پلیٹ فارم کی تشکیل کی بجائے ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا جائے، چنانچہ اس کے لیے ۷،۸،۹؍اکتوبر ۱۹۵۶ء کو ملتان میں اجلاس منعقد ہوا، اور ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے کام کا آغاز کر دیا گیا۔ علماء کرام کی جدوجہد کے اس تاریخی تسلسل کو دیکھا جائے تو ۱۹۱۹ء کے اجلاسِ دہلی وامرتسر کے بعد سے اس وقت تک ایک صدی بیت گئی ہے۔ پاکستان میں ’’جمعیۃ‘‘ نے‘ کوئی ایسی تحریک نہیں جس میں گرانقدر، ایمان پرور اور شاندار حصہ نہ لیا ہو۔ ۱۹۵۶ء کے آئین کی تشکیل سے ۱۹۷۳ء کے آئین کی منظوری تک کوئی ایک بھی ایسی اسلامی شق نہیں جو ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کی کاوشوں کے بغیر معرضِ وجود میں آئی ہو۔ پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد سے بالعموم اور ۱۹۷۰ء کے بعد سے بالخصوص کوئی ایسی پارلیمنٹ نہیں جس میں ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کی نمائندگی نہ ہو۔ ۱۹۷۰ء کے بعد سے اب تک خیبرپختونخواہ اور بلوچستان میں حکومتوں کی تشکیل میں ہمیشہ ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ ایک مؤثر پارٹی کے طور پر شریک عمل ہے۔     پاکستان کے اسلامی تشخص، عقیدہ ختم نبوت کا تحفظ، ناموس اہل بیتؓ وصحابہ کرامؓ کی پاسبانی، دینی اقدار کی ترویج، مدارسِ دینیہ کی ترقی وتعمیر کے لیے ایک پرامن آئینی جدوجہد، معتدل پالیسی اور اس کے مثبت اثرات سے ’’جمعیۃ‘‘ کی شاندار قابل فخر ایک تاریخ ہے۔ ہر جماعت کی طرح ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ پر بھی نشیب وفراز آئے، لیکن ہر مشکل کے بعد سروقد میدان میں موجود رہنا اور صف اوّل میں رہ کر اسلام کی عظمت کے لیے کردار ادا کرنا ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کی وہ مساعی جمیلہ ہیں جس پر ان کی قیادت کو جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے۔     آئین شریعت کانفرنس لاہور، خدماتِ دارالعلوم دیوبند کانفرنس پشاور کے بعد آج پھر ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ نے اپنی تاسیس کے حوالہ سے سوسالہ عالمی اجتماع منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ سے اس کے لیے شب وروز کی کاوش سے اب پوری دنیا کی نظریں اس اجتماع پر لگی ہیں، جو ۷،۸،۹؍اپریل ۲۰۱۷ء کو نوشہرہ پشاور کے درمیان اضاخیل کے مقام پر منعقد ہورہا ہے۔ اجتماع کے لیے دس ہزار کنال پر مشتمل ایک وسیع وعریض اراضی کا مل جانا ایک انعامِ الٰہی ہے۔ اتفاق، حسن اتفاق یا قدرت کا کرشمہ کہئے کہ اس اجتماع گاہ کی جگہ کے سامنے دریائے کابل کے واس پار خویشکی وہ قصبہ ہے جہاں حضرت سید احمد شہیدؒ کے قافلہ نے آکر قیام کیا تھا۔ آج اسی محاذ کے سامنے دریا کے اِس پار جمعیۃ علماء اسلام کے قافلہ کا پڑاؤ کتنی حسین یادوں کا پرتو تاریخ کے دامن میں لیے ہوئے ہے۔ دس ہزار کنال اراضی پر جنوب، مشرق، شمال کی جانب سہ طرفہ رہائشی وسیع وعریض خیمے ہوں گے۔ ان کے درمیان سے آرپار آٹھ وسیع وعریض پچاس پچاس فٹ کے راستے ہوں گے، جو شخص جہاں سے ان راستوں پر چلے سامنے اسے وضوخانے، واش رومز کے بلاک ملیں گے۔ اس کے ساتھ ہی بازار، ڈسپنسری، کینٹین، مکتبے، خریدوفروخت کے اسٹالز ہوں گے، غرض تمام ضروریات ایک حصہ میں ملیں گی۔ وہاں سے فراغت کے بعد جلسہ کے پنڈال میں آسکے گا۔ ۸؍ہزار سے زائد واش رومز، ۲۵؍ہزار سے زائد وضوخانے کی ٹونٹیاں، ۸؍ڈسپینسریاں، ایک بڑا ہسپتال، ان میں ضرورت کے مطابق چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز اور ایمبولینس کی سہولت موجود ہوگی۔ قبلہ کی جانب اسٹیج ہوگا، جو دو کنال پر مشتمل ہے، جس کے تین پورشن ہوں گے، ایک ہزار مہمانانِ گرامی ان پر براجمان ہوں گے۔ اتنے وسیع وعریض کہ یہ تمام یہاں نماز بھی ادا کر سکیں گے۔ جو مقرر اسٹیج کے جس حصہ پر موجود ہو گا مرکزی اسٹیج سیکرٹری کے اعلان کے ساتھ وہ اسی حصۂ اسٹیج پر موجود ڈائس پر بیان کر سکے گا۔ نچلے حصہ والے خطیب کو اوپر کے حصہ پر جانے کی ضرورت/ اجازت نہ ہوگی۔     اسٹیج کے عقب میں غیرملکی مندوبین ومنتظمین اعلیٰ کانفرنس کے لیے حویلی تعمیر کی گئی ہے۔ اسٹیج کے دائیں بائیں کنٹرول رومز ہوں گے۔ بجلی، ٹریفک، ساؤنڈ سسٹم، پانی، سیکورٹی، صحت، پرنٹ، سوشل یا الیکٹرانک میڈیا ہر ایک کے لیے کنٹرول روم یہاں اسٹیج کے دونوں اطراف میں ہوں گے۔ ان کے پس پشت دو ہیلی پیڈ ہوں گے۔ شرکاء کی متوقع تعداد پچاس لاکھ بتائی جارہی ہے۔ رابطہ کی سہولت کے لیے موبائل کمپنیوں کے اضافی ٹاورز نصب ہوں گے۔ دو ماہ سے صبح وشام چالیس حفاظ کرام پنڈال میں تلاوت ودعاؤں میں مصروفِ عمل ہیں۔ انصار الاسلام کے ایک لاکھ رجسٹرڈ رضاکار پنڈال میں سیکورٹی پر مامور ہوں گے۔ پنڈال میں جانے کے لیے عوام کا بڑا راستہ اُسے ’’مفتی محمودؒ شاہراہ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ دوسرا خواص کا بڑا راستہ اسے ’’شیخ الہندؒ شاہراہ‘‘ کا نام دیاگیا ہے۔ پنڈال، جلسہ گاہ وقیام گاہوں کے لیے سائبانوں کا ٹھیکہ دیاگیا ہے۔ بجلی کے لیے چالیس ہیوی جنریٹر ہوں گے، ان کی تنصیب اور بجلی کی تقسیم کا کام ٹھیکہ پر دیا گیا ہے۔ پانی کے لیے کئی ٹربائن لگائی گئی ہیں۔ وضوخانوں کا مستعمل پانی واش روموں سے گزرے گا۔ پھر بڑی بڑی ہزاروں فٹ کی لمبی پائپ لائنوں سے دریا میں گٹر کا پانی گرایا جائے گا۔ دن رات کر کے اس پر کام ہورہا ہے۔ ان حالات میں اس کانفرنس کا انعقاد ’’جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کی بیدار مغز قیادت کا وہ جرأت مندانہ اقدام ہے جس پر ڈھیروں تعاون کے مستحق ہیں۔ کانفرنس دوررس نتائج کی حامل ہوگی۔ اسلامی ممالک کے سفراء دنیا بھر کے اسلامی اسکالرز، علماء کرام، خطبائ، حرمین شریفین کے ائمہ، پورے ملک کی دینی قیادت، علمائ، مشائخ، خطباء کا اجتماع عظیم، ذرا سوچئے کہ حضرت مدنیؒ وحضرت تھانویؒ، حضرت شیخ الہندؒ کے متوسلین کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تمہیں دعوت نظارہ دے رہا ہے۔     فقیر راقم نے اس پنڈال میں چند گھنٹے گزارے ہیں۔ میرا تو خیال ہے کہ پہلے لاہور شہر کے لیے یہ مثال دی جاتی تھی: ’’جس نے لاہور نئیں ویکھیا اوہ جمیا ہی نئیں‘‘ اب اس اجتماع سے کیا ضرب المثالیں قائم ہوں گی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔ اسلامیانِ وطن!!! تمہیں یہ اجتماع بلاتا ہے، سراپا گوش بن کر اس کی صدا پر چلے آؤ! تاکہ تاریخ ساز اجتماع میں آپ کی شمولیت بھی تاریخ کا حصہ بن جائے۔ لاہور پاکستان کے قیام کی قرارداد میں حصہ لینے اور شریک ہونے والے تاریخ کا حصہ ہیں، وہ اس پر بجا فخر کرتے ہیں، اس لیے کہ ایسے تاریخی اجتماعات قوموں کی جدوجہد کا رخ متعین کرتے ہیں۔ خدا کرے تو یہ اجتماع بھی ایسا ثابت ہوگا۔ ان شاء اﷲ العزیز! بڑھے چلو کہ منزل قریب ہے۔

۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔ژ۔۔۔۔۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین