بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صحابیؓ   کی تعریف

صحابیؓ   کی تعریف


کیا فرماتے ہیں مفتیانِ کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
۱:… صحابی کی تعریف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک کیا تھی؟ !
کیا اصطلاحی ’’ صحابیؓ    ‘‘ کی جو تعریف کتبِ متداول میں منقول ہے کہ جس کی ایمان کی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی ہو اور اسلام پر ہی اس کی وفات ہوئی ہو۔ کیا یہی تعریف رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ ؓ کے نزدیک بھی ثابت تھی؟
۲:… اور مندرجہ ذیل نصوص (قرآنی آیات اور احادیث) میں کیا سب صحابہؓ شامل ہیں؟ (جنہوں نے صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا یا مختصر ملاقات ہی ہوئی ہو؟) یا ان قرآنی آیات اور احادیث میں صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقربین اصحاب ہی شامل ہیں، جنہوں نے آپ کی صحبت میں کافی وقت گزارا ہو؟
الف: ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ ذٰلِکَ مَثَلُھُمْ  فِی التَّوْرٰ ۃِ وَمَثَلُھُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ کَزَرْعٍ اَخْرَجَ  شَطْاَہٗ  فَاٰزَرَہٗ  فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰی عَلٰی سُوْقِہٖ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ  مِنْھُمْ  مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا۔‘‘
ب:’’حدثنا عثمان بن أبي شیبۃ، حدثنا جریر، عن الأعمش، عن أبي صالح عن أبي سعید قال: کان بین خالد بن الولید وبین عبد الرحمٰن بن عوف شیئ ، فسبہ خالد، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:’’لاتسبوا أحدا من أصحابي، فإن أحدکم لو أنفق مثل أحد ذہبا ما أدرک مد أحدہم ولانصیفہ۔‘‘              (صحیح مسلم، حدیث: ۲۵۴۱)
ج: ’’أصحابي کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عبد بن حمید في مسندہ من طریق حمزۃ النصیبي عن نافع عن ابن عمرؓ: النجوم أمنۃ للسماء، فإذا ذہبت النجوم أتی السماء ما توعد وأنا أمنۃ لأصحابي ، فإذا ذہبت أتی أصحابي ما یوعدون وأصحابي أمنۃ لأمتي، فإذا ذہب أصحابي أتی أمتي ما یوعدون۔‘‘  (صحیح مسلم، حدیث: ۲۵۳۱)
د: ’’حدثنا محمد بن یحي حدثنا یعقوب بن إبراہیم بن سعد حدثنا عبیدۃ بن أبي رائطۃ عن عبد الرحمٰن بن زیاد عن عبد اللہ بن مغفل قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ’’اللہ اللہ في أصحابي اللہ اللہ في أصحابي لاتتخذوہم غرضا بعدي ، فمن أحبہم فبحبي أحبہم ومن أبغضہم فببغضي أبغضہم ومن آذاہم فقد آذاني ومن آذاني فقد آذی اللہ ومن آذی اللہ فیوشک أن یأخذہ۔ قال أبو عیسی: ہٰذا حدیث حسن غریب لانعرفہ إلا من ہٰذا الوجہ۔‘‘
۳:…کیا کسی صحابی ؓ(اصطلاح کے لحاظ سے جو متداول ہے) کے غلط عمل کا تذکرہ کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ؟                                 المستفتی:شوکت

الجواب حامداً ومصلیاً

۱:…واضح رہے کہ صحابیؓ  کی متفقہ تعریف جو جمہور محدثین وفقہاء کے نزدیک معتبر ومستند ہے، وہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی (متوفی: ۸۵۲ھ) نے ذکر فرمائی ہے: 
’’وہو من لقي النبي صلی اللہ علیہ وسلم مؤمنا بہٖ، ومات علی الإسلام، ولو تخللت ردۃ في الأصح۔‘‘       (نزہۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر، تعریف الصحابیؓ، ص:۱۴۰، ط: مطبعۃ سفیر،ریاض) 
’’صحابیؓ  وہ ہے جس کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کی حالت میں ملاقات ہوئی، اور اسلام پر اس کی وفات ہوئی ہو۔‘‘ 
قریب قریب یہی تعریف امام احمد بن حنبلؒ، امام بخاریؒ اور امام نوویؒ سے بھی منقول ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ جس نے ایک دفعہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بحالتِ اسلام کی ہو، اس پر صحابیؓ  کا اطلاق ہوگا،چنانچہ خطیب بغدادیؒ (متوفی: ۴۶۳ھ) نقل کرتے ہیں:
’’سمعت أبا عبد اللہ أحمد بن حنبل قال: کل من صحبہ سنۃ أو شہرا أو یوما أو ساعۃ أو رآہ فہو من أصحابہ، لہ من الصحبۃ علی قدر ما صحبہ ، وکانت سابقتہ معہ، وسمع منہ، ونظر إلیہ۔ قال محمد بن إسماعیل البخاري: ومن صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أو رآہ من المسلمین فہو من أصحابہ۔‘‘     (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابیؓ،ج: ۱، ص:۱۹۲، ط:مکتبۃ ابن عباسؓ)
اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۶۷۶ھ) فرماتے ہیں:
’’اختلف في حد الصحابيؓ، فالمعروف عند المحدثین أنہ کل مسلم رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔‘‘     (التقریب والتیسیر، النوع التاسع والثلاثون معرفۃ الصحابۃ ؓ، ص:۹۲، ط:دارالکتاب العربی)
’’صحابیؓ کی تعریف میں اختلاف رہا ہے، لیکن محدثین کے نزدیک مشہور ومعروف (اور متفق علیہ) تعریف یہ ہے کہ: صحابی ہر وہ مسلمان ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیداری کی حالت میں دیکھا ہو۔‘‘
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
’’حدثنی محمد بن عبید اللہ المالکي، أنہ قرأ علی القاضي أبي بکر محمد بن الطیب، قال: ’’لاخلاف بین أہل اللغۃ في أن القول صحابي مشتق من الصحبۃ، وأنہ لیس بمشتق من قدر منہا مخصوص ، بل ہو جار علی کل من صحب غیرہ، قلیلا کان أو کثیرا‘‘ وکذٰلک یقال: صحبت فلانا حولا ودہرا وسنۃ وشہرا ویوما وساعۃ، ویوقع اسم المصاحبۃ بقلیل ما یقع منہا وکثیرہ، وذٰلک یوجب في حکم اللغۃ إجراء ہذا علی من صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولو ساعۃ من نہار۔‘‘           (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابیؓ، ج:۱، ص:۱۹۳-۱۹۴، ط:مکتبۃ ابن عباسؓ)
تاہم حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۹۳ھ) فرماتے ہیں:
’’الصحابۃ لانعدہم إلا من أقام مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنۃ أو سنتین، وغزا معہ غزوۃ أو غزوتین۔‘‘(الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابیؓ،ج: ۱،ص:۱۹۰-۱۹۱، ط:مکتبۃ ابن عباسؓ)
’’صحابیؓ ہم اسی کو شمار کرتے ہیں جو سال ، دوسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ہوں، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک، دو غزوات میں شریک ہوئے ہوں۔‘‘
خطیب بغدادیؒ نے حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل کرنے کے بعد ابن عمرواقدیؒ کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں:
’’رأیت أہل العلم یقولون: کل من رأی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد أدرک الحلم فأسلم وعقل أمر الدین ورضیہ ، فہو عندنا ممن صحب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ولو ساعۃ من نہار، ولکن أصحابہ علی طبقاتہم وتقدمہم في الإسلام۔‘‘         (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب القول فی معنی وصف الصحابیؓ ،ج:۱، ص:۱۹۱، ط: مکتبۃ ابن عباسؓ)
’’میں نے اہل علم سے سناہے کہ: جس نے بلوغت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسلام لے آیا اور اوامرِ دین کو سمجھا اور قبول کیا، وہ ہمارے نزدیک صحابی ہے، اگرچہ وہ ایک گھڑی کے لیے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہاہو، تاہم صحابہ رضی اللہ عنہم کے درجات اور مراتب مختلف اور متفاوت ہیں ۔‘‘
اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ بھی حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کی گئی تعریف کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
’’فإن صح عنہ فضعیف، فإن مقتضاہ أن لایعد جریر البجليؓ وشبہہ صحابیا ولاخلاف أنہم صحابۃؓ۔‘‘  (التقریب والتیسیر، النوع التاسع والثلاثون معرفۃ الصحابۃؓ ،ص:۹۲، ط: دار الکتاب العربی)
’’اگر اس کی نسبت ابن مسیب رحمۃ اللہ علیہ تک درست بھی ہو، تب بھی یہ قول ضعیف ہے، کیونکہ اس قول کی رو سے جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ اور ان جیسے دیگر صحابہؓ (جو معمولی عرصے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے) صحابہؓ میں شمار نہیں ہوتے، حالانکہ ایسے صحابہؓ کے صحابہ ہونے پر اُمت کا اتفاق ہے۔‘‘
خلاصہ یہ کہ جمہور علماء کی رائے کے موافق ہر اس مسلمان کو صحابی کہا جائے گا جو ایک گھڑی کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یاب ہوا ہو، اور حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے (رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدینؓ اور دوسرے صحابہؓ میں سے) کسی اور سے صحابی کی تعریف اور دیگر اصطلاحی مباحث کے متعلق کوئی بات منقول نہیں ہے، کیونکہ ان تعریفات اور اصطلاحی مباحث کی ضرورت اس وقت پڑی جب حدیث کی تدوین کا کام شروع ہوا اور مالک بن انسؒ فرماتے ہیں: 
’’سب سے پہلے حدیث کی تدوین کا کام ابن شہاب زہریؒ نے کیا۔‘‘
ابن شہاب زہری رحمۃ اللہ علیہ کی وفات ۱۲۵ھ میں ہوئی۔شرح علل الترمذی میں ہے:
’’عن مالک بن أنس قال: أول من دون العلم ابن شہاب، یعنی الزہري۔‘‘         (شرح علل الترمذی، لابن رجب الحنبلی: کتاب الحدیث والتصنیف فیہ، ص:۳۴۲، ط: مکتبۃ المنار)
’’تقریب التہذیب‘‘ میں ہے: 
’’محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ ابن شہاب ۔۔۔ الزہري۔۔۔ مات سنۃ خمس وعشرین ۔‘‘           (تقریب التہذیب لابن حجرؒ، رقم: ۶۲۹۶، ص:۵۳۶، ط: دارالمنہاج)
بالفاظِ دیگر یہ اصطلاحات اور تعریفات قرونِ اولیٰ (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے) کے بعد کی وضع کردہ ہیں، قرونِ اولیٰ میں نہ ان کا وجود تھا او رنہ ان کی ضرورت تھی۔
۲:… قرآن و حدیث میں جہاں جہاں صحابہ کرامؓ کا تذکرہ آیاہے اور اس جماعت کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، وہاں تمام صحابہؓ بالعموم مراد ہیں، یعنی امت کے جمہور علماء کی رائے اور متفقہ فیصلے کی روشنی میں جو کوئی بھی صحابی کی تعریف میں داخل ہوتا ہے، وہ سب مراد ہیں، لہٰذا سوال میں مندرجہ نصوص میں تمام صحابہؓ بالعموم مراد ہیں، جیساکہ خود نصوص کے الفاظ سے واضح ہے۔
تاہم جس طرح انبیاء علیہم السلام کے درجات اور مراتب میں فرق ہے اور مسلمانوں میں اعمال اور صفات کے لحاظ سے فرق ہے، اسی طرح صحابہ رضی اللہ عنہم میں درجات کے لحاظ سے فرق ہے، چنانچہ چار خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کا رتبہ دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے بلندہے۔ عشرہ مبشرہ ( وہ دس صحابہ رضی اللہ عنہم جن کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نشست میں جنت کی خوشخبری دی ہے) کا مرتبہ ان کے علاوہ سے بڑھا ہوا ہے، جن صحابہ رضی اللہ عنہم نے حبشہ اور مدینہ منورہ دونوں ہجرتیں کی تھیں، ان کو قرآن کریم میں سابقین اولین کہاگیا ہے، اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے کے مطابق: سابقین اولین وہ صحابہؓ ہیں جو بیعتِ رضوان میں شریک تھے۔ اسی طرح جو صحابہ رضی اللہ عنہم جنگِ بدر میں شریک تھے، ان کے خصوصی فضائل احادیث میں وارد ہیں کہ اہلِ بدر کے لیے جنت واجب ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اہلِ بدر کی مغفرت فرمادی ہے۔
صلح حدیبیہ میں شریک ہونے والے صحابہؓ   کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم سے خلاصی کی بشارت سنائی، جن کی تعداد چودہ سو تھی، ان سب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: ’’آج تم لوگ ساری زمین والوں میں سب سے بہتر ہو۔‘‘ اور جن صحابہ ؓ نے فتحِ مکہ سے پہلے اللہ کے راستے میں خرچ کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قتال کیا، ان کادرجہ ان صحابہؓ سے بہت برتر وبالا ہے جو فتحِ مکہ کے بعد اسلام لائے اور یہ ناممکن ہے کہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتال کیا ہو اور جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقابلہ کیا ہو وہ دونوں برابر اور ہم پلہ ہوجائیں!!!
خلاصہ یہ کہ صحابہؓ کے متعلق قرآن و حدیث کے تمام فضائل اگرچہ تمام صحابہؓ   کو شامل ہیں، لیکن حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مراتب کے فرق کی بنیاد پر نصوص میں مذکورہ فضائل اور اوصاف میں بھی تفاوت ہے۔ ابن عبد الر اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی:۴۶۳ھ) نقل فرماتے ہیں:
’’قال اللہ تعالٰی ذکرہٗ: {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗٓ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَھُمْ تَرٰھُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاھُمْ فِیْ وُجُوْھِھِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِ } (الفتح:۲۹) الآیۃ، فہٰذہٖ صفۃ من بادر إلٰی تصدیقہ والإیمان بہ، وآزرہ ونصرہ (و لصق بہ) وصحبہ، ولیس کذٰلک جمیع من رآہ ولاجمیع من آمن بہ، وستری منازلہم من الدین والإیمان، وفضائل ذوي الفضل والتقدم منہم، فاللہ قد فضل بعض النبیین علی بعض، وکذٰلک سائر المسلمین، والحمد للّٰہ رب العٰلمین، وقال عزّوجلّ:{وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُھٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْھُمْ بِاِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ وَاَعَدَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَھَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ} (التوبۃ:۱۰۰) الآیۃ۔ قال أبو عمر: أخبرنا ابن سیرین في قولہ عزّ وجلّ: {وَالسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ } (التوبۃ:۱۰۰) قال: ہم الذین صلوا القبلتین ، وقال أحمد بن زہیر: قلت لسعید بن المسیب: مافرق بین المہاجرین الأولین والآخرین؟ قال: ہم الذین صلوا القبلتین ۔ و۔۔۔ عن الشعبي قال: ہم الذین بایعوا بیعۃ الرضوان ۔۔۔۔ عن جابرؓ قال: جاء عبد لحاطب بن أبي بلتعۃ أحد بني أسد یشتکي سیدہ ، فقال: یا رسول اللّٰہ، لیدخلن حاطب النار۔ فقال لہ : کذبت لایدخلہا أحد شہد بدرا أو الحدیبیۃ۔ قال أبوعمرؓ : قال اللہ سبحانہ: {لَقَدْ رَضِيَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ} (الفتح:۱۸) ومن رضي اللہ عنہ لم یسخط علیہ أبدا إن شاء اللّٰہ، وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : لن یلج النار أحد شہد بدرا أو الحدیبیۃ … عن أبي الزبیر عن جابر بن عبد اللہ عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: لایدخل النار أحد ممن بایع تحت الشجرۃ … أخبرنا سفیان عن عمرو قال: سمعت جابر بن عبد اللہ یقول: کنا یوم الحدیبیۃ ألفا وأربعمائۃ، فقال لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : أنتم الیوم خیر أہل الأرض … عن علي قال: بعثني رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبا مرثد والزبیر بن العوام، وکلنا فارس، قال: انطلقوا حتی تاتوا روضۃ خاخ، فذکر الحدیث في قصۃ حاطب، حتی بلغ إلی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ألیس من أہل بدر! إن اللہ قد اطلع علی أہل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد وجبت لکم الجنۃ أو قد غفرت لکم۔ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : إن أرأف أمتي بأمتي أبوبکر، وأقواہا في أمر دین اللہ عمر، وأصدقہا حیاء عثمان، وأقضاہا علي، وأقرؤہا أبي، وأفرضہا زید، وأعلمہم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، ولکل أمۃ أمین، وأمین ہٰذہ الأمۃ أبو عبیدۃ بن الجراح ، قال أبوعمرؓ فضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جماعۃ من أصحابہ بفضائل خص کل واحد منہم بفضیلۃ وسمہ بہا، وذکرہ فیہا وہٰذا من معنی قول اللہ تعالٰی : {لَا یَسْتَوِیْ  مِنْکُمْ  مَّنْ  اَنْفَقَ  مِنْ  قَبْلِ الْفَتْحِ  وَقٰتَلَ اُولٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً  مِّنَ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقٰتَلُوْا وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ  الْحُسْنٰی} (۵۷:۱۰) ومحال أن یستوي من قاتلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مع من قاتل عنہ۔ وقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لبعض من لم یشہد بدرا۔ وقد رآہ یمشی بین یدي أبي بکر تمشی بین یدي من ہو خیر منک؟ وہذا لأنہ قد کان أعلمنا ذلک في الجملۃ لمن شہد بدرا والحدیبیۃ ولکل طبقۃ منہم منزلۃ معروفۃ وحال موصوفۃ۔‘‘    (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، مقدمۃ المؤلف،ج:۱،ص:۲-۱۸، ط: دار الجبل، بیروت)
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے صحابہؓ    کو تکلیف پہنچائی، اس نے مجھے تکلیف پہنچائی، اس کی روشنی میں کسی بھی صحابی کو تکلیف پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچانے کے مترادف ہے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو تکلیف پہنچانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدرناگوار گزرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرے کا رنگ ہی تبدیل ہوگیا اور آپ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ بخاری شریف میں ہے:
’’عن أبي الدرداء ؓ قال: کنت جالسا عند النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، إذ أقبل أبوبکر آخذاً بطرف ثوبہ حتی أبدی عن رکبتہ، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم : أما صاحبکم فقد غامر فسلم وقال: إني کان بیني وبین ابن الخطاب شیئ فأسرعت إلیہ ،ثم ندمت، فسألتہ أن یغفرلي فأبی عليَّ، فأقبلت إلیک، فقال: ’’یغفر اللہ لک یا أبابکر‘‘ ثلاثا، ثم إن عمرؓ ندم، فأتی منزل أبي بکرؓ ، فسأل : أَثَمَّ أبوبکر؟ فقالوا: لا، فأتی إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فسلم، فجعل وجہ النبي صلی اللہ علیہ وسلم یتمعر ، حتی أشفق أبوبکر، فجثا علی رکبتیہ، فقال: یا رسول اللّٰہ، واللہ أنا کنت أظلم، مرتین، فقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: ’’إن اللہ بعثني إلیکم، فقلتم: کذبت، وقال أبوبکر: صدق وواساني بنفسہ ومالہ، فہل أنتم تارکوا لي صاحبي‘‘ مرتین فما أوذي بعدہا۔‘‘   (کتاب المناقب، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم :’’لو کنت متخذا خلیلا ‘‘، رقم: ۳۶۶۱، ج:۵،ص:۵، ط: دار طوق النجاۃ)
۳:… واضح رہے کہ صحابہ ؓ ایسی جماعت ہے جس کی صداقت، دیانت اور پاکیزگی کی گواہی خود حق تعالیٰ شانہٗ نے دی ہے، اور ان کو اپنی رضا کا پروانہ کتاب اللہ میں عطا کیا ہے، اور اس جماعت کے ہر فرد سے بالعموم جنت کا وعدہ کیا ہے۔
اور بیسیوں احادیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے مختلف افراد کو جنت کی بشارتیں سنائی ہیں، اور بالعموم سب کو قابلِ اقتداء قرار دیا ہے، نیز اس جماعت کے ہرفرد سے محبت کو ایمان کی علامت بتلایا ہے، اور ان سے بغض رکھنے اور برابھلا کہنے کی سخت ممانعت فرمائی ہے، اور ان سے بغض رکھنے کو براہِ راست آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے بغض رکھنے کے برابر قرار دیاہے۔
اسی لیے اُمتِ مسلمہ کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ صحابہؓ سب کے سب امانت، دیانت اور سچائی کے پیکر تھے، یہ امت کا سب سے بہترین طبقہ ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لیے چنا تھا، اور خود قرآن میں ان کی تعریف فرمائی، ان کی نیک خصلتوں اور اچھی صفات کے تذکرے فرمائے ہیں اور ان کی کامیابی کا وعدہ فرمایا، نیز سرورِ کونین، صادق ومصدوق، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے بھی ان کی سچائی اور دیانت پر مہرِ نبوی ثبت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ستائش اور تصدیق کے بعد اب اس طبقے کے معتبر اور معتمد ہونے کے لیے نہ کسی کی گواہی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کی تصدیق کی حاجت، لہٰذا یہ وہ طبقہ ہے جس سے اللہ راضی ہوچکا ہے، اور اگر ان میں سے کسی سے کوئی غلط عمل یا لغزش سرزد بھی ہوئی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے معاف فرماکر ان سب سے جنت کا وعدہ کرلیا ہے، لہٰذا ان کی کسی بھی غلطی یا لغزش کا تذکرہ بطورِ تنقیص، تحقیر یا تنقید قطعاً جائز نہیں ہے۔
اسی لیے صحابہؓ کے متعلق تمام علماء، محدثین ، علماء جرح وتعدیل (یعنی محدثین کی وہ جماعت جو حدیث نقل کرنے والوں کو پرکھتے ہیں اور انتہائی باریک بینی سے ان کی جانچ پڑتال کرتے ہیں) اور فقہاء کا متفقہ فیصلہ ہے کہ:
’’الصحابۃؓ کلہم عدول۔‘‘ 
ترجمہ: ’’صحابہؓ سب کے سب عادل اور معتبر ہیں۔‘‘ (فتح الباری لابن حجر، ج: ۲، ص:۱۸۱، ط: دار المعرفۃ۔ عمدۃ القاری للعینیؒ، ج: ۱، ص:۱۵۸، ط:دار احیاء التراث العربی)
علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۸۰۶ھ) فرماتے ہیں:
’’للصحابۃ بأسرہم خصیصۃ وہي: أنہ لایسأل عن عدالۃ أحد منہم، بل ذلک أمر مفروغ منہ، لکونہم علی الإطلاق معدلین بنصوص الکتاب والسنۃ وإجماع من یعتد بہ في الإجماع من الأمۃ ۔۔۔۔۔۔ ثم إن الأمۃ مجمعۃ علی تعدیل جمیع الصحابۃؓ ومن لابس الفتن منہم: فکذلک بإجماع العلماء الذین یعتد بہم في الإجماع إحسانا للظن بہم ونظرا إلی ما تمہد لہم من المآثر وکان اللہ سبحانہ وتعالٰی أتاح الإجماع علی ذٰلک لکونہم نقلۃ الشریعۃ۔ واللہ اعلم۔‘‘         (علوم الحدیث لابن الصلاح، النوع التاسع والثلاثون، معرفۃ الصحابۃؓ، ص:۲۹۴-۲۹۵، ط:دارالفکر)
خطیب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی: ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
’’کل حدیث اتصل إسنادہٗ بین من رواہ وبین النبي لم یلزم العمل بہٖ إلا بعد ثبوت عدالۃ رجالہ، ویجب النظر في أحوالہم، سوی الصحابي الذی رفعہ إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لأن عدالۃ الصحابۃؓ ثابتۃ معلومۃ بتعدیل اللہ لہم وإخبارہ عن طہارتہم، واختیارہ لہم في نص القرآن ۔۔۔۔۔ في آیات یکثر إیرادہا ویطول تعدادہا، ووصف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الصحابۃ مثل ذلک، وأطنب في تعظیمہم، وأحسن الثناء علیہم۔‘‘    (الکفایۃ فی علم الروایۃ، باب ماجاء فی تعدیل اللہ ورسولہ للصحابۃؓ، ج:۱، ص:۱۸۰-۱۸۱، ط:مکتبۃ ابن عباسؓ)
ابن عبد البر اندلسی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں:
ہم صحابتہ الحواریون الذین وعوہا وأدوہا ناصحین محسنین، حتی کمل بما نقلوہ الدین، وثبتت بہم حجۃ اللہ تعالٰی علی المسلمین، فہم خیر القرون، وخیر أمۃ أخرجت للناس، ثبتت عدالۃ جمیعہم بثناء اللہ عز وجل علیہم وثناء رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم ولا أعدل ممن ارتضاہ اللہ لصحبۃ نبیہ ونصرتہ، ولاتزکیۃ أفضل من ذلک، ولاتعدیل أکمل منہ ۔۔۔۔۔۔ عن زر بن حبیش، عن عبد اللہ بن مسعود، قال: ’’إن اللہ نظر في قلوب العباد فوجد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم خیر قلوب العباد فاصطفاہ وبعثہ برسالتہ، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، فوجد قلوب أصحابہ خیر قلوب العباد، فجعلہم وزراء نبیہ یقاتلون عن دینہ۔‘‘       (الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، مقدمۃ المؤلف، ج:۱، ص:۱-۱۳، ط:دار الجبل، بیروت)
’’منح الروض الأزہر فی شرح الفقہ الأکبر‘‘ میں ہے:
’’ولانذکر الصحابۃؓ ) أي مجتمعین ومنفردین ۔ (وفي نسخۃ: (ولانذکر أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ) إلا بخیر۔ یعنی وإن صدر من بعضہم بعض ما ہو في الصورۃ شرّ، فإنہ إما کان عن اجتہاد ولم یکن علی وجہ فساد من إصرار وعناد، بل کان رجوعہم عنہ إلی خیر معاد بناء علی حسن الظن بہم ، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام:’’خیرالقرون قرني‘‘ ، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ’’إذا ذکر أصحابي فأمسکوہ‘‘ ، ولذٰلک ذہب جمہور العلماء إلی أن الصحابۃ رضي اللہ عنہم کلہم عدول قبل فتنۃ عثمان وعلي وکذا بعدہما، ولقولہ علیہ الصلاۃ والسلام: ’’أصحابي کالنجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم‘‘ رواہ الدارمي وابن عدي وغیرہما۔‘‘ (منح الروض الأزہر فی شرح الفقہ الاکبر، ملاعلی قاریؒ ،ص:۲۰۹-۲۱۰، طبع: دار البشائر الاسلامیہ)
یعنی  ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ میں سے کسی ایک کا بھی خیر کے سوا تذکرہ نہیں کرتے۔‘‘
’’المسامرۃ شرح المسایرۃ‘‘ میں ہے:
’’(واعتقاد أہل السنۃ) والجماعۃ (تزکیۃ جمیع الصحابۃ) رضي اللہ عنہم وجوباً، بإثبات العدالۃ لکل منہم، والکف عن الطعن فیہم،  (والثناء علیہم کما أثنی اللہ سبحانہ وتعالٰی علیہم) ۔‘‘ (المسامرۃ شرح المسایرۃ في العقائد المنجیۃ في الآخرۃ، ص:۲۶۵- ۲۶۶، ط: المکتبۃ العصریۃ، بیروت)
یعنی صحابہ کرام علیہم الرضوان سے متعلق اہلِ سنت کا اعتقاد یہ ہے کہ تمام صحابہؓ   کو لازمی طور پر غیرمجروح قراردیں، سب کو عادل مانیں اور تمام کے بارے میں زبانِ طعن سے احتراز کریں اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے بیان کردہ اوصاف ومحامد کے مطابق تذکرۂ خیر ہی کریں۔
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’اہلِ حق کے نزدیک صحابہ ؓ میں سے کسی کی تحقیر وتنقیص جائز نہیں، بلکہ تمام صحابہؓ   کو عظمت ومحبت سے یاد کرنا لازم ہے، کیونکہ یہی اکابر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں، امام اعظمؒ اپنے رسالہ ’’فقہ اکبر‘‘ میں فرماتے ہیں: 
’’ولانذکر الصحابۃؓ ) وفي نسخۃ: (ولانذکر أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ) إلا بخیر۔‘‘                               (شرح فقہ اکبر، ملاعلی قاریؒ ،ص:۸۵، طبع: مجتبائی۱۳۴۸ھ)
ترجمہ: ’’اور ہم صحابہ کرامؓ    کو (اور ایک نسخہ میں ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ میں سے کسی کو) خیر کے سوا یاد نہیں کرتے۔‘‘
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اپنے عقیدہ میں فرماتے ہیں:
’’ونحب أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ولانفرط في حب أحد منہم، ولانتبرأ من أحد منہم، ونبغض من یبغضہم، وبغیر الخیر یذکرہم، ولانذکرہم إلا بخیر، وحبہم دین وإیمان وإحسان، وبغضہم کفر ونفاق وطغیان۔‘‘ (عقیدۃ الطحاوی، ص:۶۶، طبع: ادارہ نشر واشاعت مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ)
ترجمہ: ’’اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ سے محبت رکھتے ہیں، ان میں سے کسی کی محبت میں افراط وتفریط نہیں کرتے اور نہ کسی سے براء ت کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو اُن میں سے کسی سے بغض رکھے یا ان کو ناروا الفاظ سے یاد کرے۔ ان سے محبت رکھنا دین وایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر ونفاق اور طغیان ہے۔‘‘
امام ابوزرعہ عبید اللہ بن عبد الکریم الرازی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۲۶۴ھ) کا یہ ارشاد بہت سے اکابر نے نقل کیا ہے کہ:
’’إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاعلم أنہ زندیق، وذلک أن الرسول صلی اللہ علیہ وسلم عندنا حق، والقرآن حق، وإنما أدی إلینا ہذا القرآن والسنن أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وإنما یریدون أن یجرحوا شہودنا لیبطلوا الکتاب والسنۃ، والجرح بہم أولٰی وہم زنادقۃ۔‘‘ (مقدمہ ’’العواصم من القواصم‘‘ ص:۳۴)
ترجمہ: ’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے کسی کی تنقیص کرتاہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک حق ہیں اور قرآن کریم حق ہے اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہمیں صحابہ کرامؓ ہی نے پہنچائے ہیں، یہ لوگ صحابہ کرامؓ پر جرح کرکے ہمارے دین کے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کتاب وسنت کو باطل کردیں، حالانکہ یہ لوگ خود جرح کے مستحق ہیں، کیونکہ وہ خود زندیق ہیں۔‘‘
…جس طرح کسی ایک نبی کی تکذیب پوری جماعت انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب ہے، کیونکہ دراصل یہ وحیِ الٰہی کی تکذیب ہے۔ ٹھیک اسی طرح کسی ایک خلیفہ راشد کی تنقیص خلفائے راشدینؓ کی پوری جماعت کی تنقیص ہے، کیونکہ یہ دراصل خلافتِ نبوت کی تنقیص ہے۔ اسی طرح جماعتِ صحابہؓ میں سے کسی ایک کی تنقیص وتحقیر پوری جماعت صحابہؓ   کی تنقیص ہے، کیونکہ یہ دراصل صحبتِ نبوت کی تنقیص ہے۔ اسی بنا پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’اللہ اللہ في أصحابي ، لا تتخذوہم غرضا بعدي، فمن أحبہم فبحبي أحبہم، ومن أبغضہم فببغضی أبغضہم۔‘‘                             (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۶)
ترجمہ:’’میرے صحابہؓ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! ان کو میرے بعد ہدفِ ملامت نہ بنالینا، پس جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا اس نے مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔‘‘
خلاصہ یہ کہ ایک مسلمان کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنا اور انہیں خیر کے ساتھ یاد کرنا لازم ہے، خصوصاً حضرات خلفائے راشدینؓ ،جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نیابتِ نبوت کا منصب حاصل ہوا۔ اسی طرح وہ صحابہ کرامؓ جن کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں محب ومحبوب ہونا ثابت ہے، ان سے محبت رکھنا حبِ نبوی کی علامت ہے۔ اس لیے امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ اس کو دین وایمان اور احسان سے تعبیر فرماتے ہیں اور ان کی تنقیص وتحقیر کو کفر ونفاق اور طغیان قرار دیتے ہیں۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، صحابہؓ وصحابیاتؓ، ازواجِ مطہراتؓ اور صاحبزادیاںؓ، ج: ۱، ص:۳۴۱-۳۴۴، مکتبہ لدھیانوی، کراچی)
نیز ایک دوسرے سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روایت میں بھی عادل ہیں اور اپنے اعمال میں بھی۔ ان سے اگر کوئی لغزش ہوئی تو یا تو اجتہادی خطاہے، جس پر وہ ماجور ہیں، یا اگر کبھی گناہ ہوا، تو انہوں نے اس سے فوراً توبہ کرلی، اور ایسا گناہ جس کے بعد فوراً توبہ کرلی جائے عدالت کے منافی نہیں۔ بہرحال ان کی تقلید کا اور ان پر تنقید نہ کرنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایاہے۔ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقید کرتے ہیں، وہ اہل سنت سے نہیں ہیں۔‘‘         (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ’’تمام صحابہؓ عادل ہیں‘‘ کا مطلب،ج:۱ ،ص:۳۹۵،مکتبہ لدھیانوی)
                                                                               فقط واللہ اعلم
                                                                  الجواب صحیح                                                                                     الجواب صحیح                                                                                                                                                                            کتبہ
                                                          ابوبکرسعید الرحمن                                                                           محمد انعام الحق                                                                                                                                                                محمد حذیفہ رفیق
                                                                  الجواب صحیح                                                                                     الجواب صحیح                                                                                                                                                          متخصصِ فقہِ اسلامی
                                                                     محمد داؤد                                                                                                  رفیق احمد                                                                                                                                       جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین