بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام اور اُس کے تقاضے!

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام اور اُس کے تقاضے!


الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی

 

دینِ اسلام کا منبع اور سرچشمہ وحیِ الٰہی ہے، جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی جانب سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، خواہ وہ وحیِ الٰہی قرآن کریم کی صورت میں ہو یا سنتِ رسول اور احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی صورت میں ہو۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس وحیِ الٰہی اور دینِ اسلام کو لینے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ ہی نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین جیسی مقدس جماعت کو حضور اکرم a کی صحبت، تعلیم اور تلقین کے لیے منتخب فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا اسلام اور شریعتِ اسلام میں خاص مقام ہے۔ یہ ایک ایسی مقدس جماعت ہے جو رسول اللہ a اور عام اُمت کے درمیان اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ایک واسطہ ہے۔ اس واسطہ کے بغیر نہ اُمت کو قرآن کریم ہاتھ آسکتا ہے، نہ قرآن کریم کے وہ مضامین جن کو قرآن نے رسول اللہ a کے بیان پر یہ کہہ کر چھوڑا ہے: ’’لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَانُزِّلَ إِلَیْہِمْ‘‘ (النحل:۴۴) ۔۔۔۔ ’’آپ بیان کریں لوگوں کے لیے وہ چیز جو آپ کی طرف نازل کی گئی۔‘‘ اور نہ ہی رسالت اور اس کی تعلیمات کا کسی کو اس واسطہ کے بغیر علم ہوسکتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات کو دنیا کی ہر چیز حتیٰ کہ اپنی آل اولاد اور اپنی جان و مال سے زیادہ عزیز رکھتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پیغام کو اپنی جانیں قربان کرکے دنیا کے گوشے گوشے میں پھیلانے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ارشاد فرمایا: 
۱:- ’’وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَالْعِصْیَانَ ، أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ۔‘‘                       (الحجرات:۷)
ترجمہ: ’’پر اللہ نے محبت ڈال دی تمہارے دل میں ایمان کی اور کھبادیا (اچھا دکھایا) اس کو تمہارے دلوں میں اور نفرت ڈال دی تمہارے دل میں کفر اور گناہ اور نافرمانی کی، وہ لوگ وہی ہیں نیک ۔‘‘
۲:-’’ أُولٰئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوْبِہِمُ الْإِیْمَانَ وَأَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ۔‘‘        (المجادلۃ:۲۲)
ترجمہ:’’ان کے دلوں میں اللہ نے لکھ دیا ہے ایمان اور ان کی مدد کی ہے اپنے غیب کے فیض سے ۔ ‘‘
۳:-’’وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُمْ بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ۔‘‘                                         (التوبۃ:۱۰۰)
ترجمہ:’’اور جو لوگ قدیم ہیں سب سے پہلے ہجرت کرنے والے اور مدد کرنے والے اور جو ان کے پیرو ہوئے نیکی کے ساتھ، اللہ راضی ہوا اُن سے اور وہ راضی ہوئے اُس سے ۔‘‘
۴:-’’فَإِنْ أٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَا أٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا۔‘‘                       (البقرۃ:۱۳۷)
ترجمہ: ’’سو اگر وہ بھی ایمان لاویں جس طرح تم ایمان لائے ہدایت پائی انہوں نے بھی۔‘‘
۵:-’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔‘‘ (آل عمران:۱۱۰)
ترجمہ:’’تم ہو بہتر سب اُمتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں۔‘‘
۶:- ’’وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَّسَطًا۔‘‘  (البقرۃ:۱۴۳)
ترجمہ:’’اور اسی طرح کیا ہم نے تم کو اُمت معتدل۔‘‘
آیت: ۵ اور ۶ کے اصل مخاطب اور پہلے مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ہیں۔
۷:- ’’مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ أَشِدَّائُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَائُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِیْ وُجُوْہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُوْدِ۔‘‘        (الفتح:۲۹)
ترجمہ:’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) رسول اللہ کا اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر، نرم دل ہیں آپس میں، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ، ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی ، نشانی (پہچان، شناخت) ان کی اُن کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے۔‘‘
اس آیت میں ’’وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ‘‘ عام ہے، اس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل ہیں، اس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تزکیہ اور ان کی مدح وثنا خود مالکِ کائنات کی طرف سے آئی ہے۔
۸:- ’’یَوْمَ لَایُخْزِیْ اللّٰہُ النَّبِيَّ وَالَّذِیْنَ أٰمَنُوْا مَعَہٗ۔‘‘                     (التحریم:۸)
ترجمہ:’’جس دن کہ اللہ ذلیل نہ کرے گا نبی کو اور ان لوگوں کو جو یقین لائے ہیں اس کے ساتھ۔‘‘
۹:- ’’قُلْ ہٰذِہٖ سَبِیْلِيْ أَدْعُوْا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ۔‘‘       (یوسف:۱۰۸)
ترجمہ:’’کہہ دے یہ میری راہ ہے، بلاتا ہوں اللہ کی طرف سمجھ بوجھ کر میں اور جو میرے ساتھ ہے۔‘‘
۱۰:- ’’وَکُلًّا وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی۔‘‘      (الحدید:۱۰)
ترجمہ:’’اور سب سے وعدہ کیا ہے اللہ نے خوبی کا۔ ‘‘
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
’’إِنَّ اللّٰہَ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْرَ قُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاہُ لِنَفْسِہٖ، فَابْتَعَثَہٗ بِرِسَالَتِہٖ ، ثُمَّ نَظَرَ فِیْ قُلُوْبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ قُلُوْبَ أَصْحَابِہٖ خَیْرَقُلُوْبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَہُمْ وُزَرَائَ نَبِیِّہٖ یُقَاتِلُوْنَ عَلٰی دِیْنِہٖ ، فَمَا رَأٰی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ وَمَا رَأَوْا سَیِّئًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ سَيِّئٌ۔‘‘                                                  (مسند احمد، رقم الحدیث:۳۴۶۸)
’’اللہ تعالیٰ نے اپنے سب بندوں کے دلوں پر نظر ڈالی تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کو ان سب قلوب میں بہتر پایا، ان کو اپنی رسالت کے لیے مقرر کردیا، پھر قلب محمد a کے بعد دوسرے قلوب پر نظر فرمائی تو اصحابِ محمد a کے قلوب کو دوسرے سب بندوں کے قلوب سے بہتر پایا، ان کو اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت اور دین کی نصرت کے لیے پسند کرلیا۔‘‘
۲:-امام احمدv نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انہوںنے فرمایا:
’’مَنْ کَانَ مُتَأَسِّیًا فَلْیَتَأَسَّ بِأَصْحَابِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، فَإِنَّہُمْ أَبَرُّ ہٰذِہٖ الْأُمَّۃِ قُلُوْبًا وَأَعْمَقُہَا عِلْمًا وَأَقَلُّہَا تَکَلُّفًا وَأَقْوَمُہَا ہَدْیًا وَأَحْسَنُہَا حَالًا، قَوْمٌ اخْتَارَہُمُ اللّٰہُ بِصُحْبَۃِ نَبِیِّہٖ وَإِقَامَۃِ دِیْنِہٖ ، فَاعْرِفُوْا لَہٗ فَضْلَہُمْ وَاتْبَعُوْا آثَارَہُمْ، فَإِنَّہُمْ کَانُوْا عَلَی الْہُدَی الْمُسْتَقِیْمِ۔‘‘               (شرح السفارینی للدرۃ المنیفۃ، ج:۱،ص:۱۲۴)
’’جو شخص اقتداء کرنا چاہتا ہے اس کو چاہیے کہ اصحابِ رسول اللہ a کی اقتداء کرے، کیونکہ یہ حضرات ساری اُمت سے زیادہ اپنے قلوب کے اعتبار سے پاک، اور علم کے اعتبار سے گہرے اور تکلف وبناوٹ سے دور اور عادات کے اعتبار سے معتدل، اور حالات کے اعتبار سے بہتر ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے پسند فرمایا ہے۔ تو تم ان کی قدر پہچانو اور اُن کے آثار کا اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ مستقیم طریق پر ہیں۔‘‘
۳:-حضرت عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:

’’)اَللّٰہَ اَللّٰہَ فِيْ أَصْحَابِيْ ، لَاتَتَّخِذُوْہُمْ غَرَضًا مِنْ بَعْدِيْ، فَمَنْ أَحَبَّہُمْ فَبِحُبِّيْ أَحَبَّہُمْ وَمَنْ أَبْغَضَہُمْ فَبِبُغْضِيْ أَبْغَضَہُمْ ، وَمَنْ أٰذَاہُمْ فَقَدْ أٰذَانِيْ وَمَنْ أٰذَانِيْ فَقَدْ أٰذَی اللّٰہَ، وَمَنْ أٰذَی اللّٰہَ فَیُوْشِکُ أَنْ یَّأْخُذَہٗ۔‘‘                         (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵

 ’’اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو میرے صحابہؓ کے معاملے میں، میرے بعد ان کو (طعن وتشنیع کا) نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھاتو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی، اور جس نے مجھے ایذاء دی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچائی، اور جو اللہ کو ایذاء پہنچانا چاہتا ہے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑلے گا۔‘‘
۴:-حضرت عبداللہ بن عمر r سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا:
’’إِذَا رَأَیْتُمُ الَّذِیْنَ یَسُبُّوْنَ أَصْحَابِيْؓ فَقُوْلُوْا: لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی شَرِّکُمْ۔‘‘  (ترمذی، ج:۲، ص:۲۲۵)
 ’’ جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہؓ   کو برا کہتے ہیں تو تم ان سے کہو: خدا کی لعنت ہے اس پر جو تم دونوں (یعنی صحابہؓ اور تم) میں سے بدتر ہیں۔‘‘
ظاہرہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں بدتر وہی ہے جو اُن کو برا کہنے والا ہے۔ اس حدیث میں صحابیؓ    کو برا کہنے والا مستحقِ لعنت قرار دیا گیا ہے۔
۵:- علامہ سفارینیv فرماتے ہیں:
’’اہل سنت والجماعت کا اس پر اجماع ہے کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ تمام صحابہؓ    کو پاک صاف سمجھے، ان کے لیے عدالت ثابت کرے، ان پر اعتراضات کرنے سے بچے، اور ان کی مدح وتوصیف کرے، اس لیے کہ اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ نے اپنی کتابِ عزیز کی متعدد آیات میں ان کی مدح وثنا کی ہے۔ اس کے علاوہ اگر اللہ اور اس کے رسول a سے صحابہؓ کی فضیلت میں کوئی بات منقول نہ ہوتی تب بھی ان کی عدالت پر یقین اور پاکیزگی کا اعتقاد رکھنا اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہوتا کہ وہ نبی a کے بعد ساری اُمت کے افضل ترین افراد ہیں، اس لیے ان کے تمام حالات اسی کے مقتضی تھے، انہوں نے ہجرت کی، جہاد کیا، دین کی نصرت میں اپنی جان ومال کو قربان کیا، اپنے باپ بیٹوں کی قربانی پیش کی، اور دین کے معاملے میں باہمی خیرخواہی اور ایمان ویقین کا اعلیٰ مرتبہ حاصل کیا۔             (عقیدہ سفارینی ، ج:۲،ص:۳۳۸)
۶:-امام ابوزرعہ عراقی v جو امام مسلم v کے بڑے اساتذہ میں سے ہیں، ان کا یہ قول نقل کیا ہے: 
’’إذا رأیت الرجل ینتقص أحدا من أصحاب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فاعلم أنہٗ زندیق وذٰلک أن القرآن حق ، والرسول حق ، وماجاء بہٖ حق، وما أدّٰی ذٰلک إلینا کلہٗ إلا الصحابۃؓ، فمن جرحہم إنما أراد إبطالَ الکتاب والسنۃ ، فیکون الجرح بہ ألیق، والحکم علیہ بالزندقۃ والضلال أقوم وأحق۔‘‘(ج:۲،ص:۳۸۹)
’’جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ صحابہ کرام( رضی اللہ عنہم ) میں سے کسی کی بھی تنقیص کررہا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے، اس لیے کہ قرآن حق ہے، رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) حق ہے، جو تعلیمات آپa لے کر آئے وہ حق ہیں، اور یہ سب چیزیں ہم تک پہنچانے والے صحابہؓ کے سوا کوئی نہیں، تو جو شخص ان کو مجروح کرتا ہے وہ کتاب وسنت کو باطل کرنا چاہتاہے، لہٰذا خود اس کو مجروح کرنا زیادہ مناسب ہے، اور اس پر گمراہی اور زندقہ کا حکم لگانا زیادہ قرینِ حق وانصاف ہے۔‘‘
ان آیات اور احادیث میں صرف یہی نہیں کہ اصحابِ رسول کی مدح وثناء اور ان کی رضوانِ الٰہی اور جنت کی بشارت دی گئی ہے، بلکہ اُمت کو ان کے ادب واحترام اور ان کی اقتداء کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ ان میں سے کسی کو برا کہنے کی سخت وعید فرمائی ہے، ان کی محبت کو رسول اللہ a کی محبت، ان سے بغض کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے بغض قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ملک میں کرپشن، حرام خوری، لوٹ مار، قتل وقتال، فحاشی اور عریانی تو پہلے سے ہی تھی، لیکن اب اسلامی تہذیب کے علاوہ شعائرِ اسلام کی توہین وتنقیص بھی ایک معمول کی بات بنتی جارہی ہے، پہلے لوگ چھپ چھپاکر اور اپنی قماش کے لوگوں میں بیٹھ کر اسلام اور اہلِ اسلام پر تضحیک یا طعن وتشنیع کے نشتر چلایا کرتے تھے، اب ان سے آگے بڑھ کر الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، حتیٰ کہ ہمارے بزرجمہر اور مقتدر طبقے میں یہ روش عام اور معمول کی بات بن گئی ہے، خصوصاً آج کے حکمران ٹولہ میں یہ بات عام ہوتی جارہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے عام مسلمانوں میں دینی تعلیم کے فقدان اور نئی ملحدانہ تعلیم کے رواج نے خود مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کو اسلام، عقائدِ اسلام اور احکامِ اسلام سے بیگانہ کردیا ہے۔ قرآن کریم کا ادب، سنتِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ادب اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب واحترام ان کے ذہنوں میں ایک بے معنی لفظ ہوکر رہ گیا ہے۔ مستشرقین اور ملحدین جو ہمیشہ اسلام پہ مختلف جہات سے حملے کرنے اور لوگوں کو گمراہ کرنے میں لگے ہوئے ہیں، انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق ایسی غلط اور من گھڑت باتیں اس مقصد سے پھیلائیںکہ مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا جو اعتقاد اور اعتماد ہے، وہ نہ رہے اور جب اس مقدس جماعت سے اعتماد اُٹھ گیا تو پھر ہر بے دینی کے لیے راستہ ہموار ہوگیا۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا وزیراعظم اپنی بجٹ تقریر میں سیاق وسباق کی رعایت کیے بغیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اسلامی تعلیمات اور اخلاقی آداب سے ہٹ کر ایسے نازیبا اور بے ادبی کے الفاظ کہتے ہوئے نہیں شرماتا،بلکہ متنبہ اور متوجہ کرائے جانے کے باوجود وہ تاحال کوئی معذرت اور معافی کا خواستگار اور خواہاں بھی نظر نہیں آتا۔
افسوس تو اس بات کا ہے کہ جہاں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر کے بہت سے حضرات نے وزیراعظم کی اس گستاخانہ، بے باکانہ اور ادب وآداب سے عاری تقریر کی مذمت کی، وہاں اس کے پارٹی کے افراد اور غیرمعتبر لوگوں نے بجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دفاع کرنے کے اپنی پارٹی کے قائد عمران خان کا دفاع شروع کردیا۔
وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے اپنی تقریر میں غزوۂ بدر کے متعلق کہا کہ :’’جب جنگِ بدر ہوئی تو صرف ۳۱۳ تھے لڑنے والے، باقی ڈرتے تھے لڑنے سے۔‘‘ اور غزوۂ اُحد کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’جب جنگ اُحد ہوئی، سرکار مدینہ نے تیرکمان والوں کو کہا کہ: تم نے اپنی پوزیشن نہیں چھوڑنا، جب لوٹ مار شروع ہوئی تو وہ چھوڑ کر چلے گئے، سرکارِ مدینہ کا حکم نہیں مانا۔‘‘ یہ الفاظ کہتے ہوئے ان کا انداز، لب ولہجہ ، طرزِ تکلم اور الفاظ کا چناؤ سب کچھ غیرمناسب، غیرمہذب، غیرذمہ دارانہ اور گستاخانہ تھا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کہنا کہ وہ جنگ سے ڈرتے تھے، کتنا غیرحقیقی ، غیرمنطقی اور حقائق سے دور بات ہے۔ اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تواس موقع پر فرماتے ہیں کہ: اللہ کے رسول! ہم آپ کے دائیں بائیں آگے پیچھے ہر طرف سے لڑیں گے ، ہم آپ کو اس طرح کا جواب نہیں دیں گے، جس طرح بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیا تھا کہ: آپ اور آپ کا رب جاکر لڑیں، ہم تو یہاں بیٹھنے والے ہیں۔ آپ اگر ہمیں آگ میںکود جانے کا حکم دیں گے تو ہم آگ میں بھی کود جائیں گے۔ یہی غزوۂ بدر ہی ہے جس میں دو چھوٹے بچے معاذ اور معوذr بھی شریک ہیں، جنہوں نے ابوجہل پر پہلا حملہ کیا اور اس کو جہنم واصل کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارہ میں کہنا کہ یہ لڑنے سے ڈرتے تھے، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ جبکہ غزوۂ بدر کا واقعہ اچانک پیش آیا، کیونکہ حضور a اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے پیشِ نظر تو ابوسفیان کے قافلہ کو روکنا تھا، جبکہ ابوسفیان مخبری کی بنا پر اپنے قافلہ کو بچاکر لے گیا، لیکن اہلِ مکہ اس کے اطلاع دینے کی بناپر لڑائی کے لیے ایک ہزار کا لشکر لے کر بدر کے مقام پر آگئے اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے حضور a کو ان سے لڑنے کا حکم دے دیا، جلدی میں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شریک ہوسکے وہ شریک ہوئے، لیکن میرے علم میں نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے کسی صحابی کو شریک ہونے کا حکم دیا ہو اور اس نے آگے سے انکار کیا ہو، اگر ایسا ہوتا تو شاید کسی حد تک کہاجاسکتا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑنے سے ڈر گئے، جب ایسا ہوا ہی نہیں تو یہ کہنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم لڑنے سے ڈرتے تھے، کتنا مضحکہ خیز بات اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بہتان تراشی کے مترادف ہے، البتہ یہ بات ضرور موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو واپس مدینہ منورہ واپس بھیج دیا اور مالِ غنیمت میں ان کو حصہ دیا۔
اسی طرح مالِ غنیمت جس کو اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے طفیل آپ کے لیے اور آپ کی اُمت کے لیے حلال قرار دیا، اس کو لوٹ مار سے تعبیر کرنا کتنا غیرشائستہ اور گستاخانہ بات ہے۔ اتنی بات تو ٹھیک ہے کہ غزوۂ احد میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اجتہادی لغزش ہوئی، جس سے انہوں نے توبہ بھی کی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف بھی کردیا، جیسا کہ :’’وَلَقَدْ عَفَا اللّٰہُ عَنْہُمْ‘‘ (آل عمران:۱۵۵) کا اعلان آج بھی قرآن کریم میں موجود ہے، لیکن مالِ غنیمت کو ’’لوٹ مار‘‘ سے تعبیر کرنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کی بات نہ ماننے والا کہنا کسی اُمتی کے لیے جائز نہیں، اس لیے کہ یہ ضابطہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد دنیا کا کوئی اچھے سے اچھا انسان ایسا نہیں جس سے کوئی لغزش، خطا اور غلطی نہ ہوئی ہو، اسی طرح کوئی برے سے برا انسان ایسا بھی نہیں جس سے کوئی اچھا کام نہ ہوا ہو، بس مدارکار اس پر رہتا ہے کہ جس شخص کی زندگی اچھے اخلاق واعمال میں گزری ہے، اس کا صدق واخلاص بھی اس کے عمل سے پہچانا گیا ہے، اس سے کوئی گناہ یا غلطی بھی ہوگئی ہو تو بھی اس کو صلحائے اُمت ہی کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عام زندگی میں دین کی حدود وقیود کا پابند، احکام شرعیہ کا تابع نہیں ہے، اس سے دو چار اچھے بلکہ بہت اچھے کام بھی ہوجائیں، تو بھی اس کو صلحاء واولیاء کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاتا۔اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جن کے تقویٰ ، طہارت، پاکیزگی، فرمانبرداری، اخلاق کی بلندی ، ان کی مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ اور ان سے راضی ہونے کی گواہی خود اللہ تعالیٰ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  دے رہے ہیں، ان کے لیے ان کے مرتبہ اور مقام سے فروتر کلمات کہنا کسی اُمتی کے لیے جائز نہیں، چہ جائیکہ ان کو جنگ سے ڈرنے والا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کا نافرمان اور لوٹ مار کرنے والا کہا جائے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالفرض ایک منٹ کے لیے مان لیا جائے کہ جناب وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب سے یہ الفاظ غیرمتوقع طور پر نکلے، ان کی یہ نیت نہیں تھی تو صوبہ کے پی کے میں جہاں پچھلے چھ سالوں سے پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہاں کی نویں کلاس کی دینیات میں سورۃ الانفال کی آیت:
 ’’وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتَامٰی وَالْمَسَاکِیْنِ وَابْنِ االسَّبِیْلِ۔‘‘                                         (الانفال:۴۱)
ترجمہ:’’اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کو غنیمت ملے کسی چیز سے سو اللہ کے واسطے ہے اس میں سے پانچواں حصہ اور رسول کے واسطے اور اس کے قرابت والوں کے واسطے اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے واسطے ۔‘‘
میں ’’غَنِمْتُمْ‘‘ کا معنی ’’مالِ غنیمت‘‘ کرنے کے بجائے ’’لوٹ مار‘‘ سے کیا ہے، اگر اس لفظ کو سامنے رکھا جائے تو اس کا معنی یہ بنے گاکہ ’’لوٹ مار‘‘ کا مال اللہ تعالیٰ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے ہے، نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔
چونکہ ہر سمجھدار سمجھتاہے کہ ہمارے عرف اور آج کل کے عام محاورہ میں’’لوٹ مار‘‘کا معنی ہے: دوسرے کی ملکیت پر ناجائز قبضہ، زبردستی قبضہ، غارت گری، تاراج، چھینا جھپٹی، ظلم، اندھیر وغیرہ۔ اب اگر ان معانی کو سامنے رکھا جائے تو اس لفظ کا معنی کیا بنے گا؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ صوبہ کے پی کے میں پڑھائی جانے والی نویں کلاس کی دینیات میں بھی ’’مالِ غنیمت‘‘ کو ’’لوٹ مار‘‘ لکھا گیا، اور وزیراعظم عمران خان نیازی اپنی تقریر میں بھی ’’مالِ غنیمت‘‘ کو ’’لوٹ مار‘‘ کہہ رہا ہے تو اس کی آخر کیا وجہ ہے؟
خیال ہے کہ شاید پاکستان تحریک انصاف کو ملحدین، بے دین اور قادیانیوں یا قادیانی نواز لوگوں نے اپنے شکنجے میں لیا ہوا ہے، جو اُلٹی سیدھی باتیں ان کے ذہنوں میں انڈیلتے رہتے ہیں، اس لیے کہ مرزا غلام احمد قادیانی انگریز کی کاسہ لیسی، خوشامد اور چاپلوسی کرتے ہوئے جہاد کو منسوخ اور حرام کہتا ہے اور علمائے کرام پر بہتان لگاتے ہوئے کہتا ہے کہ: 
’’اس جگہ ہمیں یہ بھی افسوس سے لکھنا پڑا کہ جیسا کہ ایک طرف جاہل مولویوں نے اصل حقیقت جہاد کی مخفی رکھ کر ’’لوٹ مار ‘‘اور ’’قتل انسان‘‘ کے منصوبے عوام کو سکھائے اور اس کا نام جہاد رکھا ہے۔‘‘                 (گوورنمنٹ انگریزی اور جہاد،ص:۹ در روحانی خزائن،ج:۱۷)
اس سے معلوم ہوا کہ مالِ غنیمت کو ’’لوٹ مار‘‘ کے نام سے تعبیر کرنا یہ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے حواریوں کا سبق ہے، جو بار بار دہرایا جارہا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ حکومتی لوگوں کا اسلام، تعلیماتِ اسلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آج کے علمائے اسلام کے بارہ میں جو لب ولہجہ اور انداز ہے، یہ وہی ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی اور آج کے قادیانی پیشواؤں کا ہے۔ 
 جناب وزیراعظم عمران خان نیازی کی گفتگو کے انداز اور بیانات سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ قادیانی لابی اور ملحدین نے ہر طرف اس حکومت اور جماعت کو گھیرا ہوا ہے، جو دینِ اسلام، شعائرِ اسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارہ میں من پسند ، من گھڑت اور غلط تشریحات ان کو بتاتے ہیں۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اس سے پہلے وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی غیرمحتاط باتیں کی تھیں۔معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی قادیانیوں کا ہی پڑھایا ہوا سبق ہے، جو وزیراعظم نے اپنی زبان سے دہرایاہے۔
وزیراعظم عمران خان نیازی صاحب جو ریاستِ مدینہ کاتذکرہ کرتے ہیں، اس ریاستِ مدینہ سے بھی ان کی مراد صرف اتنا معلوم ہوتی ہے کہ حضور اکرم a نے یہودیوں سے معاہدہ کیا تھا۔ اس سے آگے کہ جب مدینہ کے یہود نے اپنے معاہدہ کی خلاف ورزی کی ، جس کے نتیجے میں غزوۂ بنی نضیر سن ۳ ہجری اور غزوۂ بنوقریظہ سن ۵ ہجری پیش آئے تھے، جس کے نتیجے میںآپ a نے ان کو مدینہ منورہ اور پھر خیبر سے نکال دیا۔ آپ a نے ریاستِ مدینہ میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ: ’’أَخْرِجُوْا الْیَہُوْدَ مِنْ جَزِیْرَۃِ الْعَرَبِ‘‘ (مجمع الزوائد، ج:۵، ص:۴۱۹، حدیث نمبر:۹۶۶۳) کہ یہود کو جزیرۂ عرب سے نکال دو، یہ ریاستِ مدینہ شاید ان کے ذہن میں نہیں ہے، اس لیے کہ آج تک انہوں نے مملکتِ خدادادپاکستان میں ریاستِ مدینہ جیسا کوئی ایک کام بھی نہیں کیا۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہودیت اور قادیانیت کا ایک گٹھ جوڑ ہے جو قادیانیت کی ابتدائے آفرینش سے آج تک نہ صرف قائم بلکہ بدستور جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ آج مغرب ان قادیانیوں کی پشت پر ہے اور آج ہماری ملکی اقتصادیات اور معیشت کی بحالی ان قادیانیوں کے ناجائز مطالبات ماننے پر موقوف کردی گئی ہے اور دونوں مل کر ہمارے ملک کی معیشت اور اقتصادیات کا گلہ گھونٹ رہے ہیں۔ حکومت عوام پر اپنے بجٹ میں جو ٹیکس لگارہی ہے، اس سے کسی طور پر یہ ثابت نہیںہوتا کہ ان کا آئیڈیل ریاستِ مدینہ ہے۔ پاکستان کی معیشت کی بحالی کے لیے پہلے اقتصادی کونسل بنائی اور اس میں عاطف میاں قادیانی کو شامل کیا، جو کہ قادیانی ہونے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا نمائندہ بھی تھا، عوامی احتجاج کی بناپر جب اسے اس کونسل سے علیحدہ کیا گیا تو وہ پوری کونسل ہی ختم کردی گئی، اور اب بجٹ سے پہلے ایک دو نہیں بلکہ تین آدمی آئی ایم ایف نے ہمارے ملک پر مسلط کردیئے، جنہوں نے بجٹ بنایا اور پاکستانی قوم پر مسلط کردیا، ان کارستانیوں اور حالات کے ہوتے ہوئے بجاطور پر یہی کہاجاسکتا ہے کہ ریاستِ مدینہ ان کا آئیڈیل نہیں، بلکہ ریاست آئی ایم ایف ان کا آئیڈیل ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ کے ایک سینئروکیل محترم جناب محمد طارق اسد صاحب نے پاکستانی قوم کی طرف سے فرضِ کفایہ ادا کرتے ہوئے پاکستانی آئین کے تحت تھانہ آئی نائن اسلام آباد میں درخواست جمع کرادی، جس کا مضمون تھا : توہین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ارتکاب پر وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کے خلاف اندراجِ مقدمہ کی درخواست۔ اس درخواست کا متن درج ذیل ہے:

’’بخدمت جناب ایس ایچ او صاحب تھانہ آئی نائن اسلام آباد
اندراج مقدمہ کی درخواست 

جناب عالی! گزارش ہے کہ درخواست گزار ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ہے۔ ۱۱ جون ۲۰۱۹ء کی شب تقریباً پونے بارہ بجے وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے قوم سے خطاب کیا۔ خطاب میں وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے جان بوجھ کر بدنیتی کی بنیاد پر پاکستان کے کروڑوں مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور ملک میں انتشار پیدا کرنے کے لیے کچھ ایسے الفاظ کہے جو اصحاب رسول کی واضح توہین ہے۔ عمران احمد خان نیازی کی جانب سے اصحاب رسول کی توہین میں کہے گئے الفاظ حرف بہ حرف یہ ہیں کہ: ’’جب جنگ بدر ہوئی تھی تو صرف ۳۱۳ تھے لڑنے والے، باقی ڈرتے تھے لڑنے سے۔ جب جنگ اُحد ہوئی تو سرکارِ مدینہ نے تیرکمان والوں سے کہا کہ تم نے اپنی پوزیشن نہیں چھوڑنی، جب لوٹ مار شروع ہوئی تو وہ چھوڑکر چلے گئے۔ انہوںنے سرکارِ مدینہ کا حکم نہیںمانا‘‘ وزیراعظم عمران احمدخان نیازی نے مذکورہ توہین آمیز الفاظ کہہ کر معاذ اللہ اصحابِ رسول کو بزدل ، لٹیرے اور حضور a کا نافرمان ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اصحابِ رسول کو بزدل کہنا، لٹیرا کہنا اور حضور اکرمa کا نافرمان کہنا بدترین گستاخی اور توہین ہے۔
وزیراعظم عمران احمد خان نیازی کی جانب سے اصحابِ رسول کی گستاخی سے پاکستان کے کروڑوں بشمول درخواست گزار کے مذہبی جذبات شدید مجروح ہوئے۔ عمران احمد خان نیازی کے اس گستاخانہ اور توہین آمیز اقدام کے نتیجے میں ملک بھر کے کروڑوں شہریوں میںشدید اشتعال اور غم وغصہ پیدا ہوا ہے۔ عمران احمد خان نیازی نے دانستہ طور پر توہینِ اصحابِ رسول کا ارتکاب کرکے ملک میں امن و امان کا شدید مسئلہ پیدا کیا۔ وزیراعظم عمران احمد خان نیازی نے مذکورہ بالا توہین آمیز الفاظ کہہ کر ناقابلِ تلافی اور ناقابلِ معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ 
مذکورہ بالا حقائق و واقعات کی روشنی میں جناب سے مؤدبانہ استدعا ہے کہ ملزم عمران احمد خان نیازی (وزیراعظم پاکستان) کے خلاف پاکستان پینل کوڈ اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی متعلقہ دفعات کے تحت فوری طورپرمقدمہ درج کرکے قانونی کارروائی کرتے ہوئے اس کی گرفتاری عمل میں لائی جائے۔
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                     درخواست گزار
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                       محمد طارق اسد
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                    (ایڈووکیٹ سپریم کورٹ)
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                 مکان نمبر:96گلی نمبر:40،آئی ایٹ ٹو،اسلام آباد
                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                  برائے رابطہ:   0334-3551640‘‘
بہرحال اگر حکمران ریاستِ مدینہ کے دعویدار ہیں تو پھر اپنے آپ کو قانون کے حوالے کریں اور اس کا جواب دیں، کیونکہ ریاستِ مدینہ میں خلیفۂ وقت بھی اپنے آپ کو عدالت کے سامنے پیش کرتا تھا اور عدالت سے جو اس کے بارہ میں فیصلہ ہوتا تھا، وہ من وعن اس کو تسلیم کرتا تھا۔
بہرحال ہم ایک بار پھر عرض کریں گے کہ جناب وزیراعظم عمران خان صاحب! صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے متعلق کہے گئے غیرشائستہ اور نازیبا الفاظ پر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور قوم سے معافی مانگیں اور آئندہ دینی معاملات میں بولنے سے یا تو احتیاط کریں یاکم از کم اپنے وفاقی وزیرمذہبی امور جناب مولانا نور الحق قادری صاحب سے راہنمائی یا مشورہ کرلیا کریں۔ اس سے آپ کے وقار میں نہ صرف یہ کہ اضافہ ہوگا بلکہ قوم کا اعتبار اور اعتماد بھی آپ کو ملے گا۔ ورنہ یاد رکھیں! آپ سے پہلے بہت سارے دین کو مٹانے کے لیے آئے ، انہوں نے دین اور اہلِ دین کے خلاف ہر حربہ استعمال کیا، کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ وہ دین کو مٹاسکے؟ نہیں بلکہ خود تو مٹ گئے، لیکن اللہ تعالیٰ کا دین آج بھی باقی ہے اور ان شاء اللہ! قیامت تک باقی رہے گا۔ اس لیے آپ اپنی صفوں میں تطہیر کریں، اگر دین دشمن عناصر اور حضور اکرم a کی ختم نبوت کے سارق اور ڈاکو آپ کی صفوں میں پائے جاتے ہیں جو اس طرح کی غلطیاں آپ سے سرزد کروارہے ہیں تو جلدی سے ان سے جان چھڑائیں، تاکہ آپ کو دنیا وآخرت میں سرخروئی اور کامیابی حاصل ہو:فاعتبروا یأولی الأبصار !!

وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین