بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ عظام کی قرابت داری  اور باہمی محبت اور احترام‎‎


صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیتؓ عظام کی قرابت داری 

اور باہمی محبت اور احترام‎‎


نبوت کے زیرِ سایہ پروان چڑھنے والے،انسانیت کے ماتھے کا جھومر، قرآن کے اولین مخاطب،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  پر فدا ہونے والے جاںنثار اور فرماں بردار ’’أُولٰئِکَ ہُمُ الرَّاشِدُوْنَ، أُولٰئِکَ ہُمُ الْفَائِزُوْنَ، أُولٰئِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا، رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ‘‘ کے حقیقی مصداق، ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھ کر نبوت سے مستفید ہونے والے، غزوات میں ایک دوسرے کی خاطر خود کو ڈھال بنانے والے، ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک،ایک دوسرے کا بہترین دلاسہ،ایک دوسرے سے دین سیکھنے اور سمجھنے والے ’’رُحَمَاءُ بَیْنَھُمْ‘‘ کی عملی تفسیر اور تشریح، نبوت کی پہلی درسگاہ سے اکٹھے اکتسابِ فیض حاصل کرنے والے، نبوی بشارات کے انعام یافتہ، پروردگارِ عالم کی طرف سے اپنے محبوب پیغمبر  صلی اللہ علیہ وسلم  کے بہترین محافظ اور معتقدین، نبوی ارشادات کی مجسم صورت، ایک دوسرے کے احترام، محبت، مودت، غم خواری کا معیار، احکامِ الٰہی اور اسلامی تعلیمات پر من وعن عمل کرنے والے، کفر کے خلاف سیسہ پلائی دیوار اور آپس میں باہم شیر وشکرصحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی قدسی صفات جماعت تھی ۔
ان میں سے کسی ایک پر بھی اگر سب وشتم کیا جائے تو نعوذ باللہ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی محنت رائیگاں گئی، کیونکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی آواز پر لبیک انہوں نے ہی کہی، یہی کٹ مرنے کو تیار ہوئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: ’’ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں۔‘‘ اور یہ اس کی عملی تفسیر تھے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمانوں کے آپسی تعلقات، آپسی پیار و محبت، آپسی احترام، آپسی فکرمندی اور خیرخواہی کے جذبات کے متعلق جو کچھ فرمایا، انہوں نے بغیر کسی لیت و لعل کے من و عن ویسے ہی عمل کیا اور قیامت کی صبح تک تمام انسانیت کے لیے عملی نمونہ بن گئے ۔
یہ تحریر ایک تحریر نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو آج کل کے مسلمانوں کے سامنے رکھا جارہا ہے کہ کیسے مشکل حالات میں مل جل کر مقابلہ کیا جاتا ہے، کیسے اپنے فطرتی اختلافات کو اپنی قوت بنایا جاتا ہے، کیسے متحد ہوکر دشمن کا مقابلہ کیا جاتا ہے، کیسے دینِ اسلام کی سربلندی کو مقصدِ حیات بنا کر دنیا میں غلبہ حاصل کیا جاتا ہے، کیسے ایک دوسرے کا احترام کیا جاتا ہے، کیسے ایک ایسا اسلامی اور فلاحی معاشرہ قائم کیا جاتا ہے کہ قیامت کی صبح تک دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے ۔
آج کل لوگ ان قدسی صفات جماعت میںایڑی چوٹی کا زور لگا کر پھوٹ ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرکے اپنی روزی روٹی کما رہے ہیں، درحقیقت وہ جانے انجانے میں اسلام کی عمارت کو منہدم کرنے کے درپے ہیں، اگر ہم ان لوگوں کی بات پر کان دھرنے لگیں تو خود سوچیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ان مقدس شخصیات نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات سے روگردانی کی ہو، روگردانی تو ایک طرف انہوں نے تو احکامِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعمیل میں ایک لمحہ بھی تاخیر کرنا گوارا نہ کیا، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حکم فرمایا: چل پڑو تو یہ چل پڑے، کسی نے ایک سیکنڈ کی مہلت نہیں مانگی، تو بھلا جن کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے آپسی تعلقات کے متعلق باقاعدہ تعلیم دی، بلکہ عملی مشقیں بھی کروائی ہوںاور جنہیں آنے والی تمام انسانیت کے لیے نمونہ بنانا ہو وہ کیسے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی احکامات سے روگردانی کرسکتے ہیں؟ جن کا جینا، مرنا، اُٹھنا، بیٹھنا، چلنا، پھرنا، کھانا، پینا، معاملات، معاشرت اور زندگی کا ہر ہر لمحہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے حکم کے مطابق ہو، وہ کیسے باہمی اُلفت و محبت کو ترک کرسکتے ہیں ؟
آئیں! میں آپ کو ان کے آپسی تعلقات اور آپسی احترام و احساس کے رشتے کو مستند حوالے سے دکھاتا ہوں: 
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  اور سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  اپنے دورِ خلافت میںسیدنا عباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  کو دیکھتے تو احتراماً اپنی سواریوں سے اُتر پڑتے۔ سیدنا فاروق اعظم  رضی اللہ عنہ  اپنے دورِ خلافت میں سیدناعباس بن عبدالمطلب  رضی اللہ عنہ  سے بارش کے لیے دعا کروایا کرتے تھے۔
طبقات ابنِ سعد میں مروی ہے کہ حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے حضرت عباس  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا: ـ’’اللہ کی قسم! جس دن آپ اسلام لائے، آپ کا اسلام لانا مجھے اپنے والد خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا کہ وہ اسلام لاتے، کیوں کہ آپ کا اسلام رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو خطاب کے اسلام لانے سے زیادہ محبوب تھا۔ ‘‘ (البدایہ والنہایہ، ج:۲، ص: ۸۹۲)
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  نے حضرت علی  رضی اللہ عنہ  سے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے رشتے کو جوڑنا میرے نزدیک میری رشتہ داری کو جوڑنے سے زیادہ محبوب ہے۔   (صحیح البخاری، باب مناقب قرابۃ الرسول  صلی اللہ علیہ وسلم )
ابن عبدا لبرؒ نے حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  سے روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عباس  رضی اللہ عنہما  کے سلسلہ میں فرمایا کرتے تھے: ’’قرآن کے بہترین ترجمان عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  ہیں،اور جب وہ سامنے آتے تو فرماتے: ادھیڑ عمروں کا نوجوان آگیا،سوال کرنے والی زبان اور عقل مند دل آگیا۔‘‘(الاستیعاب لابن عبدالبر: ۱۴۴۷)
علامہ ابن عبد البرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ ص: ۱۸۷۱ میں نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کے سامنے کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کو اس کے بارے میں پوچھنے کے لیے خط لکھتے، جب حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ  کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو فرمایا: ’’ابن ابو طالب کی موت سے فقہ اور علم چلا گیا۔‘‘ (آلِ رسول اور اصحابِ رسول، ص:۷۴)
حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم  کے ادوار میں مجلسِ شوریٰ کے اہم رکن، مجلسِ حربیہ کے مشیر رہے، قانون سازی میں بڑا عمل دخل تھا، حضرت عمر  رضی اللہ عنہ  نے تو یہاں تک فرمایا کہ: ’’اگر علیؓ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔‘‘
سیدہ فاطمہ  رضی اللہ عنہا  جب علیل ہوئیں تو حضرت ابوبکر  رضی اللہ عنہ  کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا  نے ان کی خدمت کی اور رحلت کے بعد سیدہ  رضی اللہ عنہا  کو غسل بھی انہوں نے ہی دیا اور جنازہ سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  نے سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کے کہنے پر پڑھایا،دیکھیں! کیسا اتفاق ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کو شادی کے لیے ترغیب بھی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے دی اور اس شادی میں گواہ بھی بنے،شادی کے انتظامات میں شرکت بھی کی، سبحان اللہ ۔
’’کنز العمال‘‘ میں ہے کہ حضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کو پتا چلا کہ کچھ لوگ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما  کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں تو آپ ؓ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس نے دانے اور گٹھلی کو پھاڑا اور روح کو پیدا کیا ! ان دونوں سے وہی محبت کرے گا جو فاضل مومن ہوگا اور ان دونوں سے وہی بغض و عداوت رکھے گا جو بدبخت ہوگا، کیونکہ ان دونوں کی محبت تقربِ الٰہی کا سبب ہے اور ان سے بغض رکھنا دین سے خارج ہونے کی علامت، ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے دو بھائیوں اور دو وزیروں اور دو ساتھیوں اور قریش کے دو سرداروں اور مسلمانوں کے دو باپوں کو نازیبا الفاظ سے یاد کرتے ہیں، میں انہیں اس پر سزا دوں گا۔‘‘  (صحابہؓ و اہل بیتؓ کے درمیان یگانگت اور محبتیں، ص:۳۲)
حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما  سے روایت ہے کہ میں حضرت عمر  رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کے جسم اقدس کے پاس کھڑا تھا کہ ایک صاحب نے میرے پیچھے سے آکر میرے کندھے پر اپنی کہنی رکھی اور فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، بے شک مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں دوستوں (یعنی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ) کا ساتھ عطا کرے گا، کیونکہ میں نے بارہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کو فرماتے سنا تھا: ’’میں تھا اور ابوبکر و عمر،میں نے یہ کہا اور ابوبکر و عمر نے،میں چلا اور ابوبکر و عمر، میں داخل ہوا اور ابوبکر وعمر،میں نکلا اور ابوبکر و عمر ‘‘ ( رضی اللہ عنہم ) میں نے پیچھے مڑکر دیکھا تو وہ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  تھے۔     (بخاری، باب المناقب۔ مسلم، کتاب الفضائل )
حضرت محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ  کے بارے میں طبقات ابن سعد، ج: ۵، ص: ۳۲۱ میں لکھا ہے کہ ابن سعد رحمۃ اللہ علیہ  نے حسام صیرفی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے ابو جعفر سے ابوبکر رضی اللہ عنہ  اور عمر رضی اللہ عنہ  کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں نے اپنے گھر والوں میں سے ہر ایک کو ان دونوں سے محبت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔                      (آلِ رسول اور اصحابِ رسول، ص:۳۷)
البدایہ والنہایہ، ج:۹، ص: ۲۱۱ میں تحریر ہے کہ جابر رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا کہ مجھ سے محمد باقر بن علیؒ نے کہا: جابر! مجھے معلوم ہوا ہے کہ عراق میں بعض لوگ ہماری محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما  کو گالیاں دیتے ہیں، ان لوگوں کا دعویٰ ہے کہ میں نے ان کو اس کا حکم دیا ہے،میری طرف سے ان کو یہ بات پہنچا دو کہ میں اللہ کے یہاں ان سے بری ہوں،اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر مجھے ذمہ دار بنایا جائے تو میں ان کا خون کرکے اللہ کا تقرب حاصل کروں گا۔ اگر ابوبکر و عمر  رضی اللہ عنہ  کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا نہ کروں تو مجھے محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کی سفارش نہ ہو۔‘‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ: ’’جس نے ابوبکر و عمر  رضی اللہ عنہ  کی فضیلت نہیں جانی وہ سنت سے ناواقف ہے۔‘‘   (آلِ رسول اور اصحابِ رسول، ص:۳۸)
آپس میں رشہ داریاں کرنا بھی ایک دوسرے سے محبت کا لازوال اور بہترین اظہار ہے اور یہی اظہار کئی نسلوں تک صحابہؓ اور اہلِبیت عظام ( رضی اللہ عنہم ) کا جاری رہا، تا کہ آنے والی اُمت کو ان کے آپسی تعلق اور محبت کا علم ہو ۔
حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ  نے فرمایا: مجھے سیدنا ابوبکر صدیق  رضی اللہ عنہ  نے دوبار پیدا کیا۔ (سیر اعلام النبلاء، ج۶ ،ص:۲۵۵)
اس قول کا سبب یہ نسب ہے: والد کی طرف سے جعفر الصادق بن محمد بن علی بن حسین بن علی المرتضیٰ ؓ اور والدہ کی طرف سے اُمِ فروہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکرؓ اور والدہ ہی کی طرف سے امِ فروہ بنت اسماء بنت عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ۔                  (صحابہؓ و اہل بیتؓ کے درمیان یگانگت اور محبتیں، ص:۱۷)
سیدنا جعفر بن ابی طالب  رضی اللہ عنہ  کی شہادت کے بعد ان کی بیوہ سیدہ اسماء بنت عمیس  رضی اللہ عنہا (سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  کی بھابھی) کا نکاح سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  سے ہوا،ان سے آپ کا ایک بیٹا محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے، سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کی رحلت کے بعد انہی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا  سے سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے نکاح فرمایا، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ  کے بارہ میں سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  فرمایا کرتے تھے: ’’یہ ابوبکر کی پشت سے ہے، لیکن میرا بیٹا ہے۔‘‘ انہیں سیدنا علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے مصر کا گورنر بھی مقرر فرمایا تھا۔ (صحابہؓ و اہل بیتؓ کے درمیان یگانگت اور محبتیں، ص:۱۷)
اسی طرح سیدنا حسن بن علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما  نے سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی حفصہ رضی اللہ عنہا  سے نکاح فرمایا تھا۔ یہ رشتہ داری کا سلسلہ کئی نسلوں تک یونہی چلتا رہا، جیسے موسی الحجون بن عبداللہ المحض بن الحسن المثنی بن الحسن السبط بن علی المرتضیٰؓ نے سیدنا صدیق اکبر  رضی اللہ عنہ  کے پوتے عبداللہ بن عبدالرحمٰن کی پڑپوتی امِ سلمہ بنت محمد بن طلحہ بن عبداللہ سے نکاح فرمایا تھا ۔
اسحاق بن عبداللہ بن علی بن الحسین بن علی المرتضیٰؓ نے کلثوم بنت اسماعیل بن عبدالرحمٰن بن قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیقؓ سے نکاح فرمایا تھا۔
سیدنا علی  رضی اللہ عنہ  اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا   کی صاحبزادی سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا  کا نکاح سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ  سے ہوا، ان سے ایک بیٹا پیدا ہوا زید بن عمر اور جناب زیدؒ بڑے فخر سے کہا کرتے تھے کہ: میں دو خلیفوں کا بیٹا ہوں۔  (سیر اعلام النبلاء، ج:۳، ص:۵۰۲)
سیدنا حسین بن علی بن علی بن حسین بن علی المرتضیٰؓ کا نکاح سیدہ جویریہ بنت خالد بن ابی بکر بن عبداللہ بن عمر فاروق ؓ سے ہوا، یعنی سیدنا حسین بن علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہما  کے پوتے کے پوتے کا نکاح سیدنا عمر فاروق  رضی اللہ عنہ  کے پوتے کی پوتی سے ہوا ۔
سیدنا عثمان غنی  رضی اللہ عنہ  کے بیٹے ابان بن عثمان کا نکاح عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کی بیٹی امِ کلثومؒ سے ہوا ۔
سیدنا عثمان  رضی اللہ عنہ  کے پوتے زید بن عمر و بن عثمانؓ کا نکاح سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی پوتی اور سیدنا حسین بن علی  رضی اللہ عنہما کی بیٹی سکینہ سے ہوا، اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ  کے ایک اور پوتے محمد بن عبداللہ بن عمرو بن عثمانؓ کا نکاح سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کی دوسری بیٹی فاطمہ سے ہوا۔
محبت کا ایک انداز اپنی اولاد کا نام خلفائے ثلاثہؓ کے نام پر رکھنا بھی ہے، مثلاًحضرت علی المرتضیٰ  رضی اللہ عنہ  نے کمالِ محبت سے اپنے تین بیٹوں کا نام خلفائے ثلاثہؓ کے نام پر رکھا: ابوبکر بن علیؓ، عمر بن علیؓ،عثمان بن علیؓ اور یہ تینوں سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ  کے ساتھ کربلا میں شہیدہوئے ۔ سیدنا حسن  رضی اللہ عنہ  نے بھی اپنے والد محترم کی طرح اپنے صاحبزادوں کے نام حضرات شیخین کریمین  رضی اللہ عنہما  کے نام پر ابوبکر بن حسنؓ اور عمر بن حسنؓ رکھا، اسی طرح سیدنا حسین  رضی اللہ عنہ  نے بھی اپنے ایک صاحبزادے کانام عمر بن حسین بن علیؓ رکھا۔ سیدنا علی بن حسینؓ زین العابدین نے بھی اپنے نورِ چشم کا نام سیدنا عمر بن علی بن حسینؓ اور بیٹی کا نام عائشہ بنت علی بن حسین بن علیؓ رکھا ۔
سیدنا موسیٰ بن جعفر صادقؒ نے بھی اپنے بیٹے کانام عمر اور بیٹی کا نام عائشہ رکھا۔ (کشف الغمۃ، ج:۳، ص:۹۲۔ تاریخ یعقوبی، ج:۲، ص: ۲۱۲)
یہ ذخیرۂ کتب سے چند واقعات آپ حضرات کے سامنے رکھے ہیں، ورنہ اس موضوع پر بے شمار کتابیں مل سکتی ہیں، جن میں صحابہ کرام اور اہلِ بیت عظام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے محبت و مودت کے واقعات موجود ہیں۔ یہ تحریر ایک دعوتِ فکر ہے ہر اس شخص کے لیے جو ان حضرات پر لکھنا اور پڑھنا چاہتا ہے کہ وہ اس موضوع کو مدِنظر رکھ کر کتابوں کو کھنگالے تو بہت سے قیمتی موتی اس کے علمی دامن میں جگمگاتے نظر آئیں گے۔ یہ تحریر ایک سوال بھی ہے موجودہ زمانے کے لوگوں سے کہ وہ ان کے تعلقات کو چند ایک ایسے واقعات کے ترازو میں تولنے لگ جاتے ہیں جس ترازو میں کبھی صحابہؓ اور اہلِ بیتؓ کی نسلوں نے نہیں تولا،اور جس طرح صحابہ رضی اللہ عنہم  اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم  کے تعلقات کو آج ہم دیکھ رہے ہیں، کیا اس طرح ان کی نسلوں نے بھی دیکھا ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کے تربیت یافتہ لوگوں کی زندگیاں ہی اصل میں مشعلِ راہ اور کسوٹی ہیں، احکاماتِ الٰہی کو نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے طریقہ پر جس طرح انہوں نے عمل کرکے دکھایا اسی طرح کیا جائے گا تو بارگاہِ لم یزل میں مقبول ہوگا، ورنہ رد کردیا جائے گا۔ تو جو کسوٹی ہے، اگر اس میں سقم رہ گیا تو پھر پیچھے کیا بچے گا؟ سو ان کے تعلقات کو اپنے تعلقات اور احساسات کے زاویے سے دیکھنے کی بجائے اپنے خیالات کو ان کے تعلقات پر ڈھالنا ہی میانہ روی، اعتدال اور راہِ حق کہلائے گا، جزاک اللہ خیرا۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین