بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے!

صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے!


’’صبر‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے، مگر اردو میں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ’’صبر‘‘ کے معانی ’’روکنا، باندھنا، برداشت کرنا، عفو ودرگزر کرنا اور ثابت قدم رہنا‘‘ وغیرہ ہیں۔ جہاں تک اصطلاحی معنی کا تعلق ہے توقرآن وسنت کی اصطلاح میں نفس کو اس کی ناجائز خواہشات سے روکنے کا نام صبر ہے، اس لیے مفہومِ صبر میں تمام گناہوں اور خلافِ شرع کاموں سے پرہیز آگیا۔‘‘ (معارف القرآن:۴/۵۹۸)
کوئی ضروری نہیں کہ ایک انسان کی ہر بات دوسرے کو پسند آئے۔ ایسی صورت میں اختلاف کا ہونا لازمی ہے۔ کبھی یہی اختلاف مخاصمت ومخالفت اور دشمنی وعناد میں بدل جاتا ہے، پھرتکرار وبحث اور لڑائی وجھگڑاکی نوبت آجاتی ہے۔ یہ حالت غیر پسندیدہ اور قابلِ مذمت ہے۔ جب ایسی صورت حال پیدا ہونے والی ہو تو ایک شخص کو چاہیے کہ اپنے جذبات کو قابو میں رکھے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے وہ خاموشی اختیار کرے اور صبر وتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرے۔ صبر وتحمل ایک قابلِ تعریف وصف ہے۔ قرآن وحدیث میں کئی جگہوں پر مقامِ مدح میں صبر وتحمل کا ذکر آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جگہ جگہ پر صبر وتحمل کا ذکر کیا ہے۔ اللہ پاک نے صبر کے حوالے سے اپنے متعدر انبیاء ورسل o کا ذکر‘ مقامِ مدح میں فرمایا ہے۔ ارشادِ ربّانی ہے: 
’’وَإِسْمَاعِيْلَ وَإِدْرِيْسَ وَذَا الْکِفْلِ کُلٌّ مِنَ الصَّابِرِيْنَ‘‘    (الانبیاء: ۸۵) 
ترجمہ: ’’اور اسماعیل اور ادریس اور ذو الکفل کو دیکھو! یہ سب صبر کرنے والوں میں سے تھے۔‘‘
 صبر کے اجر کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے: 
’’إِنَّمَا يُوَفَّی الصَّابِرُوْنَ أَجْرَہُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ۔‘‘                    (الزمر: ۱۰) 
ترجمہ: ’’جو لوگ صبر سے کام لیتے ہیں، ان کا ثواب انھیں بے حساب دیا جائے گا۔‘‘
 ان جیسی آیاتِ قرآنیہ کی وجہ سےایک مسلمان کی نظر میں، صبر کی اہمیت وعظمت اور اس کے دنیوی واُخروی فوائد مسلم ہیں۔ جب مسلمان صبر جیسی نبوی صفت سے کام لے گا توپھر اللہ تعالیٰ اسے بے حساب اجر وثواب سے نوازیں گے۔ 

شدائد پر صبر کا حکم

اللہ تعالیٰ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کو شدائد پر صبر کا حکم دیتے ہوئےفرماتے ہیں: 
’’وَاتَّبِعْ مَا يُوْحٰی إِلَيْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی يَحْکُمَ اللہُ وَہُوَ خَيْرُ الْحَاکِمِيْنَ‘‘     (سورۃ یونس: ۱۰۹) 
ترجمہ: ’’اور جو وحی تمہارے پاس بھیجی جارہی ہے، تم اس کی اتباع کرو، اور صبر سے کام لو، یہاں تک کہ اللہ کوئی فیصلہ کردے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ ‘‘

حبّ جاہ کا علاج صبر ہے

علماء اہل کتاب کے دلوں میں جاہ یعنی منزلت ومنصب اور مال ودولت کی محبت اس طرح گھس چکی تھی کہ سچائی کے کھل کر سامنے آنے کے بعد بھی نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  پر ایمان نہیں لاتے تھے۔ اللہ پاک نے قرآن عظیم میں حبّ جاہ اور مال ودولت کی محبت کا علاج بتا دیا کہ صبر سے مال ودولت کی محبت دل سے نکلے گی اور نماز سے منزلت ومنصب کی محبت دل سے نکلے گی۔ ارشاد فرمایا: ’’وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاۃِ‘‘ (البقرۃ: ۴۵) ۔۔۔ ترجمہ: ’’اور صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ ‘‘
تفسیر عثمانی میں ہے: 
’’علماء اہل کتاب جو بعد وضوحِ حق بھی آپ پر ایمان نہیں لاتے تھے، اس کی بڑی وجہ حبّ جاہ اور حبّ مال تھی۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کا علاج بتا دیا۔ صبر سے مال کی طلب اور محبت جائے گی اور نماز سے عبودیت وتذلل آئے گا اور حبِ جاہ کم ہوگی۔ ‘‘     (تفسیر عثمانی)

صبر کرنے والوں کا خصوصیت سے ذکر

اللہ تعالیٰ نے بہت سے نیکوکار مثلاً: اللہ کی محبت میں رشتے داروں، یتیموں اور مسکینوں پر مال خرچ کرنے والے، راہ گیروں اور سائلوں پر مال صرف کرنے والے، غلاموں کو آزاد کرانے والے، اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے لوگوں کا ذکر کیا ہے، پھر خصوصیت کے ساتھ صبر کرنے والوں کو قابلِ تعریف شمار کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: 
’’وَالصَّابِرِيْنَ فِيْ الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِيْنَ الْبَأْسِ أُولٰئِکَ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا وَأُولٰئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ‘‘       (البقرۃ: ۱۷۷) 
ترجمہ: ’’اور تنگی اور تکلیف میں، نیز جنگ کے وقت، صبر واستقلال کے خوگر ہوں، ایسے لوگ ہیں جو سچے (کہلانے کے مستحق) ہیں اور یہی لوگ ہیں جو متقی ہیں۔‘‘
اس آیت کی تفسیر میں مفتی محمد شفیع صاحبؒ لکھتے ہیں: 
’’اس سب نیکوکار لوگوں میں خصوصیت سے قابلِ مدح صابرین ہیں، کیوں کہ صبر ہی ایک ایسا ملکہ اور ایسی قوت ہے جس سے تمام اعمالِ مذکورہ میں مدد لی جاسکتی ہے۔ ‘‘      (معارف القرآن: ۱/۴۳۳)

صبر کی نصیحت

اللہ پاک نے حضرت لقمانؒ کو عقل وفہم اور دانائی سے نوازا تھا اوران کو اچھی اور بری چیزوں میں شناخت کا ملکہ عطافرمایا تھا۔ انھوں نے اپنے بیٹے کو چند نصیحتیں فرمائیں، انھوں نے اپنے بیٹے کو منعمِ حقیقی کے احسانات پر ادائے شکر، شرک سے باز رہنے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے راستے میں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرنے کی نصیحت فرمائی۔ یہ سب قرآن کریم میں محفوظ ہیں: 
’’يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاۃَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا أَصَابَکَ إِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ۔‘‘          (لقمان: ۱۷)
ترجمہ: ’’بیٹا! نماز قائم کرو اور لوگوں کو نیکی کی تلقین کرو، اور برائی سے روکو، اور تمھیں جو تکلیف پیش آئے، اس پر صبر کرو! بے شک یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ ‘‘
تفسیر عثمانی میں ہے: 
’’یعنی دنیا میں جو سختیاں پیش آئیں، جن کا پیش آنا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلے میں اغلب ہے، ان کو تحمل اور اولوالعزمی سے برداشت کر۔ شدائد سے گھبرا کر ہمت ہار دینا حوصلہ مند بہادروں کا کام نہیں۔‘‘       (تفسیر عثمانی)

صبر اور معافی ہمت کے کاموں میں سے ہے

صبر اور معافی کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہمت کے کاموں میں شمار فرمایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
’’وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذٰلِکَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُوْرِ۔‘‘                         (الشوریٰ: ۴۳)
 ترجمہ: ’’اور حقیقت یہ ہے کہ جو کوئی صبر سے کام لے، اور درگزر کرجائے؛ تو یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔‘‘
 اس آیت کی تفسیر میں ہے: 
’’غصہ کو پی جانا اور ایذائیں برداشت کرکے ظالم کو معاف کردینا، بڑی ہمت اور حوصلہ کا کام ہے۔ حدیث میں ہے کہ جس بندہ پر ظلم ہو اور محض اللہ کے واسطے اس سے درگزر کرے، تو ضرور ہے کہ اللہ اس کی عزت بڑھائے گا اور مدد کرے گا۔‘‘                                  (تفسیر عثمانی)
اب تک صبر سے متعلق چند آیاتِ قرآنیہ پیش کی گئیں۔ اب صبر کے حوالے سے چند احادیثِ نبویہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام پیش کی جارہی ہیں۔ صبر وتحمل کے حوالے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی پوری زندگی ایک عظیم نمونہ ہے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات میں صبر وتحمل کے حوالے سے بہت سے اسباق ہیں:

نقصان پر صبر کرنا

مومنین کے بارے میں حدیث میں ہے کہ ہر حال میں ان کے لیے خیر ہی خیر ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ اگر کوئی خوشی کا موقع ہو تو اللہ کا شکر ادا کرے اور ثواب حاصل کرے۔ اگر کوئی نقصان پہنچے تو اس پر صبر کرے، اس پر بھی ثواب ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں: 
 ترجمہ: ’’مومن آدمی کا بھی عجیب حال ہے کہ اس کے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے اور یہ بات مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں کہ اگر اسے کوئی خوشی ملی تو اس نے شُکر ادا کیا، تو اس کے لیے اس میں ثواب ہے اور اگر اسے کوئی نقصان پہنچا اور اس نے صبر کیا، تو اس کے لیے اس میں بھی ثواب ہے۔ ‘‘  (صحیح مسلم: ۲۹۹۹)

بچہ کی موت پر صبر کی تلقین

جب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی صاحبزادی حضرت زینب  رضی اللہ عنہا  کا بیٹا مرنے کے قریب تھا ، تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبر پہنچوائی۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان کو جو پیغام بھیجا، اس میں صبر کی تلقین فرمائی: 
’’إِنَّ لِلہِ مَا اَخَذَ، وَلَہٗ مَا اَعْطٰی، وَکُلٌّ عِنْدَہٗ بِاَجَلٍ مُّسَمّٰی، فَلْتَصْبِرْ، وَلْتَحْتَسِبْ۔‘‘                                                   (صحیح البخاری: ۱۲۸۴)
ترجمہ: ’’بے شک اللہ تعالیٰ ہی کی ملک ہے جو انھوں نے لیا اور اسی پاک ذات کی ملک ہے جو انھوں  نے دیا اور ہر چیزان کے پاس وقتِ مقررہ کے ساتھ ہے، پس صبر کریں اور ثواب کی امید رکھیں۔ ‘‘

صبر مصیبت کی ابتدا میں کرنا چاہیے

کسی مصیبت کے اول وقت میں صبر کرنا مشکل اور دشوار کن مرحلہ ہوتا ہے۔ وقت ٹلنے کے ساتھ ساتھ صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے، اس لیے جب پہلی بار کسی مصیبت کی خبر آئے یا مصیبت کا سامنا ہو، تواسی وقت صبر کرنا حقیقی صبر ہے اور ایسے صبر پر ثواب دیا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: ’’إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْأوْلٰی‘‘ یعنی: ’’صبر تو صدمہ کے ابتدائی وقت میں ہے۔‘‘ (صحیح بخاری: ۱۲۸۳)

آنکھ کی بینائی ختم ہونے پر صبر کرنا

اگر کسی شخص کی آنکھ سے بینائی ختم ہوجائے اور وہ شخص اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو ان دو آنکھوں کے بدلے جنت عطا فرمائیں گے۔ حدیث قدسی میں ہے: 
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: جب میں اپنے کسی بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں (دو آنکھوں) کے حوالے سے آزماتا ہوں(دیکھنے کی قوت سلب کرلیتا ہوں)، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے، تو ان دونوں کے بدلے میں اسے جنت عطا فرماتا ہوں۔‘‘           (صحیح بخاری: ۵۶۵۳)

لوگوں کی ایذا پر مومن کا صبر کرنا

ایسے مومنین جو لوگوں سے میل جول رکھتے ہیں اور پھر ان سے جو کوئی ایذا پہنچتی ہے، اس پر صبر کرتے ہیں، تو ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ بڑے اجر سے نوازتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں:
ترجمہ: ’’جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذا پر صبر کرے، اسے زیادہ ثواب ملے گا، اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذا پر صبر نہ کرے۔ ‘‘(سنن ابن ماجہ: ۴۰۳۲)
ہم نے اوپر بیان کیا ہے کہ انسان ایک معاشرہ میں رہتا ہے۔ ایک ساتھ رہنے میں کبھی کبھی شریف انسان کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ اَن بَن، رنجش اور ناموافقت ہوہی جاتی ہے۔ آدمی کے اپنے گھر میں بھی رنجیدگی، بگاڑ اورناچاقی ہوجاتی ہے۔ ایسے مواقع سے ہمیں غیظ وغضب میں آکر، کوئی فیصلہ نہیں لینا چاہیے۔ ایک دوسرے کی غلطی اور خطا کو معاف اور درگزر کرکے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس پر جہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ثواب ملےگا، وہیں معاشرہ اور گھر میں بہت سے مفاسد کا سدّباب آسانی سے ہوجائے گا۔ ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم معمولی باتوں پر جذبات کی رَو میں آکر بہت سے فیصلے لے لیتے ہیں۔ ان فیصلوں کی وجہ سے ہم اپنا چین وسکون کھودیتے ہیں اورپھر ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔ اگر ہم پرسکون اور کامیاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں؛ تو ہمیں عفو ودرگزر، صبر وتحمل اور برداشت کے حوالے سے قرآن وحدیث کی ہدایات پر عمل کرناہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنے محبوب نبی محمد  صلی اللہ علیہ وسلم  کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 
’’فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ۔‘‘    (احقاف: ۳۵) 
ترجمہ: ’’غرض (اے پیغمبر!) آپ اسی طرح صبر کیے جائیں جیسے اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔ ‘‘
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین