بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

صبر وتحمل سے عاری معاشرہ کا انجام

صبروتحمل سے عاری معاشرہ کا انجام!

 

الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

 

گزشتہ دنوں اخبارات میں دو مختلف خبریں چھپیں، جنھیں پڑھ کر دل بہت ہی ملول اور رنجیدہ ہوا۔ یوں محسوس ہوا کہ شاید انسانی معاشرہ ابھی بھی دورِ جاہلیت سے باہر نہیں آیا۔ ایسے حالات وواقعات کو دیکھتے اور پڑھتے ہوئے یوں باور ہونے لگتا ہے کہ جس معاشرہ میں ہم رہ رہے ہیں، یہ معاشرہ کوئی متمدن اور مہذب انسانی معاشرہ نہیں، بلکہ ایک جنگلی اور حیوانی معاشرہ ہے۔ ایک مسلمان کا ایمان ہے کہ تمام کائنات اللہ تعالیٰ کی ملک اور اس کے حکم کی پابند ہے۔ زندگی اور موت، صحت وبیماری، مالداری وفاقہ کشی، اولاد کا دینایا نہ دینا، بیٹا دے یا بیٹی دے یا کچھ بھی نہ دے، یہ سب اس کے اختیارات اور اس کے حکم اور چاہت کے تابع ہیں، انسان کا اس میں ذرا بھی دخل نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’لِلہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ یَخْلُقُ مَا یَشَاۗءُ۝۰ۭ یَہَبُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنْ یَّشَاۗءُ الذُّکُوْرَ اَوْ یُزَوِّجُہُمْ ذُکْرَانًا وَّاِنَاثًا۝۰ۚ وَیَجْعَلُ مَنْ یَّشَاۗءُ عَــقِـیْمًا۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِیْمٌ قَدِیْرٌ۔‘‘  (الشوریٰ:۴۹-۵۰)
’’ اللہ تعالیٰ ہی کی ہے سلطنت آسمان اور زمین کی، وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا عطا فرماتا ہے، یا ان کو جمع کر دیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بڑا جاننے والا بڑی قدرت والا ہے۔‘‘
زمانۂ جاہلیت کے دردناک ترین اور نہایت وحشیانہ مظاہر میں سے ایک مظہر لڑکی کا زندہ درگور کردینا تھا، آج وہی کام ہمارے اسلامی معاشرہ میں بھی ہورہا ہے، جیسا کہ اس خبر میں ہے کہ: میانوالی کے محلہ نورپورہ میں ایک سفاک باپ نے غصے میں آکر اپنی سات دن کی معصوم بچی کو فائرنگ کرکے قتل کردیا اور فرار ہوگیا۔ انتہائی تفتیش کے بعد پولیس نے بتایا کہ ہسپتال ذرائع سے معلوم ہوا کہ اس ظالم باپ کو غصہ تھا کہ بیٹی کیوں پیدا ہوئی اور غصے پر قابو نہ رکھتے ہوئے بچی کی پیدائش کے سات دن بعد اسے قتل کرنے کا قدم اُٹھایا۔          (روزنامہ جنگ کراچی، ۴؍ شعبان المعظم ۱۴۴۳ھ مطابق ۸؍مارچ ۲۰۲۲ء، بروز منگل)
اس واقعہ کے کچھ دنوں بعد بچی کی والدہ بھی اپنی بچی کے صدمہ کو برداشت نہ کرتے ہوئے راہیِ آخرت ہوگئیں۔ کتنی وحشت انگیز بات ہے کہ انسان اپنے انسانی جذبات واحساسات سے عاری ہوکر اتنا آگے نکل جائے کہ دوسرے انسان کو قتل کردے اور قتل بھی اسے کرے جو اس کا اپنے جگر کا گوشہ ہو، کمزور اور ننھی سی جان ہو۔
قرآن کریم نے دورِ جاہلیت کے معاشرہ کا کچھ یوں منظر نامہ پیش کیا ہے:
۱:- ’’وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَہُوَکَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْۗءِ مَا بُشِّرَ بِہٖ۝۰ۭ اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَاب۝۰ۭ اَلَا سَاۗءَ مَا یَحْکُمُوْنَ‘‘ (النحل:۵۸-۵۹)
’’ اور ان میں کسی کو بیٹی کی خبر دی جاوے تو سارا دن اس کا چہرہ بے رونق رہے اور وہ دل ہی دل میں گھٹتا رہے۔ (اور) جس چیز کی اس کو خبر دی گئی ہے، اس کی عار سے لوگوں سے چھپا چھپا پھرے (اور سوچے کہ) آیا اس کو بحالتِ ذلت لیے رہے یا اس کو (زندہ مار کر) مٹی میں گاڑ دے، خوب سن لو کہ ان کی یہ تجویز بہت بری ہے۔‘‘
حضرت علامہ شبیر احمد عثمانی نور اللہ مرقدہٗ فوائدِ تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’یعنی شب و روز اُدھیڑبن میں لگا ہوا ہے اور تجویزیں سوچتا ہے کہ دنیا کی عار قبول کر کے لڑکی کو زندہ رہنے دے یا زمین میں اُتار دے، یعنی ہلاک کر ڈالے، جیسا کہ جاہلیت میں بہت سے سنگدل لڑکیوں کو مار ڈالتے تھے یا زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ اسلام نے آکر اس قبیح رسم کو مٹایا اور ایسا قلع قمع کیا کہ اسلام کے بعد سارے ملک میں اس بےرحمی کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔ بعض نے ’’اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوْنٍ‘‘ کے معنی یوں کیے ہیں: ’’روکے رکھے لڑکی کو ذلیل و خوار کر کے‘‘ یعنی زندہ رہنے کی صورت میں ایسا ذلیل معاملہ کرے گویا وہ اس کی اولاد ہی نہیں، بلکہ آدمی بھی نہیں ۔‘‘
تفسیر کبیر میں ہے: ’’زمانۂ جاہلیت میں کفار مختلف طریقوں سے اپنی بیٹیوں کو قتل کردیتے تھے، ان میں سے بعض گڑھا کھودتے اور بیٹی کو اس میں ڈال کر گڑھا بند کردیتے تھے، حتیٰ کہ وہ مرجاتی اور بعض اسے پہاڑ کی چوٹی سے پھینک دیتے، بعض اسے غرق کردیتے اور بعض اسے ذبح کردیتے تھے۔‘‘
حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشادہے:
۱:-’’عن عائشۃؓ قالت : جاء أعرابي إلی النبي صلی اللہ عليہ وسلم فقال : أتقبلون الصبيان؟ فما نقبلہم . فقال النبي صلی اللہ عليہ وسلم : أو أملک لک أن نزع اللہ من قلبک الرحمۃ ۔‘‘ (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۱، ط: قدیمی، کراچی)
’’ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ ایک دیہاتی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے (تعجب کے ساتھ) دریافت کیا کہ کیا تم بچوں کا بوسہ لیتے ہو؟ ہم تو نہیں لیتے،( اس کی یہ بات سن کر) نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: اگر اللہ پاک نے تیرے دل سے رحم کو نکال دیا ہے تو میرے بس میں نہیں (کہ تیرے دل میں رحم ڈالوں)۔‘‘
۲:-’’وعنہا قالت: جاءتني امرأۃ ومعہا ابنتان لہا تسألني فلم تجد عندي غير تمرۃ واحدۃ فأعطيتہا إياہا فقسمتہا بين ابنتيہا ولم تأکل منہا ثم قامت فخرجت، فدخل النبي صلی اللہ عليہ وسلم فحدثتہ، فقال : من ابتلي من ہٰذہ البنات بشيء فأحسن إليہن کن لہ ستراً من النار۔ ‘‘  (متفق علیہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۱، ط: قدیمی، کراچی)
’’حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا  بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں تھیں، وہ مجھ سے کھانے کا سوال کر رہی تھی۔ اس وقت میرے پاس صرف ایک کھجور تھی، میں نے اس کو دے دی، چنانچہ اس نے اس ایک کھجور کو اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کر دیا اور خود اس سے نہ کھایا، اس کے بعد وہ کھڑی ہوئی اور باہر چلی گئی، (اس دوران) نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  تشریف لائے، میں نے آپ کو ساری بات بتائی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جس شخص کی صرف بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کرے تو وہ اس کے لیے دوزخ سے رکاوٹ بنیں گی۔‘‘
۳:- ’’عن أنسؓ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: من عال جاريتين حتی تبلغا جاء يوم القيامۃ أنا وہو ہٰکذا، وضم أصابعہ ۔‘‘  (مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۱، ط: قدیمی، کراچی)
’’حضرت انس  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں، رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص دو لڑکیوں کی کفالت کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں توقیامت کے دن میں اور وہ شخص اس طرح آئیں گے اور آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے انگلیوں کو ملاکر اشارہ کیا۔‘‘
۴:-’’عن ابن عباسؓ قال : قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: من آوی يتيماً إلٰی طعامہ وشرابہ أوجب اللہ لہ الجنۃ البتۃ إلا أن يعمل ذنباً لا يغفر . ومن عال ثلاث بنات أو مثلہن من الأخوات فأدبہن ورحمہن حتی يغنيہن اللہ أوجب اللہ لہ الجنۃ. فقال رجل : يا رسول اللہ واثنتين ؟ قال: واثنتين۔ حتی قالوا: أو واحدۃ؟ لقال: واحدۃ۔ ‘‘   (مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۳، ط: قدیمی، کراچی)
’’ ابن عباس  رضی اللہ عنہما   بیان کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص کسی یتیم کو اپنے کھانے اور پینے میں شریک کرتا ہے، اللہ پاک اس کے لیے لازمی طور پر جنت واجب کردیتا ہے، البتہ اگر وہ کوئی ایسا گناہ کرے جو ناقابلِ معافی نہیں اور جو شخص تین بیٹیوں یا تین بہنوں کی پرورش کرتا ہے، انہیں ادب سکھاتا ہے اور ان پر شفقت کرتا ہے، یہاں تک کہ اللہ پاک ان کو خود کفیل بنادیتا ہے تواللہ پاک اس کے لیے جنت واجب کردیتا ہے۔ ایک شخص نے دریافت کیا کہ کیا وہ بھی؟ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ہاں، وہ بھی، یہاں تک کہ اگر وہ کہہ دیتا: کیا ایک بھی؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک بھی کہہ دیتے ۔‘‘
۵:-’’عن ابن عباسؓ قال: قال رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم: من کانت لہ أنثٰی فلم يئدہا ولم يہنہا ولم يؤثر ولدہٗ عليہا - يعني الذکور - أدخلہ اللہ الجنۃ۔ ‘‘(مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۳، ط: قدیمی، کراچی)
’’ ابن عباس  رضی اللہ عنہما   بیان کرتے ہیں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی، اس نے اس کو زندہ دفن نہیں کیا اور اس کو ذلت کے ساتھ نہیں رکھا (اور) نہ لڑکوں کو اس پر ترجیح دی تو اللہ پاک اس کو جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
۶:-’’عن سراقۃ بن مالک أن النبي صلی اللہ عليہ وسلم قال: ألا أدلکم علی أفضل الصدقۃ؟ ابنتک مردودۃ إليک ليس لہا کاسب غيرک ۔ ‘‘  (ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، ص: ۴۲۳، ط: قدیمی، کراچی)
’’حضرت سراقہ بن مالک  رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: کیا میں تمہیں افضل صدقہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تیری بیٹی جسے تیری جانب واپس کر دیا گیا ہے اور تیرے سوا اس کا کوئی کفیل نہیں، یعنی انسان کا سب سے بہترین صدقہ اپنی بیٹی کی کفالت کرنا ہے۔‘‘
قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ہے:
’’وَاِذَا الْمَوْءٗدَۃُ سُیِٕلَتْ بِاَیِّ ذَنْۢبٍ قُتِلَتْ۔‘‘
’’ اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی۔‘‘
تفسیر عثمانی میں ہے:
’’عرب میں رسم تھی کہ باپ اپنی بیٹی کو نہایت سنگدلی اور بےرحمی سے زندہ زمین میں گاڑ دیتا تھا، بعض تو تنگدستی اور شادی بیاہ کے اخراجات کے خوف سے یہ کام کرتے تھے اور بعض کو یہ عار تھی کہ ہم اپنی بیٹی کسی کو دیں گے وہ ہمارا داماد کہلائے گا۔ قرآن نے آگاہ کیا کہ ان مظلوم بچیوں کی نسبت بھی سوال ہوگا کہ کس گناہ پر اس کو قتل کیا تھا۔ یہ مت سمجھنا کہ ہماری اولاد ہے، اس میں ہم جو چاہیں تصرف کریں، بلکہ اولاد ہونے کی وجہ سے جرم اور زیادہ سنگین ہو جاتا ہے۔‘‘
ایک روایت میں آتا ہے کہ:
’’أخبرنا الوليد بن النضر الرملي عن سبرۃ بن معبد من بني الحارث بن أبي الحرام من لخم عن الوضين أن رجلا أتی النبي صلی اللہ عليہ وسلم فقال: يا رسول اللہ! إنا کنا أہل جاہليۃ وعبادۃ أوثان، فکنا نقتل الأولاد وکانت عندي ابنۃ لي فلما أجابت وکانت مسرورۃ بدعائي إذا دعوتہا فدعوتہا يوما، فاتبعتني، فمررت حتی أتيت بئرا من أہلي غير بعيد، فأخذت بيدہا فرديت بہا في البئر وکان آخر عہدي بہا أن تقول: يا أبتاہ يا أبتاہ، فبکی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم حتی وکف دمع عينيہ، فقال لہ رجل من جلساء رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم أحزنت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، فقال لہ: کف فإنہ يسأل عما أہمہ، ثم قال لہ: أعد علي حديثک، فأعادہ، فبکی حتی وکف الدمع من عينيہ علی لحيتہ، ثم قال لہ: إن اللہ قد وضع عن الجاہليۃ ما عملوا، فاستأنف عملک۔‘‘ (رواہ الدارمي، باب ماکان علیہ الناس قبل مبعث النبي من الجھل والضلالۃ)
’’ولید بن نضر رملی کہتے ہیں کہ ہمیں سبرہ بن معبد یہ واقعہ وضین سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آکر جاہلیت کے دور کا اپنا واقعہ بیان کیا، کہا: اے اللہ کے رسول! ہم دورِ جاہلیت میں بتوں کی پوجا کرتے اور اپنی اولادوں کو قتل کرتے تھے۔ میری ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت پیار کرتی تھی، جب بھی میں اُسے بلاتا تو وہ میرے پاس دوڑتی ہوئی آتی۔ ایک دن میں نے اسے بلایا، اس کو اپنے ساتھ لے کر چل پڑا، میں اپنے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک کنویں کے قریب ہوا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے کنویں میں دھکا دے دیا۔ اس کی آخری آواز جو میرے کانوں میں پڑی، وہ یہ تھی: اے پیارے ابا! اے پیارے ابا! یہ سن کر رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اتنا روئے کہ آپ کے آنسو بہنے لگے، آپ کے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا: تو نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کو غمگین کردیا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: اپنا واقعہ دوبارہ بیان کرو، اس نے دوبارہ بیان کیا، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  سن کر اس قدر روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ اس کے بعد آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جاہلیت میں جو کچھ ہوگیا اللہ تعالیٰ نے اسے معاف کردیا، لہٰذا اب نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرو۔‘‘ 

 ...........................................

دوسری خبر یہ ہے کہ تحصیل پتوکی میں پاپڑ خریدنے پر باراتیوں کا پاپڑ فروش اشرف عرف سلطان سے جھگڑا ہوا، باراتیوں نے نجی شادی ہال کے اندر پاپڑ فروخت کرنے والے کو تشدد کرکے موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ مقتول کی لاش کے ساتھ بیٹھے باراتی کھانا کھاتے رہے....۔ (روزنامہ جنگ، کراچی، ۲۳؍ مارچ ۲۰۲۲ء)
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ باراتیوں نے دولہا پر پیسے اُڑانا اور لٹانا شروع کیے، وہ پاپڑ والا بھی پیسے چننے اور لوٹنے میں شریک ہوا، اس پر باراتیوں کو طیش آگیا اور انہوں نے اسے زدوکوب کرنا شروع کردیا اور الزام لگادیا کہ یہ باراتیوں کی جیبیں کاٹ رہا تھا، باراتیوں نے اس پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہوگیا۔ بات کچھ بھی ہو، لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ ایک انسانی جان ہلاک ہوگئی اور بے حسی کی انتہا ہوگئی کہ اس کے مرنے کے بعد بھی باراتیوں کو کوئی بے چینی یا پریشانی نہ ہوئی کہ ایک لاش ان کے قریب پڑی ہے، ایک بے گناہ انسان ان کے ہاتھوں قتل ہوا ہے، اس پر نادم یا شرمسار ہوں، اُلٹا بے حس اور بت بن کر حیوانوں کی مانند شکم سیری کرتے رہے، لاحول ولاقوۃ إلا باللہ۔
ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ صبر وتحمل سے کام لیتے، اگر وہ کسی کی جیب کاٹ بھی چکا تھا تو اسے پولیس کے حوالہ کرتے اور قانون کی گرفت میں دیتے، نہ یہ کہ اس کو جان سے ہی ماردیتے۔ بادی النظر میں یوں ہی محسوس ہوتا ہے کہ محض اپنی بڑائی، تکبر اور رعونت کی بناپر اسے موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔ قرآن کریم نے بجاطور پر کہا ہے کہ: 
’’وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ۝۰ۭ وَکَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا‘‘  (الاسراء:۲۶-۲۷)
’’ اور (مال کو) بے موقع مت اُڑانا (کیوں کہ) بے شک بےموقع اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی بند ہیں اور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ناشکر ہے۔‘‘
کم وبیش ہر انسان جہالت، ظلم، کبروغرور اور شکم پروری جیسے متعدد بہیمی جذبات کی زد میں رہتا ہے، اسی وجہ سے ان منفی جذبات میں انسانوں کے درمیان مقابلہ آرائی بھی رہتی ہے، جس کی پاداش میں  ہر شخص ہر چیز میں اپنی برتری کا مظاہرہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر کرتا ہے۔ جن لوگوں کو وسائل میسر ہوں، وہ دولت کا سب سے بڑا مصرف یہی سمجھتے ہیں کہ اسے آتشِ نمود ونمائش کا ایندھن بنا دیا جائے، حالانکہ اسلام سادگی، کفایت شعاری، قناعت پسندی اور ایثار وہمدردی کی تعلیم دیتا ہے۔ آج کے مسلمان ان اعلیٰ صفات کو اپنانے کے بجائے شیطانی راستے پر چلتے ہوئے اپنی دولت اور کمائی کو فضول خرچی اور نمود ونمائش میں ضائع کررہے ہیں، حالانکہ قرآن کریم نے فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا ہے اور یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ فضول خرچی کرنے سے آدمی بڑا نہیں بنتا، بلکہ حقیر وذلیل ہوجاتا ہے، جس گھر میں فضول خرچی ہو، اس گھر کا نظام تلپٹ ہوجاتا ہے اور جس ملک میں فضول خرچی کا رواج ہو، اس ملک کی معیشت درہم برہم ہوجاتی ہے، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ جو لوگ معاشرے میں فضول خرچی کے مرتکب ہوں، ان کی حوصلہ شکنی کی جائے اور ان کی مسرفانہ تقریبات کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اسی طرح خاندان کے ذمہ داران کو چاہیے کہ معاشرے کے غلط رسم ورواج کی ذرا بھی پابندی نہ کریں، لوگ خواہ کچھ بھی کہتے رہیں، نہایت سادگی اور کفایت شعاری سے شادی بیاہ کیا جائے۔ ان شاء اللہ! اس سے جہاں کئی گناہوں سے معاشرہ بچ جائے گا، وہاں دنیا میں بھی راحت وآرام اور آخرت میں بھی رب کی رضا کا حصول ہوگا۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین