بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ۔۔۔انقلاب آفریں اور آہنی قیادت

شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ۔۔۔انقلاب آفریں اور آہنی قیادت


شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اسلام لانے والے اولین لوگوں میں سے ہیں، آپ کی عمر مبارک نو سال کی تھی، جب محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک پر مشرف بہ ایمان ہوئے۔ مکی زندگی کے نشیب و فراز میں آپ دم بہ دم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ رہے۔ مدینہ میں دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف حاصل ہوا۔متعدد معرکوں میں دادِ شجاعت کے باعث ’’شیر خدا‘‘ کا لقب پایا۔ خیبر کی فتح اﷲ تعالیٰ نے آپؓ کے ہاتھ پر عطا کی۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دستِ راست رہے اور امت کے چوتھے خلیفہ کے طور پر قیامت تک مسلمان آپ کو یاد کرتے رہیں گے۔ 
شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کی ولادت باسعادت ۶۰۳ء مطابق ۱۳رجب ۳۲ میلادی کو ہوئی، یہ مدت ہجرتِ مدینہ سے کم و بیش اکیس سال بیشتر بنتی ہے۔ ’’علی‘‘ نام رکھا گیا، ’’ابوالحسن‘‘ اور ’’ابوتراب‘‘ کنیتیں تھیں۔ والدہ ’’حیدر (شیر)‘‘ کہہ کر پکارتی تھیں، ’’مرتضیٰ‘‘اور ’’اسداﷲ‘‘ کے القابات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا ہوئے، جبکہ امت آپ کو ’’امیرالمومنین‘‘ کے خطاب سے یاد کرتی ہے۔ 
شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نجیب الطرفین قریشی وہاشمی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سگے چچازاد تھے۔ آپ کی پرورش ونگہداشت وتربیت براہِ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیرِ نگرانی ہوئی۔ آپؓ کے والد ابوطالب بن عبدالمطلب کثیر العیال اور معاشی طور پر مفلوک الحال تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ جعفر طیارؓ کی پرورش آپ کریں اور علیؓ کی کفالت میں کرتا ہوں، اس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی عمر مبارک تین سال تھی۔ اس طرح آپ کا دامن صحبتِ نبوی کے باعث بچپن ہی سے جہالت و مفسدات کی آلودگیوں سے پاک رہا۔
بڑے ہوئے تو سفر و حضر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے لگے،گھر کے جملہ معاملات میں ہاتھ بٹاتے اور اپنی عمر کے اعتبار سے ذمہ داریوں کی ادائیگی میں بھی معاونت کرتے۔ اسی وجہ سے آپؓ کے اخلاق و عادات پر اخلاقِ نبوی کی گہری چھاپ تھی۔ بعثت کے بعد جب رشتہ داروں کو دعوت دینے کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب آلِ بنی ہاشم کو کھانے پر بلایا اور انہیں اپنی نبوت پر ایمان لانے کا کہا، تواس وقت شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے فرمایا: ’’گو میں عمر میں چھوٹا ہوں، میری ٹانگیں کمزور ہیں اور آشوبِ چشم میں مبتلا ہوں، مگر میں آپ کا مددگار بنوں گا۔‘‘ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک صرف آٹھ سال تھی۔ مکی زندگی کے پر آشوب دور میں آپؓ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ رہے، خود فرماتے ہیں کہ: ’’میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے ایسے چلتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے۔‘‘ تبلیغی اسفار میں بالعموم آپ ہی رفیقِ سفر ہوتے۔ تین سالہ شعبِ ابی طالب کے جاں گسل دورمیں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہے۔ ہجرت کے موقع پر آخری رات آپ ہی بسترِنبوی پرمحوِ استراحت ہوئے، یہ گویا موت کا بستر تھا اور آپؓ نے حکمِ نبوی کے سامنے جان کی پروا بھی نہ کی۔ اگلے دن امانتیں لوٹا کر عازمِ مدینہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی قبا کے مقام پر ہی قیام پذیر تھے کہ حضرت علیؓ اس حال میں آپ سے ملے کہ دونوں پاؤں آبلوں سے بھرے تھے۔ مواخات کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو انصار میں شامل فرماکر مہاجرین میں سے شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کو اپنا مواخاتی بھائی قرار دیا اور فرمایا: تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔ جب آپ کی عمر مبارک۲۳،۲۴ سال کی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ سے فرمادیا، اس طرح آپ دامادِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بن کرعز و شرف میں پہلے سے اور آگے نکل گئے۔ یہ۲ ہجری کا واقعہ ہے ۔
مدنی زندگی کے تمام غزوات میں شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ راست رہے۔ بدر، احد اور خندق کے معرکوں میں آپ نے عزم و ہمت اور شجاعت و جوانمردی کی عظیم الشان تاریخ رقم کی، صلح حدیبیہ کا معاہدہ آپ ہی نے تحریر کیا۔ معرکۂ خیبر میں تو مرحب جیسے بدمعاش پہلوان سے نپٹنا صرف آپ کا ہی خاصہ تھا، آپ نے اس کے وار کے جواب میں ایسا وار کیا کہ جبڑوں تک اس کا سر پھٹتا چلا گیا۔ آخری قلعہ کا دروازہ آپ نے اپنے دستِ ایمانی سے اُکھاڑ پھینکا تھا۔ مکہ پر چڑھائی کے وقت جاسوسی کا خط لے جانے والی عورت کو بھی آپ نے پکڑاتھااور اس سے خط برآمد کیا۔ 
شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ صرف غزوۂ تبوک میں شامل نہ ہوئے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور جانشین آپؓ کو مدینہ رہنے کا حکم فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پرفرمایاکہ: ’’میں علم کاشہرہوں اور علی ؓاس کادروازہ ہیں۔‘‘ وصالِ نبوی کے وقت ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرۂ مبارکہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چند دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین کا کام سرانجام دیا۔ ۔ وصالِ نبوی بالعموم تمام صحابہؓ کے لیے اور بالخصوص اہلِ بیتؓ کے لیے کسی سانحے سے کم نہ تھا، لیکن شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے بڑے حوصلے، صبر اور ہمت سے اس مرحلے پر خود کو اور اہل بیت نبوی کو بخوبی سنبھالا۔ آپ خلفائے ثلاثہؓ یعنی حضرت ابوبکر،حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانوں میں ان کے دستِ راست رہے۔ ایران پر چڑھائی کے موقع پر یہ شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ہی تھے، جنہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کسی طور بھی مرکزِخلافت ’’مدینہ منورہ‘‘ نہ چھوڑنے کا صائب مشورہ دیا تھا۔ ایک موقع پر آپؓ نے خود اس کا اعتراف کیا، جب ایک شخص نے سابق خلفاء کے دور میں پرامن حالات اور آپ کے دورِ خلافت میں حالات کی خرابی کا شکوہ کیاتو آپؓ نے فرمایا: 
’’ہمیں مشورہ دینے والے تم ہو اور انہیں مشورہ دینے والے ہم تھے۔‘‘
خلیفۂ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ کمیٹی جو حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ اور حضرت سعدبن ابی وقاصؓ پر مشتمل تھی، اس کمیٹی نے اپنے فیصلے میںجو ترتیب مقرر کی تھی، اس میں حضرت عثمانؓ کے بعد دوسرا نمبر حضرت علی کرم اللہ وجہہ ؓ کا ہی تھا، چنانچہ شہادتِ عثمانؓ کے بعد تین دن تک منصبِ خلافت خالی رہا، مدینہ پر بلوائیوں کا قبضہ تھا اور کوئی بھی نامور شخصیت بارِ خلافت اُٹھانے کو تیار نہ تھی، ان حالات میں انصار و مہاجرین کے بزرگ جمع ہو کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور اُنہیں اس منصب کے قبول کرنے کی دعوت دی،ابتداء ًآپؓ نے انکار کیا اور فرمایا کہ: مجھے امیر کی نسبت وزیر بننا پسند ہے، لیکن حالات کے بگاڑ کا حل اور اُمت کا اجماع دونوں امور آپ کی ذات پر ہی جمع ہو رہے تھے، تب آپ کی ہمتِ عالیہ تھی جس نے اس نازک اور کڑے وقت میں ۲۴ ؍ذوالحجہ ۳۵ ہجری کو اُمت کی باگ دوڑ سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی گزشتہ خلفائے راشدینؓ کی سنت کے مطابق اجتماعِ مسلمین کے سامنے ایک خطبہ دیا، آپؓ نے فرمایا: 
’’اﷲ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت و راہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل فرمایا ہے، اس میں خیر وشر سب کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے۔ تم اﷲ تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض اداکرو، تمہیں جنت ملے گی۔ اﷲ تعالیٰ نے حرم پاک کو محترم ٹھہرایا ہے۔ مسلمانوں کی جان کو ہر چیز سے زیادہ قیمتی قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو خلوص واتحاد کی تلقین کی ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، ماسوائے جس کسی پر کوئی حدِ شرعی واجب ہو۔ خدا کے بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے خدا سے ڈرو، قیامت کے روز زمینوں اور مویشیوں کی بابت تم سے باز پرس ہوگی۔ اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرو اور اس کے احکامات کی خلاف ورزی سے بچو۔ جہاں کہیں بھلائی کی بات دیکھو اسے قبول کرواور جہاں بدی نظر آئے اس سے پرہیز کرو۔‘‘
عنانِ اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے جو مسئلہ درپیش ہوا وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص تھا۔ تمام بزرگوں کا اور اُمت کا مطالبہ تھا کہ قاتلوں کو فی الفور سزا دی جائے، شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ پر جیسے جیسے دباؤ بڑھتا گیا، آپ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا گیا، کیونکہ خلیفۂ ثالث ایک بلوے میں شہید کیے گئے تھے اور بلوے میں اصل قاتل کی تلاش کوئی آسان کام نہیں ہوتا اور خاص طور پر جب سب بلوائی اَیکہ کر لیں تو یہ ناممکن ہوجاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ امن و امان قائم ہونے پراور حالات معمول پر آنے تک ہی قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینا ممکن ہوسکے گا، جبکہ دوسری طرف مدینہ بری طرح بدامنی کاشکار تھا۔ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کے بار بار کہنے کے باوجود بلوائی مدینہ طیبہ چھوڑنے پر تیار نہ تھے۔شام کے گورنرحضرت امیرمعاویہؓ نے شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کی بیعت کرنے سے انکار کردیا اور قاتلینِ عثمانؓ کو ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ امیرالمؤمنین حضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے مفاہمت کی بہت کوشش کی، لیکن حالات بڑی تیزی سے جنگ کی طرف جارہے تھے۔
شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ ابھی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے معاملہ کرنے کی کوشش میں تھے کہ دوسری طرف ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی قصاص کامطالبہ کیا اور اپنے لشکر کے ساتھ بصرہ کا رُخ کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی سپاہ کے ساتھ بصرہ کا رخ کیا، مصالحت کی کوششیں کئی دنوں تک چلتی رہیں اور دونوں لشکر آمنے سامنے خیمہ زن رہے۔ ایک رات گئے صلح جوئی کی کوششیں بارآور ثابت ہوئیں، تمام شرائط طے پا گئیں اور فیصلہ ہوا کہ چونکہ رات بہت بیت چکی ہے، اس لیے صبح کو معاہدہ لکھ لیا جائے گا اور افواج اپنے اپنے علاقوں کو لوٹ جائیں گی۔ قاتلینِ عثمانؓ جو دراصل دونوں طرف کی افواج میں پھیلے ہوئے تھے، انہیں یہ صلح کسی طور بھی راس نہیں تھی، کیونکہ جس دن امن قائم ہوتا، اسی دن سے ان کی گرفتاری اور قصاص کا عمل شروع ہو جاتا، چنانچہ ایک طے شدہ پروگرام کے تحت اگلے دن دونوں طرف کے بلوائیوں نے جنگ شروع کر دی۔ قائدین سمجھتے رہے کہ فریقِ مخالف نے رات کے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، لیکن حقیقت بہت مختلف تھی۔ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اونٹ پر سوار تھیں، اسی لیے اس جنگ کو جنگِ جمل کہتے ہیں۔ شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے اپنی افواج کو حکم دیا کہ اونٹ کی ٹانگیں کاٹ دی جائیں، اونٹ کے بیٹھتے ہی بصری افواج تتر بتر ہو گئیں، ان کا پیچھا کرنے،قتل کرنے اور گرفتار کرنے سے شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ نے منع کر دیا اور بصرہ کی چالیس بزرگ خواتین کے ساتھ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔
جنگِ جمل کے بعد شیرِ خدا حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے کوفہ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو اطاعت کی دعوت دی اور نہ ماننے پرجنگ کی دھمکی بھی دی۔ ۳۶ ہجری میں دونوں فوجیں آمنے سامنے صف آرا ہو گئیں۔ یہ لڑائی جنگ صفین کہلاتی ہے، ایک طویل اور تھکا دینے والی جنگ، جس کے دوران گاہے گاہے صلح کی کوششیں بھی جاری رہیں، لیکن بے سود۔ جب شامی افواج شکست سے دوچار ہونے لگیں تو انہوں نے نیزوں پر قرآن اُٹھا لیے کہ ہمارا تمہارا فیصلہ کتاب اﷲ کرے گی، اس پر عَلوی افواج نے لڑنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ دونوں طرف سے ثالث مقرر ہوئے، دونوں نے فیصلہ کیا کہ شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ اور حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ دونوں کو معزول کر کے اُمت کے لیے نیا خلیفہ مقرر کیا جائے۔اعلان کے وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ثالث حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے طے شدہ فیصلے کا اعلان کیا، حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے ثالث حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔ اس موقع پر پھر بزرگانِ امت درمیان میں آگئے اور طے کیا کہ دونوں اپنے اپنے علاقوں پر حکومت کریں، کوئی دوسرے کے معاملے میں دخل نہ دے، چنانچہ دونوں افواج واپس چلی گئیں۔ یہ کشمکش ابھی جاری تھی کہ خوارج نے خروج کردیا اور شیرِ خداحضر ت علی کرم اﷲ وجہہ کے لیے ایک نیا محاذ کھل گیا۔ خارجی بہت دلیر اور مضبوط عقیدے کے مالک تھے اور جنگ سے ٹلتے نہ تھے، ان کی یہی خو ئے شجاعت ہی شہادتِ حضرت علی ؓکا باعث بنی اورایک خارجی نے آپؓ پر فجر کی نماز میں حملہ کیا،جس کا وار کاری ثابت ہوا اور ۲۱؍رمضان المبارک ۴۰ ہجری کو آپ شہادت سے ہم آغوش ہوئے۔ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا اور لاش کی بے حرمتی کے خوف سے نامعلوم مقام پر دفن کیا۔ اس وقت آپؓ کی عمر مبارک ۶۳ برس تھی اور مدتِ خلافت ۴سال اور۹ماہ ہے۔
آپ نے نظامِ خلافت میں کئی اصلاحات کیں، عُمال کے محاسبے کے فاروقی نظام پر سختی سے عمل درآمد کروایا، رات کو شہروں کا گشت اپنا معمول بنایا اور بہت سی فوجی اصلاحات بھی کیں، لیکن چونکہ آپ کا سارا دور شورشوں اور بغاوتوں سے بھرا ہواتھا، اس لیے آپ کو کھل کر اپنی صلاحیتیں استعمال کرنے کا موقع نہ ملا۔ علم و فضل،امانت و دیانت اور زہدوتقویٰ آپ کی پہچان نہیں، بلکہ آپ ان سب صفاتِ جمیلہ کی پہچان ہیں۔ اُمت مسلمہ ہمیشہ آپ کی گرویدہ رہی ہے اور کل اُمت خلیفۂ راشد کی حیثیت سے آپ کی پیروکار ہے۔ علماء کے مطابق صرف و نحوکے علم کے بانی حضرت علی کرم اللہ وجہہ ہی ہیں،شروع میں یہ ایک ہی علم تھااور حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے سب سے پہلے اس علم کی مبادیات کا تعین کیا تھا۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہوتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مزیدکوئی شادی نہیں کی تھی،بی بی صاحبہؓ کے بعد پھر آپ نے متعدد نکاح کیے ۔آپ کی کل اولاد کی تعدادباختلاف ۲۷ تک پہنچتی ہے۔ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے چلنے والی نسل ’’فاطمی‘‘ اولاد کہلاتی ہے، جب کہ دیگر زوجات والے ’’علوی‘‘ کہلاتے ہیں۔ آپ کی نسل سے بعض نے حکومت بھی کی، لیکن زیادہ تر اپنے اجدادسے کسب کرتے ہوئے فقیرانہ زندگی پر قانع رہے، چنانچہ تصوف کے کم و بیش تمام سلسلے اولادِ علیؓ سے ہوتے ہوئے حضرت علی ؓپر ہی ختم ہوجاتے ہیں اور یہ حضرت کااصل فیض ہے جو تاقیامت جاری رہے گا۔ واقعۂ کربلا میں آپ کی اولادِ مبارکہ ایک بہت بڑے سانحے سے دوچار ہوئی، لیکن اہلِ بیتؓ کی یہ قربانیاں دین کی حیاتِ ابدی کا باعث ہیں۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین