بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ مدنیؒ کا سر اونچا . . . علامہ اقبالؒ اور حضرت مدنی ؒ کا قضیہ

شیخ مدنیؒ کا سر اونچا . . . علامہ اقبالؒ اور حضرت مدنی ؒ کا قضیہ


مؤرخہ ۱۳؍ جنوری ۲۰۲۲ء کے روزنامہ جنگ میں جناب بلال الرشید کا کالم شائع ہوا ہے، گزشتہ کئی دنوں سے فاضل کالم نگار دنیا کی بےثَباتی، فکرِ آخرت اور دینِ اسلام سے متعلقہ حوصلہ افزا کالم لکھ رہے تھے، جس کی بنا پہ بندہ ان کا کالم پڑھ کر ساتھ ہی اپنی رائے ان کو ان کے واٹس ایپ پہ سینڈ کر دیتا تھا، اور رائے سے مطلع ہو کر وہ فوراً شکریہ وغیرہ کا جوابی میسج بھی اِرسال کر دیتے تھے، ان کے اس اَخلاقی تقاضوں سے آشنا طبیعت، نیز دینِ اسلام سے فطری محبّت اور پھر الحاد کے تھپیڑوں میں دفاعِ دین کے جذبات سے کاتِب السُّطور کے دل میں ان کی محبّت پیدا ہو گئی تھی، مگر آج اچانک جب حسبِ معمول صبح کا اخبار دیکھا تو موصوف کا کالم پڑھ کر قلبی صدمہ پہنچا کہ ہمارا یہ جوان بھائی ماضی بعید میں پیدا ہو جانے والی ایک غلط فہمی کی بنا پہ اغیار کی پیالی میں بَپا کردہ طوفان کی نذر ہو گیا۔ کاش! وہ یہ کالم شائع کروانے میں عُجلت کا مظاہرہ نہ کرتے اور بھرپور تحقیق و تَشَفّی کے بعد قلم اُٹھاتے تو شاید ان کے کالم میں ضرورت سے زیادہ جذباتیت، حقائق سے ناواقفی کی ظاہر ہوتی سُبْکی، اور بے جارسمی قسم کی خود اعتمادی نہ چھلکتی۔
 فاضل کالم نگار نے ایک بار پھر دین بیزار لوگوں کے اُٹھائے ہوئے عنوان ’’مُلاّ و مسٹر میں تفریق‘‘ کے متشدّدانہ فلسفے کو اپنے قلمی چھانٹوں سے زندہ کرنے کی کوشش کی ہے، مگر وہ بھول گئے کہ مردہ گھوڑے چھانٹوں سے کبھی زندہ نہیں ہوتے۔ فاضل کالم نگار نےشیخ الاسلام، شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی علیہ الرحمہ کے متعلق علامہ ڈاکٹر اقبال مرحوم کے فارسی اشعار کو دہرایا ہے اور بے اکرامی و تحقیر کے لہجے میں حضرت شیخ مدنی ؒ کا تذکرہ کیا ہے، ہم خدانخواستہ فاضل کالم نگار کی جناب سے شیخ مدنی ؒ کی عزت و احترام کی بھیک مانگنے کے جذبہ سے یہ سُطُوْر نہیں لکھ رہے، اور نہ ہی شیخ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی رفیع المرتبت ہستی کو دیمک زدہ لاٹھیوں کا سہارا لے کر عزتیں پانے کی کوئی حاجت ہے، مگر تاریخی حقائق سے آگاہ کرنا ہمارا حق ہے، اسلاف کی پگڑیوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض بھی ہے اور قرض بھی!
یہ سُطُور پڑھنے کے بعد اگر فاضل کالم نگار کی رائے سے پیدا شدہ شُبہات زائل ہو جاتے ہیں، تو ہماری کامیابی ہے اور بالفرض زائل نہیں ہوتے تو بھی ناکامی کا کوئی سوال نہیں، کیونکہ آفتاب نِصْفُ النَّہار کو اپنی اَن گِنت کِرنوں کا وجود منوانے کے لیے کسی کے دفاع کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فاضل کالم نگار نے اقبال مرحوم کے جن اشعار کو پیش کیا ہے، پہلے ذرا اُن کا شانِ وُرُوْد پڑھ لیجئے کہ ان کے تخیُّل کا پرندہ شیخ مدنی علیہ الرحمہ کی کس بات پہ پھڑپھڑایا تھا؟
یہ ۸؍جنوری ۱۹۳۸ء کی ایک شَب تھی کہ دہلی کے صدر بازار کے ایک بڑے اجتماع میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ نے خطاب فرماتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’قومیں موجودہ زمانے میں اَوْطَان سے بنتی ہیں، نسل یا مذہب سے نہیں بنتیں۔‘‘
اگلے روز بعض مسلم لیگی اخبارات میں اس بیان کو غلط انداز میں شائع کیا گیا کہ مولانا مدنی ؒ کہتے ہیں: ’’قومیت وطن سے ہوتی ہے، مذہب سے نہیں ہوتی۔‘‘ ان اخبارات میں روزنامہ ’’الامان‘‘ اور’’احسان‘‘ وغیرہ پیش پیش تھے، پھر ایک شورش بپا ہو گئی، اور ہر طرف سے آوازے کَسے جانے لگے کہ اب جبکہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پہ الگ مَمْلَکَت کے حصول کے لیے تقسیمِ ہند کی جدوجہد چل رہی ہے تو مولانا مدنی ؒ فرماتے ہیں کہ: مذہب کے نام پہ تو قوموں اور ملکوں کا وجود ہی نہیں ہوتا، کہتے ہیں کہ جب زہریلی ہوا چلتی ہے تو وہ چیونٹیوں کی بِلوں میں بھی گھس جاتی ہے، چنانچہ علامہ اقبال مرحوم، جو اُن دنوں بسترِ عَلالَت پہ تھے بھی اس افواہ سے متاثر ہو گئے اور انہوں نے حضرت مدنی علیہ الرحمہ کی ہَجْو میں تین فارسی اشعار کہہ ڈالے، وہی اشعار ہمارے فاضل کالم نگار بھائی نے اپنے کالم میں درج کیے ہیں، یعنی:

عجم ہنوز نہ داند رموزِ دیں ورنہ
ز دیوبند ایں چہ بوالعجبی است؟
سرود بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدِ عربی است
بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است

اقبال مرحوم نے یہ اشعار اس قدر جوش و عُجلت اور جلدی میں کہے تھے کہ عالَمِ اسلام کے اتنے بڑے باکمال اور دانا و کُہْنَہ مَشْق شاعر کو خواجہ حافظ شیرازیؒ کے دِیوَانْ سے ان کی ایک غزل کی زمین، بحر و قوافی اور انداز مُستعار لینا پڑا، یعنی:

حسن ز بصرہ بلال ز حبش صہیب از روم
زِ خاک مکّہ ابوجہل ایں چہ ابوالعجبی است

بہرکیف اخبارات و جرائد میں جانبَین سے بیان بازی شروع ہوگئی، اُدھر اقبال مرحوم کے ہم خیال اور اِدھر شیخ مدنی علیہ الرحمہ کے عقیدت مند، اور پھر علمی بنیاد پہ پیدا ہونے والے ایک اشکال کو اس دَور کے کم ظرف مسلم لیگیوں نے خوب اُچھالا اور نت نئے انداز میں سفرِ شرارت کی اگلی منزلوں کی جانب جادہ پیما ہو گئے، اس زمانہ میں حضرت شیخ مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک عاشق زار مولانا سید عزیز احمد قاسمی (متوفی ۱۴۰۹ھ) کا ایک شعر بہت مشہور ہوا تھا:

خموش شاعر گستاخ! قدرِ خود شناس
ز حدِ خویش گزشتن کمال بے ادبی است

اس دوران حضرت شیخ مدنی علیہ الرحمہ نے اپنے بعض خطابات میں اشتعال کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی غرض سے اپنے کلمات کی وضاحت بھی فرمائی، جیساکہ ’’مکتوباتِ شیخ الاسلام‘‘ کی جلد نمبر :۳ کے صفحہ :۱۲۵ پہ ہے:
’’کیا یہ انتہائی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ملّت اور قوم کو سر اقبال ایک قرار دے کر ملت کو وطنیت کی بنا پر نہ ہونے کی وجہ سے قومیت کو بھی اس سے مُنزّہ قرار دے رہے ہیں؟یہ بوالعجبی نہیں ہے تو کیا ہے؟ زبانِ عربی اور مقامِ محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے کون بےخبر ہے؟ میں نے اپنی تقریر میں لفظِ قومیت کا کہا تھا، ملّت کا نہیں کہا ہے، دونوں لفظوں میں زمین و آسماں کا فرق ہے، ملت کے معنی شریعت اور دین کے ہیں، جبکہ قوم کے معنی عورتوں اور مردوں کی جماعت کے ہیں۔‘‘
اسی دوران حضرت مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کا ایک مقالہ اخبار ’’مدینہ‘‘ بِجْنور میں بابت ۱۳؍ اپریل ۱۹۳۸ء کو چَھپا، جس میں انہوں نے حضرت مدنی علیہ الرحمہ کی اس قدر بیباکانہ وَکالت کی کہ سلسلۂ مکر و فریب کے گھروندے پاش پاش ہو گئے۔ مولانا ندویؒ نے لکھا تھا:
’’جناب مولاناحسین احمد مدنی کے سیاسی خیالات سے کسی کو کتنا ہی اختلاف ہو، مگر وہ ان کی شخصی عزت و احترام، علمی فضل و کمال اور تقویٰ اور حُسنِ نیت کی نسبت ایک لمحے کےلیے بھی کوئی خلاف بات گوارا نہیں کی جا سکتی۔‘‘
اسی دوران ایک معروف شاعر جناب اقبال سہیل کی ’’جوابی نظم‘‘ نے اُڑتے پرندوں کے پَرْ کتر کر رکھ دیئے تھے، اور مخالفینِ شیخ مدنی ؒ اپنی اپنی مُنڈیروں پہ بیٹھے بیٹھے ہی بےکس کبوتروں کی طرح ایک ایک کر کے ذبح ہونا شروع ہو گئے تھے، کیونکہ اقبال سہیل کی نظم ہر لحاظ سے علامہ اقبال مرحوم کی نظم کا جواب تھی، یہ نظم بیس فارسی اشعار پہ مشتمل تھی، اس کا مطلع اور مقطع ملاحظہ کیجیے:

معاندے کہ بشیخ الحدیث خردہ گرفت
سبک بچشم فروز ایں سباب بے سببی است
کہ گفت بر سرِ منبر کہ ملت از وطن است
دروغ گوئی و ایراد ایں چہ بوالعجبی است

مقطع یہ تھا:

بگیر راہِ حسین احمد گر خدا خواہی
کہ نائب است نبی را و ہم ز آلِ نبی است

اسی دوران ایک اور شخصیت میدانِ عمل میں اُتری، جس نے اقبال مرحوم اور شیخ مدنی علیہ الرحمہ کے مابین پیدا ہو جانے والی اس خلیج کو ختم کروانے کی مخلصانہ کوشش جاری کی، یہ فاضل دیوبند علامہ عبدالرشید طالوتؒ تھے جو ایک جانب حضرت مدنی علیہ الرحمہ کی زلفوں کے اسیر تھے تو دوسری جانب علامہ اقبال مرحوم کے بےتکلف دوست بھی تھے، چنانچہ ان کے دَرْ آ جانے کے بعد ۲۸ ؍مارچ ۱۹۳۸ء کے روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور میں بعنوان ’’ایک علمی بحث کا خوشگوار خاتمہ‘‘ مضمون شائع ہوا، جس میں اقبال مرحوم کے یہ الفاظ تھے کہ:
’’میں مولانا (مدنی) کی دینی حَمِیَّتْ کے احترام میں ان کے کسی عقیدت مند سے پیچھے نہیں ہوں۔‘‘
اس قسم کی اختتامی بحثیں اپنے انجام بلکہ حُسنِ انجام کو پہنچ رہی تھیں کہ تین ساڑھے تین ماہ بعد علامہ اقبال مرحوم کا انتقال ہوگیا، اور اس کے بیس سال بعد شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں جا بَسے، جہاں فاضل کالم نگار نے بھی اور آخر کار ہم سبھی نے چلے جانا ہے، جناب بلال الرشید صاحب! آپ حضرت مدنی علیہ الرحمہ کی ذات سے، سیاسی موقِف سے اور مذہبی مَشرب سے بھلے اختلاف کریں، مگر آپ کو ان کی جناب میں توہین آمیز کلمات کہنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ اس مَمْلَکَتِ خداداد میں حضرت مدنی علیہ الرحمہ کے لاکھوں عُشّاق سرمست و سربکف موجود ہیں، اگر آپ یوں بلا غِلّ و غِش سنی سنائی باتوں سے اپنے کالم کا پیٹ بھریں گے تو اس سے کچھ دیر آپ کو تسکینِ نفس تو مل جائے گی، مگر تسکینِ قلب و جگر نصیب نہیں ہو سکے گی۔ 
آپ بغض و عِناد کے جذبات کو نکال باہر کریں، کِذب تراش اور تَمَلُّق پیشہ لوگوں کے بہکاوے میں آنے کی بجائے اگر آپ پوری دیانت داری کے ساتھ ماضی کا مطالعہ فرمائیں اور منصفانہ طبائع کے خدا رسیدہ لوگوں کی صحبت اختیار کریں تو آپ کو مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا سر اونچا ہی نظر آئے گا۔ جی ہاں! بعینہ جس طرح ان کے اجداد کے سر کَربلا میں اونچے نظر آئے، شیخ مدنی ؒ کا سر اونچا تھا، اور اونچا ہی رہے گا، کوئی اس عالِم خدا رسیدہ کی گردن پہ کھڑے ہو کر اگر اپنا قد بڑھانے کا شوق پورا کرتا ہے تو کر گزرے، مگر اس سے قد نہیں بڑھیں گے۔ ہاں! شیخ مدنی کی عزتوں میں ان شاء اللہ! اضافے ہی ہوں گے۔ 
برادرم بلال الرشید صاحب! اگر آپ واقعی ہماری اس مخلصانہ دعوت کو قبول کرتے ہوئے طالبِ تحقیق بننا چاہتے ہیں اور اس قضیہ کا ہمہ پہلوؤں سے احاطہ کر کے اپنی رائے قائم کرنا چاہتے ہیں تو بندہ کے ساتھ آپ رابطہ میں تو ہیں ہی، آگاہ کیجیے، کاتب السطور آپ کو اس عنوان پہ کتابوں، رسالوں، اوردیگر ذخائرِ علمیہ سے آگاہ بھی کرے گا اور ان شاءاللہ کچھ ارسال کرنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کرے گا، مگر ہاں! یاد رہے کہ فقط اپنی تسکینِ قلب اور وسعتِ معلومات کی غرض سے ایسا ہونا چاہیے، وگرنہ بہرصورت کہ اہل خِرد دیکھ ہی چکے ہیں کہ کتنے ہی پریشان خیالات اور بودے توہّمات پیدا کرنے والے قبروں کا رزق بن گئے، مگر مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کا سر آج بھی اونچا ہے اور اونچے سروں والے جھک جھک کے دوسروں کے پَیروں میں عزتیں تلاش نہیں کرتے! والسلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیالِ فقر و غنا نہ کر
کہ جہاں میں نانِ شعیر پر ہے مدارِ قوتِ حیدری
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین