بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کا احسانی وعرفانی مقام (تیسری اور آخری قسط)

شیخ الہند v کا احسانی وعرفانی مقام

                     (تیسری اور آخری قسط)

شیخ الہندv کے فیضانِ کرم سے کفار تک بہرہ ور تھے     مخلوق کی بلا تفریقِ مذہب و ملت اور بلا تخصیصِ نسل و نسب محبت‘ اخلاقِ صوفیہ میں داخل ہے۔ اخلاقِ صوفیہ فی الاصل مشکوٰۃِ نبوت ہی سے ماخوذ ہیں۔ رسول اللہ a کی مجلس میں حاضر باش رہنے والوں میں تربیت کے متعلق فرمایا گیا: ’’أفضلھم عندہٗ أعمھم نصیحۃً، وأعظمھم عندہٗ منزلۃً أحسنھم مواساۃً ومؤازرۃً۔‘‘(۱) ’’رسول اللہ a کی بارگاہ میں افضل وہ مانا جاتا تھا جس کی خیر خواہی عام ہوا کرتی تھی، اور آپ a کے یہاں مرتبے کے لحاظ سے سب سے عظیم اور بڑھا ہوا وہ ہوتا تھا جو ہم دردیِ خلق اور لوگوں کی ذمے داریوں کا بار برداشت کرنے میں سب سے بہتر ہوتا تھا۔‘‘     شیخ الہند v ان ہی اوصاف سے موصوف تھے۔ ان کی آغوشِ شفقت مسلمان تو مسلمان‘ کفار تک کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ مولانا محمود رام پوریv بیان کرتے ہیں کہ:’’ ایک مرتبہ میں اور میرے ساتھ ایک ہندو ایک مقدمے کے سلسلے میں دیوبند آئے، دیوبند پہنچ کر اس ہندو نے مجھ سے پوچھا: تم کہاں ٹھہرو گے؟ میں نے کہا: میں مولانا [محمود حسنv] کے یہاں قیام کروں گا۔ وہ ہندو بولا کہ جی میں روٹی تو اپنے اقارب میں کھالوں گا، باقی سونے کے واسطے اگر کوئی چھوٹی سی چارپائی مجھ کو مل جائے تو وہاں ہی ٹھہر جاؤں گا۔ میں نے کہا: مل جائے گی، تو روٹی کھا کر آجانا۔ ایسا ہی ہوا، میں نے حضرت مولانا [محمود حسنv] کی بیٹھک میں ایک چارپائی اس کے لیے الگ بچھادی۔ ایک چارپائی پر [میں] لیٹ گیا، وہ ہندو تو پڑتے ہی سوگیا اور میں جاگ رہا تھا کہ حضرت مولانا دبے پیروں زنانہ مکان سے تشریف لائے اور اس ہندو کی چارپائی کی پٹی پر بیٹھ کر اس کے پیر دبانے لگے، میں ایک دم چارپائی سے کھڑا ہوگیا اور جاکر عرض کیا:حضرت! چھوڑ دیں، میں دبا دوں گا۔ فرمایا کہ: یہ تمہارا حق نہیں، میر امہمان ہے، یہ خدمت میرے ذمے ہے۔ میں نے اصرار کیا، اس پر فرمایا کہ: جاؤ! تم کون ہوتے ہو؟ گڑ بڑ مت کرو، بے چارے کی آنکھ کھل جائے گی۔ بس وہ ہندو تو پڑاہوا خر خر کر رہا تھا اور مزاحاً فرمایا کہ ان کا مقدر تھا اور مولانا پاؤں دبارہے تھے۔‘‘(۲)     شیخ الہندv کے ان واقعات کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقوق جو انسان پر قانوناً فرض نہیں ہیں، شیخ الہندvنے اُنہیں باطن کے تصفیے اور روحِ تصوف کی تکمیل کے لیے خود پر اخلاقاً فرض کرلیا تھا۔ یہی عارفین سلف اور صوفیا ئے کاملین کا مابہ الامتیاز ہے جس کی عملی سیرت سنت کی اصطلاح میں ’’خُلُق‘‘ ہے۔ اشد ضرورت پر باطنی کمالات و تصرفات کا اظہار     ایسے عرفانی اوصاف اور احسانی کمالات کے حامل انسانوں کے قلب و لسان کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمہ وقت قبولیت و مقبولیت کا درجہ و مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ یہی وہ حضرات ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی بات کو خالی نہیں لوٹاتے، وہ خود کو خواہ کتنے ہی پردوں میں چھپائیں، لیکن اللہ تعالیٰ ان کے حسنات اور کمالات کو عالم پر آشکارا کرکے ہی رہتا ہے۔ شیخ الہندv کی زندگی کے واقعات کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی قبولیت و مقبولیت کے اسی مقام پر فائز تھے: ’’مولوی کفایت اللہ صاحب سابق مدرس مدرسہ اسلامیہ میرٹھ حضرت مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی vسے بیعت تھے اور گنگوہ میں پرورش پائی تھی۔ مولانا [محمود حسنؒ]جس زمانے میں مالٹا میں تھے ، ان [مولوی کفایت اللہ ]پر اثنائے ذکر و شغل میں ایک کیفیت پیدا ہوئی کہ خود کشی کی رغبت ہوئی تھی، مگر نہ کرسکے اور اس وجہ سے ایسے ضیق میں مبتلا تھے کہ مرجانا بہتر سمجھتے تھے، انہوں نے حضرت کی خدمت میں خط لکھا اور مدد چاہی۔ حضرت نے حسب عادت انکسار کا جواب لکھا جس میں یہ فقرے بھی تھے کہ ’’حیرانم کہ بچہ دہقان را بچہ کار سپرانند‘‘ مجھے ایسے کام کے لیے اہل کیوں سمجھ لیا وغیرہ وغیرہ… [آخر وہ حضرت(محمود حسنؒ)سے ملنے کے لیے حاضر ہوئے] حضرت نے محبت سے پاس بٹھایا اور جب حاضرین چلے گئے تو ان کی طرف خطاب فرمایا کہ: تم نے کیا لکھا تھا؟ مجھے تعجب ہوا کہ جانتے بوجھتے تم ایسی بات لکھتے ہو! بھلا میں اس کا اہل کہاں؟ مولوی کفایت اللہ صاحب نے جرأت سے کام لیا اور کہا کہ: حضرت! اگر کوئی کہے کہ آپ اہل نہیں تو یہ آپ پر نہیں بلکہ حضرت گنگوہیv پر اعتراض ہے کہ انہوں نے آپ کو خلیفہ کیوں بنایا؟ آپ یقینا اہل ہیں اور حضرت گنگوہیv کے خلیفہ ہیں ، چوں کہ میں نے اسی دروازے پر تربیت پائی ہے جہاں سے آپ کو سب کچھ ملا ہے، اس لیے میرا فرض تھا کہ اپنا دکھ درد عرض کردوں۔ اس پر حضرت نے سکوت فرمایا اور پھر پوچھا کہ: اب کیا حالت ہے؟ عرض کیا کہ: کچھ نہیں۔ بعد عشاء بہ کمالِ شفقت حال سنا اور ذکر دوازدہ تسبیح میں کچھ ترمیم فرما کر ارشاد فرمایا کہ: حضرت گنگوہیv کے یہاں ایک شخص کو یہی حالت پیش آئی تھی توحضرت نے بھی یہی بتایا تھا جو میں نے بتایا ہے، یہ کہیں کہ کسی طرح اس مصیبت سے نجات مل جائے کہ درس تدریس میں لگیں، چھوڑا اس ذکروشغل کو جس میں جان سے عاجز ہوگیا اور حضرت اصرار فرماویں ـــــ کہ گھبراؤ مت، ذکر و شغل جاری رکھو، اورکرتے رہو جو کر رہے ہو۔ یہاں تک کہ جب مکان تشریف لے جانے لگے تو فرمایا کہ: کتب خانے کے سامنے والے کمرے میں پچھلی رات کو بیٹھ کر اتنے زور سے بارہ تسبیح کرنا کہ میرے گھر تک آواز جائے اور پھر صبح کو نماز فجر کے بعد ارشاد ہوا کہ یہاں حجرے سے باہر مراقب ہو کر بیٹھ جاؤ۔ مولانا لکھتے ہیں کہ: اس وقت کی کیفیت ذکر میں نہیں آسکتی کہ اندر بیٹھے کیا کر رہے تھے، پھر مجھے اپنا قلب زخمی نظر آتا تھا جیسے اس میں پیپ پڑ گئی ہے اور میں محسوس کر رہا تھا کہ حضرت اس کو اپنے دست مبارک سے صاف فرمارہے ہیں۔ بعض دفعہ میں چونک پڑتا اور پھر مراقب ہو کر بیٹھ جاتا تھا۔ بعد اشراق حضرت حجرے سے باہر تشریف لائے اوردرس کے لیے تشریف لے چلے تو مجھے ساتھ لیا اور بخاری شریف کا سبق ہونے لگا۔ سبق میں مجھے وہ کیفیت نظر آئی کہ پھر نصیب ہونا مشکل ہے، میرا دل چاہتا تھا کہ حضرت تقریر کو طول دیں اور اس کے لیے حضرت کو چھیڑنے کی ضرورت تھی، لہٰذا میں نے اُلٹے سیدھے سوالات شروع کردیئے، پھر کیا تھا گویا سمندر میں تلاطم آگیا۔ حضرت نے ایک ایک سوال کے کئی کئی جوابات دینا شروع کیے اور بعض دفعہ یہ بھی فرمایا کہ اس جواب کو کتابوں میں تلاش مت کرنا، یہ جواب کتابی نہیں۔ بعض دفعہ میں اشکال پیش کرتا تو اس کا جواب دے کر فرماتے کہ یہاں ایک دوسرا اشکال اور ہے جس سے شراح نے تعرض نہیں کیا اور اس کے بعد وہ اشکال مع جواب خود ارشاد فرماتے۔ غرض وہ حال جاتارہا اور طبیعت میں سکون پیدا ہوگیا تو میں نے عرض کیا کہ میں نے ٹکٹ تھانہ بھون کا لیا تھا، فرمایا کہ اچھا جاؤ، مگر واپسی میں کم از کم یہاں کے واسطے رکھنا کہ ابھی خامی باقی ہے۔ چناں چہ واپسی بجائے ایک دن کے دودن حضرت کے پاس قیام کیا اور جو خامی مجھے محسوس نہ ہوتی تھی وہ محسوس ہونے لگی کہ جب نماز فجر کے بعد حضرت کے حجرے کے باہر مراقب ہو کربیٹھتا تو معلوم ہوتا کہ قلب میں کوئی چیز بھری جارہی ہے جس سے دل میں سکون و قوت اور راحت معلوم ہوتی۔ غرض اول حاضری میں زخم قلب کو آلائش سے پاک صاف فرمایا اور دوسری میں زخموں کو مندمل کیا اور آئندہ مرہم پٹی سے مستغنی اور بے نیاز بنادیا، اللہ جزائے خیر دے حضرت کو ، میری ایسی دست گیری فرمائی کہ جس کا شکریہ تمام عمر ادانہیں ہوسکتا۔‘‘(۳)  شیخ الہندv کی کرامت:باب ایمان میں شکوک کا یقین و اطمینان میں تبدل     مولانا سید مناظر احسن گیلانیv نے اپنے دیوبند کے زمانۂ طالب علمی میں خود اپنی آپ بیتی کے تحت ایک لرزا دینے والا عبرت آموز واقعہ بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دورۂ حدیث کے سال میں نہ جانے کیوں مولانا گیلانی ؒ ذاتِ رسالت مآب a سے متعلق نعوذ باللہ! بہت سے شبہات اور بدگمانیوں میں مبتلا ہوگئے تھے۔ یہ شبہات اور بدگمانیاں مولانا گیلانیv کی تصریح کے مطابق دن بہ دن بڑھ رہی تھیں: ’’گویا بد گمانیوں کی ایک آگ تھی جو معلوم ہوتا تھا کہ میرے باطن میں بھڑک اٹھی ہے، دو گھنٹے عموماً ترمذی شریف کا درس مسلسل جاری رہتا اور ایک سیاہ کار، سیاہ سینہ ان دو گھنٹوں کے اندر ان ہی شکوک و شبہات کی آتشیں لہروںمیں جلتا بھنتا رہتا، ہر حدیث میرے لیے بدگمانی اور سوئے ظن کا چقماق گویا بنتی چلی گئی۔ دماغ صرف ہرزہ اندیشوں اور یاوہ بافیوں کا کارخانہ بنا ہوا تھا۔‘‘ الغرض مولانا گیلانیؒ کی ایمانی کیفیت دن بہ دن ایسے روبہ زوال تھی کہ ’’محسوس ہورہا تھا کہ دین کی مرکزی چٹان ہی سے پاؤں، العیاذ باللہ! پھسل رہا ہے‘‘کہ اچانک قدرت نے دست گیری فرمائی ۔ مولانا گیلانی ‘ دیوبند کے امی رکن حضرت امیر شاہ صاحب مینڈھوؒ کی معرفت اپنے درد کے مداوا اور ایمان کی سلامتی کی غرض سے شیخ الہندv کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ، حضرت امیر شاہ ؒنے تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ کے شاگرد ہیں، کچھ عرض کرنے کے لیے حاضر ہوئے ہیں۔ مولانا گیلانیؒ نے خلوت میں اپنے دل کا دکھڑا نہایت ہی رقت آمیز اور درد انگیز کیفیت سے بیان کیا، یہ سن کر شیخ الہندv نے فرمایا: ’’مولوی صاحب!آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ اپنا یہ حال جب آپ کے لیے اتنا ناگوار ہے، تو یہ بے ایمانی کی نہیں ایمان کی دلیل ہے، ایمان نہ ہوتا تو ان حالات میں اتنا پریشان ہی کیوں ہوتے؟۔‘‘ مولانا گیلانی v لکھتے ہیں:’’بعد کو یہ مضمون خود نبوت کے ارشادات میں بھی ملا، لیکن پہلی دفعہ حضرت شیخ الہندv کی زبان مبارک سے یہ الفاظ اس طرح نکلے کہ دل میں معلوم ہوتا تھا کہ کچھ تھا ہی نہیں، طمانیت اور بشاشت کی لہریں میرے چہرے پر کھلنے لگیں۔ یہ دیکھ کر تب ارشاد ہوا: ’’آپ نے کہاں کہاں اور کیا کیا پڑھا ہے؟‘‘ اپنی تعلیمی روداد سنائی گئی، زیادہ وقت قدیم فلسفہ اورمنطق کے پڑھنے میں صرف ہوا ہے۔ یہ معلوم کر کے فرمانے لگے: ’’جو کچھ آپ کچا پکا نگلتے چلے گئے ہیں، اب وہ سب کچھ باہر نکل رہا ہے، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔‘‘شاید بے اختیار گریے کے ساتھ عرض رسا ہوا کہ حضرت! میرے لیے خواہ کچھ بھی ہو، اب یہ حالت ناقابل برداشت ہے۔ میرے لیے اس قسم کے وساوس و اوہام کسی حیثیت سے بھی ہوں ناقابل تحمل ہیں، میری زندگی خطرے میں ہے، اب خواہ دنیا مانے یا نہ مانے، لیکن اپنے ذاتی تجربے کا میں کیا کروں؟ جواب میں فرمایا گیا:’’مولوی صاحب ! جاؤ اب کوئی شبہ اور کسی قسم کا شک تم کو نہ ہوگا۔‘‘ یہ یا اسی کے ہم معنی الفاظ تھے۔ آج سے تقریباً ۴۰؍ سال پہلے اللہ کے ایک برگزیدہ دوست کی مبارک زبان سے یہ بات نکلی۔ خاکسار، اس کا دماغ، اس کا دل، اس کی زندہ شہادت ہے کہ اس طویل عرصے میں، بحمد اللہ! پھر کسی قرآنی آیت، یا کسی نص نبوی میں کسی قسم کا شبہ اب تک تو پیدا نہیں ہوا ۔۔۔۔۔ گویا کوئی کیل ٹھونک دی گئی ہے۔‘‘(۴) شیخ الہندv کی پشتی بانی: اَخلاف کے لیے ایقان کا مینارۂ نور     علامہ انور شاہ کشمیریv کا بے نظیر حافظہ و استحضار، بے مثل علمی تبحر، رسوخِ کامل اور وسعت نظر اپنوں ہی نہیں پرایوں میں بھی مسلم ہے۔ شاہ صاحبؒ تو خیر آفتاب علم تھے، ان کے درس و تقریر سے ایسے باکمال افراد ہندوستان کے مطلع پر ضیاء بار ہوئے جن کی نظیر ممکن نہیں۔ غور فرمایا جائے کہ کیا حضرت شاہ صاحبؒ کا یہ علم و مرتبہ اور طلبہ کے لیے درسی ایقان کا منبع ہونا صرف حضرت شاہ صاحبؒ کی اکتسابی اور ذاتی باطنی کیفیت کا مظہر تھا یا اس کے پیچھے کسی ولیِ کامل کی پشتی بانی بھی کارفرما تھی؟ جس وقت شیخ الہندv سفر پر روانہ ہونے لگے جس میں اسیر مالٹا ہوکر جانے کی نوبت آئی، اس وقت:     ’’علامہ انور شاہ صاحبv باوجود یہ کہ ترمذی کا سبق پڑھانے کے لیے آکر بیٹھ گئے تھے، عبارت بھی پڑھ دی گئی تھی۔ [مولانا انور شاہؒ نے] مفارقتِ حضرت [شیخ الہندؒ] کے غم میں کچھ نہ فرمایا، بلکہ ذرا دیر توقف فرما کر کتاب بند کردی اور حضرت [شیخ الہندؒ] کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت اس وقت چارپائی پر پیر لٹکائے بیٹھے تھے۔ شاہ صاحبv نہایت خاموشی سے جاکر بیٹھ گئے اور حضرت [شیخ الہندؒ] کی دونوں پنڈلیوں کو پکڑ کر سینے سے چمٹالیا۔ شیخ الہندv نے بھی تکلف سے کام نہ لیا، یوں ہی رہنے دیا، فرمایا! ’’شاہ صاحب! آپ کو میری موجودگی میں شبہات پیش آتے تھے، میں نہ رہوں گا تو شبہات پیش نہ آئیں گے، اور اگر آئیں بھی تو قدرت رہ نمائی کرے گی۔ جاؤ! خدا کے سپرد! سبق پڑھاؤ‘‘۔(۵)     شیخ الہندv کے اس روحانی تصرف اور پشتی بانی سے مولانا انور شاہv کو خود تو کیا شبہات پیدا ہوتے، وہ دوسروں کے لیے شبہات کے ازالے اور تصفیے کا تریاق بن گئے۔ مولانا مناظر احسن گیلانیv نے شاہ صاحبv کی درسی تقریر کے کمالات اور اثرات کے ذیل میں اپنے پہلے ہی دن کے تأثرات کو ایک جملے میں یوں سمو دیا ہے: ’’[شاہ صاحبؒ کی تقریر کا] پہلا دن تھا، جس میں قرآن کے بعد دین کا سارا بنیادی نظام میرے لیے قطعی و یقینی ہوگیا۔‘‘ (۶)     اس اطمینان و ایقان کی گواہی شاہ صاحبv کے متعلقین، تلامذہ اور احباب سب ہی نے دی ہے۔     متذکرہ واقعات تو لوگوں کو گمراہی سے ہدایت کی طرف واپس لانے سے متعلق تھے۔ ایک واقعہ ایسا بھی ملاحظہ کیجیے جس میں ایک گستاخ کو اس کے انجام بد سے ڈراتے ہوئے توبہ کی تلقین کی گئی تھی، لیکن اس نے اپنی گستاخی سے خود پر ہدایت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کرلیا اور ایمان سے محروم ہوگیا۔ شیخ الہندv کی تنبیہ: احمد احسن امروہوی کاانجام بد     مرحوم مولانا محمد حسین بٹالوی اپنے عہد میں ردّ ِتقلید اور حمایتِ اہل حدیث کی ایک ’’پُر شور‘‘ آواز تھے، انہوں نے برعظیم کے تمام اہل سنت و جماعت احناف کو ایسے دس مسائل کا انتخاب کر کے چیلنج دیا کہ اگر احناف اِن مسائل کے اثبات میں کوئی آیت، یا کوئی حدیث صحیح صریح قطعی الدلالۃ پیش کردیں تو مولانا بٹالوی فی آیت اور فی حدیث ۱۰؍ روپے انعام دیں گے۔ گویا مولانا بٹالوی کے زعم میں ان دس مسائل میں اہل سنت کے پاس کتاب و سنّت سے کوئی دلیل موجود نہیں تھی۔ اس چیلنج کے باعث ایک طرف جہاں علما ئے احناف کی تحقیر و تذلیل ہوئی وہیں دوسری جانب امام اعظم ابو حنیفہv کی تجہیل بھی لازم آئی۔ ظاہر ہے یہ تعلّی مولانا محمد قاسم نانوتویv اور مولانا محمود حسنv کو سخت ناگوار ہوئی ، شیخ الہندv نے مولانا نانوتویv کی اجازت و اشارے سے اس اشتہار کا جواب ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کے نام سے دیا۔ شیخ الہندv منتظر رہے کہ مولانا بٹالوی اس کے جواب میں قلم اٹھائیں۔ مولانا بٹالوی نے توا س کا جواب نہیں دیا، بالآخر جواب دہی کے لیے ایک ایسے صاحب کا انتخاب ہوا جو اپنی زبان کی تیزی اور قلم کی کاٹ میں طاق ہونے کے باعث حلقۂ اہل حدیث میں ’’احسن المناظرین و المتکلمین‘‘ کے لقب سے جانے جاتے تھے، ان کا نام محمد احسن امروہوی تھا۔ امروہوی موصوف نے ’’ادلۂ کاملہ‘‘ کا جواب ’’مصباح الادلہ لدفع الادلۃ الذلہ‘‘ کے نام سے لکھا۔ مولانا بٹالوی نے خود جواب لکھنے سے پہلو تہی فرماتے ہوئے امروہوی صاحب کی کتاب کو ’’لاجواب اور جواب باصواب‘‘ قرار دیا۔ شیخ الہندv نے اس اعلان کے بعد ’’مصباح الادلۃ‘‘ کا جواب ’’ایضاح الادلہ‘‘ کے نام سے تحریر فرمایا جس میں جا بہ جا محمد احسن امرہوی کی لسانی گستاخیوں اور قلمی بے احتیاطیوں پر تنبیہ فرمائی۔ شیخ الہندv لکھتے ہیں: ’’[مصنف مصباح الادلہ] بعض مواقع میں اپنے جوش میں بے باکانہ کلماتِ تکفیر بول اُٹھے ہیں۔‘‘(۷)     ایک مقام پر امروہوی صاحب کی گستاخیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’مجتہد صاحب ماشاء اللہ مسلم ہیں، گو بد فہم اور متعصب و کج طبع اور ہر چند عباد صالحین و علمائے دین کی شان میں گستاخ اور مقلدِ طریقۂ رفاض ہیں اور اگرچہ تکفیر مومنین میں معتزلہ و خوارج کے شاگرد ہیں اور یہ امور گو یقینا سخت خوف ناک ہیں اور سببِ خذلان و ہلاکت۔‘‘(۸)     شیخ الہندv نے جب یہ الفاظ تحریر فرمائے ہوں گے، اس وقت ان کے حاشیۂ گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ وہ کوئی پیشین گوئی فرمارہے ہیں۔ آپ کا مقصد امروہوی صاحب کو اکابر کی شان میں گستاخیوں پر تنبیہ اور اس کے خوف ناک انجام سے ڈرانا تھا، لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ امروہوی صاحب کے متعلق شیخ الہندv کے اشارہ کردہ جملے ’’باعثِ خذلان و ہلاکت‘‘ پورے ہوئے ۔ امروہوی صاحب غیر مقلدیت سے ترقی کر کے مرزا قادیانی کے حلقۂ ارتداد میں داخل ہوگئے۔ اندازہ کیجیے! وہ شخص جس کے نزدیک امام اعظم ابو حنیفہv کی ذات گرامی لائق تقلید نہیں تھی وہ مرزا غلام احمد قادیانی جیسے کاذب پر ایمان لا کر اس کی اقتدا کرنے لگا۔ مرتد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی زندگی بھی نمونۂ عبرت بن گئی، امروہوی صاحب مرزائیوں کی بھیک اور خیرات کے دست نگر ہوگئے۔ مرزا قادیانی کے مجموعہ اشتہارات نمبر:۸۷ پر درج ہے: ’’اس وقت ضروری طور پر اپنے دوستوں کی خدمت میں التماس کرتا ہوں کہ اخویم مکرم حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب جو اس وقت مقام بھوپال محلہ چوبدارپورہ میں نوکری سے علیحدہ ہو کر خانہ نشین ہوگئے ہیں، بوجہ تکالیفِ عسرہمدردی کے لائق ہیں ۔۔۔۔۔ لہٰذا ہر ایک بھائی کی اپنے اپنے مقدرت کے موافق توجہ درکار ہے۔‘‘(۹)     اس کے بعد مرزا قادیانی نے ان بائیس افراد کی فہرست دی ہے جنہوں نے مرتد احمد احسن امروہوی کو دو آنے سے پانچ روپے ماہ وار خیرات دینے کا وعدہ کیا تھا۔ ان میں سے ایک نے دو آنے کا، دس آنے کا، چار آنے کا، دو نے آٹھ آنے کا، پانچ نے ایک روپے کا، تین نے دو روپے کا اورایک نے پانچ روپے کا وعدہ کیا۔ یہ کل ۲۹؍ روپے دو آنے کی رقم ہوئی جس کا ۲۲؍ افراد نے وعدہ کیا۔ اور مرزا غلام قادیانی نے ’’ھل من مزید‘‘ کی غرض سے اشتہار جاری کیا۔ مرزا جو ’’رئیس قادیان‘‘ کہلاتا تھا خود اپنے پلّے سے سو پچاس روپے بہ آسانی بھجوا سکتا تھا، ورنہ اپنے دو تین مال دار مریدوں کو کہہ کر احمد احسن امروہوی کی کفالت کا ذمے دار ٹھہرا سکتا تھا، لیکن اتنی ارزاں اور حقیر سی بات کے لیے باقاعدہ اشتہار کے اجراء سے فی الاصل قدرت کو مرزا کی خست اور احمد احسن کی ذلت کا اشتہار دلوانامقصود تھا۔ یہ تھا وہ انجامِ بد جس کی طرف شیخ الہندv نے اشارہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’باعث خذلان و ہلاکت‘‘۔ بالفاظ دیگر ائمہ ہدیٰ کی شان میں گستاخیوں کا یہی وہ انجام تھا، جس کی طرف شیخ الہندv نے ’’سبب خذلان و ہلاکت‘‘ کہہ کر تنبیہ فرمائی تھی۔     واقعات و نقول کی فہرست بہت طویل ہے، بہ طور خلاصہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ شیخ الہندv کو اللہ تعالیٰ نے ہر اعتبار سے بڑا بنایا تھا۔ اگرایک طرف شیخ الہندv اپنے علم و فضل کے اعتبار سے محدث جلیل، تالیف و تصنیف کے پہلو سے ادیب اریب، سیاست و جہاد کے لحاظ سے مجاہد عظیم، اذکار و عبادات کے رخ سے صوفی باصفا نظر آتے تھے تو دوسری طرف بندگانِ خدا پر شفقت، بے نفسی و فنائیت، فروتنی و عاجزی، دنیا سے نہایت استغنا کے ساتھ ایک گونا تعلق، اکرام ضیف، اساتذہ وشیوخ ہی نہیں، ان کی اولاد، بلکہ اولاد کی اولاد کے ساتھ بھی اساتذہ کی نسبت سے احترام و تعلق کے معاملے، اور طالبان علوم پر شفقت و رافت ایسے عصر حاضر میں عنقا اوصاف و کمالات ہیں جس نے شیخ الہند vکو اپنے عہد میں،  ’’عباد الرحمٰن‘‘ کا مظہر کامل بنادیا تھا۔ شیخ الہندv کی اس جامعیت و کاملیت کو آپ کے مقتدا مولانا رشید احمد گنگوہی v نے آپ کے متعلق ایک ہی جملے میں سمو کر بیان کردیا ہے: ’’طریق سلوک میں اصل مقصود احسان ہے، سو بفضلہ تعالیٰ حاصل ہے۔‘‘(۱۰)     احسان و عرفان کی یہی وہ کیفیت تھی کہ شیخ الہند v نے علم و عمل کا جامع بن کر تا زندگی انسانی حیات کے مختلف گوشوں کو معمور و منور کیا۔ اور ایسا کیوں نہ ہو تاکہ مولانا محمد قاسم نانوتوی v اور مولانا رشید احمد گنگوہی v دو بحورِ علم و احسان نے مل کرشیخ الہندv کو تیار کیا تھا۔ اور پھر شیخ الہندv نے ’’کارخانۂ علوم‘‘ بن کر ہندوستان کو علم و فضل، وعظ وارشاد، افتا و تصنیف، دعوت و جہاد اور مناظرے ومکالمے کے لیے بے مثل اور لافانی رجال کار عطا کیے۔ آپؒ کی تربیت و تاثیرسے ہر فرد، فرق مراتب کے باوصف، اپنے وقت کا ’’شیخ الہند‘‘ بنا۔ بالفاظِ دیگر شیخ الہندv کے تلامذہ اور مسترشدین میں جس کو جس فن سے مناسبت اور اہلیت تھی ’’نسبت محمودی‘‘ اس کے ظرف کے مطابق اس میں ضرور منتقل ہوئی۔ یہ نسبت و تعلق ایسا ہی ہے جیسا سورج کا اس کی کرنوں سے ہوتا ہے۔ سورج کی ہر ہر کرن اپنی تابانی میں آفتاب ہی کا فیض ہوتی ہے۔ آفتاب ان تمام شعاعوں سے ماورا ہونے کے باوجود اپنی کرنوں سے مربوط اور متعلق بھی رہتا ہے۔ شیخ الہند v کے چیدہ چیدہ اوصاف و کمالات کا فیض ان کے اخلاف و تلامذہ میں ان کے اپنے اپنے پیمانے اور ظرف کے مطابق منتقل ہوا، لیکن ان مختلف النوع اور متنوع بلکہ متضاد و متبائن اوصاف کی جامع شخصیت ایک ہی رہی: شیخ الہند محمود حسنv۔ در پسِ آئنہ طوطی صفتم داشتہ اند آنچہ استادِ ازل گفت ہماں می گویم ’’کار کنانِ قضا و قدر نے مجھے طوطی کی طرح آئینے کے پیچھے بٹھا رکھا ہے۔ جو کچھ بھی معلم ازل کہتا ہے میں وہی بولتا ہوں۔‘‘                                                 (انتہٰی) حوالہ جات ۱:…محمد بن عیسیٰ الترمذیؒ، الشمائل المحمدیۃ، بیروت: دارالحدیث، ۱۴۰۸ھ/ ۱۹۸۸ئ، باب ما جاء فی تواضع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صفحہ:۱۶۲۔ ۲:…اشرف علی تھانویؒ، ملفوظا ت حکیم الامتؒ، جلد:۲، صفحات:۲۰۶-۲۰۷، ملفوظ:۲۸۵۔ ۳:…محمد زکریا سہارن پوریؒ، آپ بیتی، جلد:۲، صفحات:۱۰۰۶-۱۰۰۸۔ ۴:…مناظر احسن گیلانیؒ، احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، کراچی: مکتبہ عمر فاروق، ۲۰۱۱ئ، صفحات:۱۰۸-۱۱۲۔ ۵:…محمود حسن گنگوہیؒ، ملفوظات فقیہ الامت، جلد:۱، صفحات: ۱۰۸-۱۰۹۔    ۶:…مناظر احسن گیلانیؒ، احاطۂ دارالعلوم میں بیتے ہوئے دن، صفحہ:۶۱۔ ۷:…محمود حسنؒ، ایضاح الادلہ، دیوبند: مطبع قاسمی، [س-ن] صفحہ:۵۔    ۸:…ایضاً، صفحہ:۳۹۳۔ ۹:…مرزا غلام احمد قادیانی، مجموعہ اشتہارات، ربوہ: الشرکۃ الاسلامیہ، [س-ن]، جلد:۱، صفحہ:۳۳۷۔ ۱۰:…قاری محمد طیبؒ، ’’پچاس مثالی شخصیات‘‘، مشمولہ مجموعہ رسائل حکیم الاسلام، جلد:۷، صفحات:۴۲۹۔                          (انتہٰی)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین