بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ القرآن حضرت مولاناغلام اللہ خان اور چندفروعی اختلافی مسائل میں ترجیحی معیار

شیخ القرآن حضرت مولاناغلام اللہ خان اور چندفروعی اختلافی مسائل میں ترجیحی معیار



قرآن کریم کے معانی ‘ مطالب‘ احکام کی حکمتوں اور مراد خداوندی تک پہنچنے اور ان کو بیان کرنے کی سعی وکوشش کا نام ”تفسیر“ ہے۔ قرآن کریم کی تفسیر کو ہمہ وقت وہمہ جہت مشغلہ بنانے والے سلف صالحین کی تعداد یوں تو بے شمار ہے‘ مگر پاکستان میں اس عنوان سے جن ہستیوں نے مقبولیت عامہ کا اعزاز حاصل کیا ہے‘ ان میں سے شیخ التفسیر حضرت اقدس مولانا احمد علی لاہوری‘امام الموحدین حضرت مولانا حسین علی اور ان کے اجل تلامذہ میں سے حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی ،شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان  ، حضرت اقدس مولانا محمد عبد اللہ بہلوی‘ امام اہل سنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر مدظلہ سر فہرست ہیں۔ ان اکابر کی تفسیری خدمات اور علمی وروحانی فیض آفتاب نیمروز کی طرح محتاج تذکرہ وتعارف نہیں تاہم ان کی خدمات ،ان کی حیات طیبہ اور ان کی دینی‘ علمی وروحانی زندگی میں گرانقدر اصول وآداب کاجو خزینہ پنہاں ہے‘ بلاشبہ انہیں آئندہ آنے والی نسلوں تک پہنچانا ہمارے ذمہ قرض ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان اکابر کی تفسیری خدمات پر ”تفسیر قرآن“ کے مفہوم کا اطلاق ہوسکتا ہے‘ تفسیر قرآن کے منصب سے وابستگی کے لئے بہ قدرے کفایت جو علوم وفنون اور خصائص ومحامد از بس ضروری ہیں بحمد اللہ! یہ اکابر ان علوم وخصائص سے آراستہ تھے‘حضرت لاہوری کا فضل وتقدم ایک واشگاف حقیقت ہے‘ حقیقت پسند اور معتدل مزاج اغیار بھی معترف ہیں۔ اسی طرح حضرت درخواستی ،حضرت اقدس مولانامحمد عبداللہ بہلویاورحضرت شیخ الحدیث مولانا محمدسر فراز خان صفدر مدظلہ کا تفسیر وحدیث علم‘ عمل اتقا وزہد میں مرتبہ ومقام بھی انصاف پسند حلقوں میں مسلم ہے۔ان اکابر کی شخصیات وخدمات پر سینکڑوں نہیں،ہزاروں صفحات لکھے جائیں تو بھی ان کی خدمات کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔میرے پیشِ نظر اس وقت مذکورہ اکابر میں سے صرف ایک بزرگ حضرت مولانا غلام اللہ خان کا کچھ تذکرہ اور ان کے بعض افکار پر طالب علمانہ تبصرہ کرناہے۔ علمی رسوخ‘ غلبہٴ توحید‘ عشق الٰہی اور محبت رسول اللہ ا میں جو درجہ اللہ تعالیٰ نے شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان کو عطا فرما رکھا تھا‘ وہ آپ کی پہچان تھا اور آپ کا ہر قول وعمل اس کا گواہ تھا‘ مگر افسوس کہ شیخ القرآن  کے وسیع حلقے میں محدود فکر وعمل کے حامل کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہوگئے تھے‘ جنہوں نے حضرت شیخ القرآن کے وصال کے بعد بلکہ ان کی حیات میں ہی یہ باور کرانا ضروری جانا کہ حضرت شیخ القرآن اپنی سوچ وفکر‘ عقیدہ وعمل اور شخصیت وکردار کے اعتبار سے ایک محدود دائرہ کے فرد ہیں‘ چنانچہ بعض جزوی مسائل میں اپنے ذاتی رجحانات کے لئے حضرت شیخ القرآن کو بطور ڈھال کے پیش کرنا‘ ان کا وطیرہ رہا ہے۔حالانکہ سچ یہ ہے کہ حضرت شیخ القرآن ایک حقیقت پسند انسان تھے‘ انہوں نے جہاں بھی حقیقت دیکھی‘ اخلاص وللٰہیت کے ساتھ اسے قبول کیا‘ اس حقیقت پسندی کی ایک واضح مثال مسئلہ حیات النبی ا کے سلسلہ میں آپ کی زیر دستخطی وہ وضاحت ہے‘ جس سے آپ کی حقیقت پسندی اور معتدل مزاجی کے علاوہ راسخ الاعتقادی عیاں ہوتی ہے‘ اسی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کی شخصیت اور ان کے کردار وفکر کو میزان ومعیار قرار دیتے ہوئے ان نزاعات سے جان چھڑائی جاسکتی ہے جو علمأ دیوبند کی طرف منسوب طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شعبان ۱۴۱۷ھ میں ہمارے ہاں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دورہٴ حدیث کے طلباء جو اس وقت دورہٴ تدریبیہ پڑھ رہے تھے‘ ان کو درس دیتے ہوئے مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی نور اللہ مرقدہ نے ارشاد فرمایا کہ:” ہم حضرت شیخ القرآن کے متوسلین ومنتسبین سے از راہ صلح واصلاح یہی عرض کرتے ہیں کہ آیئے! حضرت شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان صاحب کے عقائد وافکار پر ہم بھی دستخط کرتے ہیں اور آپ بھی دستخط کردیں‘ سارا جھگڑا یکسر ختم ہوسکتا ہے۔“ حضرت شیخ القرآن کے معیاری عقائد کیا تھے ،یا یہ کہ مختلف فیہ مسائل میں ترجیحی معیار کیا ہوسکتاہے؟ بقول حضرت مولانا محمد امین اوکاڑوی قدس سرہ وہ مسئلہ حیات النبی ا اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم الصلاة والسلام کی حیات اور سماع کا معاملہ ہے‘ جو سلف صالحین اور اکابر دیوبند کی تعبیرات وقیودات کے ساتھ ایک مسلمہ قابل اعتقاد حقیقت ہے۔ جبکہ عام اموات کا ”سماع“ تو خیر القرون سے مختلف فیہ چلا آرہاہے اور جس مسئلہ کا اختلاف ”اعمق الخلق علماً“ یعنیصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے چلا آرہا ہو‘ اسے حل کرنا یا ختم کرنا ہمارے بس کی بات نہیں‘ بلاشبہ یہاں پہنچ کر عجز کا اظہارہی سلامتی وعافیت کا راستہ ہے‘ کیونکہ ایک مسلمان کے لئے اس سے عجیب تر بات کیا ہوگی کہ جس مسئلہ میں حضرات صحابہ کرام کے دور سے اختلاف چلا آرہا ہو، اس کو چودھویں صدی کا ایک مسلمان ختم کرانے کے لئے منصب قضا پر بیٹھ کر ‘ بحیثیت قاضی وفیصل اس کے حل کرنے کے لئے کسی ایک پہلو کو درست اور دوسرے کو غلط قرار دے‘ میرا ایمان ہے کہ حضرات صحابہ کرام کو معیار حق وایمان ماننے والا کوئی مسلمان اس کی جسارت نہیں کرسکتا۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ ان نجوم ہدایت میں سے کسی ایک کی پیروی اختیار کرلے اور اپنی رائے کے برعکس رائے رکھنے والوں کی تکفیر وتفسیق نہ کرے‘ بلاشبہ ایسا انسان ہدایت یافتہ اور سچا مسلمان کہلانے کا حقدار ہے۔ مزید یہ کہ ہرفریق کی رائے کی طرح اس کی دلیل اور وجہ ترجیح کو اس کی فطری وشرعی آزادی کے طور پر قابل احترام جانا جائے۔ ہاں اگر مخصوص حالات وواقعات کے پیش نظر کبھی کسی فریق نے کسی ایک رائے کو اختیار کرتے ہوئے اس کی تعلیم وتبلیغ کی ہو‘ تو اس زمانے کے مخصوص احوال وظروف کے تحت اس رائے کو اختیار کرنے کو بھی وجہ ترجیح قرار دیا جاسکتاہے‘ مثلاً برصغیر پاک وہند میں جو معاشرتی سلسلے جاری ہیں ان میں ہندوانہ رسم ورواج اور عادات واطوار کا عنصر کافی حد تک پھیلا ہوا تھا‘ ہندوستانی معاشرہ نظریاتی وعملی اعتبار سے شرک وبدعت اور بت پرستی کے گرد وغبار سے اٹا ہوا تھا اور اس معاشرہ میں جو مسلمان آباد تھے وہ بھی شعوری یا لاشعوری طور پر بدعات ورسومات اور شرکیات حتی کہ بت پرستوں کی طرح قبرپرستی میں پڑ چکے تھے‘ اس میں ناسمجھی اور جہالت کے عنصر نے بہت کمال کا مظاہرہ کیا‘ یہاں تک کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اسلامی سوچ وفکر اتنی پراگندہ ہوگئی تھی کہ وہ بت پرستوں کی طرح اولیاء اللہ میں خدائی صفات ماننے کو بھی ایمان کے منافی نہیں جانتے تھے‘ بلکہ خدائی صفات کو عام بندگان خدا میں تسلیم کرنے کو بھی وہ حقیقی ایمان تصور کرنے لگے تھے‘ چنانچہ اسی نظریہ اور عقیدہ کے تحت اولیاء اللہ اور نیک لوگوں کی قبروں پر بھی جانے لگے تھے‘ اگر ایسے حالات میں ان فاسد بلکہ باطل نظریات کے انسداد کے لئے اور سداً للذرائع کے تحت اولیاء اللہ یا عام اموات کے سماع کو مرجوح اور عدم سماع کو راجح کہا گیا ہو تو میرے خیال میں اس کی گنجائش تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہونی چاہئے۔ ہمارے جن اکابر دیوبند کی بعض تحریرات سے ان کی طرف عدم سماع کا رجحان منسوب ہے‘ اس کی حقیقت محض سد ذریعہ کے طور پرہوسکتی ہے‘ اس سے اس بات پر اصرار کی گنجائش نہیں سمجھنی چاہئے کہ اکابر دیوبند میں سے کچھ اکابر عدم سماع کے قائل اور اس کے راجح ہونے پر مصر تھے۔ اس کے برعکس آج کا ہمارا دور شعور‘ بیداری اور روشن خیالی کا دور سمجھا جاتاہے ،اس دور میں مسلمہ مذہبی روایات اپنانے والے کو بھی دقیانوسی کے طعنے سہنے پڑتے ہیں‘ چہ جائیکہ کوئی ذی شعور آدمی غیر فطری ہندوانہ افکار کا حامل بننا پسند کرے‘ بلکہ معاشرہ اس قدر بگڑ چکا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات پر ایمان بھی کمزور ہوتا جارہا ہے اور روشن خیالی کے نام پر بے دینی ودھریت کا فروغ ہورہا ہے‘ حق تعالیٰ شانہ کی ذات اقدس کے بشمول ہر غیر مرئی پوشیدہ حقیقت کا انکار کیا جارہا ہے‘ دپٹی نذیر احمد اور سر سید احمد خان کی ذریت میں نیا شباب آرہا ہے‘ کہیں کیپٹن عثمانی کے نام سے عذاب قبر وغیرہ جیسے مسلمہ منصوص مسائل کا انکار ہورہا ہے اور کہیں جماعت المسلمین اور سلفیت کے نام پر لامذہبیت، نجدیت اور سلف بیزاری کا طوفان زوروں پر ہے ‘ غرضیکہ اس طرح کے بے شمار فتنے آئے دن امت مسلمہ کے متفق علیہ مسائل کو مختلف فیہ بناکر عوام میں بے چینی‘ تشویش اور شک وشبہ کی فضا عام کررہے ہیں‘ مسلمہ حقائق کے متعلق اس قسم کے شوشے زیادہ مؤثر ہوں یا نہ ہوں اتنا اثر تو بہرحال ہوتا ہی ہے کہ ایک ناپختہ ذہن انسان ،ان متفقہ مسائل کو اختلافی مسائل سمجھنے لگتاہے اور ہمارے عوام کا عام مزاج یہ ہے کہ اختلاف کے لیبل سے گھبراتے ہیں اور دور بھاگتے ہیں‘ اس سے مزید آگے یہ بھی ہوتا ہے کہ اختلاف کے نام سے گھبراکرشریعت کے طے شدہ اور ثابت شدہ مسائل کا انکار کرنے لگ جاتے ہیں‘ ماضی قریب میں اسی نوعیت کا کچھ برتاؤ مسئلہ حیات النبی ا کے ساتھ بھی پیش آیا کہ کئی صدیوں تک اس مسئلہ میں مروجہ اختلاف تھا‘ نہ اس کے رد وقدح کی ضرورت محسوس ہوئی‘ برا ہو افراط وتفریط کا کہ گذشتہ نصف/پون صدی سے بعض لوگوں میں یہ راز کھلا‘ یا انہوں نے ضرورت محسوس فرمائی کہ عقیدہٴ توحید کی اشاعت اور سنت نبوی کی ترویج کے لئے انبیاء کرام علیہم السلام اور خصوصاً نبی اکرم ا کی اپنی اپنی قبروں میں حیات کا انکار ضروری ہے‘ اس کے بغیر توحید بیان نہیں ہوسکتی‘ چنانچہ ایک طبقہ حیات انبیاء جیسے متفقہ مسئلہ کو مختلف فیہ بناکر گلی کوچوں ، بازاروں اورچوکوں تک لے گیا۔ اب اسی قسم کے طرز عمل کا سامنا عذاب وثواب قبر کے مسئلہ کو ہے‘ اس وقت کئی ریٹائرڈکیپٹن اور کئی علامے قبر کی زندگی سے اس طور پر انکاری ہیں کہ اس گڑھے میں میت کو عذاب وراحت نام کی کوئی چیز پیش ہی نہیں ہوتی ‘ عقل وہویٰ پرستی کا اس میں بنیادی کردار ہے‘ بایں طور قبر کے عذاب اور راحت کے مسئلہ کو بعض ڈراؤنا یا سہانا خواب باور کرانے والوں کا جتھا اس وقت طوفانی گردش میں ہے‘ ایسی صورتحال کے پیش نظر قبر کی زندگی وہاں کی راحت وآرام‘ سزا وتکلیف اور جسدِ عنصری اور روح کے درمیان تعلق وربط اور ان کے لوازمات کا اقرار واعتراف کرتے ہوئے ان عقائد وافکار کو ترجیح دی جائے جو برزخی حیات اور اس کے لوازمات پر مشتمل ہوں اور موجودہ فکری ونظریاتی بے راہ روی کے انسداد جیسے مقاصد کو اس رائے کے لئے وجہ ترجیح بنایا جائے تو یقیناً یہ اتباع سلف ہی کہلائے گا۔ بنا بریں یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ برزخی زندگی اور اس کے لوازمات کو اس دور میں خواب اور افسانہ قرار دیا جارہاہے‘ اس لئے ایسے فتنوں کے انسداد کے لئے ان تمام نصوص‘ قرائن اور دلالتوں کو راجح قرار دیا جائے جن سے برزخی حیات کی حقیقت مترشح ہور ہی ہو‘ منجملہ ”سماع موتیٰ“ کا مختلف فیہ مسئلہ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہراختلافی مسئلہ میں بالخصوص جو حضرات صحابہ کرام کے درمیان مختلف فیہ رہا ہو‘ اس کے کسی ایک پہلو کو عصری وزمانی احوال کی بناء پر راجح مانا اور کہا جائے تو یہ عین اہتداء واقتداء سلف ہے اور یقیناً اتباع سلف اور پیروی شرع ہونے کی بناء پر باعث اجر وثواب بھی ہے۔ لقولہ
”اصحابی کالنجوم بایہم اقتدیتم اہتدیتم“
شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خان صاحب نور اللہ مرقدہ کی طرف انفرادیت اور تفرد کی نسبت کے لئے تیسرے یا دوسرے جس مسئلہ کو وجہ قرار دیا جاتاہے ‘وہ دعاء میں اولیاء اللہ اور صلحاء امت کے ”وسیلہ“ کا مسئلہ ہے ”وسیلہ“ کی حقیقت اوراس کا تشریعی مقام کیا ہے؟ ان تفصیلات میں جانے کی حاجت ہے نہ موقع‘ یہاں نہایت اختصار کے ساتھ صرف اتنا عرض کرتے ہیں کہ ”توسل بالصلحاء“ کے معاملہ میں افراط وتفریط سے بچا جائے تو اختلاف وانتشار کی کوئی وجہ باقی نہیں رہتی جو حضرات دعاء میں توسل کے قائل ہیں (بشروطہ وآدابہ) ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو ”توسل“ کو دعاء کا لازمی اور ضروری حصہ اس طور پر قرار دیتا ہو کہ ”توسل“ کے بغیر دعاء قبول ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اعتقاد ہوتا ہے کہ جن ذوات سے توسل ہورہا ہے ان کا حق تعالیٰ شانہ کے ساتھ تصرفات ومشاورت کا ایسا اشتراکی تعلق ہے کہ حق تعالیٰ شانہ اپنے ان بندوں کے وسیلہ کو ماننے کے لئے العیاذ باللہ! مجبور ہوجاتے ہیں‘ حالانکہ حقیقت میں ان کے ہاں ”وسیلہ“ کا حکم درجہ یا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کی کوتاہی اور گناہوں کی بہتات پر شرمساری اور عجز وانکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنے آپ یا اپنے کسی عمل کو اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے کسی ایسے مقرب صالح بندے اور اس کے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنائے جس کے تقرب وصلاح میں امت مسلمہ کے خواص وعوام کی شہادتیں موجود ہوں تو اس نوع ”توسل“ کو اللہ رب العزت اور اس کے بندوں کے درمیان لازمی وضروری وسیلہ ورابطہ کا اعتقاد قرار نہیں دیا جاسکتا‘ بلکہ جن اکابر ومشایخ کے ہاں جائز توسل کی جتنی بھی جائز صورتیں مروج ومعروف ہیں، ان تمام صورتوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ استحباب اور ندب کا قول منقول ہے یعنی عموماً یہ حضرات توسل کو جائز ومباح ہی کہتے ہیں‘ اگر کسی نے مزید شدت سے کام لیا تو اسے استحباب کے درجہ تک پہنچادیا‘ اس سے بڑھ کر فرض یا واجب کا قول کسی سے بھی منقول نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کے لزوم پر اصرار کرتا ہے جب ”توسل“ کو جائز ماننے والوں کے ہاں ”توسل“ کی حقیقت یہی ہے تو اس کی نفی کرنے والے حضرات سے یہ درخواست بھی بجا ہے کہ ”توسل“ کی نفی کرتے وقت اپنے رویے کی درشتی وسختی سے یہ تاثر عام نہ فرمایا کریں کہ توسل کے قائلین ‘ توسل کو فرض کے درجہ میں سمجھتے ہیں‘ جس کی بنیاد پر وہ حرام کے مرتکب ہیں‘ بلکہ ہمارا حسنِ ظن تو یہ ہے کہ ”توسل بالصلحاء“ کی نفی کرنے والے حضرات میں سے بھی کوئی سنجیدہ صاحب علم اور ذی شعور آدمی ”توسل“ کو ”حرام“ کے درجہ میں ممنوع نہیں مانتا ہوگا‘ کیونکہ ”حرام“ حضرات فقہاء اور معاجم فقہیہ کے مطابق ایک خاص اصطلاح ہے جس کا عمومی اطلاق اس ممنوع کے ارتکاب پر ہوتا ہے جس کی حرمت وممانعت نص قطعی یا کم از کم خبر متواتر سے ثابت ہو‘ جبکہ زیر بحث مسئلہ قطعاً ایسا نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مجوز ین کی رائے گرامی بھی کئی شرعی دلائل پر قائم ہے۔ نیز بلاشبہ نفی کرنے والوں کے پاس بھی دلائل ہیں‘ ایسی صورتحال میں اہل علم کا شیوہ یہ رہا ہے کہ مختلف فیہ مسئلہ کے اختلافی پہلوؤں کے دلائل کو تقویت وترجیح کے معیار پررکھ کرکسی مدلل رائے کو ترجیح دیدی جائے تو ترجیح کے اس مرحلہ سے گزرنے والے کو طعن وتشنیع اور ملامت سے محفوظ قرار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ زیر بحث مسئلہ میں ”نجد“ کے علماء کرام ومشائخ عظام کی آراء وافکار اور حجج واستدلالات پر انحصار کرنے کی بجائے اگر ”المہند علی المفند“ جس پر جمہور علماء دیوبند کی توثیقات وتصدیقات ثبت ہیں‘ پر اعتماد کرلیں تو عقل ونقل کا عین تقاضہ ہوگا‘ کیونکہ ہم سب ہی معقولات ومنقولات میں اکابرین دیوبند (بالخصوص جو” المہندعلی المفند“ کے مؤیدین میں سے ہیں) انہی کو اعتماد واستناد کے درجہ پر رکھتے ہیں‘ اگر زیر بحث جزوی مسئلہ میں بھی ان کی رائے گرامی کو قابلِ اعتماد اور لائق احترام مان لیا جائے تو مخاصمت کی کوئی بنیاد ہی باقی نہیں رہے گی‘ کیونکہ ”توسل“ کی نفی فرمانے والے اہل علم میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہو جو”توسل بالصلحاء“ کی نفی کو عقیدہٴ توحید اور اشاعت توحید کے درجہ میں فرض جانتا ہو۔ باقی ”توسل“ کے حوالہ سے حضرت شیخ القرآن کی طرف اپنی رائے میں انفرادیت کی نسبت کا جہاں تک تعلق ہے‘ اس سلسلے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ غلبہٴ توحید اور عشق الٰہی ان کا عذر تھا اور ان کی یہ رائے توحید سے مغلوب الحال ہوکر اخلاص وللہیت کی بنیاد پر قائم تھی‘ اسے سرحد کے پہاڑوں کی سختی وشدت یا پنجاب کے صحراؤں وبازاروں کی بے باک وآزادانہ وسعتوں کے تناظر میں قطعاً نہیں دیکھنا چاہئے۔ ان مذکورہ مسائل کے علاوہ بعض اور غیراہم جزوی مسائل بھی ہیں جن کی وجہ سے حضرت شیخ القرآن نور اللہ مرقدہ یا ان کے بعض خوشہ چینوں کو شدت پسندی اور تفرد کا مورد ٹھہرایا جاتاہے ‘اگر ان مسائل پر اپنی توانائیاں اور وقت صرف کرنے سے پہلے ان مسائل کی شرعی ومعاشرتی ضرورت وافادیت کا جائزہ لے لیا جائے تو عین ممکن ہے کہ ان مسائل میں وقت صرف کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔ مثال کے طور پر فرائض یا عام سنن ونوافل کے بعد اجتماعی دعا کے عنوان پر مناظروں ،مباحثوں میں صلاحیتیں صرف کرنا اور پھر تھک ہار کر منصب افتاء سنبھال کر تضلیلی فتووں کا سلسلہ شروع کردینا ہمارے خیال میں اس دور کے ان قومی وعالمی مسائل اور ضرورتوں میں سے نہیں ہے جس کے لئے ہماری مسلم قوم نے ہمیں تیار کیا تھا۔ اس مناسبت سے مجھے اپنے بزرگ صاحب علم وحکمت استاد حضرت مولانا محمد انور بدخشانی مد ظلہم العالی کی وہ نصیحت یاد آرہی ہے جو انہوں ۱۴۲۴ھ کے تعلیمی سال کے اختتام کے موقع پر دورہٴ حدیث کے فضلاء کرام سے فرمائی تھی‘ بعض حضرات سے پیشگی معذرت اور معذرت کی فوراً واپسی کے ساتھ فرمایا تھا کہ آپ لوگ (فضلاء کرام) یہاں سے فارغ ہونے کے بعد اپنے اپنے علاقوں میں جاؤ گے‘ تم لوگوں نے وہاں جاکر دین پھیلاناہے‘ دین کے نام پر فتنہ انگیزیاں نہیں کرنی‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت بدخشانی مدظلہم نے اپنے مخصوص انداز میں یگانہ تعبیرات کے ساتھ فرمایا کہ: آپ لوگ جب اپنے اپنے گاؤں جاؤ گے اور وہاں تمہیں نماز کے بعد سنتوں کے بعد دعاء کرنے اور نہ کرنے کے تنازعات کا سامنا ہوگا‘ ایسے تنازعات کا باعث یا داعی وفریق بننا یہ شرانگیزی ہوگی‘ کیونکہ آپ جذبات سے مغلوب ہوکر فوراً اپنے مخالفین کی طرف کفر کی توپیں سیدھی کرلیں گے،جس کے نتیجہ میں ان کی ہدایت و اصلاح ہونے کی بجائے اپنا ایمان خطرہ میں پڑ جائے گا۔ حضرت نے فرمایا کہ: دیکھو! فرض یا نفل نمازوں کے بعد دعاء کے قائلین اس کو فرض یا واجب نہیں کہتے‘ بلکہ زیادہ سے زیادہ مستحب ہونے کے قائل ہیں اور بقول منکرین دعاء کہ: یہ عمل بدعت ہے‘ اس بدعت کے ازالہ کے نام پر آپ اپنے خاندان ‘ گاؤں اور محلہ میں جنگ وجدال اور شر وفساد کا بازار گرم کردیں تو یہ فتنہ کہلائے گا ،جس کی سنگینی قتل سے بھی بڑھ کر ہے اور حرام ہے‘ کسی مکروہ کے ازالہ کے لئے حرام کا ارتکاب کرنا دعوت وتبلیغ اور دین کی نشر واشاعت کی کون سی قسم کہلائے گی؟ الغرض کسی ایک بدعت یا مکروہ کے ازالہ کے لئے کئی منکرات ومحرمات کا ارتکاب کرنا شرعاً جائز نہیں‘ اس لئے اگر ایسے مسائل کو فی الوقت موقوف کرکے امت مسلمہ کے کسی ایسے مسئلہ پر اپنی علمی توانائیاں صرف کی جائیں جس کا تعلق حلال وحرام ،قومی وعالمی درپیش ضروریات سے ہو تو ہمارا خیال ہے کہ امت مسلمہ کے حق میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگا اور یہ طرز عمل ”الاہم فالاہم“ کے فطری اصول کے عین مطابق ہوگا۔ لیکن اس گزارش کا یہ مفہوم بھی نہیں لینا چاہئے کہ حلال وحرام کے قضایا اور قومی وبین الاقوامی مسائل کو جدید دور کے جدید تقاضوں کے مطابق حل کرنے کے لئے دینی مسلمات اور شریعت کے زیر دائرہ امت مسلمہ کے ہاں معمول بہا مسائل کو بھی سرے سے ” لامساس“ کے زاویئے کے پیچھے پھینک دیا جائے، جیساکہ ایک زمانہ میں صرف سنتوں اور نفلوں کے بعد اجتماعی دعاء کے بدعت و مستحب ہونے میں تنازعات ہوتے تھے مگر اب تو بہت ساری مسجد میں فرض نمازوں کے بعد اجتماعی ذکر واذکار اور دعاء کے لئے بھی بعض لوگ نہیں بیٹھتے‘ بلکہ سلام پھیرتے ہی زمانے کی تیز رفتاری میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے جاتے ہیں‘ حالانکہ فرض نمازوں کے بعد دعا تو امت مسلمہ کے معتدبہ طبقے کے ہاں معمول بہا ہے اور اس امت مسلمہ میں ایسے علماء صلحاء اتقیاء اور اہل اللہ شامل وشمار ہیں جو عقیدہ توحید‘ اتباع سنت ‘ خوف وخشیت الٰہی اور علم وعمل ہر چیز میں ہم اور ہمارے معاصرین سے بدرجہا افضل واعلیٰ اور بہتر وبرتر تھے‘ بایں معنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ سنتوں اورنفلوں کے بعد اجتماعی دعاء کے لئے اصرار نہ کیا جائے اور فرض نمازوں کے بعد دعاء کا انکار نہ کیا جائے یہی راہ ِ اعتدال ہے ‘۔ اس مناسبت سے مجھے حضرت علامہ محمد عبد الستار تونسوی دامت برکاتہم کی ایک قرین عقل ودانش نصیحت بھی یاد آئی جو اس نوعیت کے مسائل میں بہترین حکم کا درجہ بھی رکھتی ہے‘ حضرت تونسوی صاحب ہمارے ہاں جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی میں سالانہ دورہٴ تدریبیہ کے دوران عموماً دورہ تدریبیہ کے شرکاء سے فرمایا کرتے ہیں کہ:” بھائی! حضرات اکابر علماء دیوبند جن کی امانت‘ دیانت‘ تدین‘ تفقہ‘ تقویٰ اور عقیدہ وعمل پر ہمیں اعتماد ہے‘ ان علماء دیوبند کا قافلہ جس سمت ورخ پر جس مسلک ومشرب پر چلاجا رہا ہے‘ تم بھی اس قافلے کے پیچھے چل پڑو اور اپنے رب کے ساتھ یہ حسن ظن رکھتے ہوئے چلو کہ اللہ رب العزت ان اکابر ومشائخ کے حق میں ”عاقبہٴ حسنة“ ہی کا فیصلہ فرمائیں گے ،اللہ تعالیٰ جو برتاؤ ان اکابر امت کے ساتھ فرمائیں گے‘ ہمیں بھی وہی منظور ہے۔ یقیناً وہ ذریت‘ سعادت مند ذریت شمار ہوتی ہے جو اپنے نیکو کار پیشرووں کے ساتھ ”الحاق“ کی نسبت پاجائے۔
ربنا توفنامسلمین والحقنا بالصالحین ۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین