بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ  (فاضل دارالعلوم دیوبند)


شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب  رحمۃ اللہ علیہ 
فاضل دارالعلوم دیوبند


اللہ پاک ہر دور سے ایک ایسی مقدس جماعت پیدا فرماتے رہتے ہیں، جو ظاہراً وباطناً دین پر عمل کرکے اُمتِ محمدیہ (l) کے لیے رشد و ہدایت کا ذریعہ بنتی ہے۔ ہمارے اس اخیری دور میں اللہ پاک نے حضرات علماء دیوبند کو خاص طور پر اس مقصد عظیم کے لیے قبول فرمایا۔ اسی پاکیز ہ جماعت کی ایک برگزیدہ ہستی مخدوم العلماء والصلحاء شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب رحمۃ اللہ علیہ  بھی تھے۔ 
ملک پاکستان کی جن چند چُنیدہ شخصیات کو عبقری یا نابغۂ عصر کہا جاسکتا ہے، ان میں میرے محسن و مشفق استاذ، فاضل دارالعلوم دیوبند، شیخ المشائخ و شیخ الحدیث و التفسیر، سندھ کی بہت بڑی دینی درس گاہ جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد کے مہتمم اور تادمِ آخر مفتی اعظم سندھ کے درجے پر فائز رہنے والے میرے استاذ مکرم و محترم حضرت مولانا مفتی شمس الدین صاحب نور اللہ مرقدہ سرِفہرست ہیں، جو نہ صرف علم و عرفان، طریقت و روحانیت کے شہسوار تھے، بلکہ محقق، مدقق، محدث، تمام علوم و فنون کے بلند پایہ ماہر، محنتی استاذ، صاحبِ فہم و فراست، اجل فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ وافر دولتِ درد اور متاعِ عشق سے بھی سرشار تھے، جو بہت شان سے جیئے اوربڑے باوقار انداز میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔
حضرت استاذ محترم ؒ کی فنائیت و بے نفسی کے متعلق میر ا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کبھی آپ ؒ نے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں فرمایا، جس میں اپنی تعریف توصیف کی بو آتی ہو، حُبِ جاہ کا دو ر دور تک نشان نہ تھا۔ آپؒ میں کسی تصنع یا وقتی مصلحت بینی کا دخل نہیں تھا، آپ ؒ وجدانی طور پر اپنے آپ کو ہر کمال سے عاری سمجھتے تھے۔ نام و نمود اور ظاہری وضع داری اور تصنع وبناوٹ جیسی چیزوں سے پاک و صاف ایک سیدھے سادے کھرے حق گو عالم دین تھے۔ حضرت استاذ محترم علماء کرام حتیٰ کہ اپنے شاگردوں وطلبہ کے ساتھ بھی بہت اکرام کے ساتھ پیش آتے، ہر ایک کے ساتھ ’’جناب‘‘، ’’حضرت مولانا‘‘ اور ’’صاحب‘‘ کے نام ضرور استعمال فرماتے۔ جامعہ کے بیت المال میں سے خرچ کرنے کے معاملے میں انتہائی درجے کے محتاط تھے۔ رفقاء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وقت کی بہت قدر کرتے تھے، مطالعہ، اسباق کے باقاعدہ نظام الاوقات تھے اور اس کی سخت پابندی کرتے اور طلبہ سے بھی کرواتے۔ 
حضرت استاذ محترم ؒعلومِ اسلامیہ میں مہارت و فقاہت میں اعلیٰ مرتبہ کے حامل تھے، تمام اسلامی علوم وفنون میں دسترس حاصل تھی، جبکہ حدیث، تفسیر اور فقہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو خاص فہم اور مہارت عطا فرمائی تھی، جس کا اعتراف آپ کے اساتذہ نے بھی کیا اور معاصرین نے بھی۔ آپ نے عصرِ حاضر کے بعض مسائل میں ایسے تحقیقی فتاویٰ جاری کیے کہ اُن کی بدولت آپ کی فقاہت اور علمی رسوخ پر مہرِ تصدیق ثبت ہوگئی۔ آپ ؒ کے فتاویٰ نہایت تحقیق و تدقیق کے حامل ہوا کرتے تھے، جس سے آپ کی فقاہت و ثقاہت جھلکتی تھی، آپ کو درس و تدریس اور فہم و تفہیم کا خاص ملکہ حاصل تھا ۔ 
استاذ محترم ؒنے جس طر ح بلند پایہ علماء جن میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  ؒ ، شیخ الادب والفقہ حضرت مولانا اعزاز علیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ( سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند)، حضرت مولانا فخر الحسن مراد آبادیؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق   ؒ(اکوڑہ خٹک)، حضرت مولانا عبدالخالق ملتانی  ؒ، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالرحمٰن کیمل پوریؒ ، جامع المعقول والمنقول حضرت مولانا ولی اللہ ؒ (انّی والے بابا)، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ اورشیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد یعقوب ؒ (راولپنڈی والے) جیسے بلند پایہ اور علم کے دریائوں سے علم حاصل کیا ، اسی طرح بلند پایہ علماء اور علوم کے دریائوں میں اس علم کو منتقل کیا۔ 
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی ولی حسن ٹونکیؒ ، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سابق صدر شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان ؒ، جرنیلِ جمعیت حضرت مولانا ڈاکٹر خالد محمود سومروشہید ؒ کے والد گرامی شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا علی محمد حقانیؒ جیسے جلیل القدر علماء آپ کے ہم سبق رہے۔ 
حضرت استاذ محترم ؒکا ایک واقعہ آج بھی مجھے رشک دلاتا رہتا ہے، وہ یہ کہ جب حضرت استاذ محترم دارالعلوم دیوبند پڑھنے گئے تو رات ہوچکی تھی، تمام طلبہ سوچکے تھے، آپ بھوکے تھے اور آپ بھوکے ہی سوگئے تو حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی  رحمۃ اللہ علیہ  کو خواب میں نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  زیارت نصیب ہوئی، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’اُٹھو! ہمارا مہمان آیا ہے، وہ بھوکا ہے، اُسے کھانا کھلائو۔‘‘ تو حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ  بیدار ہوئے اور گھر سے کھانا لیا اور آ پؒ کو کھلایا، اللہ اکبر۔ حضرت استاذ محترم  رحمۃ اللہ علیہ  کی یادیں آج بھی دل و دماغ کو چراغاں کیے ہوئے ہیں کہ گردشِ ماہ وسال بھی اسے کبھی مدہم نہ کرسکیں گے۔  
حضرت استاذ محترم رحمۃ اللہ علیہ  جمعیت علماء اسلام کے منشور اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے زبردست حامی تھے، آپ نے حیدرآباد میں جمعیت کی تنظیم سازی کے لیے عملاً بہت کام کیا، اکثر فرماتے تھے کہ: مسلک علماء دیوبند کی صرف ایک ہی جماعت ہونی چاہیے صرف جمعیت علماء اسلام، جس سے ہر محاذ کے لیے کام کیا جائے۔ متحدہ مجلس عمل کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متحدہ مجلسِ عمل کی شاندار کامیابی پر بے انتہا خوش تھے اور فرمایا کہ: اسلام کو عزت عطا ہوئی اور کہا کہ جمعیت علماء اسلام‘ علماء دیوبند کی عزت کا نشان ہے۔ 
میرے استاذمہربان قانونِ قدرت کے تحت مؤرخہ۱۹ربیع الاول ۱۴۳۲ھ مطابق ۲۳ فروری ۲۰۱۱ء بروز بدھ ہم سب کو داغِ مفارقت دے کر راہیِ جنت ہوئے۔ جنازہ کے وقت اس پاک باز ہستی کے کمالات کا ہر شخص نے اعتراف کیا، ہزاروں آدمی اس سیرت ساز آدمی کی زندگی کا پرتو تھے، اکثریت علماء صوفیاء اور اللہ والوں کی تھی۔رب جلیل ان سے راضی ہوجائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ قیام نصیب فرمائے اور مجھ ناچیز کے علم نافع سے استاذ محترم ؒ کو پور ا پورا حصہ عطا فرمائے ۔ اللہ تعالیٰ ان کے خاندان کو اُن کی برکات عطا فرمائے اور سب کو عزت و عظمت سے نوازے اور حضرت استاذ محترم ؒ کے جاری کیے ہوئے دینی شعبوں کو جاری و ساری فرما کر آپ کے لیے ذخیرۂ آخرت بنائے، آمین یا رب العالمین!
حضرت استاذ محترم رحمۃ اللہ علیہ  کی زندگی بھی محمود تھی اور موت بھی محمود تھی۔ ہمارے استاذ محترمؒ بھی انہی نفوسِ قدسیہ میں سے تھے، جنہیں دیکھنے کے لیے آسمان بھی مدت سے ترس رہا تھا:
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اللّٰھم اعطہ رحمۃ واسعۃ و مغفرۃ وأدخلہ في جنات النعیم
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین