بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث و التفسیر  حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خان رحمۃ اللہ علیہ  کی رحلت


شیخ الحدیث و التفسیر  حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خان رحمۃ اللہ علیہ  کی رحلت


محدث العصر حضرت علامہ سیّد محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  کے مُحبّ و عاشقِ صادق، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے فاضل، جامعہ عربیہ احسن العلوم گلشن اقبال کے بانی، رئیس، شیخ الحدیث والتفسیر، کتبِ کثیرہ کے مؤلف، مسلکِ اہل سنت کے پاسبان، علماء دیوبند کے ترجمان، ہزاروں علماء کے استاذ و مربی، محقق عالمِ دین، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا محمد زرولی خان رحمۃ اللہ علیہ  ۲۱؍ربیع الثانی ۱۴۴۲ھ مطابق ۷؍دسمبر ۲۰۲۰ء بروز پیر بعد نمازِ عشاء اس دنیائے رنگ و بو کی سڑسٹھ بہاریں گزار کر داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے دارِفناسے رخ موڑ کر دارالبقاء کی طرف محوِ سفر ہوگئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون۔ إن للّٰہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خان رحمۃ اللہ علیہ  کی پوری زندگی ’’قال اللّٰہ وقال الرسولؐ‘‘ پڑھتے اور پڑھاتے ہوئے گزری۔ آپ نے اپنی تحقیق اور کتاب و سنت کی روشنی میں جس چیز کو حق و سچ جانا ببانگِ دہل نہ صرف یہ کہ خود اس پر عمل کیا، بلکہ بلاخوف لومۃ لائم اس کے داعی بھی رہے۔ انہوں نے کبھی اس بات کی پروا نہیں کی کہ کون اس پر راضی ہوتا ہے اور کون ناراض ہوگا۔ آپ نے ہمیشہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ ادا کیا۔ بدعات و رسومات سے ان کو حد درجہ چڑ تھی، وہ ہمیشہ احیائے سنت کے محرِک اور قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کے داعی تھے۔ آپ جہاں مدرسہ کے طلباء کو درسِ نظامی کا نصاب پڑھاتے تھے ،وہاں عوام الناس کی تعلیم و تعلم کے لیے درسِ قرآن دینے اور ترجمۂ قرآن پڑھانے کے لیے بھی اپنے آپ کو وقف کیے ہوئے تھے، جس سے خلقِ کثیر آپ سے مستفید ہوئی۔
آپؒ ادارہ کے مہتمم، شیخ الحدیث، شیخ التفسیر کی حیثیت سے اور تصنیف و تالیف میں مشغولیت کے باوجود اپنی مسجد میں پنج وقتہ نماز کی امامت خود کیا کرتے تھے، ایسا کم دیکھا گیا ہے، اس لیے کہ جن علماء کرام کے ذمہ اہتمام کی بنا پر متفرق و متنوع امور کی انجام دہی منسلک ہو، ان کے لیے پانچ وقت کی امامت کی پابندی مشکل امر ہے، لیکن آپ نے تاحیات اس کو بڑے عمدہ سلیقے سے نبھایا۔
مولانا زر ولی خان صاحبؒ  شخصیت سازی، طلباء پروری، تفقہ فی الدین، جرأت و حمیت، ظاہر و باطن کی پاکیزگی، تقویٰ و پرہیزگاری جیسی کتنی اوصافِ حمیدہ کے حامل تھے۔ آپ اردو، فارسی، عربی اور پشتو زبانیں جانتے تھے۔ حدیث کے علمی مسائل، فقہی اختلافات کے دلائل، تفسیر کی مشکلات اور اکابر کی تاریخ پر اُن کی گہری نظر تھی اور ہمیشہ اپنے اصاغر کو اپنے قول و عمل سے اکابر سے جوڑنے کا کام کرتے تھے۔ ایک زمانہ میں وہ سوادِ اعظم کی تحریک کا حصہ بنے اور اس میں فعال کردار ادا کیا، لیکن اس کے بعد وہ ہمیشہ یکسو ہوکر علم و تحقیق، تدریس و تقریر اور تصنیف و تالیف کے ذریعہ اُمتِ مسلمہ کی راہبری و راہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے رہے اور اپنے اکلوتے فرزند جن کا نام نامی محدث العصر حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ سے محبت و عقیدت کی بنا پر انور شاہ رکھا، اور شروع ہی سے ایک خاص انداز میں ان کی تربیت فرماتے رہے اور آج وہ بیٹا آپ کی رحلت کے بعد آپ کا علمی جانشین ہے، جو ان شاء اللہ! حضرت کے صدقاتِ جاریہ کو آگے سے آگے لے جائے گا، جس کا اجر و ثواب حضرت کو تاقیامت ملتا رہے گا، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ عنہ  راوی ہیں کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: 
’’إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ إِلَّا مِنْ ثَلٰثٍ: إِلَّامِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ أَوْ عِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْلَہٗ۔‘‘                            (رواہ مسلم، مشکوٰۃ، ص:۳۲)
’’جب انسان فوت ہوجاتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، مگر تین اعمال ایسے ہیں جن کا اجر و ثواب برابر پہنچتا رہتا ہے: ایک صدقہ جاریہ جیسے مساجد، مدارس، رفاہی ادارے، پانی کا کنواں، پل وغیرہ، ۲:... وہ علم جس سے نفع اُٹھایا جائے، اور ۳:...نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا کرے۔‘‘
الحمدللہ! حضرت کو یہ تینوں اعزاز حاصل تھے، آپ نے صدقہ جاریہ بھی کیے، طلباء، علماء اور تصنیف و تالیف کی صورت میں علمِ دین چھوڑ گئے اور ایک بیٹا جو ’’وَلَدٍ صَالِحٍ یَّدْعُوْلَہٗ‘‘ کا صحیح مصداق ہے۔
آپ کا معمول تھا کہ آپ علم اور علماء کی اہمیت اور فضیلت بہت زیادہ بیان کیا کرتے تھے۔ جب بھی کسی بزرگ کا تذکرہ آتا تو بڑے ادب اور اونچے اونچے القابات سے انہیں یاد کیا کرتے تھے۔ آپ اکابر علماء کے حد درجہ قدردان، ان کی یادگار، اور ٹھوس علمی رسوخ رکھتے تھے۔ خصوصاً امام العصر حضرت کشمیریؒ اور ان کے علوم کے ترجمان محدث العصر حضرت بنوری نوراللہ مراقدہما کے علوم کے امین، حافظ و شارح تھے اور اپنے تفسیر و حدیث کے دروس میں بہ کثرت ان دونوں اکابر کا تذکرہ اور حوالے دیا کرتے تھے۔ تحریر میں بھی آپ کا یہی انداز ہوتا ہے۔ گویا آپؒ حضرت علامہ سیّد انور شاہ کشمیری، حضرت علامہ سیّد محمد یوسف بنوری قدس سرہما پر دل و جان سے فدا نظر آتے تھے، جب بھی ان ہر دو استاذ و شاگرد کا تذکرہ فرماتے تو بہت اونچے الفاظ سے انہیں یاد فرماتے۔
آپ تقریباً۱۹۵۳ء میں خیبرپختونخوا کے ایک شہر جہانگیرہ میں جناب محمد عاقل ولد عمر دین کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندانی پیشہ زراعت اور باغبانی تھا، آپ کی والدہ ماجدہ متقیہ، عابدہ، زاہدہ خاتون تھیں، جنہوں نے علاقہ کے ایک عالم مولانا فضل الٰہی صاحب سے وہاں کا رائج بارہ سالہ نصاب پڑھ رکھا تھا، حافظ قرآن نہ ہونے کے باوجود تلاوتِ قرآن کی پابندی کی بنا پر آس پاس قرآن پڑھنے والوں کی غلطی کی تصحیح کردیا کرتی تھیں۔ حضرت مولانا خود لکھتے ہیں:
’’والدہ صاحبہ جہانگیرہ کے علماء کبار کے تذکرے ایسی عظمت اور محبت سے فرماتیں کہ وہی علم دین پڑھنے کی رغبت و شوق کا اساس ثابت ہوا۔ حضرت اقدس مولانا لطف اللہ اور حضرت مولانا عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم کے تذکرہ میں یہ ضرور فرماتیں تھیں کہ وہ ’’دیوبند پاس ہیں‘‘ اور یہ اس شان و احترام سے فرماتی تھیں جیسے آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر اس سے بڑی عزت اور شرافت کوئی اور نہیں، یوں دیوبند کے علماء اور خود دیوبندیت سے عقیدت و محبت خون اور فطرت میں شامل ہوگئی۔‘‘
آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ محلہ کی جامع مسجد کے امام حضرت مولانا احسان الحق صاحب المعروف بہ ’’صاحب حق صاحب‘‘ سے پڑھا تھا۔ فارسی کی ابتدائی مشہور کتاب پنج گنج ، فقہ میں خلاصۂ کیدانی اور قدوری حصہ اول بھی انہی سے پڑھا تھا۔ 
حضرت مولانا عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم جو علم و عمل کے پیکر، کردار و گفتار کے جامع، اللہ کے فضل سے گھر سے خاصے متمول اور دارالعلوم دیوبند کے قدیم فاضل تھے، جنہوں نے شیخ الاسلام شیخ العرب والعجم حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی ؒ جیسے عمائدین سے ۱۹۳۴ء اور ۱۹۳۵ء کے آس پاس دورئہ حدیث مکمل کرکے اعلیٰ نمبروں میں فراغت اور فضیلت حاصل کی تھی۔ حضرت مولانا عبدالحنان صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں آپ نے تقریباً تین سال کسبِ فیض کیا ہے۔ اس دوران صرف و نحو، منطق اور ترجمۂ قرآن دو مرتبہ اور فارسی میں گلستان، میٹرک کے ساتھ ساتھ حضرت کے یہاں کافیہ تک اور صرف میں فصولِ اکبری اور شافیہ تک اور منطق میں تہذیب اور بدیع المیزان تک اور فقہ میں ’’شرح الوقایۃ‘‘ اولین اور آخرین تک پڑھنا نصیب ہوا۔ حضرت نے ’’مفیدالطالبین‘‘ آپ کو پڑھائی جو اَدب کی ابتدائی کتاب تو نہیں، لیکن ابتدائی چٹ پٹے اور ظرافت کی حامل کتاب ضرور ہے، ’’مفیدالطالبین‘‘ ختم ہونے کے بعد حضرت اپنے گھر سے ’’نفحۃ الیمن‘‘ لے آئے، جو حضرت والا کو دارالعلوم دیوبند میں کسی امتحان میں امتیازی نمبروں میں پاس ہونے کے انعام میں ملی تھی۔ پھر حضرت مولانا عبدالحنان صاحب آپ کو امام التاریخ حضرت مولانا لطف اللہ صاحب کی خدمت میں لے گئے اور ان سے کہا کہ یہ بچہ اسکول پڑھ رہا ہے اور اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتا ہے اور اپنے دین کا پورا پابند اور باذوق ہے، غریب گھرانے سے ہونے کے باوجود طلبِ علمی میں خوب ذوق و شوق رکھتا ہے۔ حضرت مولانا لطف اللہ صاحب نے آپؒ کو فرمایا کہ میں اس دور کے بے ذوق لوگوں کو دیکھ کر پڑھانا چھوڑچکا ہوں، لیکن آپ کا ذوق و شوق دیکھ کر شاید مجھے نئے سرے سے پہلے سے بڑھ کر پڑھانا ہوگا۔حضرت والا سے کافیہ اور شرح وقایہ کی تکمیل، علم معانی میں مشہور رسالہ ’’صمدیہ‘‘ اور ’’نفحۃ الیمن‘‘ مکمل اور ’’نفحۃ العرب‘‘ اور ’’کفایۃ المتحفظ‘‘ اور ’’الطریف الأدیب الظریف‘‘ اور مقامات کے ابتدائی پانچ مقامے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ 
حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خان صاحبؒ لکھتے ہیں کہ: استاذِ گرامی مولانا لطف اللہ صاحبؒ امام العصر محدثِ کبیر حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحبؒ کے خاص شاگرد تھے اور غالباً ۱۹۲۷ء میں شاہ صاحبؒ سے دیوبند میں دورئہ حدیث مکمل کرکے ہرکتاب میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ آپ محدث العالم، شارحِ ترمذی، علومِ انور شاہ کے امین حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوریؒ سے تعلیم میں ایک سال آگے تھے، جس سال آپ دورئہ حدیث میں تھے، یہ سال حضرت بنوریؒ کا مشکوٰۃ وغیرہ کا سال تھا۔ بعد میں حضرت بنوری اور حضرت مولانا لطف اللہ صاحب پشاوری برسہابرس اکٹھے رہے اور پھر کراچی میں حضرت بنوریؒ نے جب جامع مسجد نیوٹائون سے متصل مدرسہ عربیہ اسلامیہ قائم کیا (حال جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون)، اپنے دیگر قابل ساتھیوں کے ساتھ پہلا انتخاب اپنے مدرسے کی تدریس کے لیے حضرت بنوریؒ نے حضرت مولانا لطف اللہ صاحبؒ کا کیا۔ آپ اس کا ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ میں سات سال ساتھ رہا ہوں، سورئہ یوسف کی آیت ’’سَبْعَ سِنِیْنَ دَأَبًا‘‘پڑھتے تھے۔ حضرت الاستاذ مولانا لطف اللہ صاحبؒ فرمایا کرتے تھے کہ: بخاری شریف بہت سے لوگ پڑھاتے ہیں مگر بخاری کے لیے بڑے پائے اور درجہ کا عالم ہونا چاہیے اور وہ میری نگاہ میں صرف مولانا محمد یوسف بنوریؒ ہیں۔ آپ حضرت بنوریؒ کے گہرے دوست بقول استاذ محترم مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ یارِغار اور یارِ غربت تھے۔ جب حضرت بنوریؒ کے مراحلِ حیات، مصائب و شدائد اور علمی صلاحیتوں کا ذکر فرماتے تو آپ پر رقت طاری ہوجاتی تھی اور بہت کم ایسا ہوا کہ حضرت بنوریؒ کے تذکرے میں آپ آبدیدہ نہ ہوئے ہوں۔ عجیب بات دیکھی کہ حضرت علمی صلاحیت کے ساتھ اُن کی طہارت و تقدس کے گرویدہ اور بعینہٖ یہی الفاظ حضرت بنوریؒ سے حضرت مولانا صاحبؒ کے بارے میں سنے۔ گویا علم اور طہارت کے دو مینار تھے، جن سے اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے نابکاروں کو مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائی: ’’گرچہ خردیم ولے نسبتِ بزرگ داریم‘‘

أحب الصالحین ولست منہم
لعل اللّٰہ یرزقني صلاحًا

حضرت مولانا موصوفؒ حضرت بنوری قدس سرہٗ سے پہلی ملاقات کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ:
’’سردار عبدالقیوم خان نے راولپنڈی میں حضرت مولانا مفتی محمود اور حضرت مولانا سیّد محمد یوسف بنوری اور غالباً حضرت مولانا شمس الحق افغانی  رحمۃ اللہ علیہم  کو کشمیر میں آئین نافذ کرنے کے لیے خاکہ بنانے کے لیے طلب کیا تھا۔ حضرتؒ پشاور جاتے ہوئے راستے میں تعزیت کے لیے نوشہرہ اُترے، یہ عاجز و فقیر اپنے بزرگ مولانا محمد غلام صاحبؒ کے ہمراہ تعزیت کے لیے نوشہرہ حاضر ہوا، میں جب پہنچا تو حضرتؒ نے فرمایا: آئو ہاتھ ملائو، یہ مولانا محمد یوسف صاحب ہیں۔ آمد سے پہلے حضرت والا، حضرت بنوریؒ سے بات کرچکے تھے۔ میں نے مصافحہ کیا اور قریبی چارپائی کی پائینتی کی طرف بیٹھ گیا، حضرت بنوری ؒ خاکی رنگ کی شیروانی زیب تن فرمائے ہوئے تھے اورنہایت بارونق بخاری ٹوپی پر سفید ململ کی باوقار پگڑی باندھے ہوئے تھے اور شان و شوکت کی لاٹھی ہاتھ میں تھی، چند قدم کے فاصلے پر حضرت کو پشاور لے جانے کے لیے عمدہ قسم کی کار جس کے ساتھ خدام کھڑے انتظار کررہے تھے، اس عاجز کو دیکھ کر حضرت بنوریؒ نے فرمایا کہ :آپ اوائلِ شوال میں ہمارے یہاں داخلہ کے لیے آجایئے اور یوں جہانگیرہ سے کراچی حضرت بنوریؒ کے مدرسے پاکستان کے دارالعلوم دیوبند اور وقت کے جامعہ ازہر اور ایشیاء کی لاثانی علم و عمل کے معدن میں آنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے سبب بنایا۔ اوائلِ شوال میں‘ میں کراچی پہنچا ۔ جب میں داخل ہوا تو حضرت بنوریؒ سے ہاتھ ملایا، حضرتؒ نے فرمایا داخلے بند ہوچکے ہیں، میں نے حضرت مولانا لطف اللہ صاحب جہانگیرہ والے بزرگ کا خط نکال کر ان کے ہاتھ میں رکھا، حضرت نے خط دیکھتے ہی فرمایا: معاف کیجئے، معاف کیجئے، آپ کا داخلہ تو شعبان میں اس مدرسہ کے بانی اور پہلے مدرس نے کرایا ہے اور بڑے دلکش اور باوقار لہجے میں فرمایا: اسماعیل بھامجی صاحب! جلدی فارم دیں۔ بہرحال داخلہ فارم لے کر بھر دیا گیا اور ہمارا داخلہ فارم برائے امتحان حضرت مولانا محمد صاحب سواتی جو قدیم استاذ ہیں اور دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم سے فاضل ہیں۔ بہرحال ان کے پاس میرا امتحان آیا، کافیہ میں مشہور مقام ’’والثالث ما أضمرعاملہٗ علٰی شریطۃ التفسیر‘‘ کی عبارت مجھ سے پڑھواکر تشریح کرنے کا حکم دے دیا۔ اس عاجز کو کافیہ زبانی یاد ہے، جو کتاب یاد ہو اُس پر دسترس آسان ہوتی ہے، میں نے اس کی شرح میں ابن الانباریؒ کے کچھ اشعار بھی پڑھے۔ حضرت نہایت محظوظ ہوئے اور پوچھا کہ کافیہ اور مقامات کس سے پڑھی ہیں؟ میں نے حضرت اقدس حضرت مولانالطف اللہ صاحبؒ کا نام بتایا، حضرت کا نام سن کر وہ اور بھی زیادہ خوش ہوئے اور فرمایا: وہ تو تاریخ اور ادب کے امام ہیں اور میں نے تخصص فی الحدیث انہی سے کیا ہے اور مقدمہ ابن خلدون میں ہمارے عظیم اور مقتدر استاذ تھے اور احتراماً فرمایا کہ: حضرت الاستاذ کے شاگردوں سے میں مزید امتحان نہیں لیتا اور مجھے درجہ رابعہ کی بجائے درجہ خامسہ میں داخلہ دینے کا حکم دے دیا۔ میں نے عرض کیا کہ: میری شرح جامی اور نورالانوار جیسی اہم کتب رہ جائیں گی، اس لیے مجھے رابعہ ہی میں برقرار رکھئے۔ حضرتؒ نے بھی میری درخواست پر خوشی کا اظہار فرماکر فرمایا: گائوں سے نئے نکلے ہو، اس درجہ کے بیشتر اسباق پڑھ چکے ہو، اس لیے زیادہ پختہ رہ سکوگے۔ یوں ۶؍شوال ۱۹۷۳ء کو کراچی میں میری آمد ہوئی اور ۷؍ شوال ۱۹۷۳ء کو میرا داخلہ درجہ رابعہ میں ہوا۔ یوں درجہ رابعہ، خامسہ، سادسہ، سابعہ اور دورئہ حدیث کی تکمیل ۱۹۷۷ء میں ایشیاء کے اس مقتدر معدنِ علم میں خیرالرجال اور کامل علماء و اولیاء کے استفادہ کے ساتھ مکمل ہوئی۔ گاہ گاہ حضرت بنوری ؒ کے درسِ بخاری میں بیٹھنے کی کوشش کرتا تھا اور تقریباً بلاناغہ شام کو کسی وقت رفیقِ محترم مولانا حافظ قاری مفتاح اللہ صاحب سے حضرت کے اسباق کے خصوصی نکات کا پتہ کرتا تھا۔ 
اس عاجز کو درجۂ خامسہ سے ہی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے بڑے اساتذہ نے مسجد چراغ الاسلام 11-F نیو کراچی امامت و خطابت کے لیے بھیجا تھا۔ یہ ایک چھوٹی سی مسجد تھی اور چاروں طرف گندہ پانی اور مقامی لوگوں کی بھینسوں کے باڑے ہوتے تھے، چند مخلص موحدین کی وجہ سے اکثر اہلِ حق امام تجویز ہوتا تھا، چنانچہ اس عاجز کی تقریر و خطابت کا کسی حد تک شہرہ طالب علمی میں ہی ہوا تھا، طلباء تقریر سیکھنے کے لیے بزمِ ادب وغیرہ منعقد کرتے تھے اور شبِ جمعہ کو مختلف طلباء کی مختلف تنظیموں کی تقریر و بیان سیکھنے کے لیے مشقیہ بیانات ہوتے تھے، جن میں اس عاجز اور نابکار کا بیان اچھا سمجھا جاتاتھا۔ سال کے آخر میں بڑے اساتذہ کی موجودگی میں انجمنوں کے چیدہ چیدہ مقررین مقابلے میں تقریریں کرتے تھے، اس میں بھی اس عاجز کو اساتذہ کی توجہات اور دعائیں حاصل رہی تھیں۔ یاد پڑتا ہے کہ حضرت بنوریؒ کی موجودگی میں آخری انجمن میں اس عاجز کی تقریر کے دوران امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب کشمیریؒ کی ’’عقیدۃ الإسلام‘‘ سے ان کے نعتیہ کلام کے اشعار پڑھے اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے آخری شعر بھی پڑھ لیا، جو کہ اس طرح ہے:

کس نیست از ایں امت تو آں کہ چوں 
باروئے سیاہ آمدہ موئے زریری 

بس یہ شعر سننا تھا اور فنافی الشیخ حضرت بنوریؒ پر رقت طاری ہوگئی اور انجمن کی فضا سوگوار سی ہونے لگی اور یہ عاجز بھی خوفزدہ ہوکر بیٹھ گیا۔ بعد میں حضرت اقدس مولانا مفتی ولی حسن صاحبؒ اور فقیہ النفس حضرت مولانا مفتی احمدالرحمن صاحبؒ نے فرمایا کہ :حضرت بہت خوش ہوئے اور آپ کی قوتِ گویائی کی داد دینے لگے،یہ ان کی حسنِ نظر تھی، ورنہ:

کہاں میں اور کہاں یہ نکہت گل
نسیمِ صبح تیری مہربانی

یوں نیو کراچی مسجد چراغ الاسلام جانے میں بھی ان بڑے اساتذہ کی تاکید اور ارشاد شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نیو کراچی 11-Fجامع مسجد چراغ الاسلام کی امامت اور خطابت کے دوران جس کی کل مدت ڈیڑھ سال ہوگی‘ وہ میرے درجہ خامسہ اور سادسہ کے سال تھے۔‘‘ 
حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خان صاحب کو نیو کراچی سے جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال میں لانے والے ہمارے بزرگوں کے محب اور ان سے تعلق رکھنے والے جناب ممتاز بیگ صاحبؒ تھے، ان کے بارہ میں حضرتؒ لکھتے ہیں کہ: ’’جناب بیگ صاحب موقع سے فائدہ اٹھاکر جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹائون کے مہتمم مولانا مفتی احمد الرحمن صاحب اور شیخ الحدیث فقیہ العالم مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی ولی حسن ٹونکی اور استاذ گرامی قدر مولانا مصباح اللہ شاہ صاحب  رحمۃ اللہ علیہم  وغیرہ بزرگوں کی خدمت میں پہنچے اور ان سے درخواست کی کہ مجھے نیو کراچی سے جامع مسجد احسن گلشن اقبال منتقل ہونے کا حکم دیں، چنانچہ اساتذہ کرام نے مجھ عاجز کو نیو کراچی کے بجائے جامع مسجد احسن گلشن اقبال آنے اور یہاں امامت و خطابت اختیار کرنے کا حکم دے دیا۔ جب یہ عاجز و فقیر جامع مسجد احسن میں بحیثیت امام و خطیب مقرر ہوا ، مسجد میں چند نمازی ہوتے تھے اور مسجد کے سامنے ایک ٹینکی تھی، اس پر ٹونٹیاں لگی ہوئی تھیں اور چاروں طرف کیکری جنگل تھا، لوگ طہارت کے لیے لوٹے میں پانی بھر کر اندر جاتے تھے، بعد میں میری آمد پر بیگ صاحب کے حکم پر بلاکوں کی ایک چار دیواری سی بنادی گئی، جس میں صرف استنجا اور ضروری طہارت ہوسکتی تھی، قضائے حاجت کے لیے بھی کیکروں والے جنگل ہی جانا ہوتا تھا۔ میری امامت اور خطابت شروع ہوئی، خدا تعالیٰ نے ابتداسے لوگوں کو مسائل سمجھانے اور ان کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے کا خاصہ سلیقہ دیا تھا اور اس طریقہ میں ہمیشہ سو فیصد کامیابی نظر آئی۔ میں عمومی نمازوں کے بعد کبھی کبھی فجر کے بعد اور کبھی عشاء کی نماز کے بعد کوئی ایک آیت یا حدیث شریف یا فقہی مسئلہ بیان کرتا تھا، لوگ شوق سے سنتے اور بیٹھتے اور بیٹھنے والوں میں شوق سے سننے والوں میں حد درجہ لائق اور قدردان محترم و مکرم ممتاز محمد بیگ صاحب تھے۔میرے درس کو بھی وہ بہت اہمیت سے سنتے اور اچھے مضامین اور تحقیقی گفتگو پر دوسرے لوگوں سے والہانہ تذکرہ کرتے تھے۔ یہ بالکل ابتدائی ایام تھے اور شاید چند مہینے گزرے ہوں گے کہ ایک نوجوان نہایت خوبرو صحت مند اونچے قد کاٹھ اور بہترین گھرانے کا لائق فائق گو وہ کالج یا کسی کمپنی سے متعلق تھا، لیکن علم کی قدر اور علماء سے خوشہ چینی اور ان کا احترام و ادب کرنا اُن کی فطرتِ ثانیہ معلوم ہورہی تھی، انہوں نے مجھ سے ترجمۂ قرآن کی خواہش کی، میں نے منظور کی، وہ چھوٹے سائز کا قرآن مجید جس میں شاہ عبدالقادر محدث دہلویؒ کا ترجمہ اور حاشیہ تھا، وہ لے کر مسجد میں دائیں طرف کونے پہ ایک تکونے امام کی ضرورت کے لیے بنے ہوئے کمرے میں فجر کے بعد بلاناغہ آتا تھا اور دو چار آیتیں ترجمہ و تفسیر پڑھ کر پھر میرے چائے بنانے یا میرا ناشتہ بنانے میں ایک چولہا سیٹ کرتا تھا، جس میںا یک ٹھیکری استعمال ہوتی تھی اور وہ ہر روز ٹوٹتی تھی (یہ غالباً ۱۹۸۸ء تھا)۔ یہ ہمارے مخلص دوست اس عاجز و فقیر کے کائناتِ علم کا نقشِ اول اور اساس الخیر برادرم پروفیسر مزمل حسن صاحب تھے، جن کی تعلیم اور ابتدائی اخلاص اور اس عاجز سے انسلاک اور تعلق ایک عظیم اور مقتدر باربردار مثمرہ بن کر آگے سامنے آیا کہ آج احسن العلوم پورے ملک میں علم و تحقیق کی کائنات میں حداد اور استعداد، تعمیر و تعلیم میں اہلِ حق کا مقتدر مسلمہ ادارہ مانا جاتا ہے۔ مزمل بھائی اس کے طالب اول اور بعد میں اس کی تعمیر و تاسیس میں معمارِ اول کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مزمل بھائی جب ترجمہ پڑھنے لگے تو ایک دن میں نے ان سے کہا کہ اگر یہی ترجمہ آپ نمازِ فجر کے بعد مُصلے پر پڑھیں تو آپ کے ساتھ اور بھی کچھ لوگ قرآن مجید سے استفادہ کرسکیں گے اور یوں یہ دو رکنی درسِ ترجمہ و تفسیر جامع مسجد احسن کے مُصلے پر بعد نمازِ فجر ہونے لگا۔ اب یہ وہ درس ہے جس میں چار پانچ ہزار علماء، طلباء، رجال اور نساء، بلکہ انٹرنیٹ کے ذریعے تین لاکھ سے متجاوز حضرات ترجمہ و تفسیر میں شریک رہے ہیں۔ ترجمہ فجر کے بعد جامع مسجد احسن کے مُصلے پر شروع ہوگیا، تمام نمازی تپائیوں پر قرآن مجید کھول کر بیٹھتے تھے۔ یہ درس بلاناغہ روزانہ کم از کم ایک گھنٹہ ہوتا تھا، جمعہ والے دن یا کسی بھی چھٹی کے دن یہ درس ڈیڑھ گھنٹہ اور پونے دو گھنٹہ تک رہا ہے اور جب تین سال کے عظیم عرصہ میں یہ درس مکمل ہوا تو سو کے قریب محلے کے بزرگ اور نوجوان اس میں شرکت فرماتے تھے۔ مزمل صاحب کے گھر پر یوم الجمعہ کو ترجمہ و تفسیر کی تکمیل کی خوشی میں ایک مقتدر دعوت ہوئی، جس میں استاذ محترم حضرت مولانا مفتی احمد الرحمن صاحبؒ   تشریف لائے، آپ نے جمعہ کا خطاب فرمایا، خطبہ اور نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ترجمہ و تفسیر کے پڑھنے والوں کے سروں پر شرف و اعزاز کے رومال اور عمامے باندھے اور ان میں شرکت کرنے والے حضرات کو اعلیٰ نسخۂ تفسیر شیخ الہند جسے تفسیر عثمانی کہتے ہیں، ہدایا میں تقسیم کیں، حضرت مفتی صاحب انتہائی محظوظ تھے اور فرمایا کہ: ہماری دانست میں اس کام کی مثال نہیں، جس میں عوام کو قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر، فقہ کی کتاب ’’نورالإیضاح‘‘ اور علامہ شمس الدین ذہبیؒ کی ’’الطب النبوي‘‘ اور شیخ سعدی شیرازیؒ کی گلستان اس شان و شوکت سے پڑھائی جاتی ہو، یہ سب اللہ بزرگ و برتر کا احسان ہے:

منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی
منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت

’’ محمد علی نام کا ایک طالب علم کالج کا شوق و ذوق سے مسجد میں آنے لگا تھا، ایک دن اس نے پوچھا کہ ایسی کوئی کتاب بتادیں، جس کے پڑھنے سے ایمان مضبوط ہو جائے تو میں نے کہا کہ :وہ کتاب قرآن کریم ہے ،جس کو اللہ تعالیٰ نے ’’ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ‘‘اور ’’ہُدًی لِّلنَّاسِ‘‘ بناکر بھیجا ہے۔ محمد علی نے خواہش ظاہر کی کہ اگر فجر کے علاوہ اور کوئی وقت ہو تو میرے ساتھ بہت سارے کالج کے لڑکے بھی ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کے لیے تیار ہیں، چنانچہ اس کے لیے نمازِ عصر کے بعد ترجمہ و تفسیر پڑھانا تجویز ہوا، کیونکہ فجر کا درس ایک عالمگیر درس بن چکا تھا اور اس میں شرکاء کی تعداد سو کے قریب ہوچکی تھی، اس لیے ان کالجی لڑکوں کے لیے عصر کے بعد قرآن کا ترجمہ اور تفسیر پڑھانا شروع کردیا۔ درس بھی نہایت ہی آب و تاب سے شروع ہوا اور ان طالب علم کے علاوہ نمازی حضرات بھی معمول کے مطابق بیٹھنے لگے اور نماز فجر والے درس کی طرح تپائیاں بچھیں اور سب کے سامنے قرآن مجید رکھا جاتا اور ہر شخص قرآن مجید کھول کر سبق پڑھنے کی طرح اس کی پابندی کرتا۔ یہ درس تقریباً دس برس جاری رہا اور دس سال میں تین مرتبہ ختم ہوا۔ واضح رہے کہ نماز عشاء کے بعد ’’نورالإیضاح‘‘ اور علامہ شمس الدین ذہبیؒ کی ’’الطب النبوي‘‘ کا بھی درس ہوتا تھا، جس میں صبح کے درس والے اور عصر کے درس والے سب باقاعدہ شریک ہوتے تھے .... جبکہ ڈاکٹر اویس سب میں کم عمر صاحبِ علم تھے اور وہ ’’نورالإیضاح‘‘ زبانی یاد کرتے تھے، ’’نورالإیضاح‘‘ کی نہایت مشکل اور طویل عبارات اس کی نوک زبان پر ہوتیں اور یہ سب درس کے ذوق و شوق کے نظارے تھے:

یہاں تک بڑھ گئے وارفتگیِ شوق کے نظارے
حجاباتِ نظر سے پھوٹ نکلا حسنِ جاناناں

یہی لڑکے باقاعدگی سے اکثر نمازوں میں شریک ہوتے تھے، رمضان شریف کے آخری عشرے میں اس عاجز و فقیر کے ہمراہ اعتکاف کرتے تھے اور رائیونڈ کے سالانہ اجتماع میں ساتھ جاتے تھے، کیونکہ اس طرح ان کی تربیت اور اصلاح مقصود تھی۔ وقتاً فوقتاً مناسب اور موزوں کتب بھی تقسیم ہوتی تھیں، چنانچہ فضائل صدقات اور تبلیغی نصاب کے علاوہ محقق العصر حضرت مولانا سرفراز خان صاحبؒ کی بیشتر کتب جیسے راہِ سنت، تسکین الصدور، عباراتِ اکابر، گلدستۂ توحید اور سوانح مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور شوقِ حدیث وغیرہ، ان کو مختلف اوقات میں ہدایا میں دی جاتی تھی۔‘‘             (دیکھئے! مولانامفتی زور ولی خانؒ کی خود نوشت بنام ’’احسن البرہان‘‘) 
حضرت مولانا مفتی محمد زرولی خان صاحبؒ کے تعارف و تذکرہ پر یہ چند اقتباسات اس لیے نقل کیے گئے، تاکہ قارئین خصوصاً علماء کرام اور ائمہ و خطباء حضرات کو معلوم ہو کہ اپنی مسجد اور منبر کو کس طرح استعمال کرکے زیادہ سے زیادہ اُمتِ مسلمہ کے عوام الناس کی راہبری و راہنمائی اور دینی خدمت بجالائی جاسکتی ہے اور کس طرح ان میں دین کا شوق و ذوق اور رغبت کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد زر ولی خانؒ کچھ عرصہ بیمار رہے، آپ کو سانس اور دل کا عارضہ ایک عرصہ سے لاحق تھا۔ معمول کے چیک اَپ کے لیے انڈس ہسپتال تشریف لے گئے، لیکن طبیعت زیادہ خراب ہوئی، ایک دن ہسپتال میں رہ کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوگئے۔ دوسرے دن بروز منگل صبح گیارہ بجے جامعہ احسن العلوم گلشن اقبال کے قریب گرائونڈ میں آپ کی نمازِ جنازہ ادا کی گئی، جس کی امامت آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا محمد انور شاہ صاحب نے کرائی، جس میں بلامبالغہ لاکھوں لوگ شریک ہوئے، جس میں علماء، صلحاء،بزرگ، اکابر، آپ سے محبت رکھنے والے علم دوست عوام الناس جوق در جوق شریک ہوئے۔ آپ کے پسماندگان میں ایک بیوہ، ایک بیٹا اور ۴ بیٹیاں موجود ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ حضرت کی جملہ حسنات کو قبول فرمائے، آپ کے لواحقین، تلامذہ مستفیدین، مریدین اور منتسبین کو صبرِ جمیل سے نوازے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے، آپ کے ادارہ کو ہمیشہ پھلتا پھولتا اور آباد و شاد رکھے اور اپنے خزانۂ غیب سے اس کی ضروریات کی کفالت فرمائے، آمین۔ 

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیّدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین