بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث مولانا کریم بخشؒ کی رحلت


شیخ الحدیث مولانا کریم بخشؒ کی رحلت


جامعہ عمر بن خطاب ملتان کے بانی، رئیس، شیخ الحدیث والتفسیر حضرت مولانا کریم بخش ۲۶؍ ربیع الثانی ۱۴۴۴ھ مطابق ۲۲؍ نومبر ۲۰۲۲ء بروز منگل کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد داعیِ اجل کو لبیک کہتے ہوئے عالم آخرت کو سدھار گئے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ماأخذ ولہٗ ماأعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
حضرت مولانا موصوف کی پیدائش ۱۳۷۶ھ مطابق ۱۹۵۴ء ضلع لودھراں کے قصبہ گیلے وال کی نواحی بستی جال میں محترم جناب محمد بخشؒ کے گھر ہوئی۔ ابتدائی دینی تعلیم اور میٹرک کی عصری تعلیم اپنے علاقہ میں حاصل کی۔ سائنس کالج ملتان سے بی ایس سی کیا۔ اسی کالج کے زمانہ میں تبلیغ سے وابستہ ہوئے۔ عصری تعلیم کو خیرباد کہہ کر دینی تعلیم کے لیے جامعہ محمدیہ قصبہ مڑل میں مولانا عبدالرحیم صاحبؒ کے ہاں داخلہ لیا، علومِ عالیہ کے لیے جامعہ رشیدیہ ساہیوال کا انتخاب کیا۔ دورہ حدیث جامعہ خیرالمدارس ملتان سے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا شبیر الحق کشمیری، حضرت مولانا محمد شریف کشمیری، حضرت مفتی عبدالستار ، حضرت مولانا محمد صدیق اور حضرت مولانا فیض احمد قدس اللہ اسرارہم جیسی عبقری شخصیات تھیں۔ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد آپ نے تبلیغ میں سات ماہ لگائے۔ اس کے بعد جامعہ علوم شرعیہ ساہیوال سے تدریس کا آغاز کیا، چار سال تک یہاں تدریس کی اور مشکوٰۃ تک کی کتب پڑھائیں۔ اس کے بعد پانچ سال اپنی مادرِ علمی جامعہ محمدیہ قصبہ مڑل میں خدمات انجام دیں۔ ایک سال جامعہ قاسم العلوم ملتان میں بھی تدریس کی۔
آپ نے اپنی سوچ اور فکر کے مطابق دینی ادارہ کی ضرورت محسوس کی، اکابر علماء سے مشورہ کیا، اس کے بعد ۱۹۹۳ء میں ایک کرائے کے مکان سے جامعہ عمر بن خطابؓ کی ابتدا کی۔ اس جامعہ کی جگہ ملنے کے بعد اس کا سنگ بنیاد حضرت خواجہ خان محمد ، شہید اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی اور مفتی عبدالستار نور اللہ مراقدہم نے اپنے دست مبارک سے رکھا۔ حضرت مولانا نے اپنی محنت،جدوجہد اور اخلاص سے جامعہ کی آبیاری کی، اب اس ادارہ میں چار ہزار سے زائد طلبہ مرکز اور اس کی شاخوں میں زیر تعلیم ہیں۔حضرت مولانا کریم بخش صاحبؒ نے اپنی ساری زندگی دعوت وتبلیغ کے لیے وقف کیے رکھی، آپ کے اندرون وبیرون ملک متعدد تبلیغی اسفار ہوئے، جن کا سلسلہ آخر تک جاری رہا۔ دعوت وتبلیغ کے سلسلے میں آپ نے انگلینڈ، بیلجئم، ساؤتھ افریقہ، سعودی عرب، یمن، مراکش، ملائیشیا، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اسفار کیے۔ رائیونڈ تبلیغی مرکز سے بھی کئی ممالک کے اجتماعات میں بیانات کے لیے آپؒ کی تشکیل ہوئی۔ آپؒ کو یہ بڑی حسرت تھی کہ امت دوبارہ سے دعوت وتبلیغ کے کام میں متحد ہوجائے، اخیر عمر میں یہ غم آپ پر سوار تھا۔
حضرتؒ کو تفسیر اور سیرت سے خصوصی شغف تھا۔ تفسیر، سیرت اور دیگر موضوعات پر آپؒ کی متعدد تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں تفسیر ’’ہٰذا بلاغ للناس‘‘، خلاصہ القرآن، الیواقیت الحسان فی علوم القرآن (۸ جلد) مواعظ رمضان (۱۰ جلد)، جواہراتِ رمضان، خطباتِ کریم (۲جلدیں) سیرتِ سیدنا ابراہیم علیہ السلام، تعوذ وتسمیہ کے فضائل وبرکات، مسنون زندگی، اسم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )تسہیل الترمذی شرح جامع الترمذی (۴ جلد) خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی، تسہیل النحو شامل ہیں۔آپؒ کے دروس ، مواعظ اور بیانات کا انداز ہی منفرد تھا، آپؒ کے بیانات تصنع اور بناوٹ سے خالی ہوتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپؒ کی بات میں بڑی تاثیر رکھی تھی، ملتان اور گردونواح کے لوگ آپؒ کے ہاں جمعہ نماز پڑھنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔حضرتؒ نے ختمِ نبوت کے عنوان پر بھی کافی کام کیا، ختم نبوت کے ہر سٹیج پر آپؒ کے بیانات ہوئے، پچھلے سال چناب نگر کی سالانہ کانفرنس میں اختتامی بیان بھی آپؒ کا ہوا۔سخاوت اور اخلاقِ حسنہ آپؒ کا وصف خاص تھا، آپؒ سے ملنے والا کوئی شخص بھی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ آپ کاطرزِ زندگی انتہائی سادہ تھا، تمام عمر اپنا ذاتی مکان نہیں بنایا، مدرسہ کے مکان سے ہی حضرتؒ کا جنازہ اٹھا۔
مولانا کریم بخشؒ پچھلے کئی سال سے دل، گردہ اور شوگر کے عارضہ میں مبتلا تھے، مگر غیرمعمولی ہمت اور حوصلے سے اپنے دینی کاموں کو بدستور جاری رکھے ہوئے تھے۔ آپ کے پسماندگان میں دو بیوگان، چار بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، آپؒ نے اپنی تمام اولاد کو عالم بنایا۔ اللہ تعالیٰ حضرت مولانا کریم بخش صاحبؒ کی تمام دینی مساعی کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے، آخرت کی تمام منازل آسان فرمائے، جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، اور ان کی اولاد کو ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین