بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسمؒ کی رحلت


شیخ الحدیث مولانا ظفر احمد قاسمؒ کی رحلت

حکیم العصر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی قدس سرہٗ کے شاگرد وخلیفہ مجاز، دارالعلوم کبیروالا کے فاضل، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سابق رکن مجلسِ عاملہ، حضرت سید نفیس شاہ الحسینیؒ،حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی، حضرت حافظ ناصر الدین خاکوانی دامت برکاتہم کے مشترشد ومجاز، جامعہ خالد بن ولیدؓ ٹھنگی کالونی، ضلع وہاڑی کے بانی وشیخ الحدیث حضرت مولانا ظفر احمد قاسم کچھ عرصہ بیمار رہنے کے بعد ۱۲؍ صفر المظفر مطابق ۹؍ستمبر ۲۰۲۲ء بروز جمعہ ۷۹ ؍سال کی عمرمیں راہیِ عالمِ آخرت ہوگئے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون، إن للہ ما أخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شيء عندہٗ بأجل مسمی۔
مولانا ظفر احمد قاسم کبیر والا کے علاقہ موضع کرم پور بستی ککڑ ہٹہ کے رہائشی جناب میاں حافظ عبد الحق صاحب قوم سیال کے ہاں ۱۹۴۵ء کے اواخر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد صاحب امام الالیاء حضرت مولانا احمد علی لاہوری قدس سرہٗ سے بیعت تھے۔ آپ کے والدین بچپن میں فوت ہوگئے تھے، آپ اپنے علاقہ سے صبح دودھ لاکرکبیر والا شہر میں دکانوں پر دیتے اور دن بھر دارالعلوم کبیر والا میں تعلیم حاصل کرتے اور شام کو دکانوں سے دودھ کے برتن لیتے ہوئے گھر واپس لوٹتے، اس طرح جفا کشی کرکے دینی تعلیم حاصل کی۔ روزانہ کا تقریباً بیس کلو میٹر سفر بنتا تھا۔
آپ کے اساتذہ میں دارالعلوم دیوبند کے سابق استاذ اور دارالعلوم کبیروالا کے بانی حضرت مولانا عبدالخالق، حضرت مولانا منظور الحق، حکیم العصر حضرت مولانا عبد المجید لدھیانوی، حضرت مولانا ظہور الحق، حضرت مولانا علی محمد اور حضرت مولانا صوفی سرور رحمہم اللہ تعالیٰ شامل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے پناہ قوتِ حافظہ عطا فرمائی تھی، آپ مطالعہ کا بہت زیادہ ذوق رکھتے تھے، بیشتر علوم آپ کو مستحضر تھے، صرف ونحو کے ماہر تھے، اکثر احادیثِ نبویہ کے متون آپ کو اَز بر تھے جو نوکِ زبان پر رہتے تھے، تفسیر اور فقہ کا بھی خاص ذوق تھا۔ اسلاف کے سوانح اور حالات میں دلچسپی تھی، مشائخ کے حالات وواقعات اور ملفوظات سنانے بیٹھتے تو گھنٹوں بیت جاتے، زبان میں سلاست تھی، فصاحت وبلاغت سے مالامال تھے، آپ تدریس وتقریر دونوں میں لاجواب تھے، تقریباً ۵۸ سال آپ نے درس وتدریس کی۔فراغت کے بعد مولانا سید نیاز احمد شاہ گیلانی ؒ کے مدرسہ میں آٹھ سال تک تدریس کی، ایک ایک دن میں اٹھارہ اسباق پڑھاتے تھے، پھر اپنی مادرِ علمی دارالعلوم کبیر والا تشریف لائے، تدریس کے ساتھ ساتھ اس کی تعمیر وترقی میں بھی بھر پور حصہ لیا، آپ ہی کی کوششوں سے کئی درس گاہیں تعمیر ہوئیں، یہاں بھی آٹھ سال تک رہے، کچھ عرصہ شورکوٹ میں تدریس کی، غالباً ۱۹۸۵ء میں جامعہ خالد بن ولیدؓ ٹھینگی، ضلع وہاڑی کی بنیاد رکھی اور تادمِ وصال وہیں رہے۔ آپ کو صفائی ستھرائی اور تعمیر وترقی کا عمدہ ذوق تھا۔ آپ کا تعلق پاکستان بھرکے ہرطبقہ سے رہا، علاقہ کے انتظامی افسران سے لے کر وزراء اور صاحبانِ اقتدار واختیار سے محبت کا تعلق رہتا۔ آپ جس چیز کو حق سمجھتے ببانگِ دہل اس کا اظہار واعلان کرتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کی حسنات کو قبول فرمائے، سیئات کو مبدل بہ حسنات بنائے، آپ کے ادارہ کو آپ کے لیے صدقۂ جاریہ بنائے اور جنت الفروس کا مکین بنائے، آمین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین