بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف متالا رحمۃ اللہ علیہ 

شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف متالا رحمۃ اللہ علیہ 


شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا قدس سرہٗ کے خلیفہ اجل، دارالعلوم العربیہ الاسلامیۃ برطانیہ کے بانی و رئیس اور شیخ الحدیث، برطانیہ اوریورپ کے کئی مدارس کے بانی وسرپرست، ہزاروں علمائے کرام کے استاذ، مربی اور شیخ حضرت مولانا یوسف متالا صاحبؒ ۹؍محرم الحرام ۱۴۴۱ھ مطابق ۸؍ ستمبر ۲۰۱۹ء بروز اتوار بعد نمازِ مغرب اس دنیائے فانی میں تقریباً ۷۳ سال گزار کر عالمِ عقبیٰ کو سدھار گئے، إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون، إن للّٰہ ماأخذ ولہٗ ما أعطٰی وکل شیء عندہٗ بأجل مسمّٰی۔
۲۵؍نومبر۱۹۴۶ء میں ہندوستان کے صوبہ گجرات کے علاقے سورت میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ قرآن کریم اور اُردو کی ابتدائی تعلیم مدرسہ ترغیب القرآن میں حاصل کی۔ ۱۹۶۱ء میں مدرسہ حسینیہ میں درسِ نظامی کے پانچ سالہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ۱۹۶۶ء میں مظاہر العلوم سہارنپور تشریف لے گئے، جہاں آپ نے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولانا یونس جونپوریؒ اور حضرت مولانا مظفر حسین رحمہم اللہ سے حدیث پڑھنے کی سعادت حاصل کی۔ 
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی رہنما حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت مولانا یوسف متالاؒ کو اپنے شیخ ومربی اور استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ سے محبت نہیں بلکہ عشق تھا۔ جب حضرت سے اجازت لے کر سفر کرتے تو حالت دگرگوں ہوجاتی۔ گریہ ورقت سے بڑھ کر جدائی پر بے ساختہ چیخیں نکل جاتیں۔ مولانا متالاؒ کی اس محبت کا حضرت شیخ الحدیث پر بھی یہ اثر ہوتا، آپ بھی آبدیدہ ہو جاتے۔ اس منظر کو بعض اہلِ دل حضرات فراقِ یوسفی ومحبتِ یعقوب سے تعبیر کرتے۔ زہے نصیب! کہ دارالعلوم ہولکمب بری کے قیام کے بعد حضرت شیخ الحدیث مدینہ منورہ سے سہارن پور جاتے وقت یا دورۂ افریقہ سے واپسی پر دارالعلوم ہولکمب بری میں ہفتوں قیام فرماتے اور یوں یومیہ دو سے تین ہزار اور خاص مواقع پر آٹھ سے دس ہزار بندگانِ خدا دارالعلوم میں حضرت شیخ الحدیثؒ کے فیضِ صحبت سے سرفراز ہوتے اور یہ سب کچھ مولانا یوسف متالاؒ کے صدقہ سے ہوتا۔ مولانا یوسف متالاؒ سے حضرت شیخ الحدیثؒ کی پدری روحانی محبت اور مولانا یوسفؒ کی حضرت سے پسری روحانی تعلق ایسا تھا کہ واقعہ میں مولانا متالا اپنے شیخ کے رنگ میں رنگے گئے اور پھر وقت آیا کہ پورے برطانیہ کے سب سے بڑے شیخ اور قطب الارشاد کے درجہ پر فائز ہوگئے اور اس وقت صرف برطانیہ نہیں، بلکہ یورپ وافریقہ وامریکہ تک آپ کے شاگرد علماء اور متوسلین کی آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی ایک جماعت کی محنت نے اقامتِ دین اور اشاعت وترویجِ اسلام کا ایک ایسا ماحول قائم کر دیا ہے کہ اس پر دنیا عش عش کر اُٹھی ہے۔‘‘
’’شیخ الحدیث اور ان کے خلفاء‘‘ نامی کتاب جس کے مرتبین میں آپؒ بھی شامل ہیں، بلکہ آپ ہی کے اہتمام اور شہیدِ اسلام حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی نور اللہ مراقدہم کی سعیِ بلیغ اور فیضِ قلم سے یہ بہترین علمی اور تاریخی کتاب وجود میں آئی ، اس کتاب میں حضرت مولانا یوسف متالا صاحبؒ اپنے احوال کچھ یوں لکھواتے ہیں:
’’میرا نام یوسف بن سلیمان بن قاسم ہے۔ خاندانی لقب متالا ہے۔ ولادت یکم محرم الحرام ۱۳۶۶ھ مطابق ۲۵ نومبر ۱۹۴۶ء پیر کی شب میں ہوئی۔ ہمارا خاندان وریٹھی ضلع سورت میں صدیوں سے مقیم ہے اور زراعت پیشہ ہے، مگر ہمارے دادا محترم اور والد صاحب نے زمین بٹائی پر دے کر تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور دادا مرحوم نے جنوبی افریقہ کا سفر کیا۔ کئی سال وہاں مقیم رہے اور عرصۂ دراز کے بعد وطن واپس لوٹے اور چند روز بعد ہی وریٹھی میں انتقال فرمایا۔ دادا صاحب نے اکلوتے بیٹے کو اولاد میں پیچھے چھوڑا۔ والد صاحب نے اپنی والدہ کی آغوشِ تربیت میں یتیمی کی حالت میں پرورش پائی اور جوانی کو پہنچ کر تجارت شروع کردی اور ہتھورن کے ایک مخیر خاندان میں پہلا نکاح ہوا اور اللہ نے ایک لڑکا عطا فرمایا، نام محمد علی تجویز فرمایا اور پہلی اہلیہ کا چند سال ہی میں انتقال ہوگیا، تب دوسرا نکاح ہماری والدہ آمنہ بنت محمد بن اسماعیل ڈیسائی سے ہوا۔ ہمارے نانا کے آباء و اجداد دریائے تاپستی کے کنارے پر کھلوڈ نامی قصبہ میں آباد تھے، وہاں اس خاندان کی زمین پر بنائی ہوئی کنارہ والی مسجد اب تک موجود ہے۔ کسی وجہ سے یہ خاندان نانی نرولی منتقل ہوگیا جو اس زمانہ میں تقریباً جنگل ہی تھا، یہاں زراعت کا پیشہ اختیار کیا اور دینی اعتبار سے نہ صرف گاؤں میں بلکہ اطراف میں یہ خاندان بالخصوص ہمارے نانا جان دینی حلقہ میں مشہور تھے، اس لیے آپ ہی کا دولت کدہ یہاں آنے والے علماء ومشائخ کے لیے مہمان خانہ ہوتا تھا۔ والدہ محترمہ سے نکاح کے بعد والدہ کی دینداری کا اثر والد صاحب پر بھی آہستہ آہستہ پڑنا شروع ہوا، یہاں تک کہ والد صاحب مولانا عبدالغفور بنگالی مہاجر مکیؒ سے بیعت ہوگئے اور ذکر وشغل شروع کیا۔ والد صاحب نے جب سے ذکر وشغل شروع کیا تھا، آہستہ آہستہ ان کی طبیعت پر ذکر کا اثر بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ والد صاحب پر جذبی کیفیت کا غلبہ ہونے لگا اور اسی کیفیت میں والدہ صاحبہ سے فرماتے کہ:’’ میں نے ترکِ دنیا کا ارادہ کرلیا ہے، آپ اپنے گھر چلی جاؤ۔‘‘
خاندان کے بڑوں نے ہر طرح سمجھانے کی کوشش کی،بالآخر انہوںنے طلاق نامہ پر دستخط کروالیے کہ کہیں یہ حالت جنون میں تبدیل ہوگئی تو بیوی عمر بھر کے لیے معلق رہ جائے گی اور طلاق کی عدت وضع حمل تھی، چنانچہ طلاق کے چند روز بعد ہی ننھیال نانی نرولی میں ہمارے نانا کے یہاں میری یکم محرم الحرام پیر کی شب میں ولادت ہوئی۔ جب عمر تقریباً آٹھ سال ہوئی تو جنوبی افریقہ میں ہماری خالہ گیارہ بچوں کو چھوڑ کر حالتِ زچگی میں انتقال کرگئیں، ان کی جگہ خالو نے والدہ سے نکاح کیا اور والدہ افریقہ چلی گئیں اور نانا، نانی نے میری پرورش کی، چند سال بعد ان دونوں کا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا، ان کے بعد خالہ نے پرورش کی اور پرورش کا حق ادا کردیا، رحمہا اللّٰہ رحمۃ واسعۃ۔

تعلیم

ابتدائی تعلیم ناظرہ، اردو، حفظ وغیرہ مدرسہ ترغیب القرآن نانی نرولی میں حاصل کرکے ۱۹۶۱ء میں راندیر کے مشہور مدرسہ جامعہ حسینیہ میں داخلہ لیا اور فارسی اول سے لے کر ہدایہ اولین تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد مظاہر میں ۱۳۸۶ھ-۱۳۸۵ھ میں مشکوٰۃ میں داخلہ لیا، شیخ الحدیث مولانا محمد یونس صاحبؒ سے مشکوٰۃ پڑھی، جلالین مولانا محمد عاقل صاحب سے پڑھی، اور ہدایہ ثالث مولانا مفتی یحییٰ صاحب سے پڑھی۔ دوسرے سال (۸۶ھ۸۷ھ )صحیح بخاری مکمل سیدی حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ سے، نسائی اور ابوداؤد شریفین مولانا محمد یونس صاحب جونپوریؒ سے، ترمذی، صحیح مسلم مفتی مظفر حسین صاحبؒ سے اور طحاوی حضرت ناظم صاحب مولانا اسعد اللہ صاحبؒ سے پڑھی۔

تعلقِ ارادت واصلاح

جامعہ حسینیہ راندیر تعلیم کے دوران اپنی اصلاح کی فکر ہوئی۔ ایک بزرگ کی سورت تشریف آوری معلوم ہوئی تو ان سے بیعت واصلاحی تعلق قائم کرنے کی غرض سے سورت شہر میں مولانا اسماعیل بدات کے ساتھ ان کو بہت تلاش کیا، مگر ان سے ملاقات نہ ہوسکی، بالآخر مولانا احمد ادا صاحب گودھروی کے مشورے سے بیعت کے لیے حضرت شیخ کو عریضہ لکھا اور حضرت نے داخلِ سلسلہ فرمالیا اور جوابی گرامی نامہ تحریر فرمایا۔‘‘
آپ کو شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہٗ سے سلسلۂ چشتیہ میں اجازت وخلافت عطا ہوئی اور مدینہ منورہ کے ایک سفر میں حافظ الحدیث حضرت مولانا محمد عبداللہ درخواستی نور اللہ مرقدہٗ نے آپ کو سلسلۂ قادریہ میں خلافت سے نوازا ۔۱۹۷۳ء میں آپ نے اپنے شیخ حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ کی ہدایت کے مطابق برطانیہ کے شہر بری میں دارالعلوم العربیہ الاسلامیہ کی بنیاد رکھی، اس ادارے سے ہزاروں کی تعداد میں علماء پیدا ہوئے، اور آج برطانیہ میں جو انگلش اسپیکرز، علماء، مدرسین اور خطباء کی ایک بڑی تعداد نظر آتی ہے، ان میں اکثریت دار العلوم بری کے فارغ التحصیل علماء کی ہے۔بریڈ فورڈ کے شہر میں طالبات  کے لیے جامعۃ الامام محمد زکریا اور طلبہ کے لیے مدرسہ مصباح العلوم قائم فرمایا۔ علاوہ ازیں برطانیہ کے مختلف شہروں میں مزید کئی دینی مدراس قائم کیے جن میں مدینۃ العلوم گڈ منسٹر، مرکز العلوم بلیک برن، مدرسۃ الامام محمد زکریا بولٹن، مدرسۃ الامام محمد زکریا پرسٹن، اظہر اکیڈمی لندن، المرکز العلم ڈیوز بری اور زکریا جامع مسجد بولٹن شامل ہیں۔ اب چند واقعات جو ’’حضرت شیخ الحدیث اور ان کے خلفاء‘‘ نامی کتاب میں آپ کے واسطہ سے درج ہیں، وہ نقل کیے جاتے ہیں:
۱:-جمادی الثانیہ ۱۴۰۳ھ میں آپ کے زیرِنظر اس کتاب ’’حضرت شیخ الحدیث اور ان کے خلفاء‘‘کی ترتیب کے لیے مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ دارالعلوم تشریف لائے تھے اور یہ راقم السطور مولانا یوسف صاحب کو حضرت کے مکاتیب جو میرے نام ہیں، سنارہا تھا، اسی میں حضرت کا ایک مکتوب سنایا جو میرے ایک عریضہ کے جواب میں تھا، جس میں میںنے حضرت کو اطلاع دی تھی کہ مسجد کے حادثے والے چور پکڑے گئے ، جواباً حضرت نے تحریر فرمایا کہ: ’’مجرموں کا پکڑا جانا موجبِ خیر تو ضرور ہے، اللہ کا شکر ہے، لیکن موجبِ مسرت نہیں،ایسے اُمور بہت باریک ہوتے ہیں، ایسی چیزوں پر مسرت ہونا اپنے لیے خطرناک ہوتا ہے۔‘‘ یہ سن کر مولانا محمدیوسف لدھیانوی صاحبؒ پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی، اسی حالتِ وجد میں ایک جملہ بار بار کہے جارہے تھے کہ:’’ یہ بات قطب ہی کہہ سکتا ہے۔‘‘
۲:- ۹۳ھ (۷۳ء) کا رمضان المبارک حضرت نے حرمین میں گزارا، مجھے چونکہ خالہ اور اہلیہ کے ساتھ حج پر جانا تھا، اس لیے رمضان میں حاضری نہ ہوسکی۔ اس رمضان المبارک میں عرب اور اسرائیل کی جنگ ہوئی جس کا میرے نام حضرت کے ایک گرامی نامہ میں تذکرہ یوں ہے کہ:
’’ اس جنگ کی خبروں نے بہت پریشان کیا کہ یہ ناکارہ بھی اعتکاف کے زمانہ میں بہت اہتمام سے روزانہ خبریں سنتا تھا، مولانا یوسف بنوری اور مولوی اسعد مدنی دونوں کے معتکف میرے دائیں بائیں تھے، دونوں دن بھر کی خبریں رات کو مجھے بہت تفصیل سے سناتے تھے، مولانا بنوری نے کہا کہ ختم بخاری کا خیال ہورہا ہے۔ میں نے کہا: بھلا اعتکاف میںا تنا بڑا مجمع کہاں ملے گا؟ انہوں نے کہا کہ تم سے تعلق رکھنے والے دو سو سے زائد علماء ہیں، چنانچہ ختم بخاری ہوا اور اللہ جل شانہٗ کے فضل وکرم سے ظہر کے بعد فراغت ہوگئی صرف دو گھنٹہ میں، اور مولانا بنوری صاحب نے بہت زور دار مبارک باد دی۔ یہ وہ دن تھا جس دن جنگ بندی کا اعلان ہوا۔ دعاؤں کا اہتمام اعتکاف کے زمانے میں تو ختم یٰس تراویح کے بعد اور اس کے بعد سے عصر کے بعد مدرسہ شرعیہ میں میرے حجرہ میں ہورہا ہے۔تمہارے دوست کا خواب ظاہر ہے کسی تعبیر کا محتاج نہیں، اعتکاف کے زمانے میں متعدد خواب حضور اقدس a کے متعلق سننے میں آئے۔ ایک شخص نے خواب لکھا تھا کہ سید الکونین a وضو فرماکر گھوڑے پر سوار ہوکر میدانِ جنگ میں تشریف لے گئے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی برکات سے اُمید افزا خبریں سنی جارہی تھیں۔‘‘
۳:-حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ کے پیچھے ہم لوگ بابِ جبریل کے اندر اقدامِ عالیہ کی سیدھ میں بیٹھے رہتے تھے۔ حضرت کے آس پاس، الگ الگ ، کوئی یہاں، کوئی وہاں، کوئی اپنا قرآن پڑھ رہا ہے، کوئی تسبیح پڑھ رہا ہے، کوئی درود شریف پڑھ رہا ہے، کوئی مراقبہ میں ہے، کوئی ذکر میں، ایک صاحب آہستہ آہستہ، اونچی آواز سے تو نہیں، ہلکی آواز سے ’’لا إلہ إلا اللّٰہ‘‘ کاذکر کررہے ہیں، اتنے میں کوئی صاحب وہاں سے گزرے، کسی عرب نے گزرتے ہوئے ان کو دیکھ کر اشارہ کیا کہ یہ کیا کررہا ہے؟ گردن ہلاتے ہوئے دیکھا تو میں نے کہہ دیا، حالانکہ مجھے تو انہوں نے پوچھا نہیں تھا، کیونکہ مجھ سے نہیں رہا گیا۔میں نے کہا: یذکر اللّٰہ، کہ وہ ذکر کررہا ہے۔ پھر اس نے دیکھا کہ دو تین اور بھی گردن جھکائے بیٹھے ہیں، اس نے کہا کہ یہ؟ تو میں نے کہا کہ ہو في المراقبۃ،  میری زبان سے اتفاق سے نکل گیا۔ ایسے لوگوں کے سامنے یہ صوفیاء کی اصطلاحات کاذکر بھی نہیں کرنا چاہیے، اس کے نام سے ان کونفرت، یہ مراقبہ، یہ کشف، یہ حال، لیکن جلدی میں میں نے کہہ دیا، تو ذرا سی دیر وہ دیکھتے رہے، دوچار کو دیکھا، حضرت کو دیکھا ، پھر مجھ سے پوچھتا ہے کہ ’’أنت منہم‘‘ میں نے کہا: ہاں! پھر وہ شخص بیٹھ گیا۔

مراقبہ کے معنی

پھر میں نے اس سے کہا کہ دیکھو، جو تم نے پوچھا کہ کیا کررہا ہے، یہ مراقبہ میں ہے اور مراقبہ کے معنی ، آپ نے دیکھا فلاں ہوٹل کے دروازہ پر فلاں جگہ مراقب، پہرے دار کھڑا ہوتا ہے، مراقب تو میں نے کہا: اسی سے یہ مراقبہ ہے۔اس مراقب کا کام کیا ہوتا ہے کہ کسی کو اندر نہ جانے دیں بلااجازت، جو مجاز نہ ہو وہ نہیں جاسکتا، تو میںنے کہا: اس طرح یہ اپنے قلب کا مراقبہ کررہا ہے کہ اس میں کوئی غیرداخل نہ ہونے پائے اللہ کے سوا، دل میں جس نے اس کو بسارکھا ہے اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کی محبت، تو اس کی یاد ہی میں دل کو لگائے رکھنا چاہتا ہے اور غیروں سے اس کی حفاظت مقصود ہے اور اس کا نام ہے مراقبہ۔

حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ کا تعارف

پھر اس کے بعد وہ حضرت شیخ کی طرف اشارہ کرکے پوچھنے لگے کہ اور وہ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ تم نے تو ایک سلسلہ شروع کردیا، میں نے بہت سوچا کہ اب اس کو کہاں سے شروع کراؤں؟ الف، با کوئی جانتا ہو، تو اس کو تو وہاں سے شروع کراسکتے ہیں۔ یہ بے چارہ کچھ بھی نہیں جانتا، تو میں نے اس سے کہا کہ دیکھو، یہاںکے امام کون ہیں؟ آپ کو معلوم ہے؟ اس وقت دو امام تھے: شیخ عبدالعزیز بن صالح، ساٹھ برس سے زیادہ وہ امام رہے، اور جو دوسرے نمبر کے امام تھے، وہ شیخ عبدالمجید، اس نے دونوں کا نام لیا۔میںنے کہا کہ یہ شیخ عبدالمجید جس مدرسہ کے پڑھے ہوئے ہیں، یہ مدرسہ علومِ شرعیہ جو باب النساء کے سامنے ہے، یہ (حضرت شیخ) اس مدرسہ کے لیے مالیات کی فراہمی کرنے والوں اور سرپرستوں میں سے ہیں۔ ہندوستان سے ارسالِ زر اور تمویل کے ذریعہ مساعدت فرماتے ہیں۔ جب یہ آپ کے شیخ عبدالمجید اس میں پڑھ رہے ہوں گے اور ان کے جیسے کتنے یہاں بڑے بڑے مناصب پر فائز ہوں گے، جیسا کہ یہ حرمِ نبوی کے مصلے پر امام ہیں، یہاں کے پڑھے ہوئے ہیں، تو یہ حضرت شیخ اس مدرسہ کے یہ ذمہ داروں میںسے تھے، کہا کہ اچھا اچھا۔ 
آپ حیران ہوں گے کہ ابھی تو سلفیت،سلفیت کا شور ہے دنیا میں، مگر ایک وقت وہ بھی تھا کہ مسجدِ حرام کے ائمہ کرام قطب الاقطاب حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ کی زیارت وملاقات کے لیے مدرسہ صولتیہ کے دیوان خانہ میں تشریف لاتے تھے۔ ریاسۃ الافتاء والوعظ والارشاد بالحرم المکی کے رئیس شیخ طٰہٰ فجر کی نماز کے بعد مدرسہ صولتیہ کے دیوان خانہ میںتشریف لائے اور زیارت وملاقات کے بعد ذکر بالجہر کی مجلس ہوئی۔ اس میں بھی آپ مجلسِ ذکر کے اختتام تک شریک رہے۔میںنے پوچھا کہ یہ کلیاتِ اسلامیہ ، اور کلیاتِ شریعہ میں سب سے بڑا جامعہ عرب میں کونسا ہے؟ تو اس نے کہا: ریاض میں۔ میں نے کہا: نہیں، ریاض میںتو سب سے بڑا نہیں۔ پھر میںنے کہا کہ کلیۃ الازہر۔ کہا: ہاں! ازہر، تو میں نے کہا کہ جو وہاں کے رئیس ہیں۔ دکتور عبدالحلیم محمودا بھی گزشتہ دنوں یہاںآئے تھے۔ تو وہ وہاں ایک التیسیر ہوٹل تھا، یہ باب مجیدی کے دائیں طرف، وہاں سرکاری مہمان رہا کرتے تھے، بڑا ہوٹل سمجھاجاتا تھا۔ میں نے کہا کہ اس میں ان کا قیام رہا، تو ہوٹل پہنچ کر سب سے پہلے مسجدِ نبوی انہوںنے حاضری دی اور نماز اور صلوٰۃ وسلام آپ a کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد وہ ان کی، حضرت شیخ زکریا کی خدمت میں سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ تو کہا: اچھا؟ یہ اتنے معروف انسان ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ تاریخی واقعہ ان کے یہاں بھی لکھا ہوا ہوگا کہ اس زمانہ میں ملک عبدالعزیز نئے نئے حکمراں ہوئے اور مدینہ منورہ آئے، تو حضرت سہارنپوری مولانا خلیل احمد صاحب قدس سرہٗ مدینہ طیبہ میںتھے، حضرت شیخ نور اللہ مرقدہٗ بھی وہاں ساتھ تھے، تو اس زمانہ میں بحث چلی کہ یہ جو ہم درود شریف پڑھتے ہیں، اللّٰہم صل علٰی سیدنا تو کہتے ہیں : یہ بدعت ہے۔ اسی لیے آپ دعائیں سنیںگے تو اللّٰہم صل علٰی محمد یا اللّٰہم صل علٰی محمد عبدک ورسولک۔
ایک مرتبہ جب اس کا شہرہ ہوگیا ہے، دیکھیے شرارت اور برائی کتنی پھیلتی ہے کہ یہ ہر ایک کااپنا ذاتی فعل ہے، کوئی اپنی دعا میں اللّٰہم صل علٰی سیدنا کہتا ہے، اللّٰہم صل علٰی محمد  کہتا ہے، تو دونوں کو اپنے حال پر چھوڑدیا جائے، کیا ضرورت ایک ایک نکتہ کواٹھانے کی؟ مگر علم کااظہار نہیں ہوتا جب تک کسی کو چھیڑیں نہیں، فتنہ نہ پھیلائیں، تو یہ بحث اتنی لمبی ہوگئی، سیدنا کی کہ بادشاہ تک پہنچی۔
پھر حضرت سہارنپوری قدس سرہٗ کو اور قاضی ابن بلیہد کو دونوں کو ملک عبدالعزیز نے اپنے پاس بلایا، حضرت شیخ  رحمۃ اللہ علیہ بھی ساتھ، اور پھر مسئلہ پوچھا تو حضرت سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث سنائی، دوسری سنائی کہ حدیث شفاعت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے ہیں کہ ’’أنا سید ولد آدم‘‘ میں تمام بنی نوع انسان کا سید اور سردار ہوں،سید الاولین والآخرین ہوں، لیکن ’’ولافخر‘‘ اس پر میں کوئی فخر نہیں کرتا، تو جب آپa فرماتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کے آپ سید ہیں، تو ہم اگر اپنی دعا میں اسی کا اظہار کریں کہ ہمارے سردار ہیں وہ، ہمیں اپنے ماتحتوں میںشمار فرماتے ہیں اور ہم انہیں اپنے آقا اور سید مانتے ہیں۔ اس طرح کی جب کئی احادیث ملک کی سامنے آئیں، تو بادشاہ نے کہا کہ قاضی ابن بلیہد کی طرف دیکھا سوالیہ نگاہوں سے کہ اس کا کیا جواب؟میںنے کہا کہ ان کی وہاں سے جان پہچان ہے، آپ کے چھوٹوں بڑوں سب سے پرانی جان پہچان ہے۔ اور میں نے کہا کہ اب یہ تصوف پر آپ لوگوں کواشکال ہے۔ ہمارے دلوں میں تو ہر وقت دنیا بھری ہوئی ہے، ہر وقت قسم قسم کے تفکّرات اور خیالات اور کیا کیا اس میں داخل ہوتا رہتا ہے۔ تو یہ شخص مراقبہ میںہے کہ اس کی کوشش کرتا ہے کہ میرے دل میں سوائے اللہ کی یاد کے کوئی دوسرا تصور آنے نہ پائے۔‘‘      (جمالِ محمدی کی جلوہ گاہیں، مجموعۂ ارشادات: شیخ یوسف متالاؒ، ص:۳۹۹-۴۰۵)
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر، نائب رئیس حضرت مولانا سید سلیمان یوسف بنوری، ناظم تعلیمات حضرت مولانا امداد اللہ یوسف زئی، تمام اساتذہ اور ادارہ بینات حضرت کے متوسلین اور لواحقین سے اظہارِ تعزیت کرتے ہیں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت کی بال بال مغفرت فرمائے، ان کی زندگی بھر کی حسنات کو قبول فرمائے، آپ کو جنت الفردوس کا مکین بنائے اور آپ کے شاگردوں، متوسلین اور دارالعلوم برطانیہ کے تمام اساتذہ وطلبہ کو صبرِ جمیل سے نوازیں، آمین۔
ادارہ بینات اپنے قارئین سے حضرت کے لیے ایصالِ ثواب کی درخواست کرتا ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین