بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شفیق باپ کی شہادت

شفیق باپ کی شہادت 

۳۱؍جنوری بروز جمعرات حسب معمول جمشید روڈ سے جب میں مفتی صاحب کے گھر بنوری ٹاؤن آیا، گھر والوں نے کہا کہ: مفتی صاحب آنے والے ہیں، آپ اور مفتی صاحب ناشتہ اکٹھے کرلیں۔ میں نے کہا کہ: نہیںآج مجھے جلدی جانا ہے، آپ مجھے ناشتہ دے دو ۔میں ابھی ناشتے سے فارغ ہی ہوا تھا کہ مفتی صاحب تشریف لے آئے، مفتی صاحب نے آتے ہی گھر والوںسے پوچھا کہ: میرا بیگ تیار ہوگیا ؟ تیاری ہوگئی ہے؟ میں نے مزاح کیاکہ حضرت! ہر وقت کسی نہ کسی دورے اور سفر پر رہتے ہیں، کچھ ٹائم گھر والوں کیلئے بھی نکال لیا کریں۔ مفتی صاحب نے اپنے مخصوص اندازمیں ہنس کے جواب دیا کہ یہ سفربہت ضروری ہے، مجھے ہر حال میں جانا ہے (آج مفتی صاحب نے جامعہ اسلامیہ درویشہ سے واپسی پر محراب پور جاناتھا)لیکن اﷲتعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا کہ سفر کی تیاری تو آپ نے ٹھیک کی ہے، لیکن آپ کی ٹکٹ محراب پور کی نہیں، بلکہ جنت کی کٹ چکی ہے۔ اس طرح مفتی صاحب جامعہ بنوری ٹاؤن سے مفتی صالح محمد کے ہمراہ دن کے بارہ بجے حسان علی شاہ جو حسب معمول مفتی صاحب کو روزانہ لینے آتاتھا تینوں حضرات بنوری ٹاؤن سے ہائی روف پرروانہ ہوئے ۔ظالموں نے فائرنگ کردی، تینوں حضرات موقع پر جامِ شہادت نوش فرماگئے، إناللّٰہ وإناإلیہ راجعون۔ مجھے فون آیا کہ ہمیں یہ خبر ملی ہے، میں نے مولانا اسعدمدنی کو فون کیا، مولانا اسعد مدنی نے بھی تصدیق کرد ی۔اس کے بعد میری حالت ایسی تھی جیسے مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا ہو۔کافی دیر بعد ہمت کر کے گھر آیا،گھرمیں جو رقت آمیز مناظر تھے، وہ ہم سب کے کنٹرول سے باہر تھے، یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ ایسا ہوگیا ہے، میں کسی کو تسلی توکیا دیتا، خودکی حالت ایسی تھی ۔ اﷲ نے مفتی صاحب کی اولاد کوبڑا صبر دیا، ان سے بڑھ کر زیادہ دکھ اور کس کو ہوسکتا ہے؟ جن کا شفیق باپ،محبت کرنے والا باپ اچانک ان سے جدا ہوگیا ہو، ان کے دل کی کیفیت تو صرف وہی جان سکتا ہے جو ان مراحل سے گزر رہا ہو۔ میرااور آپ کا دکھ اپنی جگہ ،لیکن ان کی اولاد کو جو جدائی کا دکھ ہے ہم اور آپ اس کا اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ اﷲتعالیٰ مفتی صاحب کی اولاد کو صبر جمیل اور استقامت عطاء فرمائے ،آمین۔   موت کا ایک دن مقرر ہے ہر انسان نے اس جہان فانی سے رخصت ہونا ہے لیکن شہادت کی موت اور شہادت بھی ایسی کہ باوضوایک جگہ سے حدیث کا سبق پڑھا کے دوسری جگہ حدیث کا سبق  پڑھانے جارہے تھے کہ جام شہادت نوش فر ماگئے، ایسی شہادت تو اﷲ کے خاص بندوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔ مفتی صاحب کا جسد خاکی جامعہ میں لایا گیا،لائن بناکر سب لوگوں کو دیدار کرایا گیا  میں نے دیدار کیا تو یقین کریں ایسا لگ رہا تھا جیسے بہت ہی گہری نیند میں ہوں۔ چہرے پراتنا اطمینان اور سکون تھا کہ جیسے ہم سب کو یہ پیغام دے رہے ہوں کہ میں تو بہت خوش ہوں اور آپ سب کو بھی خوش ہونا چاہئے۔ مفتی صاحب کا پہلے ہی بہت بلند مقام اوراعلیٰ مرتبہ تھا، شہادت نے اس مقام کو اورچار چاند لگادیئے۔ سچ پوچھیں تو اتنی بڑی ہستی ہمارے درمیان رہی اور ہم نے ٹھیک سے ان کی قدر نہیں کی اور نہ ہی ان سے مستفید ہوئے ۔ نماز جنازہ نماز عصر کے بعد رکھاگیا، اتنے کم وقت میں اتنا بڑا جتماع جمع ہوگیا تھا کہ تاحدِنگاہ لوگ ہی لوگ تھے۔ نماز جنازہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولاناڈاکٹر عبد الرازاق اسکندر نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد ہم سب ایمبولینس اور ایک بس جس میں تما م رشتہ دار سوار تھے کراچی سے خانپور روانہ ہوئے، خانپور دوسرے دن صبح آٹھ بجے پہنچ گئے، جیسے ہی خانپور میں داخل ہوئے جمعیت علماء اسلام اور جمعیت طلباء اسلام کے لوگوںنے ایمبولینس کو گھیرے میں لے لیا، چوک ڈاکڑرازی تک ایمبولینس پر پھول نچھاور کرتے آئے، چوک رازی بھائی عبد الکریم دین پوری جو کہ مفتی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں کے گھر پر جسد خاکی کورکھا گیا، تما م رشتہ داروں کو دیدار کرایا گیا، دس بجے آہوں اور سسکیوں کے ساتھ مفتی صاحب کو نماز جنازہ کے لئے نارمل اسکول لایا گیا، نماز جنازہ سے قبل جامعہ کے استاد محترم مولانا مفتی رفیق احمد بالاکوٹی نے مختصر لیکن بڑا ہی جامع بیان فرمایا،  نماز جنا زہ میاں مسعود احمد دین پوری صاحب مدظلہ نے پڑھایا،خا ن پور میں بھی نماز جنازہ میں کافی رش تھا ۔حضرت مولا نا محمدعبداﷲ درخواستی اور مولانا عبد الشکور دین پوری کے جنازے کے بعد میں نے اتنا بڑا  جنازہ دیکھا ۔نماز جنازہ کے بعد ایک مرتبہ پھر مفتی صاحب کا دیدار کرایا گیا، اس کے بعد مفتی صاحب کو ان کی آخری آرام گاہ کی طرف لایا گیا ،دین پور کے تاریخی قبرستان میں اپنے بڑ ے بھائی حکیم عبد الجمیل دین پوری کے ساتھ سپر د خاک کیا گیا ۔ مفتی صاحب کی جدائی کا دکھ جہاں انکے گھر والوں کواور بہن بھائیوں کو تھا اس کے ساتھ ساتھ میں اگر اپنی کیفیت بیان کروں تو میری حالت ایسی تھی کہ بات بات پر آنکھوں سے آنسوں ٹپک پڑتے تھے، مجھے ایسے لگتا تھا جیسے میں نے تمام آنسوں اس عظیم ہستی کے لئے چھپا کے رکھے تھے، چار سال مفتی صاحب کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے کا اتفاق ہوا، مفتی صاحب دورانِ اعتکاف نہ صرف ایک دن میں پورا قرآن پاک کا ختم کرتے تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دیگر معمولات عبادت کا بھی خوب اہتمام کرتے تھے ۔اہل محلہ مفتی صاحب کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھنے کو اپنی سعادت سمجھتے تھے، ہمیں کہتے تھے آپ روازانہ کم از کم پانچ پارے ضر ور پڑھا کرو۔سفر میں بھی عبادات کا خاص اہتما م کرتے تھے، ہر وقت تسبیحات میں مصروف رہتے تھے۔  ایک دفعہ میں اور مفتی صاحب خانپور سے کراچی بذریعہ بس آرہے تھے، جب صبح کی نماز کا ٹائم ہوا تو مفتی صاحب نے بس کے ڈرائیور کو کہا کہ نماز کا ٹائم ہوگیا ہے، ڈرائیور نے کہا کہ تھوڑی دیر بعد روکتا ہوں، لیکن کچھ دیر بعد جب مفتی صاحب نے یہ دیکھا کہ ٹائم نکلا جا رہا ہے تو مفتی صاحب نے بڑے غصے میں کہا کہ بس روکو ،پھر اس نے بس روکی اور ہم نے باجماعت فجر کی نماز اداکی ۔ جس سال مفتی صاحب کراچی آئے تھے، اس کے ایک سال بعد میں بھی کراچی ملازمت کے سلسلے میں آگیا تھا۔ اسی اثنا ء میں مجھے جب بھی کوئی مشکل ہوتی، میں مفتی صاحب سے ضرور مشورہ کرتا، مفتی صاحب میری رہنمائی فرماتے تھے ۔مفتی صاحب کے اندر خدا داد صلاحیتیں تھیں، کاروبار ی مشکلات کے بارے میں اکثر مفتی صاحب سے مشورہ کرتا تھا اور مفتی صاحب میری مشکلات کا حل ایسے نکالتے تھے کہ جیسے یہ کوئی بہت بڑے بزنس مین ہوں۔ ایک دفعہ میرے ایک بزنس مین دوست کوکاروبار میں کوئی بہت بڑی مشکل پیش آگئی، میں اسے مفتی صاحب کے پاس لے آیا، جب مفتی صاحب نے اسے سمجھایا تووہ اتنا حیران ہوااو ر اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مفتی صاحب نے ایم،بی،اے کیا ہوا ہے؟ اتنی وضاحت اور فصاحت کے ساتھ تو کوئی ایم،بی،ا ے بھی نہیں سمجھاتا، جتنی فصاحت و بلاغت کے ساتھ مفتی صاحب نے مجھے نہ صرف سمجھایا، بلکہ مجھے مطمئن کردیا ۔ مفتی صاحب کی شہادت کی خوشی کے ساتھ ہم سب کو ان کی جدائی کادکھ تو ہمیشہ رہے گا لیکن جب ہم مفتی صالح محمد شہیدؒ کے گھر تعزیت کے لئے گئے تو وہا ں کے مناظر کچھ اور ہی تھے۔ ان حضرات کو ہمارے آنے کی اطلاع پہلی سے تھی، سب حضرات نے اپنے گھر کے باہر ہمارا استقبال ہنستے مسکراتے چہروں کے ساتھ کیا،جب گھر گئے تو گھر میں کھانے کا ایسا انتظام کیا ہواتھا، ایسے لگتا تھا کہ جیسے ہم کسی شادی میں آئے ہوں۔ کھانے کے بعد مفتی صالح محمد شہیدؒ کے بھائی نے سب حضرات کا مٹھائی کے ساتھ منہ میٹھا کرایا، میں یہ سب حیران ہوکر دیکھتا رہا، یہ سب کچھ دیکھ کر مفتی عبد المجید دین پوری شہیدؒ کے بھائی برادرم حکیم محمدعبداﷲسے رہا نہ گیا اور وہ روپڑے، لیکن کمال کا اﷲنے ان لوگوں کو صبر دیا کہ مفتی صالح محمد شہیدؒ کے بھائی نے فرمایا کہ: آپ روتے کیوں ہیں؟ آپ ہمیں مبارک دیں کہ ہمارا بھائی اﷲکی راہ میں شہید ہوا ہے۔ مفتی صالح محمد شہیدؒ کے بھائی نے بتایا کہ: ہمارے خاندان میں یہ پہلا عالم ہے اور پہلا ہی شہید ہے، ہمارے بھائی کی شہادت نے ہمارے پورے خاندان میں ہمارامقام اتنا بلند کردیا ہے کہ جس کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔مفتی صالح محمد شہیدؒ کے بوڑھے باپ کا حوصلہ بھی قا بل دید تھا، دنیا کا کونسا ایسا باپ ہوگا جس کو اپنے لخت جگر کے بچھڑنے کا دکھ نہ ہوتا ہو،ان کو دکھ تو تھا، لیکن شہادت کا اتنا بلند مقام ان کے سامنے تھا، یعنی سب حضرات بہت ہی خوش تھے ۔اور پھر اسی طرح کے جذبات مولانا حسان علی شہیدؒ کے گھر والوں کے بھی تھے، وہاں سے واپس آنے کے بعد ہمارے اندر بھی کچھ حوصلہ اور ہمت آئی کہ ان کا بھی تو وہی غم ہے جو ہمارا ہے ۔ آخر میں صرف اتنا کہوں گا کہ جہاں وہ اپنے لاکھوں چاہنے والوں کو جدائی کا صدمہ دے گئے ہیں، وہاں مجھے بھی ان کی جدائی کا اتنا صدمہ ہے کہ اب کسی چیز میں دل ہی نہیں لگتا، نہ کام پر جانے کو جی چاہتا ہے اور نہ ہی گھر میں سکون ملتا ہے، زندگی میں اتنی بے چینی اور بے کیف سی طبیعت آج سے پہلے کبھی نہیں ہوئی ۔دل ہے کہ اس بات کو ماننے کو تیار ہی نہیں کہ مفتی صاحب ہم سے ہمیشہ کیلئے جداہو گئے ہیں ،  ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ابھی آجائیں گے، لیکن پھر یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ تو دنیا کا دستور ہے کہ جانے والے کبھی واپس نہیں آتے، خصوصاََجمعہ کا دن گزارنا سب گھر والوں کیلئے بہت مشکل ہوجاتا ہے، کیونکہ اسی دن مفتی صاحب سب گھر والوں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے، اب تو یہ حال ہے کہ جمعہ کے دن گھر کا ہر فرد ایک د وسرے سے نظریں چراکر اپنے دل کا غم ہلکا کررہا ہوتا ہے۔ اب تو ہر وقت یہی دعا کرتا ہوں کہ اﷲہم کمزور ہیں، ہمیں اتنی ہمت اورحوصلہ دے کہ ہم سب مفتی صاحب کی جدائی کا دکھ سہہ پائیں۔(آمین)  مفتی صاحب نے مجھے کسی دن یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کا داماد ہوں، ہمیشہ مجھے اپنے بیٹوں کی طرح پیار دیا، مجھے نہیں یاد کہ میری زندگی میں کوئی ایساموڑ آیا ہو،جس پر مجھے اتنا بڑا صدمہ پہنچا ہو اور یہ سچ بھی ہے، کیونکہ میرے دل کا درد اور میرے اند ر کی بے چینی مجھے یہ احساس دلاتی ہے کہ مجھ سے ایک عظیم ہستی جدا ہوگئی ہے ۔اﷲتعالیٰ ہم سب کو مفتی عبد المجید دین پوری شہیدؒ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائیں ۔آمین 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین