بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شریعتِ اسلامیہ میں نماز کی قضاء کا حکم

شریعتِ اسلامیہ میں نماز کی قضاء کا حکم


علماء اُمت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعتِ اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہیے۔ ہماری اور ہمارے علماء کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ اُمتِ مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں، کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اُخروی کامیابی پوشیدہ ہے، جیساکہ خالقِ کائنات نے سورۃ المؤمنون آیات (۱- ۱۱)میں بیان فرمایا ہے۔ 
قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی چاہیے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ: اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں۔ اختصار کے مدِنظر بخاری ومسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے : ’’نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔‘‘ (بخاری ومسلم) 
بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: 
’’جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔‘‘
 حدیث کی مشہور کتاب ’’ترمذی‘‘ میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: 
’’تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔‘‘
نوٹ: تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہِ کبیرہ ہے۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد پڑھی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ غزوۂ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لیے متعین فرماکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور صحابہؓ بھی سوگئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوعِ آفتاب تک نہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابیؓ کی۔ جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اُٹھایا۔ پھر صحابۂ کرامؓ کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابۂ کرامؓ اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: جو نماز کو بھول جائے، اس کو چاہیے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔ (مسلم) 
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوۂ خندق کے دن آئے اور کفارِ قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا، حتیٰ کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا، ہم نے بھی وضو کیا اور پھر غروبِ آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عصر پڑھی، پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔ (بخاری) 
بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔ مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔ تفصیلات کے لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ کی مسلم کی سب سے مشہور شرح (شرح مسلم، ج:۱، ص: ۲۷۷) اور ابن حجر عسقلانی ؒ کی بخاری کی سب سے مشہور شرح (فتح الباری، ج:۲، ص: ۶۹- ۷۰) کا مطالعہ کریں۔
 ہاں! اس بھول یا عذر کی بنا پر وقت پر ادا نہ کی گئی نماز کو اداء یا قضاء کا ٹائٹل دینے میں علماء کی آراء مختلف ہیں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا، ان شاء اللہ! لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے، اس کے لیے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماء کی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاء کرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعیؒ (متوفی:۶۹۱ھ-۷۵۱ھ) نے اپنی کتاب ’’الصلاۃ وحکم تارکھا‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ: امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضاء واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے، مگر قضاء سے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا، بلکہ اسے نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔ 
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۶۷۱ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لأحکام القرآن، ج: ۱، ص: ۱۷۸) میں یہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماء اس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاء واجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔
 علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضاء واجب ہے۔ غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً وعمداً چھوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی ضروری ہے، کیونکہ جمہور علماء حتیٰ کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے۔ جن بعض علماء نے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے، وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطۂ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے، اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاء کا معاملہ ہی نہیں رہا۔ لیکن جمہور علماء کی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں، بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے، ورنہ عصرِ حاضر میں اُمتِ مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرۂ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔
 مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے‘ اس پر قضاء لازم ہے۔ بعض علماء نے مخالفت کی ہے، مگر بعض علماء کی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہلِ ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلاعذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاء واجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاء کرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے، مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔ (شرح مسلم، ج:۱، ص: ۲۳۸) 
علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں کہ: بعض اہلِ ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔ (التعلیق الممجد علی مؤطا للإمام محمدؒ،ص: ۱۲۷
خلاصۂ کلام یہ کہ ۱۴۰۰ سال سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاء کرنی ضروری ہے، خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔ بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا، مگر قضاء کرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاء کو واجب قرار دیا جائے، تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اُٹھانی نہ پڑے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابوداود، مسند احمد) 
جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں، بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاء کے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی، مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی، یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاء بھی کرنی ہوگی۔ غرضیکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہیے، ہاں! خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاء کرنی چاہیے، خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیا، بلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنی چاہیے، خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاء کرتا رہے۔
علماء کرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لیے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرے۔ یہی ۱۴۰۰ سالوں سے جمہور فقہاء وعلماء ومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصرِ حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماء کرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے، حتیٰ کہ علماء کرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاء بھی کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو، آمین۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین