بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرم و حیا .... انسانیت کا لباس 

شرم و حیا .... انسانیت کا لباس 

 

محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’ایمان کی ساٹھ سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘ 
حضرت عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہا  فرماتے ہیں: ’’ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  ایک انصاری مسلمان کے پاس سے گزرے جو اپنے بھائی کو بہت زیادہ شرم و حیا کے بارے میں نصیحت کررہا تھا، تب آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’اسے اس کے حال پر چھوڑ دو، کیونکہ حیادراصل ایمان کاایک حصہ ہے۔‘‘ 
ایک اور صحابی عمران بن حصین ؓنے بتایا کہ ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ: 
’’شرم وحیا صرف بھلائی کا باعث بنتی ہے۔‘‘ 
محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے ادیان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: 
’’ہر دین کی ایک پہچان ہوتی ہے، اور ہمارے دین کی جداگانہ پہچان ’’شرم وحیا‘‘ہے۔‘‘ 
ایک بار محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حیا کی غیرموجودگی کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ: 
’’جب تجھ میں حیا نہ رہے تو جو چاہے کرتا رہ۔‘‘ 
اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ کسی بھی برے کام سے روکنے کا جو واحد سبب ہے وہ شرم و حیا ہے، اور جب کسی میں شرم کا فقدان ہو جائے اور حیا باقی نہ رہے تو اب اس کا جو جی چاہے گا وہی کرے گااورجب انسان اپنی مرضی کا غلام بن جاتا ہے تو تباہی اس کا یقینی انجام بن جاتی ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: 
’’جب اﷲتعالیٰ کسی بندے کو ہلاک کرنا چاہے تواس سے شرم و حیا چھین لیتاہے۔‘‘
ایک طویل حدیثِ مبارکہ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود  رضی اللہ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ ایک موقع پر محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’ اﷲ تعالیٰ سے ایسی حیا کرو جیسی کہ اس سے کرنی چاہیے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ: الحمدﷲ! ہم اﷲتعالیٰ سے حیاکرتے ہیں، محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: نہیں، حیا کا مفہوم اتنا محدود نہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو، بلکہ اﷲتعالیٰ سے حیاکرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں جو افکار وخیالات ہیں ان سب کی نگرانی کرو اور پیٹ کی اور جو کچھ پیٹ میں بھراہے، اس سب کی نگرانی کرو، اور موت کو اور موت کے بعد جو کچھ ہونے والا ہے، اس کو یاد کرو،پس جس نے ایسا کیا، سمجھو اس نے اﷲتعالیٰ سے حیا کرنے کاحق ادا کردیا۔‘‘ 
اس حدیثِ مبارکہ میں فکرو عمل سے موت و حیات تک کے تمام اُمور میں حیا کا درس دیا گیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ حیا کی سب سے زیادہ حق دار اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے، اور چونکہ اﷲ تعالیٰ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے، اس لیے کھلے چھپے ہرحال میں اﷲ تعالیٰ سے حیا کی جائے اور اﷲتعالیٰ سے حیا کا مطلب اﷲ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کیا جائے اور جلوت ہو یا خلوت‘ برائیوں سے بچنا اور نیکیوں میں سبقت اختیار کرنا ہی تقویٰ ہے۔ 
حضرت ابن حیدہؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنی شرم گاہ محفوظ رکھو (کسی کے سامنے نہ کھولو) سوائے اپنی بیوی اور باندی کے، میں نے عرض کیا: یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تنہائی میں بھی؟! (شرم گاہ نہ کھولی جائے) محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے جواباً ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔‘‘
حضرت ابو سعید خدریؓبیان کرتے ہیں کہ :
 ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کنواری پردہ نشین عورت سے بھی کہیں زیادہ حیادار تھے۔‘‘ 
اسی لیے ہر قبیح قول و فعل اور اخلاق سے گری ہوئی ہر طرح کی حرکات و سکنات سے آپ کا دامنِ عفت و عصمت تاحیات پاک رہا۔ 
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نہ فحش کلام تھے،نہ بیہودہ گوئی کرتے تھے اور نہ ہی بازاروں میں شور کیا کرتے تھے،برائی کا بدلہ کبھی برائی سے نہ دیتے تھے، بلکہ معاف فرما دیتے تھے، یہاں تک کہ زوجہ محترمہ ہوتے ہوئے بھی بی بی پاکؓ نے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو برہنہ نہ دیکھا تھا۔ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کے بچپن میں جب آپ بہت چھوٹی عمر میں تھے اور اپنے چچاؤں کی گود میں کھیلا کرتے تھے تو ایک بار پاجامہ مبارک تھوڑا سا نیچے کو سرک گیا تو مارے حیا کے بے ہوش ہوگئے، تب پانی کی چھینٹوں سے ہوش دلایا گیا، چنانچہ بعدازبعثت حضرت جرہد ابن خویلدؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیاتمہیں یہ معلوم نہیں کہ ران(بھی) ستر میں شامل ہے؟۔‘‘ 
حضرت علی کرم اﷲوجہ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے علی! اپنی ران نہ کھولو اور کسی زندہ یا مردہ آدمی کی ران کی طرف نظر بھی نہ کرو۔‘‘ 
حضرت ابوسعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد مبارک ہے کہ: ’’مرد دوسرے مرد کے ستر کی طرف اور عورت دوسری عورت کی ستر کی طرف نگاہ نہ کرے۔‘‘ 
عبداﷲبن عمر رضی اللہ عنہما  سے تو یہاں تک روایت ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’لوگو! (تنہائی کی حالت میں بھی) برہنگی سے پرہیز کرو (یعنی ستر نہ کھولو) کیونکہ تمہارے ساتھ فرشتے ہروقت موجود ہوتے ہیں اور کسی بھی وقت جدا نہیں ہوتے، لہٰذا اُن کی شرم کرو اور ان کا احترام کرو۔‘‘ چنانچہ فقہاء لکھتے ہیں کہ سوائے قضائے حاجت اور وظیفۂ زوجیت کے اپنا ستر کھولنا جائز نہیں اور بالکل الف ننگا ہوکر غسل کرنا بھی خلافِ سنت ہے، پس دورانِ غسل بھی کسی کپڑے سے ستر یا ننگ کا ڈھکا ہونا بہتر ہے۔
حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت گویا ستر (چھپی ہوئی) ہے، جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیاطین اس کو تاکتے ہیں اور اپنی نظروں کا نشانہ بناتے ہیں۔‘‘ 
حضرت حسن بصریؒ نے فرمایا کہ مجھ تک یہ قولِ رسول  صلی اللہ علیہ وسلم  پہنچاہے کہ: ’’اﷲ تعالیٰ کی لعنت ہو دیکھنے والے پر اور جس کو دیکھا جائے۔‘‘ چنانچہ جب اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میںدریافت کیا گیا تو محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ادھرسے اپنی نگاہ پھیرلو۔‘‘ 
حضرت بریدہؓ فرماتے ہیں کہ: محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کونصیحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’اے علیؓ! (اگر کسی نامحرم پر تمہاری نظر پڑ جائے تو) دوبارہ نظر نہ کرو، تمہارے لیے (بلاارادہ) پہلی نظر تو جائز ہے، مگردوسری نظر جائز نہیں۔‘‘ 
حضرت ابوامامہ ؓنے روایت کیاہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس مرد مومن کی کسی عورت کے حسن و جمال پر نظر پڑ جائے، پھر وہ اپنی نگاہ نیچی کرلے تو اﷲ تعالیٰ اس کو ایسی عبادت نصیب فرمائے گا جس کی لذت و حلاوت اس مردِ مومن کو محسوس ہوگی۔‘‘ 
امیرالمومنین حضرت عمر بن خطابؓسے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ’’ایسا ہرگزنہیں ہو سکتاکہ کوئی (نامحرم) آدمی کسی عورت سے تنہائی میں ملے اور وہاں تیسرا شیطان موجود نہ ہو۔‘‘ 
ایک موقع پر حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں، محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم (نامحرم) عورتوں کے پاس جانے سے بچو (اور اس معاملے میں بہت احتیاط کرو)۔‘‘ 
حضرت جابرؓ بیان کرتے ہیں کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ: ’’تم ان عورتوں کے گھروں میں مت جایا کروجن کے شوہر باہر گئے ہوئے ہوں، کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتا ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’آنکھوں کا زنا (نامحرم عورت کی طرف) دیکھنا ہے، کانوں کا زنا (حرام آواز کا) سننا ہے، زبان کا زنا(ناجائز) کلام کرنا ہے، ہاتھ کا زنا (ناجائز) پکڑنا ہے اور پیر کا زنا (حرام کی طرف) چل کر جانا ہے اور دل خواہش کرتا ہے اور آرزو کرتا ہے اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔‘‘ 
حضرت امِ سلمہ ؓبیان کرتی ہیں کہ میں اور حضرت میمونہؓ محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھی تھیں کہ ایک نابینا صحابی ابنِ اُمِ مکتومؓحاضرِ خدمتِ اقدس ہوئے تو ہمیں حکم ہوا کہ: ’’تم (دونوں) ان سے پردہ کرو، ہم نے عرض کی: یارسول اﷲ! کیا وہ نابینا نہیں ہیں؟ پس محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم (دونوں) بھی نابینا ہو؟ کیا تم (دونوں) انہیں نہیں دیکھتیں؟۔‘‘ 
حضرت عبداﷲ بن عباس ؓنے فرمایا کہ : ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں والا حلیہ اختیار کرنے والے مردوں پر اور مردانہ انداز اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی مضمون کو حضرت ابوہریرہؓ نے بھی یوں بیان کیا کہ: ’’محسنِ انسانیت  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اس آدمی پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کا سا لباس پہنتا ہے اور اس عورت پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مردوں کا سا لباس پہنتی ہے۔‘‘
شرم و حیا بعض اوقات بوجھ تصور ہوتے ہیں اوربہت کچھ معاشرتی تقریبات میں تکلیف کا باعث بھی شاید سمجھے جاتے ہوں، جیسے مردوں اورعورتوں کے لیے قیام و طعام اور نشست و برخواست کا جدا جدا انتظام کرنا اور زنانے میں مردوں کے داخلے پر جزوی پابندی، مردحضرات کے لیے غصِ بصر (نظریں نیچی رکھنے) کا حکم اور خواتین کے لیے حجاب اور اوڑھنیوں کاقانون اور بازاروں میں اور میلوں ٹھیلوں اور کھیل تماشوں میں خواتین کی حتی الامکان حوصلہ شکنی وغیرہ، لیکن ان معمولی بارِگراں جیسے انتظامات کے نتیجے میں ایک بہت بڑا ثمرآور معاشرہ وجودمیں آتا ہے، جہاں نسلوں کے نسب مکمل طورپر محفوظ ہوتے ہیں اور آنکھوں میں شرم و حیاکے باعث سینوں میں ایمان بھی سلامت رہتا ہے۔ یہ انتظامات اگرچہ بعض اوقات معمولی کوفت کا باعث بھی بن جاتے ہیں، لیکن حساب کے عملی قاعدے کے مطابق آمدن اور خرچ کے تقابل کے بعد نفع یا نقصان کا تعین کیا جاتا ہے، چنانچہ اس معمولی سی تکلیف کے بعد عالمِ انسانیت کو اگر ایمانی و روحانی و جسمانی صحت بھی میسر آجائے تو سودا نہ صرف یہ کہ مہنگا نہیں، بلکہ انتہائی سودمند اور بارآور ہے۔ اس کے برعکس مخلوط محافل میں سب سے پہلے آنکھوں کی حفاظت مطلقاً ناممکن ہوتی ہے۔ آنکھوں کے راستے دل کی آلودگی شروع ہوجاتی ہے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے ایک ارشاد مبارک کا مفہوم ہے کہ: ’’نظر دل کی طرف تیروں میں سے ایک تیر ہے۔‘‘ 
نظر بازی سے ناجائز آشنائیوں کے راستے کھلتے ہیں اور پھر انسانی معاشرہ بالآخر تباہی کے اس گڑھے میں جاگرتا ہے جس سے بچانے کے لیے انبیاء o کو مبعوث کیا گیا تھا۔ ہرمیدانِ عمل کی طرح جب حیا اور شرم کے میدان میں بھی آسمانی تعلیمات سے منہ موڑ کر روگردانی کی جائے اور احکاماتِ ربانیہ کوپس پشت ڈال کر شادمانیوں کے گل چھڑے اُڑائے جائیں گے تو تباہی و بربادی انسان کا مقدر ٹھہرے گی۔
بے حیائی کے منطقی وتاریخی نتائج میں سے ایک بہت بھیانک نتیجہ خاندانی نظام کی تباہی ہے۔ شرم و حیاکاایک نتیجہ نکاح کے ادارے کی مضبوطی و پختگی اوردوام بھی ہے۔ مرد کو جب دوسری عورتیں نظرہی نہیں آئیں گی یا لپٹی،سمٹی اورڈھکی ہوئی نظر آئیں گی تو چاہتے ہوئے یانہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تمام تر توجہ اپنی ہی زوجہ کی طرف رہے گی۔ اسی طرح جب عورت کا چاہنے والا صرف ایک ہی ہوگا، یعنی اس کا اپنا شوہر ہی ہوگا تو اس کا مرکزِ التفات کبھی منتشرنہیں ہوگا،اور خاندانی نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جائے گا، جس کا نتیجہ سوائے خیر کے کچھ بھی برآمد نہیں ہوگا۔ 
اگر تصویر کا دوسرا رُخ مشاہدہ کیا جائے تو دنیا میں اس قبیل کے بھی بے شمار معاشرے نظر آئیں گے،جو معاشرے معاشقوں کی بھینٹ چڑھ کر زندہ انسانوں کا قبرستان بن چکے ہیں، بے روح انسانوں کے اجسام کاجم غفیرہے جو ایک دوسرے سے بیزار، حرص و ہوس کی دوڑ میں چند سکوں کے عوض باہم جھنجھوڑنے، بھنبھوڑنے اور نوچنے، چاٹنے، سونگھنے اور چکھنے کے بعد اگلے شکار کی تلاش میں کسی دوسرے بے روح جسم سے کفن کو تارتار کرنے کی تگ و دومیں مصروفِ عمل ہوجاتاہے۔ شرم و حیا کے قحط نے وہاں کے انسانوں کی روحوں کو بے آب و گیاہ ریگستان کی مانند تپتے ہوئے پیاسے صحراکی مثال بنادیا ہے، جہاں ہرسو سراب ہی سراب ہیں۔ رحم کے رشتے ہوں یانسبی و صہری تعلقات ہوں، شرم و حیا کی قلت وتعدیم نے ہرنوع کے دامنِ عصمت کو ورق ورق کردیا ہے اور اس کا وہی مذکورہ نتیجہ برآمد ہوا ہے کہ عریانی و فحاشی کے خونخوار ہاتھوں سے خاندانی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ہے۔
لومڑی گڑھے میں پھنسی تھی، باربارچھلانگیں لگانے کے باوجود نکل نہیں پارہی تھی۔گدھے نے دیکھا تو لومڑی نے فوراً گڑھے کی دیواروں کو سونگھ کر آنکھیں اس طرح بندکیں کہ جیسے بہت لذت وسرور آرہا ہو۔ گدھے نے پوچھاتولومڑی نے گڑھے کے قصیدے پڑھنے شروع کر دئیے کہ گویا یہ گڑھا قطعۂ بہشتِ بریں ہے۔ گدھے نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، چھلانگ لگادی ۔ لومڑی نے گدھے کی کمر پر اپنے پاؤں ٹکائے اور چھلانگ لگاکر گڑھے سے باہر آگئی۔ دشمن اپنے پورے وسائل،قوت و طاقت اور ذہنی وفکری صلاحیتوں اور تحریری و تقریری موادسے سے اُمتِ مسلمہ کے سامنے عریانی و فحاشی و مے خواری و بدکاری و لذتِ گناہ اور گناہِ بے لذت کے اس مکروہ اوربدبودارومکروہ گڑھے کو جنت بناکردکھانے میں پوری طرح مصروف ہے، جب کہ غدارانِ ملت ہمیشہ کی طرح اس باربھی گدھے کاکرداراداکرکے اپنی وہ قیمت وصول کررہے ہیں کہ جس کا خمیازہ صدیوں تک نسلوں کوبھگتناپڑے گا۔ ایسے لوگوں کے بارے قرآن مجیدنے واضح طورپر کہاہے کہ: 
’’اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَۃُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اللہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔‘‘                                  (النور:۱۹)
ترجمہ: ’’جولوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب کے مستحق ہیں، اﷲ تعالیٰ جانتاہے اورتم نہیں جانتے۔‘‘
دشمن ہمیں اس گڑھے میں دانستہ طورپر گرانا چاہتاہے، جہاں سے نکلنے میں وہ خودبری طرح ناکام ہے، لیکن وہ گڑھے میں پھنسنے کے بھیانک انجام سے ہمیں اس لیے آگاہ نہیں کرتا کہ ہم اس کے جال میں بآسانی شکارہو جائیں، لیکن اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی تعلیمات ہمارے لیے بہت کافی ہیں، الحمد للہ۔
گزشتہ اقوام کی تباہی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ گناہ کے کام مل کر اجتماعی طورپرکیاکرتے تھے۔ اﷲتعالیٰ کا ہر عذاب اگرچہ بڑا عذاب ہے، لیکن سب سے سخت ترین عذاب قومِ لوط پر آیا جو اجتماعی عذاب بھی تھا اور انفرادی عذاب بھی۔ اس قوم کے جرائم میں ایک جرم یہ بھی تھا کہ وہ شرم و حیا سے عاری ہو چکی تھی اور بے حیائی کے کام بھری محفلوں میں سرِعام کیا کرتے تھے۔ قومِ لوط کے لوگوں کی گفتگوئیں، ان کی حرکات و سکنات، اشارات و کنایات اور ان کے محلے اور بازارسب کے سب عریانی و فحاشی اور برائی و بے حیائی کا مرقع تھے، تب وہ غضبِ خداوندی کے مستحق ٹھہرے۔ 
آج کی سیکولر تہذیب نے بھی انسانیت کوحیاکے لبادے سے ناآشنا کر دیا ہے اور انسان کوثقافت کی آڑ میں اپنے خالق و مالک سے دور کر کے تباہی و بربادی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ پس جو بھی اس بے ہودگی و ہوسِ نفس کی ماری پرکشش اورفریب زدہ سیکولر تہذیب میں داخل ہو گا، وہ ’’إِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِيْ خُسْرٍ ‘‘ کی عملی تصویر بنتے ہوئے ممکن ہے کہ قومِ لوط میں شمار ہوکہ یہ سیکولر فکر خالصتاً ابلیس اور اس کے پیروکاروں کا راستہ ہے، جس کا انجام بھڑکتی ہوئی آگ کی وادیاں ہیں، اور جو اس نقصان سے بچنا چاہے اس کے لیے کل انبیاء o کا طریقۂ حیات موجود ہے، جسے بسہولت حیاتِ حیاداری کا نام دیا جاسکتا ہے کہ اس دنیا میں انسانوں سے حیا ہو اور روزِ محشر اﷲ تعالیٰ بزرگ و برتر کے سامنے پیش ہونے کا خوف و حیا ہو۔
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین