بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی: متن قانونِ ثبوتِ نسب (دوسری قسط)

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:

 متن قانونِ ثبوتِ نسب    (دوسری قسط)

 

فصلِ دوم: نکاحِ فاسد

دفعہ۱۲۔ نکاحِ فاسد کی صورت میں ثبوتِ نسب:
(۱)    نکاحِ فاسد میں متارکت یا تفریق سے پہلے جو اولاد پید ا ہو وہ شوہر کے اقرار یا تصدیق کے بغیر بھی صحیح النسب قرار پائے گی اور لعان سے بھی ان کا نسب منتفی نہ ہوگا ، مگر شرط یہ ہے کہ:
        الف۔    دخول کے بعد اقل مدتِ حمل گزر چکی ہو۔
        ب۔    شوہر بالغ یا مراہق ہو۔
        ج ۔    زوجین میں عدم یکجائی کا ثبوت نہ ہو۔
دخول کے بعد چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت کی صورت میں نومولود ثابت النسب نہیں قرار پائے گا،اگر چہ عقد کے بعد چھ ماہ گزرچکے ہوں ، ماسوا اس صورت کے کہ شوہر دعوائے نسب کرے،مگر شرط ہوگا کہ زنا کی تصریح نہ کرے۔
(۲)    جو اولاد نکاح کی تنسیخ بذریعہ متارکت یا تفریق کے بعد اکثر مدتِ حمل کے اندر پیدا ہو، وہ صحیح النسب کہلائے گی۔
فصلِ سوم:شبہ

دفعہ۱۳۔ شبہ کی صورت میں ثبوتِ نسب
جو بچہ محل یا عقد کے شبہ میں وطی کے نتیجے میں پیدا ہو وہ واطی سے ثابت النسب کہلائے گا، جب کہ واطی اس کے نسب کا دعویٰ کرے۔
اگر وطی فعل کے شبہ کی بنا پر ہو تو اولادغیر صحیح النسب کہلائے گی، مگر یہ کہ کوئی شبِ زفاف میں اپنی حقیقی زوجہ کے گمان میں کسی اجنبیہ سے وطی کرلے، جب کہ اسے باور کرایا گیا ہوکہ وہ اس کی حقیقی زوجہ ہے۔
بابِ چہارم 

ثبوتِ نسب درصورتِ تفریق
دفعہ۱۴۔معتدہ جو عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہو:
 معتدہ جو عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہو،خواہ: 
      مطلقہ مدخولہ ہو یا غیر مدخولہ
    مراہقہ ہو یا کبیرہ
           عدت نکاح صحیح کی ہو یا فاسدکی
                عدت طلاق کی ہو یا وفات کی یا کسی دیگرشرعی سبب تنسیخ کی بنا پر ہو
                        اگر طلاق کی عدت ہو تو طلاقِ رجعی ہویا بائن
                            اگر طلاق بائن ہو توبینونتِ صغریٰ ہو یا کبریٰ
اگر طلاق یا وفات یا تنسیخ جیسی صورت ہو،کے بعدچھ ماہ کے اندر بچہ پیدا ہوتو نومولود ثابت النسب کہلائے گا،مگر شرط ہوگاکہ:
    الف :    مدت اس قدر ہو کہ جس میں عدت گزرسکتی ہو۔
    ب:    عدت گزرنے کا اقرار فوری ہو۔
استثناء :    آیسہ اگر عدت گزرنے کا اقرار کرے اور پھر دوسال سے کم مدت میں بچہ کو جنم دے تو نومولود کانسب ثابت ہوگا۔
دفعہ۱۵۔معتدہ بائنہ سے ثبوتِ نسب:
(۱)    انقطاعِ زوجیت کے بعد، ثبوتِ نسب درج ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہوگا:
        الف۔    بچہ دوسال یا اس سے کم مدت میں تولد ہوا ہو ۔
        ب ۔    عورت مدخولہ ہو۔ 
        ج۔     معتدہ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔
استثناء :    جڑواں بچوں کی پیدائش کی صورت میں اگر ایک بچہ مدتِ حمل کے اندر پیدا ہو تودونوں بچے ثابت النسب کہلائیں گے۔
    دوسال سے زائد مدت میں ولادت سے بچہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا،مگر یہ کہ شوہر نسب کا دعویٰ کرے ، بہ شرط یہ کہ زنا کی تصریح نہ کرے،عورت کی تصدیق کی ضرورت نہ ہوگی۔
(۲)    معتدہ عدت گزرنے کا اقرار کرتی ہے تو :
قطعِ زوجیت کے چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت کی صورت میں بچہ کا نسب باپ سے قائم ہوگا۔
    چھ ماہ یا اس سے زائدمدت کی صورت میں جوازِ نسب قائم نہ سمجھا جائے گا،خواہ ولادت :
        الف ۔    انقطاعِ نکاح کے دوسال کے اندر ہو۔
        ب۔    دوسال سے کم مدت میں ہو۔
        ج۔    چھ ماہ کی مدت میں ہو۔
دفعہ۱۶۔بیوہ سے ثبوتِ نسب:
(۱)    بیوہ ،بہ شرط یہ کہ :
        الف۔    مراہقہ نہ ہو۔
        ب۔    عدتِ وفات گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو۔
اگر شوہر کی تاریخ وفات کے بعددوسال کے اندر بچہ جنم دے تو بچہ صحیح النسب کہلائے گا۔
اگربیوہ شوہر کی وفات کے بعد دوسال سے زائد مدت میں بچہ جنم دے تووہ ثابت النسب نہیں کہلائے گا، مگر یہ کہ میت کے ورثاء نسب کا دعوی کریں۔
(۲)    بیوہ عدت گزرنے کااقرار کرتی ہو تو ثبوتِ نسب کے لیے لازم ہے کہ :
        الف۔    بچہ اقرار کے بعد چھ ماہ کے اندر پیدا ہو۔
        ب۔    شوہر کی تاریخ وفات سے دوسال کے اندر پیدا ہو،بنابرایں:
اگر اقرار کے پورے چھ ماہ بعدیاچھ ماہ سے زیادہ مدت میں بچہ کی پیدائش ہوئی تو جوازِ نسب قائم نہ ہوگا،خواہ،ولادت :
                   وفات کے بعد دوسال کے اندر ہو۔
                          کامل دو سال میں ہو۔ 
                                دوسال سے زائد مدت میں ہو۔
توضیح:    شق اول کی ذیلی شق ب میں اگر نسب کی تصدیق کرنے والے ورثاء اہل شہادت ہوں تو نسب تمام لوگوں کے حق میں ثابت سمجھا جائے گا،اگر اہلِ شہادت نہ ہوں توصرف مقرین کے حق میں نسب ثابت ہوگا۔
دفعہ۱۷۔مراہقہ سے ثبو تِ نسب:
(۱)    مراہقہ اگر مدخولہ نہ ہو تو:
الف ۔    چھ ماہ سے کم مدت میں ولادت سے بچہ ثابت النسب ہوگا۔
ب ۔    چھ ماہ یااس سے زیادہ مدت میں ولادت کی صورت میں بچہ ثابت النسب نہیں ہوگا۔
(۲)    مراہقہ اگر مدخولہ ہو اور عدت گزرنے کا اقرار کرے تو :
        الف۔    اقرار کے بعد چھ ماہ کے اندر پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہے۔
        ب۔    چھ ماہ یا اس سے زائد میں پید اہونے والا بچہ ثابت النسب نہیں ہے۔
(۳)    مراہقہ اگر عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو تو:
الف۔    اگر حمل کا دعویٰ ہو تو کبیرہ کا حکم رکھتی ہے۔
ب۔    اگر حمل کا دعویٰ نہ ہو تو طلاق کے بعد نوماہ سے پہلے بچہ پیدا ہو تو ثابت النسب ہے ، ورنہ نہیں۔
امام ابو یوسفؒ کے نزدیک طلاقِ بائن کی صورت میں دوسال تک اور رجعی کی صورت میں ستائیس مہینے تک بچہ ثابت النسب کہلا ئے گا۔
فصلِ دوم

دفعہ۱۸۔ثبوتِ نسب و ولادت اور تعیینِ ولادت میں اختلاف:
(۱)    زمانۂ زوجیت کے قیام کی حالت میں شوہر:
        الف۔    نسب کی تصدیق کرے ،یا
        ب۔    سکوت برتے 
        بہردو صورت نسب ثابت ہے۔
    اگر شوہرنسب کا انکار کرے تو:
        الف۔    نکاح صحیح کی صورت میں بجزلعان، نسب کی نفی کا اور کوئی طریقہ نہیں۔
ب۔    نکاحِ فاسد کی صورت میں انکارِ نسب کے لیے لعان کا عمل بھی مؤثر نہیں۔
(۲)    حالتِ قیامِ نکاح میں اگر شوہربچہ کی ولادت کا انکار کرے تو ایک:
        الف۔     آزاد
        ب۔     عاقلہ
        ج۔     بالغہ
        د۔     مسلمان 
        عورت کی گواہی ،خواہ:
        دایہ ہو یا کوئی اور ہو ،یا
ایک ایسے عادل مرد کی گواہی جس نے بوقتِ ولادت دانستہ نگاہ نہ ڈالی ہو، ثبوتِ ولادت کے واسطے کافی ہے۔
(۳)    معتدہ رجعیہ اگر:
    عدت کے اختتام پذیر ہونے کی مدعیہ نہ ہو، اور
    دو سال سے زائد مدت میں بچہ جنم دے، اور 
شوہر بچہ کی ولادت کاانکار کرے تو ذیلی شق ۲کے احکام کے بموجب عمل درآمد ہوگا۔
(۴)    انقطاعِ زوجیت کی صورت میں خواہ انقطاع :
        الف۔    طلاق بائن کی وجہ سے ہو،یا
        ب۔    شوہر کی وفات کی وجہ سے ہو،یا
        ج۔    کسی اور شرعی سبب فسخ کی بنا پر ہو۔
اگر معتدہ مدتِ حمل میں ولادت کی مدعیہ ہو اور شوہر یا اس کے ورثاء منکر ہوں، تو ثبوتِ ولادت کے واسطے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے نزدیک کامل شہادت درکار ہوگی، مگر یہ کہ:
        شوہر نے حمل کا اعتراف کیا ہو،یا
          حمل کا ہونا بالکل واضح ہو۔
(۴)    اگر شوہر نومولودکی ولادت کا معترف مگر تعیین اورشناخت میں اختلاف کرے تو ایک:
         الف۔    آزاد
        ب۔    عاقلہ
        ج۔    بالغہ 
عورت کی گواہی درکار ہوگی،جب کہ صاحبین کے نزدیک درج بالا تمام صورتوں میں ایک عورت کی یا ایک مرد کی جس نے دانستہ نگاہ نہ ڈالی ہو‘ کافی ہے۔
توضیح:    ظہور حمل سے مراد یہ ہے کہ حاملہ چھ ماہ سے قبل بچہ جن دے،دوسرا قول یہ ہے کہ حمل کی علامات اس قدر ظاہر ہوں کہ اس سے حمل کا غلبۂ ظن ہوجائے۔
بابِ پنجم 
اقرار
فصلِ اول:براہِ راست اقرار
دفعہ۱۹۔مرد کی طرف سے اقرارِ ولدیت:
(۱)    کسی مرد کی طرف سے اقرار ِ ولدیت سے قیامِ نسب متذکرہ ذیل شرائط کے ساتھ مشروط ہوگا:
الف۔    فریقین کے عمریں ایسی ہوں کہ اقرار کنندہ مقرلہٗ کا باپ ہوسکتاہو۔
        ب۔    مقرلہٗ مجہول النسب ہو۔
        ج۔    ولدیت کا اقرار زنا کی تصریح کے ساتھ نہ ہو۔
د۔    اقرارکو مقرلہٗ نے مسترد نہ کیا ہو،جب کہ وہ (جمہور کے نزدیک) عاقل وبالغ اوراحناف کے نزدیک سمجھ دار ہو۔
ھ۔    اقرارِنسب متنازع نہ ہو،مثلاً: کوئی اورشخص بھی مقر لہٗ کے نسب کا مدعی نہ ہو۔
و۔    مقر لہ حیات ہو،مگریہ کہ اس کی کوئی اولاد ہو تو فوت شدہ شخص کے متعلق بھی اقرارِ ولدیت درست ہوگا۔
ز۔    کوئی ایسا منفی قرینہ قائم نہ ہوجس کی بنا پر مقرلہٗ، مقر کی جائز اولاد نہ ہوسکتا ہو۔
    شرائط بالاکی موجودگی میں جواز نسب قائم ہوگا، خواہ
        مقرلہ لڑکا ہویا لڑکی، اور خواہ
        مقر مرضِ وفات کے اندر ہی مبتلا کیوں نہ ہو
اقرارِ ولدیت کے اثر سے فریقین کے درمیان شرعی حقوق اور ذمہ داریاں پیدا ہوں گی۔
مقرلہٗ مقر کے ورثاء کے ساتھ وراثت میں شریک ہوگا، اگر چہ مقرکے ورثاء مقر لہٗ کے نسب کاانکار کریں ۔
مقرلہٗ مقر کے باپ سے بھی حصہ رسدی کا مستحق ہوگا، اگرچہ وہ مقرلہ کے نسب کاانکار کرتاہو۔
(۲)    اگر کوئی عورت مقر کی وفات کے بعد بایں طور مدعیہ ہوکہ وہ مقر کی زوجہ ہے اورمقر لہٗ مقر سے اس کی جائز اولاد ہے تو شرائط ذیل کی موجودگی میں وہ بھی مقر کی وارثہ قرار پائے گی:
        الف۔    مدعیہ کا مقرلہٗ کی ماں ہونا مشہورومعروف ہو۔
        ب۔    مدعیہ کا مسلمان ہونامشہور ومعروف ہو۔
ج۔    مدعیہ اصلاً آزاد ہو یا مقرلہٗ کی ولادت سے دوسال پیشتر آزاد ہوچکی ہو۔
    اگر مقر کے ورثاء انکار کریں کہ مدعیہ :
        مقرکی زوجہ نہ ہے، یا
        مقرلہٗ کی والدہ نہ ہے ،یا 
        مقر کی وفات کے وقت وہ مسلمان نہ تھی 
    تو مدعیہ مقر کی وارثہ نہیں قرار پائے گی، یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب کہ :
        مدعیہ کا آزادہونا، یا
        مقرلہ کی ماں ہونا، یا
مسلمان ہونا معلوم نہ ہو، اگر چہ مقر کا کوئی وارث اختلاف نہ کرتا ہو، مگر یہ کہ مدعیہ شہادت کے ساتھ امر متنازع ثابت کردے۔ 
استثناء :    ولد الملاعنہ کا دعویٰ نسب اور ملاعن کے علاوہ کسی اور کے ساتھ اس کے نسب کا الحاق جائز نہ ہوگا۔
توضیح:    ولد الملاعنہ کا استثناء شق۱ کی ذیلی شق ب سے ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ملاعن کے حینِ حیات امکان رہتا ہے کہ وہ اپنے قول سے رجوع کرتے ہوئے اپنے اس دعوی کو جھٹلادے کہ بچہ اس کانہیں ہے۔
دفعہ۲۰۔عورت کی طرف سے اقرارِ ولدیت:
(۱)    اگر کوئی عورت جو نہ کسی کی منکوحہ ہو اورنہ معتدہ،اور کسی کے متعلق اقرارِ ولدیت کرے تو شرط ہوگاکہ:
الف۔    فریقین کے عمریں ایسی ہوں کہ اقرار کنندہ عورت مقرلہٗ کی ماں ہوسکتی ہو۔
ب۔    مقرلہٗ کا مادری نسب مجہول ہو۔
ج۔    ولدیت کا اقرار زنا کی تصریح کے ساتھ نہ ہو۔
د۔    اقرارکو مقرلہٗ نے قبول کیا ہو ،بہ شرط یہ کہ وہ تصدیق کا اہل ہو، مثلاً ممیز ہو، اگر مقرلہٗ تصدیق کا اہل نہ ہوتو پھر تصدیق شرط نہ ہوگی۔
ھ۔    اقرارِ نسب متنازع نہ ہو،مثلاً: کوئی اورعورت مقر لہٗ کی ماں ہونے کی دعوی دار نہ ہو۔
و۔    کوئی ایسا منفی قرینہ قائم نہ ہوجس کی بنا پر مقرلہٗ، مقر کی جائز اولاد نہ ہوسکتا ہو۔
(۲)    الف :    جو کوئی عورت کسی کی منکوحہ ہو اوراقرار کرے کہ کوئی بچہ اس کے شوہر سے اس کی جائز اولاد ہے اور شوہر تصدیق کرے تومقرلہٗ کا نسب مدعیہ اور اس کے شوہر دونوں سے قائم سمجھا جائے گا،اگرشوہر انکار کرے تو شہادت کی اہلیت رکھنے والی ایک عورت کی گواہی،خواہ دایہ ہو یا کوئی اور،یا ایک عادل مرد کی گواہی کافی ہوگی۔
    ب :    یہ حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب کوئی عورت طلاقِ رجعی کی عدت میں ہو اوراکثر مدتِ حمل گزرنے کے بعد بچے کو جنم دے ۔
(۳)    اگر کوئی عورت کسی کی منکوحہ ہو اور اقرار کرے کہ کوئی بچہ اس کے شوہر کے علاوہ کسی اور سے اس کی اولاد ہے تو شق۲کے احکام کے تحت عمل درآمد ہوگا، تاہم شوہر کی تصدیق کی ضرورت نہ ہوگی۔
(۴)    جو کوئی عورت قطعِ زوجیت کے بعد کسی بچے کے متعلق اقرارِ ولدیت کرے توامام ابوحنیفہؒ کے نزدیک کامل گواہی درکار ہوگی ،جب کہ صاحبینؒ کے نزدیک شہادت کی اہلیت رکھنے والی ایک عورت کی گواہی کافی ہوگی۔
توضیح(۱)      شق۲ میں مذکور انقطاعِ زوجیت خواہ بوجہ طلاقِ بائن ہو یا بسبب وفاتِ شوہر ہو یا کسی اور شرعی سببِ تنسیخ کی بنا پر ہو۔
توضیح(۲)  شق۲کی ذیلی شق ب کا حکم مثلِ منکوحہ اس لیے ہے کہ احناف کے نزدیک اگر معتدہ رجعیہ اکثر مدتِ حمل کے بعد بچہ جنم دے اور وہ عدت گزرنے کا اقرار نہ کرتی ہو تو ولادتِ رجعت کہلاتی ہے،اس لیے یہ عورت بمنزلہ منکوحہ کے ہے اور منکوحہ اپنا دعویٰ ایک عورت کی شہادت سے ثابت کرسکتی ہے۔
دفعہ۲۱۔پدری اور مادری رشتہ کااقرار:
جو کوئی مجہول النسب لڑکا یا لڑکی ،کسی مرد کے متعلق اپنے باپ ہونے کا اقرار کرے،او ر :
    (۱)    ظاہری حالات وواقعات سے اقرار کی تکذیب نہ ہوتی ہو
    (۲)    اقرار کنندہ کا باپ معروف نہ ہو
    (۳)    اقرارکنندہ زنا کے سبب اس مرد کو اپنا باپ قرار نہ دیتاہو
    (۴)    کوئی منفی قرینہ اقرار کی تکذیب پر قائم نہ ہو
    (۵)    اوروہ مرد جس کے متعلق اقرار کیا گیا ہے،تصدیق کرتاہو
تو مقر اور مقرلہٗ کے مابین پدری اور فرزندی کا رشتہ ثابت قرار پائے گا اور اس رشتے کے حقوق وفرائض دونوں پر عائد ہوں گے۔
اگرمقر لہٗ انکار کرے تو اقرار کے ثبوت کے لیے کامل شہادت درکار ہوگی اور اگر مقر شہادت گزارنے سے قاصر رہے تو مقر لہٗ کا انکار حلف کے ساتھ معتبر ہوگا۔
یہی حکم اس صورت میں بھی ہے کہ جب کوئی لڑکا یا لڑکی کسی عورت کے متعلق مادری رشتہ کااقرار کرے۔
فصل دوم:بالواسطہ اقرار
دفعہ۲۲۔ اُخوت کا اقرار:
جو کوئی عاقل وبالغ شخص اپنے والد کی وفات کے بعد کسی مجہول النسب شخص کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا اقرار کرے اورمیت کے دیگر ورثاء انکار کریں تو اقرار کا اثر صرف مقر کی ذات تک محدود رہے گا اور مقرلہٗ، مقر کے حصۂ وراثت میں نصف حصے کا مستحق ہوگا۔
شرط:    پدری اور مادری رشتہ کے اقرار کی جو شرائط ہیں ،وہ لاگو ہیں۔                (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین