باب ِششم
(۱) پدری،مادری،فرزندی اور برادرانہ قرابت کو دوعادل مردوں یا ایک عادل مرد اور دو عادل عورتوں کی شہادت سے ثابت کیا جاسکتا ہے۔
(۲) پدری رشتہ کو کسی دوسرے حق کے ضمن میں شامل کیے بغیر براہ راست ثابت کیا جاسکتا ہے،جب کہ مدعی علیہ حیات اور حاضرہو۔
اگر مدعی علیہ حیات نہ ہو تو قرابت کا اثبات کسی دوسرے حق کے ضمن شامل کیے بغیر ممکن نہیں۔
(۳) اخوت اور عمومت وغیرہ دور کی قرابتوں کو بہر صورت کسی دوسرے حق کے ضمن میں ثابت کیے جانا ضروری ہے۔
ثبوتِ نسب اگر بذریعہ بینہ ہو اور مجاز عدالت اس کی ڈگری بھی صادر کرچکی ہوتوبھی مخالف شہادت کے ذریعے اس کا نقض جائز ہے ۔
اگر کسی کا نسب عام لوگوں میں مشہور ومعروف ہو تو اس کے نسب کی گواہی دینا جائز ہے۔
بابِ ہفتم
زنا سے ثبوت نسب نہ ہوگا ،اگرچہ مرد وعورت اس کا اقرار کرتے ہوں،مگر یہ کہ زانی زنا کی تصریح کیے بغیر نسب کا دعوی کرے۔
(۱) کسی عورت کو زنا سے حمل قرار پائے اور پھر زانی اسی مزنیہ سے نکاح کرے اور نکاح سے چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت میں بچہ تولد ہوتو وہ ثابت النسب قرار پائے گا اور شوہر کو نسب کی نفی کا حق نہ ہوگا۔
(۲) اگر بچے کی ولادت نکاح کے بعد چھ ماہ سے پیشتر ہوتوشوہر سے اس کا نسب ثابت نہیں قرار پائیگا بجز یہ کہ شوہر ثبوت نسب کا دعوی کرے اور یہ صراحت نہ کرے کہ بچہ زنا کے تعلق کے باعث کے تولد ہوا ہے۔
جو شخص ثابت النسب نہ ہو،ضروری نہیں کہ وہ ولد الزنا ہو۔
کوئی معروف النسب یا مجہول النسب شخص جس کو اس کے حقیقی والد کے علاوہ کسی اور نے حقیقی اولاد کی طرح بنالیا ہو،متبنّٰی کہلاتا ہے۔
متبنّٰی کو حقیقی اولاد کا درجہ دیناازروئے شرع باطل ہے، لہٰذا متبنّٰی اور متبنِی کے ایک دوسرے پر پدری اور فرزندی کے حقوق وفرائض واجب نہ ہوں گے اور دونوں کا تبنِّیت سے قبل کا رشتہ برقرار رہے گا۔
الف۔ ایک شخص اپنے زیرِ تحویل بچے کے نسب کا مدعی ہے، مگر دوسرا شہادت قائم کرلیتا ہے تو دوسرے کا حق برترہے ۔
ب۔ اگر دونوں گواہ قائم کرلیں تو قابض کا حق مقدم ہے ۔
ج۔ اگر ایک کہے کہ فلاں عورت سے میرا بیٹا ہے اور دوسرا کہے کہ میرا بیٹا ہے تو اول الذکر کا حق فائق ہے۔ (جاری ہے)