بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی: قانونِ رضاعت         (گیارہویں قسط)

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:

قانونِ رضاعت         (گیارہویں قسط)

 

ثبوتِ رضاعت 

دفعہ۳۴ ۔ثبوتِ رضاعت بذریعہ شہادت:

رضاعت کاثبوت دو مردوں یا ایک مرد اور دوعورتوں کی شہادت سے ہوگا، اگرچہ کوئی ایک عورت خود مرضعہ ہی کیوں نہ ہو، مگر شرط ہوگا کہ گواہ عادل ہوں ، عاقل ہوں، بالغ ہوں، آزاد ہوں۔
درج بالا معیارِ شہادت کے مطابق ثبوتِ رضاعت ہونے کے بعد احکام درج ذیل ہوں گے:
۱۔بحکم نکاحِ فاسد، زوجین میں متارکت یا تفریق لازم ہوگی۔ 
۲۔ بیوی مہر کی مستحق نہ ہوگی، اگر وہ غیر مدخولہ ہو۔
۳۔ مہرِ مثل اور مقررہ مہر میں سے کم تر کی مستحق ہوگی، اگر مدخولہ ہو۔
بہر دوصورت شوہر پر عدت کا خرچہ اور رہائش فراہم کرنا لازم نہ ہوگا۔
توضیح۱۔ درصورتِ متارکت اگر زوجہ غیرمدخولہ ہے تو صرف علیحدگی کافی ہے اور زبان سے کہہ دینا لازم ہے اگر وہ مدخولہ ہے۔
توضیح۲۔ اگر عدالت نے فقط مرضعہ کی شہادت پر زوجین میں تفریق کا فیصلہ جاری کردیا تو کالعدم قرار پائے گا۔
توضیح۳۔ درج بالا نصابِ شہادت اگر زوجہ کے پاس گزرے تواسے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہ ہوگا۔
درج بالانصابِ شہادت مکمل نہ ہونے کی صورت میں ثبوتِ رضاعت نہ ہوگا، خواہ گواہ ثقہ ہوں یا غیر ثقہ، رضاعت طاری ہو یا نہ ہو، شہادت قبل العقد ہو یا بعد العقد ہو، گواہ صرف مرد یا صرف عورتیں ہوں یا مخلوط ہوں، مگر از روئے احتیاط افضل یہ ہوگا کہ زوجین مفارقت اختیار کرلیں اور اگر زوجین میں یکجائی نہ ہوئی ہو تو شوہر کے لیے افضل یہ ہے کہ نصف مہر ادا کرے اوریکجائی ہوچکی ہو تو پورا مہر ادا کرے اورعد ت کا خرچ اور رہائش بھی فراہم کرے اور زوجہ کے لیے افضل یہ ہے کہ عدمِ یکجائی کی صورت میں کچھ مہر نہ لے اور بصورتِ یکجائی مہرِمثل اور مقررہ مہر میں سے اقل ترین وصول کرے اور نفقہ وسکنیٰ قبول نہ کرے۔

دفعہ۳۵۔اقرار سے ثبوتِ رضاعت

(۱) جو کوئی مرد کسی عورت کے متعلق نکاح سے قبل یا بعد رشتۂ رضاعت کا اقرار کرے اور پھر اس سے رجوع کرے تو رجوع درست ہے۔ اگر اقرار پر اصرار کرے اور پھر رجوع کرے تو رجوع درست نہ ہوگا اور:
(الف) اسے متذکرہ عورت سے نکاح سے روک دیا جائے گا، اگر نکاح نہیں ہوا ہے۔
(ب)اگر نکاح ہوچکا ہے تو اس پر متارکت واجب ہوگی، خواہ بیوی تصدیق کرے یا تکذیب، البتہ بصورتِ تکذیب اگر بیوی مدخولہ نہیں تو شوہر پر نصف مہر واجب ہوگا اور اگر مدخولہ ہے تو کل مہر اور عدت کا نفقہ اور سکنیٰ فراہم کرنا لازم ہوگا۔
(ج) اگر بیوی تصدیق کرے تو اگر غیر مدخولہ ہے تو مہر کی مستحق نہیں اور اگر مدخولہ ہے تو کل مہر کی مستحق ہے، البتہ عدت کاخرچ پانے کی مستحق نہیں۔ 
(۲) اگر کوئی عورت کسی مرد کے متعلق رشتۂ رضاعت کا اقرار کرے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا، خواہ:

اقرارِ نکاح سے پہلے ہو یا بعد میں ہو۔
عورت اقرار پر اصرار کرے یا نہ کرے، البتہ اگر شوہر تصدیق کرے تو اس پر متارکت واجب ہوگی، بصورتِ دیگر قاضی تفریق کردے گا۔
(۳) جو کوئی مرد وعورت نکاح سے قبل یا بعد باہم رشتۂ رضاعت کا اقرار کریں اور پھر اس سے رجوع کریں تو درست ہے اور باہم نکاح جائز ہے، تاہم اگر مرد اقرار پر اصرار کرے تو اسے متذکرہ عورت سے نکاح سے روک دیا جائے اور اگر نکاح ہوچکا ہے تو متارکت یا تفریق واجب ہوگی۔
توضیح: اقرار کا مطلب یہ ہے کہ مرد یوں کہے کہ میری بیوی میری رضاعی بیٹی یارضاعی ماں بہن ہے۔
اصرار کا مطلب اقرار کا تکرار نہیں، بلکہ اس طرح کے کلمات ہیں کہ یہ بات ٹھیک ہے، سچ ہے، صحیح ہے، حق وہی ہے جو میں نے کہہ دیا، یا اس سے ہم معنی کوئی اور کلمات کہے۔
اقرار سے رجوع یہ ہے کہ مجھے وہم ہوگیا، مجھ سے غلطی ہوئی، مجھ سے خطا ہوئی ، میں بھول گیا، میں نے جھوٹ بولا۔

دفعہ۳۶۔ زوجین کا ثبوتِ رضاعت کی تصدیق یا تکذیب کرنا:

اگر کوئی عورت مدعیہ ہو کہ اس نے زوجین کو دودھ پلایا ہے تو زوجین: 
(۱) تصدیق کریں گے، یا
(۲) تکذیب کریں گے، یا
(۳) صرف شوہر تصدیق کرے گا، یا
(۴) صرف زوجہ تصدیق کرے گی۔
پہلی اور تیسری صورت میں بوجہ فسادِ نکاح زوجین پر متارکت یا تفریق واجب ہوگی۔
دوسری صورت میں ازروئے قضا نکاح برقرار رہے گا، تاہم خبر کے صدق کا احتمال غالب ہو تو علیحدگی افضل ہے۔ مؤخر الذکر صورت میں بھی نکاح قائم رہے گا، مگر زوجہ اپنے زوج سے حلف لے سکے گی۔

رضاعتِ طاری 

دفعہ۳۷۔ رضاعتِ طاری کاحکم:

ایک شخص کی بڑی بیوی نے اپنی سوکن کو مدتِ رضاعت میں دودھ پلادیا تواحکام درج ذیل ہوں گے:
(۱) دونوں بیویاں اپنے شوہر پر حرام ہوجائیں گی۔
(۲) بڑی بیوی کی حرمت دائمی ہوگی۔
(۳) اگر بڑی بیوی مدخولہ ہو تو پورے مہر کی مستحق ہوگی۔
(۴) اگربڑی بیوی مدخولہ نہ ہوتواگر:
الف: اس نے اپنی رضا واختیار سے دودھ پلایا ہو تو مہر کی مستحق نہ ہوگی۔
ب:اگر بڑی نے اپنی رضا واختیار سے دودھ نہیں پلایا، بلکہ اس پر جبر کیا گیا تھا، یاوہ مجنونہ اور مخبوط الحواس تھی یاحالتِ نیند میں چھوٹی نے اس کا دودھ پیا یاکسی نے بڑی کا دودھ لے کر بڑی کی ترغیب وتحریض کے بغیرچھوٹی کو پلادیا تو بڑی بیوی نصف مہر کی مستحق ہوگی۔
(۵) چھوٹی بیوی ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام ہوگی ، اگر بڑی بیوی کا دودھ شوہر سے ہو۔
(۶) اگر دودھ کسی اور شخص سے ہو، مگر شوہر بڑی بیوی سے دخول کرچکا ہو توبھی چھوٹی بیوی ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام ہوگی۔
(۷) اگر بڑی بیوی مدخولہ نہ ہو تو:
الف۔ شوہر کو چھوٹی بیوی سے دوبارہ نکاح جائز ہوگا۔
ب۔ چھوٹی بیوی بہرصورت نصف مہر کی مستحق ہوگی، خواہ بڑی بیوی مدخولہ ہو یا نہ ہو۔
(۸) شوہر چھوٹی بیوی کو دئیے ہوئے مہر کا تاوان بڑی بیوی سے وصول کرنے کا مجاز ہوگا بشرطیکہ :
الف:بڑی بیوی عاقلہ ہو۔
ب۔اس نے اپنے اختیار سے دودھ پلایا ہو۔
ج۔ اس نے بدنیتی سے، یعنی نکاح فاسد کرنے کی نیت سے اپنی سوکن کو دودھ پلایا ہو۔
د۔ اس نے بیداری کی حالت میں دودھ پلایا ہو۔
ھ ۔اسے معلوم ہو کہ رضیعہ اس کی سوکن ہے اور دودھ پلانے سے نکاح فاسد ہوجاتا ہے۔
و۔ سوکن کی بھوک مٹانے یا جان بچانے کی نیت سے دودھ نہ پلایا ہو۔

دفعہ۳۸۔کوئی عورت کسی کی بیویوں کو دودھ پلادے:

کسی اجنبی عورت نے کسی شخص کی دو بیویوں کو ایک وقت یا مختلف اوقات میں دودھ پلایا تو دونوں شوہر پر حرام ہوجائیں گی، مگر بعد از متارکت کسی ایک سے دوبارہ نکاح جائز ہوگا۔

عمومی احکام

دفعہ۳۹۔ بلا اجازتِ شوہر اپنے بچوں کو دودھ پلانا:

بیوی اپنے موجودہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے اس بچہ یا بچوں کو دودھ پلاسکتی ہے جو موجودہ شوہر سے متولد نہیں۔
توضیح: بیوی کی اولاد خواہ ایک شوہر سے ہو یا ایک سے زائد سے ہوں۔

دفعہ۴۰ ۔ بیوی کا کسی دوسرے کے بچے کو دودھ پلانا:

(۱) اگر بیوی نے نکاح سے قبل کسی بچے کو دودھ پلانے کا معاہدہ کیا ہے تو شوہر معاہدہ ختم کرنے یا بیوی کو معاہدے کی تعمیل سے روکنے کا مجاز نہیں۔
(۲) اگر بیوی نے بحالتِ ازدواج برضائے شوہر دودھ پلانے کا معاہدہ کیا ہے تو بھی معاہدے کی پاسداری لازم ہے۔
(۳) اگر بعد از نکاح بلااجازتِ شوہر معاہدہ کیا ہے تو معاہدہ درست نہیں اور شوہر کو فسخِ معاہدہ کا حق حاصل ہے۔

دفعہ۴۱۔ بیوی کا دودھ پینا حرام مگر باعثِ حرمت نہیں:

بیوی کا دودھ پینا ازروئے شرع حرام ہے، تاہم نکاح میں جب کہ شوہر مدتِ رضاعت میں نہ ہو، کسی خلل یا فساد کا باعث نہ ہے۔

دفعہ۴۲۔ بچوں کو فاسقہ یا بے وقوف عورتوں کا دودھ پلانا:

بچے کو غیر مسلمہ یا فاسقہ وفاجرہ یا بیوقوف عورت کا دودھ پلانا مکروہ ہے، تاہم اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہوگی۔

دفعہ۴۳۔ مصنوعی سبب سے اُترنے والے دودھ کا حکم :

دودھ اگر ولادت کے سبب نہ ہو، بلکہ مصنوعی سبب مثلاً: دوا ، انجکشن وغیرہ کے سبب سے اُترآیا ہو توصرف اسی عورت سے حرمتِ رضاعت کے قیام کا باعث ہوگا۔

دفعہ۴۴۔ خون سے حرمتِ رضاعت ثابت نہ ہوگی:

رضاعت کی مدت میں بچے کوکسی عورت کا خون دینے سے اس عورت کے ساتھ رضاعت کا رشتہ ثابت نہ ہوگا۔

دفعہ۴۵۔ دودھ کو مصنوعی طریقے سے بدل دینے کا حکم:

عورت کا دودھ اگر دہی یا کریم یاپنیر وغیرہ بناکر بچہ کو کھلادیا جائے تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔

دفعہ۴۷۔ دودھ بینک کا قیام:

دودھ بینک کا قیام ازروئے شرع ناجائز ہے۔                                (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین