بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی: قانونِ رضاعت (ساتویں قسط)

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:

قانونِ رضاعت

(ساتویں قسط)

قانونِ رضاعت
رضاعت سے متعلق قرآن وسنت پرمبنی قانون

تمہید:

ہر گاہ کہ قرینِ مصلحت ہے کہ رضاعت سے متعلق قرآن وسنت کے احکامات، فقہی اجتہادات اور عصری تحقیقات کوبغرضِ فرضِ مذہبی ووطنی و سہولتِ فہم ونفاذ ،عصری عدالتی قوانین کے قالب میں ڈھالا جائے، لہٰذا بذریعہ ہذا درج ذیل قانون وضع کیا جاتا ہے ۔

دفعہ۱۔مختصر عنوان ، وسعت اور نفاذ:

(الف) یہ قانون’’ قانونِ رضاعت‘‘ کہلائے گا۔
(ب) اس قانون کا نفاذ اس تاریخ سے ہوگا جو آئین کے تحت مجاز فرد ، ادارہ یا ہیئت، جیسی صورت ہو، اس کے لیے تجویز کرے ۔

دفعہ۲۔ تعریفات:

اس قانون میں تاوقتیکہ عبارت کے سیاق و سباق سے کچھ اور مطلب ومفہوم نہ نکلتاہو، درج ذیل اصطلاحات کے وہی معنی لیے جائیں گے جو بذریعہ ہٰذا اُن کے لیے بالترتیب مقرر کیے گئے ہیں، یعنی:

۱۔لبنِ فحل:

وہ دودھ جو کسی مرد سے حمل کے سبب عورت کو اُترا ہے۔جو فقہاء زنا کے باعث زانی سے رشتۂ رضاعت کے قیام کے قائل نہیں،ان کے نزدیک لبنِ فحل کی تعریف میں یہ قید بھی ہے کہ حمل زنا کے سبب نہ ہو۔

۲۔باکرہ:

جس کے ساتھ بذریعہ نکاح یا زنا کسی مرد نے صحبت نہ کی ہو ،اگرچہ کھیل کود یا مرض کے سبب اس کی بکارت زائل ہوگئی ہو۔

۳۔مرضعہ:

سگی ماں کے سوا وہ عورت جو بچہ کو دودھ پلائے۔

۴۔رضیع/رضیعہ:

جو بچہ بچی کسی عورت کا دودھ پیئے۔

۵۔سال :    

سال سے مرادقمری سال ہے۔

۶۔اللبا:

’’ اللبن النازل أول الولادۃ‘‘ یعنی ولادت کے فوری بعد جو دودھ عورت کو آتا ہے۔ شوافع کے ہاں ’’اللبا‘‘ کا پلانا ماں پر واجب ہے۔

۷۔رضاعت طاری:

نکاح کے بعد رضاعت کا ثابت ہونا۔

۸۔اقرار پر اصرار:    

ایسے الفاظ جن سے اقرار کی تاکیدوتائیدکا مفہوم اخذہوتا ہو، جیسے: میں نے حق کہا،سچ کہا وغیرہ (کتب فقہ میں اصرار کی تعریف نہیں بلکہ تمثیلات دی گئی ہیں، مگر مراداس سے تاکید ہی ہے۔)

۹۔اُجرتِ مثل:

کسی عمل کا اتنا معاوضہ جو عام طور پر رائج ومعروف ہو/عرف کے مطابق عمل کا محنتانہ مرادہے۔

۱۰۔اجنبیہ:

عورت جورضیع یا رضیعہ کی سگی ماں نہ ہو۔

۱۱۔اُصول وفروع:

اُصول سے مراد جیسے: باپ، دادا، نانا،ماں، دادی اور نانی وغیرہ ہیں ، خواہ سلسلہ کتنا ہی اوپر چلا جائے اور فروع سے مراد جیسے: بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ اور نواسی وغیرہ ہیں ،خواہ سلسلہ کتنا ہی نیچے چلا جائے۔

۱۲۔ زوجہ صغیرہ:

منکوحہ جس کی عمر دوسال سے کم ہو۔

۱۳۔رضاعی باپ:        

وہ شخص جس کے حمل کے سبب مرضعہ کا دودھ اُترا ہے۔

۱۴۔ولد الملاعنہ:

وہ بچہ جس کی ولدیت لعان کی کارروائی کے سبب مجاز عدالت نے باپ سے قطع کردی ہو۔

۱۵۔عدت:

نکاح کے آثار کے خاتمے کے لیے شریعت نے عورت کے واسطے جو مدت مقرر کی ہے،اس کا نام ’’عدت ‘‘ ہے۔ یانکاح یا شبہ نکاح کے زوال کے بعد عورت کاایک مدت تک انتظار کرنا ’’عدت‘‘ کہلاتا ہے۔

۱۶۔کبیرہ:    

بالغہ مراد ہے۔

۱۷۔آیسہ:

جس کو صغرِ سنی یا کبرِ سنی کی وجہ سے حیض نہ آتا ہویا پاکی کے ایام کی طوالت کی وجہ سے شریعت اس کو بحکمِ آیسہ گردانتی ہو۔

۱۸۔مدخولہ:    

جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی طور پر صحبت کی ہو۔

۱۹۔غیر مدخولہ:

جس عورت سے اس کے شوہر نے حقیقی صحبت نہ کی ہو، اگرچہ خلوتِ صحیحہ ہوچکی ہو۔

۲۰۔بینونت:

رشتۂ نکاح کا منقطع ہونا مراد ہے۔

۲۱۔بینونتِ صغریٰ:

قطعِ زوجیت کی ایسی صورت جس میں بدون حلالہ شرعیہ صرف تجدیدِنکاح سے رشتۂ زوجیت بحال ہوسکتا ہو۔

۲۲۔بینونتِ کبریٰ:

جس میں حلالہ شرعیہ کے بغیر بائنہ سے تجدیدِنکاح ممکن نہ ہو۔ 

۲۳۔حرمتِ غلیظہ:

بینونتِ کبریٰ کی مترادف اصطلاح ہے۔

۲۴۔رجعت:

عدت کے دوران تجدیدِ نکاح کیے بغیر معتدہ کو لوٹالینا خواہ قولاً ہو یا فعلاً ،اور شوہر نے رجعت پر گواہان قائم کیے ہوں یا نہ کیے ہوں۔

۲۵۔طلاقِ رجعی:

وہ طلاق مراد ہے جس میں رجعت ممکن ہو۔ 

۲۶۔طلاقِ بائن:

  ایسی طلاق جس کے اثر سے رشتۂ ازدواج ختم ہوجائے اورمطلقہ نکاح سے نکل جائے، مگر ازسرِنونکاح سے زوجیت کی بحالی ممکن ہو۔

۲۷۔معتدہ بائنہ:    

جو عورت طلاقِ بائن کی عدت میں ہو۔

۲۸۔کامل شہادت:        

اس قانون کے مقاصد کے تحت دو مرد یا ایک مرد اور دوعورتوں کی گواہی’’ کا مل شہادت ‘‘ہے۔

دفعہ۳۔رضاعت کی تعریف:

ایک متعین مدت کے اندر خاص شرائط کے تابع بچہ کے پیٹ میں عورت کے دودھ کا پہنچ جانا رضاعت کہلاتا ہے۔

دفعہ۴۔ حرمتِ رضاعت کی شرائط:

حرمتِ رضاعت کے ثبوت کے لیے شرط ہوگاکہ:
(۱) بچہ نے دودھ ہی پیا ہو۔
(۲) دودھ عورت کا ہو۔ 
(۳) عورت نوسال یا اس سے زائد عمر کی ہو۔
(۴) عورت معلوم ہو۔
(۵) دودھ کابچے کے پیٹ تک پہنچنا یقینی ہو ۔
 (۶) دودھ دفعہ۷ کے احکام کے تابع مطلوب شکل میں ہو ۔
(۷) دودھ حلق یا ناک کے راستے پیٹ تک پہنچاہو۔
(۸) دودھ مدتِ رضاعت کے اندر پلایا گیا ہو۔

۱۔شرطِ اول کے تحت :

الف۔دودھ کے علاوہ کسی اورشئے مثلاً خون سے رضاعت کا رشتہ قائم نہیں ہوتا، چنانچہ اگر مدتِ رضاعت میں کسی بچے کو کسی عورت یامرد کا خون چڑھایا گیا تو ازروئے شرع حرمت قائم نہ ہوگی ۔
 ب۔ضروری ہے کہ بچے نے دودھ ہی پیا ہو، لہٰذااگرکنواری لڑکی کے پستان سے زرد رنگ کا پانی نکلا اور بچے نے پی لیا تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ اسی طرح مرض کے سبب جو مواد نکلے خواہ زرد رنگ ہو یا کوئی اور ہو توحرمت ثابت نہ ہوگی، البتہ آیسہ کے پستان سے جو زرد رنگت کا پانی نکلتا ہے وہ دودھ ہی ہے جو کسی سبب سے متغیر ہوگیا ہے، اس لیے اس سے حرمت قائم ہوجائے گی۔

۲۔شرطِ ثانی کے تحت، اگر:

الف :دوودھ عورت کا نہ ہو، بلکہ مرد یا کسی جانور کا ہو تو حرمت قائم نہ ہوگی، لہٰذا جن دوبچوں نے بچپن میں ایک ہی جانور کادودھ پیا ہو اُن میں رضاعت کا رشتہ قائم نہ ہوگا۔
ب۔ عورت خواہ قرابت دار ہو یاکوئی اجنبیہ،مسلمہ یا غیر مسلمہ ،،زندہ ہویا مردہ،حالتِ نوم میں بچہ نے دودھ پیا ہو یا بیداری میں، الغرض مرضعہ عورت ہو، مرد یا جانور کا دودھ پینے سے رضاعت کا ثبوت نہ ہوگا۔
ج۔ خنثیٰ مشکل نے اگر بچے کو دودھ پلادیا اور اس کا عورت ہونا معلوم ہے تو رضاعت ثابت ہے، ورنہ نہیں اور اگر کچھ معلوم نہیں اورعورتیں کہیں کہ اس کا دودھ مثل عورتوں کے ہے تو رضاعت ثابت ہے ۔
د۔ مرضعہ کا کسی کی منکوحہ ہونا ضروری نہیں، چنانچہ باکرہ لڑکی کے دودھ سے بھی حرمت ثابت ہوجائے گی، جب کہ اس کے پستان سے دودھ ہی نکلا ہواور اگر دودھ نہیں بلکہ اس جیسی کوئی چیز نکلی تو رضاعت ثابت نہ ہوگی۔ مزنیہ اور موطوء ۃ بالشبہہ کے دودھ کے متعلق مستقل دفعات قائم کی گئیں ہیں۔
الحاصل :    عورت کا دودھ ہی ضروری ہے، بالفرض مرد کے پستان سے دودھ نکل آئے یا بچے ایک ہی جانور کا دودھ پی لیں تو اس سے رضاعت ثابت نہ ہوگی۔

۳۔شرطِ ثالث کے تحت ،اگر:

نوسال سے کم عمر کی بچی نے کسی کو دودھ پلایا تو حرمت ثابت نہ ہوگی، کیونکہ بلوغ کی اقل ترین ممکنہ عمر نو سال ہے۔

۴۔شرطِ رابع کے تحت، اگر:

 مرضعہ معلوم نہ ہوگی تو حرمت قائم نہ ہوگی۔ 

۵۔شرطِ خامس کے تحت :

دودھ خواہ تھوڑا ہویا زیادہ، مگر جب پیٹ تک پہنچنا معلوم ہو تو رضاعت ثابت ہوگی، لہٰذا اگر چھاتی منہ میں دی مگر معلوم نہیں کہ دودھ پیا یا نہیںتو حرمت ثابت نہیں، یوں ہی چھاتی منہ میں دی اور لوگوں کو معلوم ہے ،مگر اب عورت کہتی ہے کہ دودھ نہ تھا اور کسی اور ذریعہ سے معلوم بھی نہیں ہوسکتا کہ دودھ تھا یا نہیں، تو عورت کا کہا مان لیا جائے گا۔

۶۔ شرطِ سادس کے تحت:

دودھ کا خاص شکل میں ہونا ضروری ہے، جس کا مفصل بیان مستقل دفعہ کے تحت آتا ہے۔

۷۔شرطِ سابع کے تحت :

دودھ کا معتاد منفذ سے معدہ میں پہنچنا ضروری ہے، خواہ بچہ نے خودپستان چوسا ہو یا عورت نے منہ میں چھاتی دی ہویا حلق یا ناک میں دودھ ڈالایا ٹپکایا گیاہو، لیکن اگر دودھ آنکھ یا کان میں ٹپکایا گیا یا پیشاب کی نالی یا پائخانہ کے مقام سے داخل کیا گیا یا دماغ یا پیٹ کے زخم میں ڈالا گیا اور اندر پہنچ گیا تو رضاعت ثابت نہیں۔

۸۔شرطِ ثامن کے تحت :

دودھ ایک مخصوص مدت کے اندر پلایا گیا ہو۔ مدت کابیان ایک مستقل دفعہ کے تحت آتا ہے۔

حاشیہ ذیلی دفعہ۴

۱۔مرضعہ معلوم ہو۔ یہ شرط اس وجہ سے اضافہ کی گئی ہے کہ نہر الفائق میں ہے کہ ’’لابد أن تعلم المرضعۃ‘‘ (ج:۱، ص:۱۷۰) مزید یہ کہ بحراورنہر وغیرہ کتب میں بحوالہ خانیہ ہے کہ ایک بچہ کو گاؤں کی اکثر یا اقل عورتوں نے دودھ پلایا اور اب یہ معلوم نہیں کہ خاص کس نے دودھ پلایا ہے اور ان میں سے کوئی شخص اس سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو امام ابوالقاسم الصفار نے فرمایا کہ اگر کوئی علامت اور شہادت نہ ہوتو نکاح جائز ہے۔
۲۔بچہ کو اگر مردہ عورت کا دودھ پلا یا جائے تو اس سے بھی رضاعت ثابت ہوجائے گی، کیونکہ حدیث کی رو سے حرمتِ رضاعت کی علت یہ ہے کہ دودھ میں انسانی جسم کی نشونما کی صلاحیت ہو: ’’الرضاع ما أنبت اللحم وأنشر العظم‘‘او رزندہ عورت کی طرح مردہ عورت کے دودھ میں بھی یہ صلاحیت باقی رہتی ہے۔مزید یہ کہ دودھ ایک جان چیز ہے اور موت وحیات کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ’’اللبن لایموت‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور ارشادہے۔                             (جاری ہے)
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین