بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی: قانونِ حضانت         (چھٹی قسط)

شرعی عائلی احکام کی دفعہ بندی:

قانونِ حضانت         (چھٹی قسط)

 

دفعہ۱۰۔ اجنبی سے نکاح کے سبب حضانت کا سقوط:

    حاضنہ کا حقِ پرورش بچے کے غیرذی رحم محرم سے محض نکاح کے سبب ساقط ہوجائے گا،مگر یہ کہ:
        الف۔    حاضنہ زیرِ پرورش کی نانی ہو اور بچہ کے داداسے نکاح کرلے۔ 
        ب۔    حاضنہ زیرِ پرورش کے چچا سے نکاح کرلے۔
        ج۔    حاضنہ بچے کے کسی اور نسبی رشتہ دار سے جس سے خون کے رشتہ سے بچے کا نکاح حرام ہو،نکاح کرلے۔
    توضیح:غیر ذی رحم محرم وہ ہے جس سے:
        الف۔     نسبی رشتہ ہو  
        ب۔    وہ محرم بھی ہو  
        ج۔    اس سے نکاح کی حرمت نسب کی وجہ سے ہو۔
    لہٰذادرج ذیل اشخاص سے نکاح بھی حضانت کے سقوط کا باعث ہوگا:
        رضاعی چچا: کیونکہ نکاح حرام ہے مگر نسب کارشتہ نہیں
        چچازاد: کیونکہ نسبی رشتہ ہے مگرنکاح حرام نہیں 
        رضاعی چچا کانسبی بیٹا: کیونکہ رشتہ داربھی ہے اور نکاح بھی حرام ہے، مگر نکاح نسب کے سبب نہیں، بلکہ رضاعت کے سبب حرام ہے۔

دفعہ۱۱۔ حضانت کی بحالی:

    نااہل اہلیت کی شرط پوری کرکے حقِ حضانت حاصل یابحال کرسکتا ہے، مزید یہ کہ حضانت سے دست برداری کے بعد اس سے رجوع بھی ممکن ہے۔
توضیح:مطلقہ بائنہ طلاق کے بعد اورمطلقہ رجعیہ عدت کی تکمیل کے بعد حضانت کی مستحق ہوگی۔

دفعہ۱۲۔حضانت پرجبر

     ماں یا کسی اورپرورش کنندہ عورت یا مرد کو پرورش کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا، مگر یہ کہ اس کے علاوہ کوئی اور نہ ہو یا ہو مگر اہلیت نہ رکھتا ہویا اہلیت رکھتا ہومگر آمادہ نہ ہو۔
توضیح:    حضانت پر جبر استحقاقِ اُجرت کے منافی نہیں۔
تمثیل۱۔ پانچ سالہ زید کے والدین میں علیحدگی ہوجاتی ہے۔زید کی نانی حیات ہے، مگر بڑھاپے کی وجہ سے حضانت پر قدرت نہیں رکھتی اوردادی بھی موجود ہے مگر زید کو زیر حضانت لینے پر آماد ہ نہیں ہے اورکوئی دوسری حاضنہ موجود نہیں ہے تو زید کی والدہ زید کی حضانت پر مجبور کی جائے گی۔
تمثیل ۲۔    زید کی والدہ اپنے شوہر سے فرقت کے بعد زید کے غیر محرم سے نکاح کرلیتی ہے۔ زید کی بہن اور خالہ بھی ہیں اوردونوں حضانت کی اہلیت رکھتی ہیں، مگر خالہ حضانت پر آمادہ نہیں ہے تو زید کی بہن حضانت پر مجبور کی  جائے گی، کیونکہ ماں اہلیت نہیں رکھتی اوردیگر دوخواتین قابلیت رکھتی ہیں، مگر خالہ جو بعید تر رشتہ دار ہے وہ رضامند نہیں ہے، اس لیے بہن کی تحویل میں زید کو دے دیا جائے، کیونکہ وہ خالہ سے مقدم ہے۔

دفعہ۱۳۔رضاکارانہ پرورش:

    (۱)    بچہ ماں کے زیرِ حضانت رہے گا، بہ شرط یہ کہ ماں :
        الف۔    اہلیتِ حضانت رکھتی ہو۔
        ب۔    بغیر اُجرت حضانت پر آمادہ ہو۔
    (۲)     اگرماں حضانت پر اُجرت طلب کرتی ہو،مگر کوئی اورحضانت کی اہل‘ رضاکارانہ پرورش پر آمادہ ہو ،جب کہ:
     الف۔     بچے کا باپ تنگدست ہو، اگرچہ کمانے پر قدرت رکھتا ہو، خواہ بچہ مال دار ہو یا نہ ہو، یا 
    ب۔     بچے کے پاس مال ہو، خواہ باپ مال دار ہو یا نادار 
    تو ماں کو بلامعاوضہ پرورش یا بچہ رضاکار عورت کے سپرد کرنے کا اختیار دیا جائے گا، اگر ماں مفت پرورش پر آمادہ نہ ہو تو بچہ رضاکارانہ پرورش کرنے والے کی تحویل میں دیا جائے گا، مگر ماں کو بچہ سے ملنے اور ملاقات کا حق ہوگا۔
     ج۔    اگر بچے کے پاس مال نہ ہو مگر باپ خوش حال ہو تو حقِ حضانت ماں کو حاصل ہوگا اوراُجرت باپ کے ذمہ لازم ہوگی۔
    (۳)     اگر کوئی اہل عورت رضاکارانہ پرورش پر تیار نہ ہو اور:
    الف۔    بچے کے پاس مال ہو توحضانت کاحق ماں کو ہوگا اور اُجرت بچے کے مال سے ادا کی جائے گی، خواہ بچے کا باپ مال دار ہو یا مفلس ہو۔
    ب۔     اگر بچہ اور باپ دونوں مفلس ہوں تو ماں پرورش پر مجبور کی جائے گی اور اُجرت بچے کے باپ پر دَین ہوگی۔
    ج۔    اگر بچے کے پاس مال نہ ہو مگر باپ خوش حال ہو تو اُجرت باپ پر لازم ہوگی۔
    (۴)    اگر رضاکار عورت حضانت کی اہلیت ہی نہ رکھتی ہو توحقِ پرورش ماں کو ہوگا، اگرچہ اُجرت بچے کے مال سے لازم آتی ہو۔
    (۵)    اگرحقِ حضانت ماں کے علاوہ کسی رشتہ دارکو حاصل ہو اور وہ اُجرت طلب کرے، مثلاً بچے کی خالہ ہو اور اس سے قریب کوئی مستحقِ حضانت نہ ہومگر خالہ اُجرت مانگتی ہو اور پھوپھی مفت حضانت پر آمادہ ہو یا پھوپھی بھی اُجرت کرتی ہو، مگر چچا مفت حضانت پر رضامند ہو تو دفعہ ہذا کے احکام کے مطابق عمل درآمد ہوگا۔
     توضیح: اگر ماں کے علاوہ کوئی اہلیتِ حضانت رکھنے والی بھی اُجرت طلب کرتی ہوتو حقِ حضانت ماں کو ہوگا۔

دفعہ۱۴۔ماں کا مفت حضانت سے انکار:

    (۱)    ماں مفت پرورش پر تیار نہ ہو اور کوئی اہل عورت رضاکارانہ پرورش پر تیار ہو، جب کہ: 
        الف۔     بچہ کا باپ تنگدست ہو، چاہے بچے کے پاس مال ہو یا نہ ہو 
        ب۔     بچے کے پاس مال ہو، چاہے باپ خوش حال ہو یا بد حال
    تو ماں کو مفت پرورش یا رضاکار عورت کے سپرد بچہ کرنے کا اختیا دیاجائے گا، اگر ماں مفت پرورش پر آمادہ نہ ہو تو اس سے چھین کر رضاکار عورت کے حوالے کر دیا جائے گا، مگر ماں کو بچہ سے ملنے اور ملاقات کا حق ہوگا۔
    (۲)    اگر بچہ کے پاس مال نہ ہو مگر باپ خوشحال ہو تو ماں کو حقِ حضانت حاصل ہوگا اور اُجرت باپ کے ذمہ لازم ہوگی۔
    (۳)    اگر رضاکار عورت حضانت کی اہلیت نہ رکھتی ہو تو اُجرت کے ساتھ پرورش کرنے کی مجاز ہوگی، اگر چہ اُجرت بچہ کے مال سے لازم آتی ہو۔
    (۴)    اگر کوئی عورت رضاکارانہ پرورش پر تیار نہ ہو اور:
    الف۔     بچہ کے پاس مال ہو تو اس کے مال سے ماں کو اُجرت ادا کی جائے گی خواہ بچہ کا باپ مال دار ہو یا مفلس ہو۔
    ب۔     اگر بچہ اور باپ دونوں مفلس ہوں تو ماں پرورش پر مجبور کی جائے گی اور اُجرت بچہ کے باپ پر دین ہوگی۔
    ج۔     اگر بچہ کے پاس مال نہ ہو مگر باپ خوش حال ہو تو اُجرت باپ پر لازم ہوگی۔

دفعہ۱۵۔ اُجرت کا استحقاق:

    (۱)    پرورش کنندہ ماں کے علاوہ کوئی اورہو یا ماں ہو جب کہ زیرِپرورش بچے کے باپ کی منکوحہ یا معتدہ نہ ہوتواُجرت کی مستحق ہے،اگرچہ پرورش اس پر ازروئے شرع لازم ہو۔
    (۲)    اگر پرورش کنندہ،خواہ ماں ہو یاکوئی اور کے پاس رہائش نہ ہو تو اسے رہائش کی فراہمی یااجرت کی ادائیگی لازم ہے اور اگر بچہ خادم کا محتاج ہواورباپ مال دار ہو تو اسے خادم مہیا کرنا بھی لازم ہے۔
توضیح:حضانت کی اُجرت، نان ونفقہ اوررضاعت کی اُجرت کے علاوہ ہوگی۔    

دفعہ۱۶۔ اُجرتِ حضانت کی ادائیگی: 

    حضانت کی اُجرت،رضاعت اورنان ونفقہ کے علاوہ ہوگی اوربچے کے مال میں سے واجب الاداء ہوگی بشرطیکہ بچے کے پاس مال ہو، ورنہ بچے کے باپ پر لازم ہوگی، ورنہ جن پر بچے کانفقہ واجب ہو،ان پر لازم ہوگی۔

دفعہ۱۷۔جائے حضانت کی تبدیلی:

    (۱)    ماں،قیامِ زوجیت کے وقت بدون اجازتِ شوہر اورحالتِ عدت میں مطلقاًبچے کو ہمراہ لے کر سفر کی مجاز نہ ہوگی، جب کہ بعد از انقضائے عدت، زیرِپروش کے ولی کی اجازت کے بغیربھی بچے کوہمراہ لے کرسفر کی مجاز ہے، مگر شرط یہ ہے کہ سفر قریب کا ہو مگر شہرسے گاؤں کا نہ ہو۔ اگر سفر دور کا ہو تو شرط ہے کہ:
    الف۔    ماں کاآبائی وطن ہو، اور
    ب۔    نکاح بھی وہیں انجام پایا ہو۔
    مگردارالحرب کی طرف سفرکے لیے شرط ہے کہ زوجین دونوں حربی ہوں۔
    (۲)    ماں کے علاوہ کوئی اور عورت خواہ دادی یا نانی ہی کیوں نہ ہو، بچے کے باپ یا اس کے ولی کی اجازت کے بغیر بچے کو لے کر سفرنہیں کرسکتی،خواہ سفر قریب ہی کا کیوں نہ ہو۔
    (۳)     زیرِ پرورش کا باپ بھی ماں یا دیگر حاضنہ کی مرضی کے خلاف زیرِ پرورش کو سفر پر نہیں لے جا سکتا الا یہ کہ پرورش کنندہ کسی شرعی سبب سے حقِ حضانت گنوا بیٹھی ہو اور بچے کو حقِ پرورش رکھنے والے کے سپرد کرنے کے لیے سفر ناگزیر ہو۔
توضیح: دفعہ ہٰذا میں سفر سے مراد اتنی مسافت ہے کہ بچے کا باپ دن ہی دن میں اسے دیکھ کر واپس گھر نہ پہنچ سکتا ہو۔

دفعہ۱۸۔ حقِ پرورش کااختتام:

    لڑکے کی حضانت کی مدت سات سال اور لڑکی کی نو سال ہوگی۔

دفعہ۱۹۔کفالت کا حق:

    مدتِ حضانت کے اختتام پر زیرِ پرورش کوباپ یاپھر اس کے وصی، دادا یا پھر اس کے وصی یا پھر قریب ترین مستحقِ عصبہ کے سپرد کردیا جائے گا، بچے کو پرورش کنندہ اور ولی میں سے کسی کے انتخاب کا اور ولی کو انکار کا حق نہ ہوگا، مگر لڑکی غیر محرم عصبہ کے حوالہ نہ کی جائے گی۔

دفعہ۲۰۔بلوغت کے بعد کے احکام:

    (۱)    لڑکا بلوغت کے بعدبشرطیکہ اس سے فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، اور لڑکی جب کہ کنواری اورعمر رسیدہ ہو، یاثیبہ ہومگر اس کے متعلق فتنے کا اندیشہ نہ ہو،رہائش میں خودمختار ہوں گے، چاہیں تو:
    الف۔    الگ تھلگ رہیں         ب۔    والد کے ساتھ رہیں 
    ج۔     والدہ کے ساتھ رہیں      د۔ کسی اور کے ساتھ رہیں 
    (۲)    لڑکا اگر فاسق ہو اورلڑکی اگر کنواری دوشیزہ ہویا ثیبہ غیر مامونہ ہو تو ولی انہیں اپنے ساتھ رہائش رکھنے پر مجبور کر سکتاہے، مگر لڑکی کی صورت میں شرط یہ ہے کہ ولی، لڑکی کا محرم ہو اور فاسق نہ ہو۔
    (۳)    اگر لڑکی کا کوئی مستحق عصبہ نہ ہو تو عدالت مجاز ہوگی کہ: 
    الف۔     اسے الگ رہائش اختیار کرنے کی اجازت دے جب کہ اس پر فتنہ کا اندیشہ نہ ہو، چاہے وہ کنواری ہو یا ثیبہ،یا
    ب۔     کسی مسلمان اور قابلِ اعتماد عورت کی تحویل میں دے دے۔
                                                                                (جاری ہے)

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین