بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی اصطلاحات ۔۔۔ضروری تنبیہ ! ایمان وکفر، نفاق والحاد، ار تد ادو فسق

شرعی اصطلاحات ۔۔۔ضروری تنبیہ !

 

ایمان وکفر، نفاق والحاد، ار تد ادو فسق

 

جس طرح نماز، زکاۃ، روزہ اور حج اسلام کے بنیادی احکام وعبادات ہیں اور دینِ اسلام میں ان کے مخصوص معنی اور مصداق متعین ہیں، قرآن وحدیث کی نصوص اور حضرت رسول اللہ a اور صحابہ کرامs کے تعامل سے ان کی حقیقتیں اور عملی صورتیں واضح و مسلم ہوچکی ہیں اور چودہ سو سال میں اُمتِ محمدیہ اور اس کے علماء ومحققین ان کو جس طرح سمجھتے اور عمل کرتے چلے آئے ہیں اس تواتر و توارثِ عملی نے اس پر مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔ 
ان عبادات و احکام اور ان نصوص کی تعبیر ات کو ان کے متو اتر شرعی معانی سے نکال کر کوئی نئی تعبیر اور نیا مصداق قرار دینا یقینا دین سے کھلا ہواانحراف ہے۔ ٹھیک اسی طرح کفر، نفاق ،الحاد، ارتداد اور فسق بھی اسلام کے بنیادی احکام ہیں۔ دینِ اسلام میں ان کے بھی مخصوص ومتعین معنی اور مصداق ہیں۔ قرآن کریم اورنبی کریم k نے قطعی طور پر ان کی تعیین وتحد ید فرمادی ہے۔ ان الفاظ کو بھی ان شرعی معانی ومصادیق سے نکالنا کھلا ہوا دین سے انحراف ہوگا اور ان کو ازسرِ نو محلِ بحث و نظر بنانا اور اُمت نے چودہ سو سال میں ان کے جو معنی اور مفہوم سمجھے اور جانے ہیں نوبنو تا ویلیں کر کے اُن سے ہٹا نا کھلا ہوا الحاد و زند قہ ہوگا۔
 ایمان کا تعلق قلب کے یقین سے ہے اور خاص خاص چیزیں ہیں جن کو باور کرنا اور ماننا ایمان کے لیے ضروری ہے۔ جو کوئی ان کو نہ مانے قرآن کریم کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں اس کا نام کفر ہے اور وہ شخص کا فر ہے۔ جس طرح ترکِ نماز،ترکِ زکاۃ، ترکِ روزہ اور ترکِ حج کا نام فسق ہے، بشرطیکہ ان کے فرض ہونے کو مانتا ہو، صرف ان پر عمل نہ کرتا ہو۔ اوراگر انہی تعبیرات، صلاۃ، زکاۃ، صوم، حج کو اختیار کرنے کے بعد کوئی شخص ان کو معروف ومتو اتر شرعی معنی سے نکال کر غیر شرعی معنی میں استعمال کرے یا ان میں ایسی تاویلیں کرے جو چو دہ سو سال کے عرصہ میں کسی بھی عالم دین نے نہ کی ہوں تو اس کا نام قرآن کی اصطلاح اور اسلام کی زبان میں الحاد ہے۔ قرآن کریم نے ان الفاظ کفر، نفاق،الحاد، ارتداد کو استعمال فرمایا ہے اور جب تک روئے زمین پر قرآن کریم موجود رہے گا، یہ الفاظ بھی انہی معانی میں باقی رہیں گے۔
اب یہ علماء اُمت کا فریضہ ہے کہ وہ اُمت کو بتلائیں کہ ان کا استعمال کہاں کہاں صحیح ہے اور کہاں کہاں غلط ہے؟ یعنی یہ بتلا ئیں کہ جس طرح ایک شخص یا فرقہ ایمان کے تقا ضوں کو پورا کرنے کے بعد مومن ہوتا اور مسلمان کہلاتا ہے، اسی طرح ان ایمان کے تقاضوں کو پورا نہ کرنے والا شخص یا فرقہ کافر اور اسلام سے خارج ہے۔ 
نیز علماء امت کا یہ بھی فرض ہے کہ ان حدود وتفصیلات کو یعنی ایمان کے تقاضوں کو اور ان کفر یہ عقائد واعمال وافعال کو متعین کر یں جن کے اختیار کرنے سے ایک مسلمان اسلام سے خارج ہوجاتا ہے، تاکہ نہ کسی مومن کو کا فر اور اسلام سے خارج کہا جاسکے اور نہ کسی کا فر کو مومن ومسلمان کہا جا سکے، ورنہ اگر کفر وایمان کی حدود اس طرح مشخص ومتعین نہ ہوئیں تو دینِ اسلام بازیچۂ اطفال بن کر رہ جائے گا اور جنت وجہنم افسانے۔
 یاد رکھئے! اگر ایمان ایک متعین حقیقت ہے تو کفر بھی ایک متعین حقیقت ہے، اگر کفر کے لفظ کو ختم کرنا ہے اور کسی کا فر کو بھی کافر نہیں کہنا ہے تو پھر ایمان واسلام کا بھی نام نہ لو اور کسی بھی فر دیا قوم کو نہ مومن کہو نہ مسلمان، رات کے بغیردن کو دن نہیں کہہ سکتے، تاریکی کے بغیر روشنی کو روشنی نہیں کہہ سکتے، پھر کفر کے بغیر اسلام کو اسلام کیو نکر کہہ سکتے ہو؟ اور پھر یہ کہنا اور فرق کرنا بھی سرے سے غلط ہو گا کہ یہ مسلمانوں کی حکومت ہے اور یہ کافروں کی اور یہ تو اسلامی حکومت ہے اور وہ کفریہ حکومت ہے، پھر تو حکومت سیکو لر اسٹیٹ یعنی لا دینی حکومت ہو گی۔ غرض کفر اور کا فر کا لفظ ختم کرنے کے بعد تو اسلامی حکومت کا دعویٰ ہی بے معنی ہوگا یا پھر یہ لفظ الیکشن جیتنے کے لیے ایک دل کش نعرہ اور حسین فر یب ہوگا۔
غرض یہ ہے کہ علماء پر کچھ بھی ہو رہتی دنیا تک یہ فریضہ عائد ہے اور رہے گا کہ وہ کافر پر کفر کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور اس میں پوری پوری دیانت داری اور علم وتحقیق سے کام لیں اور ملحد وز ندیق پر الحادوز ند قہ کا حکم اور فتویٰ لگائیں اور جو بھی فردیا فر قہ قرآن وحدیث کی نصوص وتصر یحات کی رو سے اسلام سے خارج ہو اس پر اسلام سے خارج اور دین سے بے تعلق ہونے کا حکم اور فتویٰ لگائیں، جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو، قیامت نہ آجائے۔
چونکہ کفر واسلام کے حکم لگا نے کا معاملہ بے حدا ہم اور انتہائی نازک ہے اور ایک شخص جذبات کی رو میں بھی بہہ سکتا ہے اور فکر ورائے میں غلطی بھی کرسکتا ہے، اس لیے علماء امت کی ایک معتمد علیہ جماعت جب اس کا فیصلہ کرے گی تو وہ فیصلہ یقینا حقیقت پر مبنی اور شک وشبہ سے بالا تر ہوجائے گا۔
بہر حال کا فر، فاسق، ملحد، مر تد وغیرہ شرعی احکام واوصاف ہیں اور فردیا جماعت کے عقائد یا اقوال وافعال پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ ان کی شخصیتوں اور ذاتوں پر، اس کے بر عکس گالیاں جن کو دی جاتی ہیں ان کی ذاتوں اور شخصیتوں کو دی جاتی ہیں، لہٰذا اگر یہ الفاظ صحیح محل میں استعمال ہوتے ہیں تو یہ شرعی احکام ہیں، ان کو سب وشتم اور ان احکام کے لگانے کو دشنا م طرازی کہنا یا جہالت ہے یا بے دینی، ہاں! کوئی شخص غیظ وغضب کی حالت میں یا ازراہِ تعصب وعناد کسی مسلمان کو کافر کہہ دے تو یہ بے شک گالی ہے اور یہ گالی دینے والا خود فاسق ہوگا اور تعزیر کا مستحق اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر کسی واقعی مسلمان کو کافر کہہ دے تو یہ کہنے والا خود کا فر ہو جائے گا۔
 علماء حق جب کسی فردیا جماعت کی تکفیر کرتے ہیں تو درحقیقت ایک کا فر کو کا فر بتلا نے والے اور مسلمانوں کو اس کے کفر سے آگاہ کرنے والے ہوتے ہیں، نہ کہ اس کو کا فر بنانے والے، کا فر تو وہ خود بنتا ہے۔ جب کفر یہ عقائد یا اقوال وافعال کا اس نے ارتکاب کیا اور ایمان کے ضروری تقا ضوں کو پورا نہیں کیا، تووہ باختیارِ خود کا فربن گیا، لہٰذا یہ کہنا کہ مولویوں کو کافر بنانے کے سوااور کیا آتا ہے؟! سراسر جہالت ہے یا بے دینی۔
 اگر علماء ایمانی حقائق اور اسلام کی حدود کی حفاظت نہ کرتے تو اسلام کا نام ہی صفحۂ ہستی سے کبھی کا مٹ چکا ہوتا، جس طرح کسی حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنی مملکت کی حدود کی حفاظت کرے اور ان کے تحفظ کے لیے فوجی طاقت اور دفاعی سامانِ جنگ وغیرہ کی تیاری میں ایک لمحہ کے لیے غافل نہ ہو، اسی طرح ایمان، اسلام ،اسلامی معاشرہ، مسلمانوں کے دین وایمان کو ملحدوں، افترا پردازوں اور جاہلوں کے حملوں سے محفوظ رکھنا علماء حق اور فقہاء اُمت کے ذمہ فرض ہے۔ 
ابھی چند دنوں کا قصہ ہے جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا اور حکومتِ پاکستان نے جہاد کا اعلان کیا اور پا کستان کی افواجِ قاہرہ اور عوام نے اس جہاد میں جوش وخروش کے ساتھ حصہ لیا تو بھارت کے لوگوں کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ پاکستان ’’اسلامی حکومت‘‘ نہیں ہے اور یہ لڑائی اسلامی جہاد نہیں ہے اور اگر ہے تو پھر ہندوستان بھی اسی طرح دار الا سلام ہے جس طرح پاکستان۔ اسلامی قانون نہ وہاں نا فذ ہے نہ یہاں، مسلمان وہاں بھی رہتے ہیں، یہاں بھی۔ بھارت کو یہ کہنے کا موقع کیوں ملا؟ صرف اس لیے کہ نہ پاکستان میں اسلامی قانون نافذ ہے اور نہ اسلامی معاشرہ موجود ہے۔ 
یہ ہماری وہ کمزور یاں ہیں جن سے دشمن نے ایسے نازک مو قع پر فائدہ اُٹھایا، اگر اس ملک کے اندر نبوت کا مدعی اور ختم نبوت کا منکر مرزا غلام احمد قادیانی کی امت (مرزائی فرقہ) بھی مسلمان ہے اور پورے اسلام کے چودہ سوسالہ اسلامی عبادات ومعاملات کے نقشہ کو مٹاڈالنے والا اور جنت دوزخ سے صریح انکار کرنے والا غلام احمد پر ویز اور اس کی جماعت بھی مسلمان ہے اور اگر قرآن کے منصوص احکام کو عصری تقاضوں کے سانچوں میں ڈھا لنے والا، سنتِ رسول کو ایک تعاملی اصطلاح اور رواجی قانون بتلا نے والا، سود کی حرمت سے قرآن کوخاموش بتاکر حلال کر نے والابھی نہ صرف مسلمان ہے، بلکہ اسلامی تحقیقا تی ادارہ کا سر براہ ہے تو پھر یاد رہے کہ محض قرآن کریم کو زردوزی کے سنہری حروف میں لکھوا نے سے قرآن کی حفاظت قیامت تک نہیں ہوسکتی اور یہ دعویٰ انتہائی مضحکہ خیز ہے یا پھر عوام کو بے وقوف بنا نے کا ہتھکنڈہ ہے۔
ابھی کل تک یہی ملحدین مسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے کہ قرآن مجید اس لیے نازل نہیں ہوا ہے کہ ریشمی رومالوں میں لپیٹ کر اس کو بوسے دیئے جائیں، پیشانی سے لگایا جائے اور سروں پر رکھا جائے، یہ تو مسلمانوں کے لیے ایک علمی قانون ہے، عمل کرنے کے لیے نازل ہوا ہے۔ پھر آج اس حقیقت سے یہ بے اعتنائی کیوں ہے کہ باہمی رضامندی سے زنا کو جرم نہیں قرار دیا جاتا۔ بینکاری سود کو شیرِ مادر کی طرح حلال قرار دے کر خود حکومت سود لے رہی اور دے رہی ہے۔ ریس کو رس جیسی مہذب قمار بازی کے، شراب کی در آمدو بر آمد اور خرید وفروخت کے لائسنس دیئے جارے ہیں۔ نکاح وطلاق ووراثت کا قانون سب صریح قر آن وسنت کی تصریحات کے خلاف جاری ہے۔ جرائم اور سز اؤں کا تو کہنا ہی کیا۔ غرض قرآن وسنت کو بالا ئے طاق رکھ کر قانون سازی کا سلسلہ جاری ہے اور زردوزی کے سنہری حرفوں میں لکھوا کر قرآن عظیم کی حفاظت کا اہتمام بھی کیا جارہا ہے۔ نہایت صبرآزما حقائق ہیں۔ 
آخر مسلمانوں کو کیا ہوگیا کہ اتنے واضح حقائق کی فہم کی توفیق بھی سلب ہو گئی؟ 
 

اللّٰھم اھد قومي فإنھم لایعلمون
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین