بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

شرعی اصطلاحات اوران سےمتعلق چند مباحث

شرعی اصطلاحات اوران سےمتعلق چند مباحث


اصطلاحات کا پسِ منظر

جس طرح ہر فکر وفلسفہ اپنے تئیں کچھ مخصوص اصطلاحات رکھتاہےجن کااپنا مخصوص پسِ منظر ہوتا ہے اور ان اصطلاحی الفاظ کو اپنے مقرر کردہ مفہوم ومعنی میں لینا ضروری ہوتا ہے، ان الفاظ کا لغوی معنی مقصود ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ فن کی باتوں کو ان الفاظ کے لغوی معنیٰ پر حمل کرنا درست ہوتا ہے۔ یوں ہی دینِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ بھی اپنےدامن میں کچھ اصطلاحی الفاظ رکھتے ہیں اور قرآن وسنت میں اگر وہ الفاظ استعمال ہو جائیں تو ان سے وہی مقرر کردہ مراد و مفہوم لینا ضروری ہوتا ہے جو شریعت نے طے کیا ہوتا ہے۔ ان سے عام لغوی معنی مراد لینا اور نصوص کو اسی لغوی معنی پر حمل کرنا کسی طرح درست نہیں ہوتا۔

شرعی اصطلاحات کی اہمیت

ان اصطلاحات کو جاننے کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ بہت سے شرعی احکام ومقاصد کا تحفظ اس پر موقوف ہے، چنانچہ قرآن و سنت کی بیسیوں نصوص ایسی ہیں جن میں مختلف الفاظ کےساتھ کچھ احکام، فضائل یا وعیدات ذکر ہوتے ہیں، ان احکام وغیرہ کا مصداق ان الفاظ کا لغوی مفہوم نہیں ہوتا، بلکہ شریعت نے اس کا جو مفہوم مقرر فرمایا ہوتا ہے وہی مقصود ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ متعلقہ حکم، فضیلت یا وعید کو مربوط کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ ان جیسے نصوص کو اگر شرعی مفاہیم پر حمل نہ کیا جائے تو دین میں تحریف کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن افسوس کےساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ بحالت ِ موجودہ اسی بے اصولی کے آئے دن مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں اور علمی رسوخ، اصولی مہارت اور مزاج میں اعتدال نہ ہونا وغیرہ کچھ عناصر کی وجہ سے اس نوع کی غلطیاں بکثرت پیش آتی رہتی ہیں۔

شرعی اصطلاح کیونکر بنتی ہے؟

اس سلسلہ میں بنیادی بات یہی ہے کہ کوئی چیز شرعی اصطلاح کیونکر بنتی ہے؟ کسی لفظ کو شرعی اصطلاح کی حیثیت کب حاصل ہوتی ہے؟ اصولی طور پر دیکھا جائے تو درج ذیل صورتوں میں کوئی چیز شرعی اصطلاح کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے:
۱:شریعت کوئی لفظ نئے سرےسے وضع کرے اور ایک خاص طے شدہ مفہوم میں اس کو استعمال کرے۔ ’’نئے سرے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پہلےسے وہ لفظ مستعمل نہ ہو، ایسے لفظ کا شرعی اصطلاح ہونا محتاجِ بیان نہیں ہے، تاہم اس کی مثال نایاب یا کمیاب ہے۔
۲: لفظ تو پہلےسے عربی زبان اور عربی محاورات میں استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن شریعت نے اس کو ایک خاص جامہ پہنایا اور لغوی معنی سے ہٹ کر کسی دوسرےمعنی میں استعمال کیا۔ مثال کے طور پر ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ ہے کہ عربی دان کے لیے شریعت کے آنے سے پہلے بھی یہ لفظ کوئی اجنبی نہیں تھا، بلکہ وہ اس لفظ اور اس کے معنیٰ سے واقف تھے اور روز مرہ کےمحاورات میں استعمال بھی کرتے تھے، لیکن شریعت نے اس کو لغوی معنی (بڑھوتری) سے ہٹا کر ایک دوسرے معنی میں استعمال کیا جو ایک خاص قسم کی عبادت ہے اور یہ نیا مفہوم ایسا ہے کہ عرب کے باشندے پہلے اس سے بالکل مانوس نہ تھے۔
۳:لفظ پہلے سے عربی زبان میں استعمال ہوتا ہو اور شریعت نے اس لغوی معنی کو کلی طور پر متروک نہ کیا ہو، تاہم اس میں کوئی تغیر کیا ہو، چاہے وہ تغیر کمی کی صورت میں ہو یا زیادتی کی شکل میں، لیکن ضروری ہے کہ یہ تغیر اس لفظ کےشرعی مفہوم میں داخل کردیاجائے، جس کی نشانی یہی ہے کہ اگر وہ تغیر موجود نہ ہو تو شریعت کی نظر میں وہ چیز ہی معتبر نہ ہواور اس پر متعلقہ احکام مرتب نہ ہوں۔
امام کرخی  رحمۃ اللہ علیہ  کےحوالےسے ان کے شاگرد امام جصاص رازی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتےہیں کہ: وہ آیتِ کریمہ ’’السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ‘‘ کےعموم سے استدلال کرنےکو درست نہیں سمجھتے تھے اور اس کی وجہ یہی بیان فرماتے تھے کہ اس کا لغوی معنی ومفہوم شریعت نے برقرار نہیں رکھا، بلکہ اس میں مختلف تغیر وتصرف فرمایا ہے، اب اس سے اپنا لغوی معنی مراد لینا درست نہیں ہے۔ ’’فصول في الأصول‘‘ میں ہے:
’’وَقَدْ کَانَ شَيْخُنَا اَبُوْ الْحَسَنِ الْکَرْخِيُّ رَحِمَہُ اللہُ يَقُوْلُ مَرَّۃً فِيْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: ’’السَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَہُمَا‘‘ إنَّہٗ (مِنَ الْمُجْمَلِ) لَا يَصِحُّ الْاِحْتِجَاجُ بِعُمُوْمِہٖ لِتَعَلُّقِ الْحُکْمِ فِيْہِ بِمَعَانٍ لَا يَنْتَظِمُہَا الْاِسْمُ وَلَيْسَ ہُوَ عِبَارَۃً عَنْہَا مِنْ نَحْوِ الْمِقْدَارِ وَالْحِرْزِ، فَصَارَ کَاسْمِ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَنَحْوِہَا لِتَعَلُّقِ الْحُکْمِ فِيْہَا بِمَعَانٍ لَمْ يَکُنِ الْاِسْمُ مَوْضُوْعًا لَہَا فِي اللُّغَۃِ۔‘‘
ترجمہ: ’’ہمارے شیخ ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ نے ایک بار آیتِ کریمہ ’’السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ‘‘ کےبارےمیں ذکر فرمایا کہ یہ مجمل ہے،جس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم ایسے امور کےساتھ مربوط ہے جس کو لفظِ ’’سرقہ‘‘ (لغوی لحاظ سے) شامل نہ تھا، مثال کے طور پر خاص مقدار اور حفاظت کا ضروری ہونا، لہٰذا یہ لفظ ’’صلاۃ‘‘ ، ’’زکاۃ‘‘ اور ’’صوم‘‘ جیسے الفاظ کی طرح ہوگیا، ان تمام الفاظ میں شرعی حکم کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جن کے لیے یہ الفاظ لغوی لحاظ سےموضوع نہ تھے۔‘‘
ان آخری دونوں صورتوں کو شرعی اصطلاح قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لفظ گو اپنے اصل معنی میں پہلےہی سے استعمال ہوتا ہے اور زبان داں شروع ہی سے اس سے واقف ہوتے ہیں، لیکن شریعت نے اس کا جو خاص مفہوم ومصداق مقرر کیا ہے، وہ پہلے معلوم نہ تھا یا متبادر نہ تھا، شریعت کی تعیین وتحدید کی وجہ سے چونکہ وہ اس لفظ کا مصداق ٹھہرا، اس لیے اس معنی میں اس کو شرعی اصطلاح کہا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’’منقولِ شرعی‘‘ سے بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

اصولی حیثیت کا جائزہ

’’صلاۃ‘‘ ، ’’زکاۃ‘‘ اور ’’صوم‘‘ جیسے الفاظ، جن کو ہم شرعی اصطلاحات کہتے اور سمجھتے ہیں، ان کی اصولی نوعیت کیا ہے؟ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے اس پر مختصر مگر پُرمغز گفتگو فرمائی ہے، ان کی مشہور اصولی کتاب ’’تحریر‘‘ اوراس کی شرح ’’تقریر‘‘ میں ہے:
’’(مسألۃ لا خلاف أن) الأسماء (المستعملۃ لأہل الشرع من نحو الصلاۃ والزکاۃ) في غير معانيہا اللغويۃ (حقائق شرعيۃ يتبادر منہا ما علم) لہا من معانيہا المذکورۃ (بلا قرينۃ) سواء کان ذٰلک لمناسبۃ بينہٗ وبين المعنی اللغوي، فيکون منقولا أو لا، فيکون مبتدأ (بل) الخلاف (في أنہا) أي الأسماء المستعملۃ لأہل الشرع في المعاني المذکورۃ حقيقۃ (عرفيۃ للفقہاء) أي بسبب وضعہم إياہا لتلک المعاني، فہي في تخاطبہم تدل عليہا بلا قرينۃ۔ وأما الشارع فإنما استعملہا فيہا مجازا عن معانيہا اللغويۃ بمعونۃ القرائن، فلا تحمل عليہا إلا بقرينۃ (أو) حقيقۃ شرعيۃ (بوضع الشارع) حتی أنہا في کلامہٖ وکلامہم تدل عليہا بلا قرينۃ، (فالجمہور) الواقع (الثاني) أي أنہا حقيقۃ شرعيۃ (فعليہ) أي الثاني (يحمل کلامہٗ) أي الشارع. وکلام أہل الفقہ والأصول ومن يخاطب باصطلاحہم أيضا إذا وقعت مجردۃ عن القرائن لأنہ الظاہر منہ ومنہم (والقاضي أبو بکر) الواقع (الأول) أي أنہا حقيقۃ عرفيۃ للمتشرعۃ لا للشارع (فعلی اللغوي) يحمل إذا وقعت في کلامہٖ محتملۃ للغوي والشرعي (إلا بقرينۃ) توجب حملہٗ علی الشرعي لزعمہٖ أنہا مبقاۃ علی حقائقہا اللغويۃ علی ما زعمہٗ بعضہم وسيأتي ما يوافقہٗ في الاستدلال کما ينبہ المصنف عليہ ۔‘‘
ترجمہ: ’’اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہلِ شرع جو الفاظ اپنے معنی لغوی کے علاوہ دوسرےمعانی میں استعمال کرتے ہیں،ان کو حقیقتِ شرعیہ کہا جاتا ہے، جیسے لفظ صلاۃ اور زکاۃ، اور ذہن ان معانی کی طرف بغیر کسی قرینہ کے چلا جاتا ہے، چاہے یہ معنی لغوی اور منقولی میں کسی مناسبت کے طور پر ہو یا  بغیر کسی مناسبت کے ہو، پہلے کو منقولی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مبتدأ، بلکہ اختلاف اس بات میں ہے کہ فقہاءکےہاں یہ حقیقتِ عرفیہ ہے یا شرعیہ؟ یعنی فقہاء نےان الفاظ کو ان کے اپنےمعانی کےلیے وضع کیاہے تو یہ ان کی اصطلاح میں بغیر کسی قرینہ کے ان معانی پر دلالت کرتےہیں، اور شارع نے قرائن کی بنیاد پر اپنے لغوی معانی سے نقل کرکے دوسرے معانی میں مجازاً استعمال کیا ہے، تو اب قرینہ کے بغیر ان الفاظ کو منقول الیہ معانی پر محمول نہیں کیا جائے گا، یا حقیقتِ شرعیہ ہے،یعنی شارع نے ان الفاظ کو انہی معانی کےلیےوضع کیا ہے، تو شرع اور فقہاء کی اصطلاح میں بغیر قرینہ کے ان معانی پر دلالت کرے گا؟
 جمہور کا مسلک یہ ہےکہ یہ حقیقتِ شرعیہ ہے،اور شارع،اہلِ فقہ اور اصولِ فقہ والوں کا کلام اسی پر محمول کیا جائے گا، اگر بغیر کسی قرینہ کے پایا جائے،اور قاضی ابوبکر ؒکے ہاں یہ حقیقتِ عرفیہ ہے، تو جب یہ لفظ ایسی جگہ پر پایا جائے کہ جہاں دونوں معانی کا احتمال رکھتا ہو تو اہلِ لغت اس کو معنی لغوی پر محمول کریں گے، الا یہ کہ وہاں کوئی ایسا قرینہ پایاجائے کہ وہ شرعی معنی پر حمل کرنے کا تقاضا کرتا ہو تو اس صورت میں اسی پر محمول کیا جائےگا،اس لیے کہ اہلِ لغت کا گمان یہ ہے کہ یہ اپنے حقیقی معنی لغوی میں برقرار ہے، لہٰذا بغیر قرینہ کے دوسرے معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ اور استدلال کرنےمیں اسی کے موافق مزید تفصیل آگے آجائے گی، جیساکہ مصنف اس پر تنبیہ کرے گا۔‘‘
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ درج بالا الفاظ اور شرعی اصطلاحات کی اصولی نوعیت کے بارےمیں اہلِ علم کےدو موقف ہیں:
الف: یہ الفاظ ان مخصوص معانی میں حقیقتِ شرعیہ ہےجن کو خود شریعت نے ہی ان مفاہیم کےلیے متعین کررکھاہے۔
ب:یہ الفاظ ان مخصوص معانی میں حقیقتِ شرعیہ نہیں ہے جن کو خود شریعت نے ہی ان مفاہیم کےلیے متعین کر رکھا ہو، بلکہ اپنے اصل کے لحاظ سے تو یہ الفاظ لغوی معانی میں ہی استعمال ہوتے تھے، شریعت نے کسی قرینے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو مجاز کے طور پر اپنے ان متعین کردہ مفاہیم میں استعمال کیا ہے۔
دونوں اقوال میں اختلاف کی بنیاد پر فرق یہ سامنےآئےگا کہ اگر الفاظ کو ان معانی میں شرعی حقیقت تسلیم کرلیاجائے تو وہی اس کے اصل حقیقی معانی متصور ہوں گے اور ان شرعی مفاہیم کےمراد لینےکےلیے کسی خارجی قرینے کی ضرورت نہ رہےگی، بلکہ جس طرح ہم دیگر الفاظ بول کر اس کے حقیقی معنی ہی مراد لیتےہیں اوراس کےلیے کسی دلیل وسہارے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،یوں ہی اگر نصوص میں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوجائیں،تو ان سے اپنا شرعی مفہوم ہی مراد ہوگا اور اس کےلیے کسی قرینےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اگر شرعی حقیقت کی بجائے اس کو حضرات فقہائےکرام کی عرفی حقیقت قرار دیا جائے تو اس صورت میں نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ جن نصوص میں یہ الفاظ استعمال ہوں، وہاں ان سے شرعی یا فقہی مفہوم مراد نہیں ہوگا، بلکہ متبادر لغوی مفہوم ہی اس سے مراد ہوگا،البتہ اگر اس کے خلاف پر کوئی قرینہ قائم ہو تو اس کے مطابق مفہوم متعین ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعی حقیقت ماننے کی صورت میں ان الفاظ سے شرعی مفاہیم ہی مراد ہوں گے اور لغوی معنی مراد لینے کےلیے قرینہ کی ضرورت ہوگی، جبکہ دوسرے قول کےمطابق معاملہ برعکس ہوگا، یعنی نصوص میں جہاں یہ الفاظ ذکر ہوں گے،وہاں ان سے عام لغوی معانی ہی مراد ہوں گے،اس کےعلاوہ مفہوم مراد لینے کےلیے قرینہ کی ضرورت ہوگی۔
اب ان میں سے پہلا قول تو جمہور اصولیین اور حضرات فقہائےکرام کاہے ،جبکہ دوسرا قول امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی جانب منسوب ہے اور علامہ قاضی بیضاوی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے۔دلیل وتوجیہ کےلحاظ سے جمہور ہی کا قول زیادہ راجح ہے،چنانچہ علامہ ابن الہمام  رحمۃ اللہ علیہ  نے درج بالا عبارت کے بعد امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی دلیل کاجواب بھی دیاہے۔

شرعی اور فقہی اصطلاح کافرق

شرعی اصطلاح کی تعیین وتحدید شریعت کے مصادر سے ہی ہوسکتی ہے،جبکہ علمِ فقہ یا دیگر علوم وفنون کی اصطلاحات کی تحدید کےلیے نص کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کسی بھی علم وفن والےکسی بھی وقت اس کا تعین کرسکتےہیں۔استعمال کےلحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہےکہ:
الف: شرعی نصوص یعنی قرآن وحدیث میں اگر کوئی لفظ مستعمل ہے تواگر وہ لفظ ایسا ہو جس کا شریعت نے عام لغوی معنی سے ہٹ کر کوئی مفہوم ومصداق متعین کیاہو، جس کی تفصیل اوپر ذکر کی جاچکی ہے، تو اس سے وہی شرعی مفہوم ہی مراد ہوگا۔
ب:شرعی نصوص میں استعمال ہونےوالا لفظ اگر ایسا نہ ہوجو اصولی معنی میں شرعی اصطلاح کہلاتا ہے تو اس سے متبادر لغوی معنی ہی مراد ہوگا۔ ایسے الفاظ کو لغوی متبادر معانی سے ہٹاکر کسی دوسرے معنی ومفہوم پر حمل کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ تحریفِ دین کا راستہ ہے،البتہ اگر اس متبادر معنی مراد لینےسے کوئی اصولی مانع موجود ہو تو دوسری بات ہے۔
ج:جس طرح شرعی نصوص کو متبادر لغوی معانی سے پھیر کر کسی دوسرے مفہوم پر حمل کرنا بھی کسی طرح درست نہیں ہے، یوں ہی ان نصوص کو ان فنی اور فقہی اصطلاحات پر حمل کرنا جائز نہیں ہے جو بعد کےدور میں اہلِ علم نے متعین فرمائی ہوں۔

اصطلاح مقرر کرنےکاحکم

اگر کسی علم وفن والے اپنے لیے کوئی اصطلاح وضع کرنا چاہیں تو اس میں بذات ِخود کوئی مضائقہ نہیں ہے، چاہےاس کےلیے کوئی نیا لفظ ایجاد کریں یا کسی لفظ کو عام لغوی معنی سے پھیر کر اصطلاحی مفہوم کےلیےمتعین کریں،دونوں صورتوں میں ممانعت کی کوئی بات نہیں ہے۔یوں ہی اگر کوئی گروہ /جماعت اپنے لیے اس طرح کوئی اصطلاح مقرر کرنا چاہے تو چونکہ اصل اشیاء میں اباحت ہے، اس لیے اس میں بھی مضائقہ نہیں ہے، چنانچہ مشہور ہےکہ: ’’لا مشاحۃ في الاصطلاح‘‘ اصطلاح مقرر کرنے میں نزاع کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 تاہم یہ ساری تفصیل فی نفسہٖ اصطلاح مقرر کرنے میں ہے۔ اگر اس کے ساتھ کچھ خارجی عناصر مل جائیں اور وہ عوامل ایسے ہوں جو اس کے ناجائز ہونے کے متقاضی ہوں تو اس کو ان عوامل کی بنیاد پر ناجائز ہی کہاجائےگا،مثال کے طور پر قادیانی لوگ جن کےکافر ہونےپر پوری امت کااجماع واتفاق ہو چکا ہے، وہ اپنے بڑوں کو خلفاء،اپنی عبادت گاہوں کو مساجد،مقبرےکو جنت البقیع نام دیتے ہیں تو چونکہ اس اصطلاح کی اجازت دینے میں متعدد شرعی مفاسد ہیں،اس لیے یہ ممنوع ہی کہلاتےہیں اورکسی صورت میں ان جیسی اصطلاحات وضع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
 یہی وہ اصولی نکتہ ہے جس پر کما حقہ غور نہ کرنے کی وجہ سے شرعی احکام ومسائل بیان کرنےمیں دسیوں غلطیاں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،اس کاحاصل یہ ہے کہ ایک کسی چیز کی ذاتی حیثیت سے اس کاحکم ہوتاہے اور دوسرا خارجی عوامل اور بیرونی عناصر کی بنیاد پر اس کی حیثیت ہوتی ہے،ضروری نہیں ہے کہ دونوں حیثیتوں سے کسی چیز کاحکم ایک جیسا ہو، بلکہ سیکڑوں ایسی صورتیں ہوسکتی ہیں جہاں فی نفسہٖ کسی چیز کاحکم الگ ہوتاہے اور خارجی عوامل کی بنیاد پر اس کاحکم مختلف ہوجاتاہے۔

شرعی اصطلاح کاحکم

جس طرح دیگر تمام علوم وفنون کا یہ ضابطہ ہے کہ اصطلاحی الفاظ سے اصطلاحی معانی ہی مراد ہوں گے، ایسے الفاظ کو محض عام لغوی معنی پر حمل کرنا درست نہیں ہے، بلکہ متعلقہ علم وفن کی سراسر خلاف ورزی ہے، یوں ہی شرعی اصطلاحات کابھی یہی حال ہے، لہٰذا قرآن وحدیث میں اگر ایسے الفاظ ذکر ہوں توان سے اصطلاحی مفہوم مراد لینا ہی ضروری ہے،ان کو محض عام متبادر لغوی معنی پر حمل کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ عام علوم وفنون کی بنسبت شرعیات میں اس کازیادہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہےکہ ان کےساتھ دینی احکام،فضائل یا وعیدات وغیرہ متعلق ہوتےہیں، غلط مفہوم مراد لینے کی صورت میں دینی احکام وفضائل میں غلطی لازم آئےگی جس کا مذموم ہونا محتاجِ بیان نہیں ہے۔
غور کیاجائے تو واضح ہوجاتاہے کہ یہ دین میں معنوی تحریف کےمترادف ہےکہ شریعت نے اصطلاحی مفہوم کےمتعلق کوئی حکم بتایا ہے اور سننےوالا اس کو لغوی مفہوم پر چسپاں کررہاہے،یا دینی لحاظ سے وہ فضیلت شرعی اصطلاحی مفہوم کی ہوتی ہےاور سننےوالا اس کو خواہ مخواہ لغوی معنی پر حمل کرتا ہے جس کے بہت سے افراد ایسے ہیں جو شرعی اصطلاح کے تحت داخل نہیں ہوتے۔ اب ایسا اقدام کرنےوالا نص کا انکار تو نہیں کرتا، لیکن اس کاجو معنی ومفہوم یا عملی میدان کار ودائرہ کار شریعت نے طے کر رکھاہے،اس کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس میں اپنی طرف سے بے ضابطہ تصرف کرتا ہے، گویا نص کا مدلول اپنی طرف سے تلاش کرتا ہے، تحریف معنوی کی صورت بھی یہی ہوتی ہے۔ ( الفصول في الأصول، باب في معنی المجمل، فصل المجمل علٰی وجہين، ج:۱، ص:۶۸)
علامہ جصاص رازی رحمہ اللہ نے اس کو اگر چہ مجمل کہا ہے، چنانچہ امام کرخیؒ کا قول نقل کرنے کے بعد اپنا یہی موقف ذکر کیا ہے کہ میرےنزدیک یہ مجمل ہے اور اس عبارت سے پہلے اسی علت کی بنیاد پر لفظ ’’صلاۃ‘‘ کو مجمل قرار دیا ہے کہ وہ لغت کےلحاظ سے جس معنی میں استعمال ہوتاتھا،شریعت نے اس لفظ کو اس معنی میں استعمال نہیں کیا، فرماتےہیں:
’’وَالصَّلَاۃُ الدُّعَاءُ فِي اللُّغَۃِ، وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ’’يَا اَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا‘‘ وَقَدْ اُرِيْدَ بِہٰذِہِ الْأسْمَاءِ مَعَانٍ لَمْ يَکُنِ الِاسْمُ مَوْضُوْعًا (لَہَا) فِي اللُّغَۃِ، فَمَتٰی وَرَدَ شَيْءٌ مِنْ ہٰذِہِ الْألْفَاظِ مُطْلَقًا وَلَمْ يَکُنِ الْمُرَادُ بِہَا إشَارَۃً إلَی مَعْہُودٍ فَہُوَ مُجْمَلٌ مُحْتَاجٌ إلَی الْبَيَانِ۔‘‘
لیکن یہ تفصیل اس بات کے خلاف نہیں ہےکہ اس کو شرعی اصطلاح قرار دیاجائے، بلکہ انجام کار دونوں کاحاصل ایک ہی نکلتا ہے،چنانچہ اس کو شرعی اصطلاح قرار دیاجائے اور یا مجمل، دونوں صورتوں میں لغوی معنی پر حمل کرنا درست نہیں ہے اور شرعی نصوص کی روشنی میں ہی اس کی مراد ومقصود متعین کیاجاسکتا ہے۔ (التقرير والتحبير،المقام الأول في بيان معنی اللغۃ، أقسام المفرد والمرکب، الفصل الخامس في المفرد باعتبار استعمالہٖ، مسألۃ الأسماء المستعملۃ لأہل الشرع من نحو الصلاۃ والزکاۃ، ج:۲، ص:۱۰)
 امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے اس موقف کی دلیل کیا ہے؟ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے دو دلائل ذکر فرمائے ہیں:
’’الف: قرآن عربی زبان میں ہے اور اسی زبان میں اس کا نزول ہوا ہے، لہٰذا نصوص کا جو معنی عربی لغت میں معروف ومتبادر نہ ہو،وہ مراد لینا درست نہیں ہے۔
ب: اگر شریعت نے کسی لفظ یا چند الفاظ کو واقعۃً لغوی معنی سے پھیر کر کسی دوسرے معنی میں استعمال کیاہے جس کو شرعی اصطلاح کاعنوان دیا جاتاہے تو اس صورت میں تمام مکلف انسانوں کو اس کی خبر دینا ضروری تھا، تاکہ وہ نص کے سمجھنے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے میں کسی غلط فہمی کے شکار نہ ہوں، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے نصوص موجود نہیں ہیں، لہٰذا یہ دعویٰ ہی بے بنیاد ہے۔‘‘
امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ان استدلالات پر امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مفید اصولی کتاب ’’المستصفٰی‘‘ میں سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: المستصفی، القطب الثالث في کيفيۃ استثمار الأحکام من مثمرات الأصول، المقدمۃ وتشتمل علٰی سبعۃ فصول، الفصل الرابع في الأسماء الشرعيۃ، ص:۱۸۲
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین