بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’شرائع من قبلنا‘‘ اور اُن کا حکم (ساتویں قسط)


’’شرائع من قبلنا‘‘ اور اُن کا حکم

 

(ساتویں قسط)

 

تیسرے مسلک کی وضاحت اور دلائل

’’شرائع سابقہ میں سے غیر ثابت النسخ تمام احکام پر مطلقاً عمل کرنالازم ہے، لیکن شریعت محمدیہl کے احکام کی حیثیت سے۔ ‘‘ 
یعنی شرائع سابقہ کا جو بھی حکم ہم تک پہنچے، خواہ کسی دلیل قطعی کے ساتھ پہنچے، جیسے قرآن وحدیث میں آئے، یا دلیل غیر قطعی کے ساتھ، جیسے: اہل کتاب نے نقل کیا ہو، یا کسی مسلمان نے شرائع سابقہ کی کتب سے اس کو حکم شرعی سمجھا ہو، اور اس کا منسوخ ہونا ثابت نہ ہو، توہمارے اوپر اس کی اتباع لازم ہے، لیکن اس حیثیت سے کہ وہ ہماری شریعت کا حکم ہے، نہ کہ شرائع سابقہ کا:
بعض نے کہا: ہم( اُمت محمدیہl ) پر لازم ہے کہ شرائع سابقہ میں سے صرف ان احکام پرشریعت محمدیہl کی حیثیت سے عمل کریں، جن کے بارے میں نسخ کی دلیل ظاہر نہ ہو۔ یہ حضرات یہ فرق روا نہیں رکھتے کہ ان احکام کا شرائع سابقہ میں سے ہونااہل کتاب کے نقل سے ثابت ہویا مسلمانوں کے پاس موجود کتاب میں سے روایت کرنے سے، اور یاپھرقرآن وسنت کے بیان سے۔‘‘(۱)

تیسرے مسلک کا محوری نقطہ

تیسرے مسلک میں بنیادی اور اہم نقطہ یہ ہے کہ ’’شَرَائِعُ منْ قَبْلَنَا‘‘ احکام کی پیروی کے لزوم کے لیے اس بات کی ضرورت نہیں کہ دلیل قطعی سے ان احکام کاشرائع سابقہ میں سے ہونا ثابت ہوجائے۔ ثبوت کی ضرورت نہیں، بلکہ اہل کتاب کی نقل یا پھر محض کتابِ مقدس اور بائبل میں اس حکم کا موجود ہونا کافی ہے۔ گویا اس بات کو کافی ثبوت سمجھا گیا کہ کوئی کتابی کہہ دے کہ فلاں حکم ہماری شریعت کا حکم ہے، یا پھر کوئی بھی کہہ دے کہ فلاں حکم کتابِ مقدس (تورات وانجیل) میں موجود ہے۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ سارا دارومدار کتابی اور کتابِ مقدس پر ہوا۔ 

تیسرے مسلک کی مرجوحیت

یہی بات اس مسلک کے باطل ہونے کے لیے کافی ہے، اس لیے کہ نہ تو کوئی کتابی دین کی باتوں میں معتبرراوی ہے اور نہ کتابِ مقدس کے احکام کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس لیے کہ دینیات میں راوی کے عادل، ثقہ اور معتبر ہونے کے لیے پہلی شرط اسلام ہے اور رسالتِ محمدیہ سے انکار کی بنیاد پر اہل کتاب میں یہ شرط نہیں پائی جاتی، جبکہ کتابِ مقدس کے احکام کی تصدیق وتکذیب دونوں سے صراحۃً حدیث میں روکا گیاہے، اس لیے کہ بنصِ قرآنی یہ کتابیں محرف ہیں۔ ان دونوں باتوں کی تفصیل حسب ذیل سطور میں ملاحظہ ہو:

راوی کے لیے اسلام کی شرط

ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جمہور ائمہ حدیث اور ائمہ فقہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس شخص کی روایت حجت ہوگی، اس کے لیے شرط ہے کہ وہ عادل اور ضابط ہو۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ مسلمان، بالغ اور عاقل ہو، فسق اور خلافِ مروّت اُمور سے محفوظ ہو۔‘‘(۲)

اہلِ کتاب کا کفر

قرآن وسنت کی نصوص کی روسے اہل کتاب کا کفر اقویٰ البدیہیات میں سے ہے، چندنصوص ملاحظہ ہوں:

پہلی آیت

’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا إِنْ أَرَادَ أَنْ یُّہْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہٗ وَمَنْ فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا۔‘‘  (المائدۃ:۱۷)
’’بے شک کافر ہوئے جنہوں نے کہا کہ اللہ تو وہی مسیح ہے مریم کا بیٹا، تو کہہ دے پھر کس کا بس چل سکتا ہے اللہ کے آگے؟ اگر وہ چاہے کہ ہلاک کرے مسیح مریم کے بیٹے کو اور اس کی ماں کو اور جتنے لوگ ہیں زمین میں سب ۔‘‘

دوسری آیت

’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْمَسِیحُ ابْنُ مَرْیَمَ وَقَالَ الْمَسِیْحُ یَا بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ اعْبُدُوْا اللّٰہَ رَبِّیْ وَرَبَّکُمْ إِنَّہٗ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ وَمَأْوَاہُ النَّارُ وَمَا لِلظَّالِمِیْنَ مِنْ أَنْصَارٍ۔‘‘                (المائدہ:۷۲) 
’’بیشک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ وہی مسیح ہے مریم کا بیٹا اور مسیح نے کہا ہے کہ اے بنی اسرائیل! بندگی کرو اللہ کی جو رب ہے میرا اور تمہارا، بیشک جس نے شریک ٹھہرایا اللہ کا، سو حرام کی اللہ نے اس پر جنت اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور کوئی نہیں گناہ گاروں کی مدد کرنے والا ۔‘‘

تیسری آیت

’’لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوْا إِنَّ اللّٰٰہَ ثَالِثُ ثَلَاثَۃٍ۔‘‘  (المائدۃ:۷۳)
’’بے شک کافر ہوئے جنہوں نے کہا اللہ ہے تین میں کا ایک ۔‘‘

کتابِ مقدس کی تصدیق وتکذیب

کتاب مقدس کے اندر موجود احکام کے رووقبول کے بارے میں حدیث نبوی کی نص سے یہ اُصول ثابت ہے کہ ان کی نہ تو تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب، اس لیے کہ ان کتب کا محرف ہونا مسلماتِ شرعیہ میں سے ہے، تصدیق میں تویہ خطرہ ہے کہ غیر حکم شرعی کو حکم شرعی نہ سمجھا جائے، جبکہ تکذیب میں یہ اندیشہ ہے کہ کہیں حکم شرعی کی تکذیب نہ ہوجائے، اس لیے کہ یہ کتابیں بہرحال آسمانی کتابیں ہیں۔

کتبِ سابقہ میں تحریف کا ثبوت

دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ اہل کتاب نے اپنی آسمانی کتابوں میں تحریف کی ہے۔ اس دعوی کے دلائل حسب ذیل آیاتِ قرآنیہ واحادیثِ نبویہ ہیں:

۱:-پہلی دلیل: آیت قرآنیہ

’’مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۔‘‘ (النساء : ۴۶)
’’ بعضے لوگ یہودی پھیرتے ہیں بات کو اس کے ٹھکانے سے۔‘‘
 

دوسری دلیل: آیت قرآنیہ

’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ۔‘‘( المائدۃ: ۱۳)
’’پھیرتے ہیں کلام کو اس کے ٹھکانے سے ۔‘‘

 تیسری دلیل: آیت قرآنیہ

’’یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْ بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ یَقُوْلُوْنَ إِنْ أُوْتِیْتُمْ ہٰذَا فَخُذُوْہُ وَإِنْ لَّمْ تُؤْتَوْہُ فَاحْذَرُوْا۔‘‘                              (المائدۃ: ۴۱)
’’ بدل ڈالتے ہیں بات کو اس کا ٹھکانا چھوڑ کر، کہتے ہیں: اگر تم کو یہ حکم ملے تو قبول کر لینا اور اگر یہ حکم نہ ملے تو بچتے رہنا۔‘‘

چوتھی دلیل: حدیث نبوی

’’عن بن عباس رضی اللّٰہ عنہما وقدحدثکم اللّٰہُ أن أہل الکتاب بدلواماکتب اللّٰہ وغیروا بأیدیہم الکتاب۔‘‘ (۳)
’’اللہ نے تمہیں بتایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کے لکھے ہوئے کو تبدیل کردیا ہے، اور اپنے ہاتھوں سے کتاب الہٰی میں تبدیلیاں کی ہیں۔‘‘
ان دلائل قطعیہ صریحہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اہل کتاب نے آسمانی کتابوں میں تحریف کی ہے، اس لیے شرعی عقائد واعمال کے حوالے سے ان کا قول معتبر نہیں، اوران سے اس سلسلے میں پوچھنا بھی نہیں چاہیے۔ 

اہل کتاب سے سوالات کرنے کی ممانعت

ان نصوص کی روشنی میں امام بخاری ؒ نے ’’باب قول النبی : لا تسألوا أھل الکتاب عن شیئ‘‘ میں اس مضمون کو ثابت فرمایا ہے کہ: ’’شرائع سے متعلق امور میں اہل کتاب کی باتیں غیر معتبر ہیں، اس لیے کہ وہ اپنی کتابوں میں تحریف اور تبدیلی کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘‘ بنابریں! مسلمان نہ تو ان سے شرائع کے متعلق سوال کریں اور نہ ان کی باتوں کی تصدیق کریں، البتہ تکذیب بھی نہ کریں، اس لیے کہ ان کی باتوں میں سچ کا احتمال بہر حال برقرار ہے، تو مسلمان کہیں غیر شعوری طور پر سچی باتوں کی تکذیب کے مرتکب نہ ہوجائیں۔ اہل کتاب سے سوال کی ممانعت حسب ذیل احادیث میں ملاحظہ ہو:

الف:- پہلی حدیث

’’عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہما، قال:’’ کیف تسألون أہل الکتاب عن شیء وکتابکم الذی أنزل علی رسول اللّٰہ صلٰی اللّٰہ علیہ وسلم أحدث، تقرء ونہٗ محضًا لم یشب، وقد حدثکم أن أہل الکتاب بدلوا کتاب اللّٰہ وغیروہ، وکتبوا بأیدیہم الکتاب، وقالوا: ہو من عند اللّٰہ لیشتروا بہ ثمنًا قلیلاً؟ ألا ینہاکم ما جاء کم من العلم عن مسألتہم؟ لا واللّٰہ ما رأینا منہم رجلاً یسألکم عن الذی أنزل علیکم ۔‘‘ (۴)
’’عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ابن عباس t نے فرمایا: تم اہل کتاب سے کیونکر پوچھتے ہو؟! حالانکہ تمہاری کتاب جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتاری گئی ہے، (باعتبارِ نزول) نئی ہے۔ تم اس کو خالص پڑھتے ہو، پرانی نہیں ہوئی۔ تحقیق تم کو بتلایا ہے کہ اہل کتاب نے اللہ کی کتاب کو تبدیل کرڈالا ہے، اور اس میں تغییر کی ہے، اور اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھی ہے اور کہنے لگے: یہی اللہ کی طرف سے ہے، تاکہ اس کے ذریعے لے لے مول تھوڑا سا، کیا تمہارے پاس آنے والے علم(دلائل) نے تمہیں ان سے پوچھنے سے منع نہیں کیا؟ نہیں، بخدا! ہم نے ان میں سے کسی شخص کو نہیں دیکھا جو تم سے تمہارے اوپر نازل ہونے والی کتاب کے بارے میں پوچھتا ہو۔‘‘

ب:-دوسری حدیث

’’عن جابر بن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ ، قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ’’ لا تسألوا أہل الکتاب عن شیئ، فإنہم لن یہدوکم، وقد ضلوا، فإنکم إما أن تصدقوا بباطل، أو تکذبوا بحق، فإنہ لو کان موسٰی حیًا بین أظہرکم، ما حل لہ إلا أن یتبعنی۔‘‘ (۵)
’’حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں نہ پوچھو، وہ تمہاری راہنمائی نہیں کرسکتے، جبکہ وہ گمراہ کرچکے ہیں۔‘‘

ج:-تیسری حدیث

’’عن زید بن أسلم قال: بلغنی أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: لاتسألوا أہل الکتاب عن شیئ، فإنہم لن یہدوکم، وقد أضلوا أنفسہم، قال: قلنا: یا رسول اللّٰہ! أفنحدث عن بنی إسرائیل؟ قال: حدثوا ولا حرج۔‘‘ (۶)
’’زید بن اسلم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے، فرمایا :مجھے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھو، اس لیے کہ وہ تمہاری راہنمائی نہیں کرسکتے، جبکہ وہ اپنے آپ کو گمراہ کرچکے ہیں۔ ہم نے پوچھا:یا رسول اللہ! کیا ہم ان کی بات کو نقل کریں ؟فرمایا : نقل کرو، اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘

د:-چوتھی حدیث

’’قال عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ : لا تسألوا أہل الکتاب عن شیئ، فإنہم لن یہدوکم، وقد ضلوا، فتکذبوا بحق، وتصدقوا الباطل، وإنہٗ لیس من أحد من أہل الکتاب إلا فی قلبہٖ تالیۃ تدعوہ إلی اللّٰہ وکتابہ کتالیۃ المال۔ والتالیۃ: البقیۃ۔ ‘‘ (۷)
’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اہل کتاب سے کسی چیز کے بارے میں مت پوچھو، اس لیے کہ وہ تمہاری راہنمائی نہیں کرسکتے، جبکہ وہ اپنے آپ کو گمراہ کرچکے ہیں، نتیجتاً تم حق کی تکذیب اور باطل کی تصدیق کربیٹھو۔ اہل کتاب میں سے کوئی نہیں، مگر یہ کہ اس کے دل میں ایسی بات (تالیہ) ہے، جو اس کو اللہ تعالیٰ اور اس کی کتاب کی طر ف بلاناہے۔ مال کی تالیہ کی طرح(تالیہ کا معنیٰ ہے بقیہ)۔‘‘

ہ:-پانچویں حدیث

’’عن عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ بن ثابت قال: جاء عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، فقال: یا رسول اللّٰہ! إنی مررت بأخ لی من قریظۃ، وکتب لی جوامع من التوراۃ، أفلا أعرضہا علیک؟ قال: فتغیر وجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم، قال عبد اللّٰہ رضی اللہ عنہ : فقلت: مسخ اللّٰہ عقلک، ألا تری ما بوجہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم؟ فقال عمر رضی اللہ عنہ : رضیت باللّٰہ ربًا، وبالإسلام دینًا، وبمحمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نبیًا قال: فسری عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، ثم قال: والذی نفس محمد بیدہٖ، لو أصبح فیکم موسٰی ثم اتبعتموہ وترکتمونی لضللتم، أنتم حظی من الأمم، وأنا حظکم من النبیین۔‘‘‘(۸)
’’عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر خدمت ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! بنو قریظہ کے ایک بھائی کے پاس سے میرا گزر ہوا، اس نے تورات میں سے چند جامع قسم کی باتیں لکھیں، میں ان باتوںکو آپ کے سامنے پیش نہ کروں؟!۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ تبدیل ہوا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے کہا:اللہ تیری عقل کا ستیاناس کرے، کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناراضگی کے آثار نہیں دیکھ رہے ؟! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اسلام کے دین ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر خوش اورراضی ہوں۔ فرمایا: اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشی ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! اگر موسیٰ m بھی تمہارے درمیان آجائیں، پھر تم لوگ ان کی پیروی کرو اور مجھے چھوڑو، تو گمراہ ہو جاؤ گے۔ تم تمام امتوں میں سے میرے حصے کے ہوں اور میں تمام انبیائ( علیہم السلام ) میں سے تمہارے حصے کا ہوں۔‘‘

و:- چھٹی حدیث

’’عن الزہری، أن حفصۃ زوج النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم جاء ت إلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بکتاب من قصص یوسف فی کتف فجعلت تقرأ علیہ، والنبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یَتَلَوَّن وجہُہ، فقال: والذی نفسی بیدہٖ، لو أتاکم یوسف وأنا فیکم فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم۔‘‘ (۹)
’’زھری سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت حفصہ t آپ کی خدمت میں یوسف m کے قصے پرمشتمل ہڈی پر لکھی ہوئی ایک تحریر لے آئیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنے لگیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک کارنگ تبدیل ہونے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر یوسف m میری موجودگی میں تمہارے پاس آ ئیں اور تم مجھے چھوڑکر ان کی پیروی کرو تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘

احادیثِ مبارکہ سے مستنبط فوائد
 

ان احادیث سے حسبِ ذیل امورثابت ہوئے:
۱:-مسلمانوں کو اہل کتاب سے دین کی باتوں کے بارے میں نہیں پوچھنا چاہیے۔ 
۲:-قرآن مجید آخری نازل ہونے والی کتاب ہے جس کی تعلیمات محکم، محفوظ اور تاقیامت قابل عمل ہیں۔ 
۳:-اہل کتا ب نے اللہ کی کتابوں میں تحریف اور تبدیلی کی، اور اپنی طرف سے بعض چیزیں شامل کی ہیں۔ 
۴:-اہل کتاب گمراہ ہوچکے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ان سے ہرگز راہنمائی نہیں مل سکتی۔
۵:-دین کے متعلق اہل کتاب کی باتیں یقینی طور پر درست نہیں، تاہم ان میں درست ہونے کا احتمال ہے۔ 
۶:-أہل کتاب کی کتابوں میں مذکور باتوں کی نہ تکذیب کرنی چاہیے اور نہ تصدیق۔ 
۷:-اہل کتاب کی جو باتیں قرآن مجید کی تعلیمات سے متصادم ہیں، ان کو رد کرنا ضروری ہے، اور جو قرآنی تعلیمات سے متصادم نہیں اُن کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ 
۸:-قرآن مجید کی موجودگی میں اہل کتاب کی کتابوں کو دینی راہنمائی حاصل کرنے کے لیے پڑھنا غیر مستحسن ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر شدیدناگواری کا اظہار کیا ہے۔ 
۹:-آخری پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم (خاتم النبیین) کی بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی لازم ہے۔ 
۱۰:-اگر سابقہ پیغمبروں میں سے بھی کوئی پیغمبر دنیا میں تشریف لائیں گے تو وہ اپنی شریعت کی پیروی نہیں کریں گے، بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کی پیروی کے پابند ہوں گے۔ 
خلاصہ یہ ہوا کہ ’’ شَرَائِعُ مَنْ قَبْلَنَا‘‘‘ کاکوئی حکم اگردلیل شرعی سے ثابت نہ ہو، مثلاً :اہل کتاب نے نقل کیا ہو، یا کسی مسلمان نے شرائع سابقہ کی کتب سے اس کوحکم شرعی سمجھا ہو، تو ایسے احکام کی اتباع ہمارے اوپر لازم اور ضروری نہیں، اس لیے کہ ان کے ہاں موجود کتابیں(کتاب مقدس یابائبل) کا محرف ومبدل ہونا دلیل قطعی سے ثابت ہے، اس لیے اس حکم کا احکام محرفہ مبدلہ میں سے ہونے کا ہر وقت احتمال رہے گا، گویا اس کا حکم شرعی ہونا ثابت نہیں، اور غیر حکم شرعی ہونے کا احتمال دلیل سے ثابت ہے، بلکہ اگر اہل کتاب میں سے کوئی مشرف باسلام ہوجائے، تو بھی اس کا یہ کہنا کافی نہیں ہوگا کہ فلاں حکم ہماری شریعت کا حکم ہے، اس لیے کہ اس کی معلومات کی بنیاد اس کی سابقہ شریعت کی کتاب یا ان کے مسلمات ہیں، اور یہ دونوں امور ہمارے لیے حجت شرعی نہیں، ہمارے لیے حجت شرعی ہماری کتاب اور ہمارے نبی کی سنت ہے۔ صاحب کشف الاسرارفرماتے ہیں:
’’اورجن احکام کا اہل کتاب کے ذریعے شرائع سابقہ میں سے ہونا ثابت ہو، یامسلمانوں نے ان کی کتابوں سے اس کوسمجھا ہو، تو ایسے احکام کی پیروی واجب نہیں، اس لیے کہ دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ انہوں نے کتابوں میں تحریف کی ہے، بنا بریں! ان کا نقل کرنا معتبر نہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کا ان کے ہاتھوں میں موجود کتابوں سے کسی حکم کو سمجھنا اوراس کونقل کرنا بھی معتبر نہیں، اس لیے کہ یہ احتمال موجود ہے کہ ان کاسمجھا ہوا اور نقل کیا ہوا حکم من جملہ محرف ومبدل احکام میں سے ہو۔ اسی طرح اہل کتاب میں سے اسلام قبول کرنے والوں کے قول کا بھی اعتبار نہیں، اس لیے کہ ان کے قول کی بنیاد ظاہر کتاب ہوگی، یا پھر اہل کتاب کی جماعت کا قول، اور وہ ہمارے لیے حجت نہیں۔‘‘(۱۰)
حاصل کلام یہ ہوا کہ تیسرامسلک بھی مرجوح ہے۔ 

حوالہ جات

۱:…أصول السرخسی لشمس الأئمۃ محمد بن أحمدالسرخسی، متوفی:۳۸۳ھ، ج:۲، ص:۹۹
۲:…معرفۃ أنواع علوم الحدیث، (مقدمۃ ابن الصلاح)لعثمان بن عبد الرحمن، المعروف بابن الصلاح، متوفی:۶۴۳ھـ، ج:۱، ص:۱۰۴
۳:…صحیح البخاری، کِتَابُ الشَّہَادَاتِ، بَابُ لاَ یُسْأَلُ أَہْلُ الشِّرْکِ۔
۴:…صحیح البخاری، بَابُ قَوْلِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: لَا تَسْأَلُوْا أَہْلَ الْکِتَابِ عَنْ شَیْئٍ، رقم: ۷۳۶۳
۵ : مسندأحمد بن حنبل،، متوفی:۲۴۱ھ، ج:۲۲، ص:۴۶۸، رقم الحدیث:۱۴۶۳۱
۶:…المصنف لأبی بکر عبد الرزاق بن ہمام، متوفی:۲۱۱ھـ، رقم الحدیث:۱۰۱۵۸، ج:۶، ص:۱۱۰-۱۱۱
۷:…المرجع السابق، رقم الحدیث:۱۰۱۶۱    ۸:…المرجع السابق، رقم الحدیث:۱۰۱۶۴
۹:…المرجع السابق:رقم الحدیث: ۱۰۱۶۵    ۱۰:…کشف الأسرار شرح أصول البزدوی، ج:۳، ص:۲۱۳
                                                (جاری ہے)


 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین