شبِ براءت سے متعلق خرافات اور اُن کا حل کیاہے؟
شریعتِ اسلامیہ نے جن متبرک راتوں میں جاگنے اور عبادت کے ذریعے انھیں زندہ کرنے کی تعلیم دی ہے، ان میں شعبان کی پندرہویں رات بھی ہے، جسے شبِ براءت کہا جاتا ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاکیزہ زمانے سے لے کر صحابہ کرام، تابعین، تبعِ تابعین رضی اللہ عنہم تک ہر زمانے میں اس رات کی فضیلت سے فائدہ اُٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے اور اللہ کے نیک بندے ہر زمانے میں اس رات میں خصوصی عبادت کا اہتمام فرماتے رہے ہیں، اس موقع پر کرنے کے کام کیا ہیں؟ اور مسلمانوں کو کن کن امور سے دور رہنا چاہیے؟ یہاں مختصراً اُنہیں بیان کیا جاتا ہے:
1- طبعی نشاط وتحمل کے بقدر جاگ کر عبادت کرنا، مثلاً: نوافل، تلاوت، استغفار، دعا وغیرہ میں مشغولی اس دھیان کے ساتھ کہ صبح کی نماز متاثر نہ ہو؛ بلکہ عام دنوں کی طرح اس روز بھی فجر کی نماز کا اہتمام باجماعت ہو، شب کی نفلی عبادت کرنے کے بعد جسمانی تھکن کی وجہ سے اگر نماز قضا ہوگی یا جماعت فوت ہوجائے گی تو رات بھر کا بیدار رہنا بے کار ہوجائے گا۔
2- پندرہویں تاریخ میں روزہ رکھنا، اس کا ثبوت اگرچہ ایک ضعیف حدیث سے ہے؛ لیکن اس اعتبار سے کہ یہ تاریخ ایامِ بیض میں سے ہے اور ایامِ بیض (۱۳،۱۴،۱۵) کے روزوں کا استحباب صحیح احادیث سے ثابت ہے؛ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ ۱۳ اور ۱۴ شعبان کا بھی روزہ رکھے، نیز یکم شعبان سے لے کر ستائیس شعبان تک احادیث میں روزہ رکھنے کی فضیلت وارد ہے، اس لیے ان دو وجہوں کی بنا پر اگر پندرہ شعبان میں روزہ رکھا جائے گا تو یقیناً موجبِ ثواب ہوگا ؛ لیکن اس روزہ میں نفلی روزہ ہونے کے پہلو کو نظر انداز نہ کیا جائے، نفلی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا رکھنا باعثِ ثواب ہے اور اس کے ترک پر کوئی گناہ نہیں۔
3- زندگی میں ایک آدھ مرتبہ اس شب میں قبرستان جاکر مرحومین کو ایصالِ ثواب کرنا، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بلاکسی کو بتائے ایک مرتبہ جنت البقیع میں تشریف لے جانا ثابت ہے؛ لہٰذا اتباعِ رسول کے جذبے سے کسی اہتمام اور پابندی کے بغیر اگر قبرستان چلے جائیں تو اجر کا باعث ہے، قبرستان جانے کو لازم نہ سمجھیں؛ اس کوشبِ براءت کےاعمال کا مستقل جز ءنہ بنایاجائے کہ اگر قبرستان نہ گئے تو شبِ براء ت ادھوری رہ جائے گی۔
شبِ براءت کے موقع پر یہ وہ امور ہیں جن کا ثبوت اسلامی تعلیمات سے ہے اور شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ اُن کو بجالانا اجر وثواب کا ذریعہ ہے، اسی طرح کچھ اور کام ہیں جن کا شریعت اور دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، لیکن لوگ اسےبڑے خوشی سے کرتے ہیں، اس موقع پر بعض ناواقف مسلمان آتش بازی کا بڑا اہتمام کرتے ہیں اور لاکھوں روپیہ اس پر خرچ کرتے ہیں، حالاں کہ شریعت میں اس کی کوئی اصل موجود نہیں ہے، بلکہ اس میں بے شمار مفاسد ہیں۔
اسی طرح اس موقع پرمساجد اور گھروں میں غیر معمولی چراغاں کیا جاتا ہے، اس میں اگر اپنا مال ہے تو ایک اس میں اسراف ہے اور دوسرا کفار اور ہندوؤں کے ساتھ مشابہت ہے جو ازروئےشرع حرام اور ناجائز ہے اور اگر کسی دوسرے مسلمان کا مال اس میں شامل ہے تو اس میں خیانت کا گناہ بھی ہے۔
ایسے ہی حلوے کو شبِ براء ت سے جوڑدیاگیا؛ حالاں کہ حلوے کا شبِ براء ت سے کوئی تعلق نہیں، پورا سال کبھی بھی حلوہ پکایا جائے، بُرا نہیں؛ لیکن خاص طور پر شبِ براءت میں حلوے کا اہتمام کرنے کا ثبوت نہ قرآن سے ہے، نہ کسی حدیث میں اس کاذکر ہے، نہ ہی کسی صحابیؓ یابزرگِ دین کے عمل سے اس کا پتہ چلتا ہے؛ بلکہ یہ بھی ایک خود ساختہ رسم ہے جو ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑتی جارہی ہے۔
لہٰذا علماء کو چاہیےکہ عوام میں آگاہی پھیلائیں اور اس کا آسان حل یہ ہے کہ امام مسجد اس بات کا اہتمام کرے کہ عوام کو دین کے اندر ہونے والی تمام بدعات سے آگاہ کرے اور انہیں ان بدعات سے دور رہنے کی ترغیب دے۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہیے کہ علماء کی باتوں پر عمل کرے اور اپنےگھر والوں اور تعلق والوں کو بھی ان باتوں سے آگاہ کرے اور خود بھی ممکن حد تک ان خرافات سے بچے اور دوسروں کو بھی ان سے بچائے۔
چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ہے:
’’عن عائشۃؓ، قالت: فقدت النبي - صلی اللہ عليہ وسلم - ذات ليلۃ فخرجت أطلبہ، فإذا ہو بالبقيع، رافع رأسہ إلی السماء، فقال: ’’يا عائشۃ، أکنت تخافين أن يحيف اللہ عليک ورسولہ؟ ‘‘ قالت: قد قلت، وما بي ذلک، ولٰکني ظننت أنک أتيت بعض نسائک، فقال: ’’إن اللہ تعالی ينزل ليلۃ النصف من شعبان إلی السماء الدنيا، فيغفر لأکثر من عدد شعر غنم کلب۔‘‘ ( سنن ابن ماجۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في ليلۃ النصف من شعبان، رقم الحدیث: ۱۳۸۹، ج:۲، ص: ۳۹۹، ط: دار الرسالۃ العالميۃ، بیروت)
ایک اور جگہ ابن ماجہ میں ہے:
’’عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول اللہ - صلی اللہ عليہ وسلم -: ’’إذا کانت ليلۃ النصف من شعبان، فقوموا ليلہا، وصوموا نہارہا، فإن اللہ ينزل فيہا لغروب الشمس إلی سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر لہ، ألا مسترزق فأرزقہ، ألا مبتلی فأعافيہ، ألا کذا ألا کذا، حتی يطلع الفجر۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء في ليلۃ النصف من شعبان، رقم الحدیث: ۱۳۸۸، ج:۲، ص: ۳۹۹، ط: دار الرسالۃ العالميۃ)
فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 144508101072
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن