جس طرح آج کل شبِ براءت اور شبِ معراج اور طاق راتوں میں جاگنے اور کھانے پکانے اور بیانوں کا سلسلہ ہے، ہر سال لازمی کرنا اس کو ضروری سمجھتے ہیں ، کیا یہ صحیح ہے ؟
صورتِ مسئولہ میں شبِ براءت، شب ِمعراج، اور طاق راتوں سے متعلق الگ الگ جواب لکھا جاتا ہے:
واضح رہے کہ شبِ براءت کی فضیلت اور اہمیت اور اس میں عبادت کرنا ثابت ہے، اور پندرہ شعبان کا روزہ رکھنا مستحب ہے، البتہ اس دن میں خاص طور پر کھانے پینے کی اشیاء بنانا اور تقسیم کرنا چوں کہ ثابت نہیں؛ اس لیے اس کا اہتمام و التزام کرنا (ثواب کا باعث سمجھنا، اور نہ کرنے والوں کو اچھا نہ سمجھنا) بدعت ہے۔ اگر مقصود مرحومین کوایصالِ ثواب کرنا ہو تو اس کے لیے کسی مہینے یا دن کا انتظارنہیں کرنا چاہیے، بلکہ کسی بھی دن جو میسر ہو صدقہ کرکے اس کا ثواب بخش دیا جائے، معروف دن میں نہ کرے۔
اس طرح شبِ معراج میں بھی خصوصیت کے ساتھ جاگنے کو لازم سمجھنا، اور اس میں کھانے پکانے کااہتمام کرنا اور نہ کرنے والو ں کو برا کہنا اور سمجھنا، یہ سب امور بدعت کے زمرے میں آتے ہیں، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
رمضان کی طاق راتوں میں اجتماعی طور پر عبادت، دعاء، بیان، ذکر وتلاوت وغیرہ کا اہتمام والتزام کرنا درست نہیں، ان راتوں میں انفرادی طور پر کثرت سے عبادت کرنی چاہیے، کیونکہ یہ اعمال ازقبیلِ نوافل ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان نمازوں کے علاوہ جن کا باجماعت ادا کرنا ثابت ہے، دیگر عبادات نوافل وغیرہ سخت مجبوری کے باوجود گھر میں ادا کرتے تھے، البتہ اگر مسجد میں عبادت، تلاوت وغیرہ کا اہتمام نہیں کیا گیا، بلکہ اتفاقاً لوگ مسجد میں آکر تلاوتِ قرآن، نماز اور ذکر کرنے لگیں تو اس کی گنجائش ہے، البتہ گھر میں ان اعمال کا کرنا زیادہ ثواب کا کام ہے۔
یانات کے بارے میں حکم یہ ہے کہ بیانات کو ان راتوں کا حصہ سمجھنایااس طرح کے مواقع پر سنت قرار دینا یاشرکت نہ کرنے والوں کو ملامت کرنا غلط ہے، اس صورت میں یہ عمل بجائے ثواب کے بدعت کے زمرے میں داخل ہوسکتا ہے، البتہ ان طاق راتوں میں بیانات کو اگر سنت یا لازم نہ سمجھا جائے اور کسی قسم کی بدعات نہ ہوں تو جائز ہے۔
’’مشکاۃالمصابیح‘‘ میں ہے :
’’إياکم ومحدثات الأمور، فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ۔‘‘ رواہ أحمد۔‘‘ (کتاب الاِيمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، ج:۱، ص: ۵۸، ط: دارالمعرفۃ)
فتاویٰ شامی(باب صلاۃ المریض) میں ہے :
’’وکل مباح يؤدي إلي السنۃ أوالواجب، فمکروہ۔‘‘(ج: ۲، ص: ۱۰۵، ط :سعید)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’اس شب کے لیے خصوصی نوافل کا اہتمام کہیں ثابت نہیں، نہ کبھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے، نہ تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم نے کیا۔ علامہ حلبی تلمیذ شیخ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ نے غنیۃ المستملي، ص:۴۱۱ میں، علامہ ابن نجیم رحمۃ اللہ علیہ نے البحر الرائق شرح کنز الدقائق، ج:۲، ص: ۵۶، میں، علا مہ طحطاویؒ نے مراقي الفلاح، ص:۲۲ میں اس رواج پر نکیر فرمائی ہے اور اس کے متعلق جو فضائل نقل کرتے ہیں، ان کو ردکیا ہے۔‘‘ (فتاویٰ محمودیہ،ج:۳، ص:۲۸۴، ادارۃ الفاروق، کراچی)
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’ماہِ رجب میں تاریخِ مذکورہ میں روزہ رکھنے کی فضیلت پر بعض روایات وار د ہوئی ہیں، لیکن وہ روایات محدثین کے نزدیک درجۂ صحت کو نہیں پہنچیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ماثبت بالسنۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ بعض بہت ضعیف ہیں اور بعض موضوع (من گھڑت) ہیں۔‘‘ (فتاوٰی محمودیہ، ج:۳، ص:۲۸۱، ادارۃ الفاروق، کراچی)
حضرت مولانا مفتی رشید احمد صاحب لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:
’’ ۲۷ رجب کے روزہ کا کوئی ثبوت نہیں۔‘‘ (سات مسائل، صفحہ:۵)
فقط واللہ اعلم
فتویٰ نمبر : 144507101599
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن