بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

بینات

 
 

شب برأت اور اس کے تقاضے

شب برأت اور اس کے تقاضے



الحمدلله وسلام علی عبادہ الذین اصطفی!
اس شب برأت کے بارے میں جو کرنے کے کام ہیں اور جو نہ کرنے کے کام ہیں، ان کے متعلق چند باتیں عرض کرتا ہوں، حق تعالیٰ شانہ ہمارے قلوب میں صحیح استعداد پیدا فرمائے، اپنے اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سمجھنے، ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما کر ان کو قبول بھی فرمائے۔
عنایت الٰہی
یہ حق تعالیٰ شانہ کی خاص عنایت ہے کہ بعض مبارک اوقات کی محبت اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں ڈال دی ہے، باوجود اس کے کہ حق تعالیٰ شانہ کی عنایتیں ہر وقت انسان کے شامل حال رہتی ہیں، لیکن آپ دیکھتے ہیں کہ جمعہ کا اجتماع، عام نمازوں سے زیادہ ہوتا ہے، رمضان مبارک میں مسلمانوں کی توجہ زیادہ ہوتی ہے، بہ نسبت اور مہینوں کے، اور اسی طرح جو خاص اہمیت کی راتیں ہیں، ان میں بھی ہماری رغبت زیادہ ہوتی ہے بہ نسبت عام راتوں کے، یہ بھی حق تعالیٰ شانہ کی طرف سے بندوں پر خاص عنایت ہے کہ اس کی خصوصی عنایت اور مغفرت کے جو مواقع ہیں، یا عنایت اور مغفرت کے جو اسباب ہیں ان کی محبت زیادہ ڈال دی جاتی ہے، اور یہ عنایت یوں ہے کہ شاید اسی راستے سے کسی کا کچھ کام بن جائے۔ تو حق تعالیٰ شانہ نے ہمیں اس موقع پر جمع ہونے کی توفیق عطا فرمادی ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہی توقع رکھنی چاہئے۔
نیکی زیادہ تو گناہ بھی!
لیکن اسی کے ساتھ دوسری بات بھی ذہن میں رکھو، تصویر کے دونوں پہلو سامنے رکھنے چاہئیں جس طرح خاص مقامات میں عبادت کا درجہ بڑھا ہوگا، اسی طرح ان مواقع پر گناہ کا وبال بھی دوسرے اوقات کی نسبت زیادہ ہوگا، چنانچہ نعوذباللہ ثم نعوذ باللہ! اگر کوئی شخص کنویں میں پیشاب کرے تو بہت بری بات ہے، لیکن اگر کوئی شخص چاہ زمزم میں پیشاب کرے تو اس سے بدتر بات ہوگی، بلکہ نعوذباللہ! کفر کے درجے تک پہنچنے والی بات ہوگی، اسی طرح اگر کوئی شخص عام مسجدوں کی بے حرمتی کرے تو بہت ہی بری بات ہوگی، لیکن خدانخواستہ اور نعوذباللہ ثم نعوذباللہ! اگر حرم شریف میں کوئی گستاخی اور بے ادبی کرے تو یہ اور زیادہ بدترین بات ہے، ایسے ہی آخر شب کا وقت، جو اللہ تعالیٰ کے قرب کا وقت ہے اس وقت میں اگر کوئی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے تو بہت بڑا درجہ ہے، اور اگر کوئی نعوذباللہ! اس وقت بدکاری کرے، یا چوری کرے تو اس کا بدترین ہونا ظاہر ہے، یہ ساری باتیں میں نے سمجھانے کے لئے عرض کی ہیں کہ جن اوقات یا مقامات میں عبادت کا درجہ بڑھا ہوا ہوتا ہے، ان مقامات میں یا اوقات میں گناہ کا درجہ بھی بڑھا ہوا ہوتا ہے، اور ان اوقات میں گناہ کرنا زیادہ سنگین ہوتا ہے۔
ایک کی لاکھ مرغیاں
اس پر ہمارے حضرت شیخ الحدیث نور اللہ مرقدہ کا لطیفہ یاد آیا کہ جب پہلے حج پر گئے تھے تو شاہ عبدالقادر قدس سرہ بھی ساتھ تھے اور مدینہ طیبہ جاتے ہوئے حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمة اللہ علیہ نے حضرت شیخ کو (یہ اس وقت نوجوان اور پورے قافلے میں سب سے زیادہ کم عمر تھے)
”اِلْاَئِمَّةُ مِنْ قُرَیْشٍ“
(کہ ائمہ قریش میں سے ہوں گے) کہہ کر امیر قافلہ بنادیا تھا، تو ایک موقع پر حضرت شاہ عبدالقادر کے ہاں مرغی پکائی گئی تھی، اور شیخ رحمہ اللہ اس وقت اتفاق سے موجود نہ تھے، ان کی شرکت نہ ہوسکی، حضرت رائے پوری نے معذرت کی کہ آپ اس کھانے میں تشریف فرما نہیں تھے، تو بے تکلفی سے شیخ نے فرمایا کہ حضرت! آپ کو اس کا معاوضہ ادا کرنا پڑے گا، شاہ عبدالقادر نے فرمایا کہ حضرت ضرور معاوضہ ادا کریں گے، شیخ نے کہا کہ حضرت! یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں کی ایک نیکی لاکھ نیکی کے برابر ہے، تو ایک مرغی کی لاکھ مرغیاں بنتی ہیں، چنانچہ حضرت رائے پوری نے ساری عمر حضرت شیخ کا یہی قرض چکایا، وہیں سے خط لکھنے شروع کر دیئے کہ شیخ کی ایک لاکھ مرغی ہمارے ذمے واجب ہے، اس کا انتظام کر رکھو۔ یہ تو میں نے لطیفہ عرض کردیا کہ ایک مرغی کی لاکھ مرغیاں بنتی ہیں، حرم شریف میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک روپیہ خرچ کرو گے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں ایک لاکھ روپیہ پاوٴ گے، وہاں ایک دوگانہ ادا کرو گے تو ایک لاکھ دوگانہ کا ثواب ملے گا، اسی طرح عرض کر رہا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی الٹا چلے تو پھر بہت بری بات ہے، اس کا گناہ بھی اتنا ہی سنگین ہوگا۔
گناہوں سے بچنا زیادہ ضروری ہے
اسی کے ساتھ ایک بات اور ہے کہ آدمی نیکی چاہے تھوڑی کرے، لیکن برائی سے بچنے کی بھرپور کوشش کرے، کیونکہ نیکی منافع کی چیز ہے، جتنا کمالو گے اتنا تمہارا زرمبادلہ بن جائے گا، لوگ دبئی، سعودی عرب جاکر کماتے ہیں اور گھر والوں کو خرچ بھیجتے ہیں یا پیسے جمع کرکے لاتے ہیں، یہ ہماری نیکیاں ہمارا زرمبادلہ ہیں، یہ وہاں آخرت میں ملے گا، کسی نے زیادہ کمالیا، زیادہ ملے گا، کم کمایا تو کم ملے گا، لیکن اگر برائیاں کرو گے تو یہ بہت سنگین بات ہے، نیکی تو چاہے تھوڑی کرو لیکن برائی سے بچنے کی زیادہ کوشش کرو، یہ دو باتیں ہوگئیں۔ میں ایک غلطی پر تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ان دونوں باتوں کی لوگ رعایت نہیں رکھتے، ایک تو یہ کہ نیکی کی رغبت ہوتی ہے اور ہونی چاہئے، عرض کر رہا ہوں کہ نیکی زرمبادلہ ہے، جتنی زیادہ آدمی نیکی کرے اتنی کم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوذر غفاری کو ایک موقع پر فرما رہے تھے، حضرت ابوذر بڑے زاہد صحابی تھے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو ان کے مطلب اور ذوق کی باتیں فرمایا کرتے تھے۔ آپ نے ان سے فرمایا:
”یَا اَبَاذَرٍّ! خَفِّفِ الْحَمْلَ فَاِنَّ الْعَقَبَةَ کَئُوْدٌ، وَخُذِ الزَّادَ فَاِنَّ السَّفَرَ طَوِیْلٌ، وَاخْلِصُ الْعَمَلَ فَاِنَّ النَّاقِدَ بَصِیْرٌ۔“
ترجمہ:…”اے ابوذر! بوجھ ذرا تھوڑا اٹھانا اس لئے کہ گھاٹی بڑی دشوار گزار ہے (جس گھاٹی پر تمہیں چڑھنا ہے وہ بڑی دشوار گزار ہے، ذرا بوجھ کم اور ہلکا رکھنا)، اور ذرا توشہ لے کر چلنا اس لئے کہ سفر بڑا لمبا ہے، اور عمل ذرا کھرا لے کر چلنا اس لئے کہ پرکھنے والا بہت سمجھ رکھنے والا ہے، اس کی نظر بڑی باریک ہے۔“
اگر کھوٹ ملا ہوا ہوگا تو نکال دیا جائے گا، وہاں کھوٹ نہیں چلتا ہمیں تو ہر چیز میں ملاوٹ کی عادت ہے، اور اخلاص کے معنی ہیں ملاوٹ نہ کرنا، یعنی اپنے عمل میں ملاوٹ مت کرو، خالص اللہ کی ذات کے لئے کرو، عمل بھی خالص ہو اور خالص اللہ تعالیٰ کی ذات کے لئے ہو، لوگوں کو دکھانے یا ریا ٴ کے لئے، یا مخلوق کی خاطر نہ ہو، کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”توشہ لے کر چلو اس لئے کہ سفر بہت لمبا ہے۔“
نیکی کرنا آسان ہے
لیکن ہم لوگوں کو نیکی کرنے کی طرف جتنی رغبت ہے، اتنا برائی سے بچنے کا اہتمام نہیں، یہ ایک عجیب بات ہے، میں تو اپنی بات کر رہا ہوں، آپ کی بات نہیں کر رہا، آپ اپنے طور پر اپنی حالت پر غور کرلیجئے، عام ذوق یہ ہے کہ نیکی کی طرف رغبت تو بہت ہوتی ہے، لیکن برائی سے بچنے کا اہتمام کم ہے۔ ہمارے حضرت تھانوی قدس سرہ نے اس کی عجیب حکمت بیان فرمائی، فرمایا: اس کی وجہ یہ ہے کہ نیکی میں نفس اپنا کچھ حصہ لگالیتا ہے، کم از کم لذت ہی سہی، یا یوں خیال کرلیا جاتا ہے کہ تم اب اچھے آدمی بن گئے ہو کہ نیکی کا کام کرتے ہو، چنانچہ وہ اپنا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور لگالیتا ہے، اس لئے نیکی پر لگنا تو اس کے لئے آسان ہے۔
گناہ کو چھوڑنا مشکل ہے:
لیکن برائی چھوڑنے میں چونکہ کوئی لذت نہیں، نہ ہی کسی کو پتہ چلتا ہے کہ اس نے برائی چھوڑی، نہ اس میں ریاکاری چل سکتی ہے اور نہ کچھ نفس کو لذت آسکتی ہے، نیکی ایک وجودی یعنی کرنے کا کام ہے، کوئی بھی کرے گا تو دوسرا اسے دیکھے گا، ریاکاری کا بھی اس میں احتمال، خود اپنے نفس کو بھی لذت، اس لئے نیکی کرنے کی طرف تو نفس کو رغبت ہوتی ہے، مگر برائی اور بدی چھوڑنے کی طرف رغبت نہیں ہوتی، اس لئے کہ اس میں لذت نہیں ہوتی، تو میں نے کہا:
ایک یہ کہ نیکی کا اہتمام چاہے تھوڑا کرو، لیکن بدی سے بچنے کا اہتمام زیادہ کرو۔
دوسری بات یہ کہ خصوصیت کے ساتھ مقدس مقامات میں، مقدس اوقات میں بدی کے کرنے سے زیادہ سے زیادہ ڈرو، چنانچہ جمعہ کے دن اور عصر کے بعد کا وقت بھی بہت زیادہ مبارک وقت ہوتا ہے، اس وقت میں بدی کا ارتکاب بہت بری بات ہے، رمضان المبارک کا مہینہ بہت ہی مبارک مہینہ ہے، بہت ہی مبارک وقت ہے۔ میرے پاس آج اکثر خطوط رمضان المبارک کے مسائل سے متعلق آرہے ہیں، لوگ پوچھتے ہیں کہ روزہ رکھ کر اگر فلمی گانا سن لیا جائے تو اس سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا؟ رمضان المبارک کی تقریریں تو رمضان المبارک میں ہوں گی، یہ درمیان میں ایک مثال کے طور پر بات آگئی، آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی سنا ہوگا:
”مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہ فَلَیْسَ ِللهِ حَاجَةٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہ وَشَرَابَہ۔“ (مشکوٰة ص:۱۷۶)
ترجمہ:…”جو شخص روزہ رکھنے کے باوجود غلط کاری اور غلط بات کو نہیں چھوڑتا، تو اللہ تعالیٰ کو کچھ پرواہ نہیں اور کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“
پٹاخے اور آتش بازی سنگین جرم ہے:
اسی طرح یہ شب برأت کی ساعت اور اوقات ہیں ان میں بھی گناہوں سے بچنے کا اہتمام کرنا چاہئے، مجھے ان پٹاخوں سے شدید تکلیف ہو رہی ہے، لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ کار ثواب ہے، یا یوں سمجھتے ہوں گے کہ نہ ثواب ہے نہ گناہ ہے، لیکن میں عرض کردینا چاہتا ہوں کہ آئندہ کے لئے کم از کم یہ معلوم کرلیجئے کہ یہ گناہ ہے، اگر یہ رات مبارک ہے تو جس طرح اس رات میں نیکی کرنے کا درجہ زیادہ ہے، اسی طرح برائی کرنے کا جرم بھی زیادہ ہے، اس لئے اس رات میں پٹاخے بجانا، آتش بازی کرنا یہ بہت ہی زیادہ سنگین جرم ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقل عطا فرمائے۔ تو یہ ایک بات میں نے عرض کی، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ مبارک اوقات کی محبت ہمارے دلوں میں ڈال دی گئی ہے، اللہ تعالیٰ کی اس عنایت کا ہمیں شکر کرنا چاہئے اور ساتھ کے ساتھ توقع اور امید بھی رکھنی چاہئے کہ جب اللہ تعالیٰ نے یہ عنایت اور توفیق ہم پر فرمائی ہے، تو انشا ٴاللہ اس کو قبول بھی فرمائیں گے، اور ہمیں اپنی رحمت کا مورد بھی بنائیں گے۔ انشا ٴاللہ!
شب برأت مانگنے کی رات ہے:
دوسری بات حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
”فَاِنَّ اللهَ تَعَالٰی یَنْزِلُ فِیْھَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ اِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَقُوْلُ: اَلَا مِنْ مُّسْتَغْفِرٍ فَاَغْفِرُ لَہ، اَلَا مِنْ مُّسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقُہ، اَلَا مِنْ مُّبْتَلًی فَاُعَافِیْہِ، اَلَا کَذَا اَلَا کَذَا۔“ (مشکوٰة ص:۱۱۵)
ترجمہ:…”شعبان کی پندرھویں رات کو اللہ تعالیٰ قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں، اور یوں پکارتے ہیں: کیا کوئی بخشش مانگنے والا ہے کہ میں اس کی بخشش کردوں، کیا کوئی رزق مانگنے والا ہے کہ میں اس کو رزق دوں، کیا کوئی مبتلائے مصیبت ہے جو اس مصیبت سے بچنے کی درخواست کرے، میں اس کو عافیت عطا کردوں، کیا کوئی فلاں قسم کا آدمی ہے، فلاں قسم کا آدمی ہے، ایک ایک ضرورت کا نام لے کر اللہ میاں پکارتے ہیں۔ تو اس رات میں کرنے کے دو کام ہیں، ایک تو جہاں تک ممکن ہوسکے عبادت کرو اور قرآن کریم کی تلاوت کرو، نماز پڑھنا سب سے افضل ہے، لیکن اگر بیٹھ کر تسبیحات پڑھنا چاہو تو یہ بھی جائز ہے، غرضیکہ اللہ کی یاد میں جتنا وقت بھی گزار سکتے ہو، گزارو، باقی سونے کا تقاضا ہو تو سوجاوٴ، فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ضرور پڑھ لو، تو ایک یہ کہ جہاں تک ممکن ہوسکے عبادت میں وقت گزارا جائے، اور دوسرے یہ کہ رات مانگنے کی ہے، کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگا جائے، مانگا کیا جائے؟ اس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمادیا ہے، مختصر سی اس کی تشریح کردیتا ہوں۔ مانگنے کی تین چیزیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہیں، ایک تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو، دوسرے اللہ تعالیٰ سے رزق مانگو، اور تیسرے اللہ سے عافیت مانگو، لیجئے خدا تعالیٰ نے کنجیاں تمہارے ہاتھ میں دے دی ہیں، جتنا چاہے کھولو اور لو، فرمایا ایک اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔ مغفرت مانگیئے: بھائی! مغفرت کے معنی ڈھانکنے کے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ ہمارے اندر جو کچھ ہے وہ ناپاکی اور گندگی کے سوا کچھ نہیں، چنانچہ ابھی چھیل دو تو خون نکلنے لگے گا، اور اگر خدانخواستہ پیٹ میں سوراخ ہوجائے تو پھر جو کچھ ہوگا وہ ظاہر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمارے اوپر اس حسین و جمیل چمڑے کا پردہ ڈال دیا ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے کہ پاک سے پاک مجلسوں میں اور معزز مجلسوں میں ہم بیٹھتے ہیں، لیکن جو گندگیاں ہمارے اندر چھپی ہوئی ہیں، وہ اس پردے کی وجہ سے لوگوں پر ظاہر نہیں ہوتیں، خدانخواستہ ہماری گندگیاں ظاہر ہونے لگیں تو ہم کسی شریفانہ محفل میں بیٹھنے کے لائق نہ ہوتے، یہ تو ظاہری چمڑے کی بات کر رہا ہوں، اور بالکل اسی طرح معنوی طور پر ہمارے اندر جو قصور، لغزشیں، خطائیں ہیں، جو جرائم اور گناہ ہم نے کئے ہیں، یہ اللہ تعالیٰ کی ستاری کا پردہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو فاش نہیں فرماتے، دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ستاری فرما رکھی ہے۔ امیر الموٴمنین حضرت عمر بن خطاب کی خدمت میں ایک چور لایا گیا، حکم فرمایا کہ اس کے ہاتھ کاٹ دو کہ شریعت کا حکم ہے، چور ہاتھ جوڑ کے کھڑا ہوگیا کہ امیرالموٴمنین میں نے پہلی دفعہ چوری کی ہے، آپ اس دفعہ تو مجھے معاف کردیں، حضرت عمر نے فرمایا: اللہ کے دشمن! تو جھوٹ بولتا ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس سے کریم ہے کہ پہلی بار آدمی کو پکڑوادیں، یہ اس کے کرم سے بعید ہے۔ جن لوگوں کے پردے فاش ہوجاتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے سامنے جری بن جاتے ہیں:
ہم مشو مغرور از حلم خدا
دیر گیرد سخت گیرد مر ترا
ہاں اللہ کے حلم اور اس کی ستاری سے مغرور نہ ہوجاوٴ، دھوکہ نہ کھاجاوٴ، اس لئے کہ دیر سے پکڑیں گے لیکن جب پکڑیں گے تو سخت پکڑیں گے۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص کو اپنا مطالعہ کرکے اپنا ایکسرے کرنا چاہئے، اپنے چمڑے کے نیچے کرید کر دیکھو تو نجاست ہی نجاست بھری ہوئی نظر آئے گی، یہ اوپر سے ہم پر اللہ تعالیٰ کی ستاری کا پردہ پڑا ہوا ہے، وگرنہ کوئی کرید کر دیکھے تو ہمارے گناہ، وساوس، خیالات، اور اندرونی جذبات وغیرہ تو اندر نجاست ہی نجاست ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ستاری ہے کہ ہم پر پردہ ڈال دیا ہے، اگر کوئی جری ہوجاتا ہے تو تھوڑا سا پردہ اٹھادیتے ہیں، اس کو اپنی حقیقت معلوم ہوجاتی ہے کہ تو ایسا ہے، اللہ تعالیٰ تو بہت ہی پردہ پوش اور ستار ہے، بقول شیخ سعدی کے کہ: ”گناہ ببیند و پردہ پوشد بحلم“ گناہوں کو دیکھتا ہے، اور اپنے حلم کے ساتھ پردہ ڈالتا ہے۔ خدا کے سوا تم نے کوئی ایسا دیکھا کہ اس کے سامنے تم اس کا قصور کرو، اور وہ تمہیں رسوا کرنے پر بھی قادر ہو اور رسوا نہ کرے؟ تم سے انتقام لینے پر قادر ہو اور انتقام نہ لے؟ اللہ کی شان رحیمی و کریمی، ستاری و غفاری ہے کہ ہم سراپا قصور و عیب ہیں، گناہ کرتے ہیں، مسلسل کرتے ہیں، اور بے دھڑک، بغیر جھجھک اور بغیر وقفے کے کرتے ہیں، لیکن اللہ میاں پردے ڈالتے چلے جاتے ہیں، تم نادان ہو لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں لوگوں کے سامنے رسوا نہیں کرتا، یہ ہے اللہ کا پردہ ڈالنا، اس پردہ ڈالنے کو مغفرت اور بخشش کہتے ہیں، اگر یہ پردہ دنیا میں ہی رہا، اور آخرت میں یہ پردہ اٹھالیا گیا تو سمجھو کہ پکڑ ہوگئی لیکن اگر اللہ رب العزت نے دنیا میں پردہ ڈالے رکھا، اور اسی طرح آخرت میں بھی پردہ ڈال دیا اور ہمارے عیوب کو مخلوق کے سامنے ظاہر نہ فرمایا تو اس کو بخشش اور مغفرت کہتے ہیں، عیوب تو ہمارے ذاتی نقائص ہیں، وہ تو ہم سے جدا نہیں ہوسکتے، جیسے ممکن نہیں ہے کہ انسان کے بدن کو چھیلو اور اندر سے خون وغیرہ نہ نکلے، اسی طرح ہماری عبدیت اور بندگی کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سے لغزشیں، خطائیں، کوتاہیاں ہوتی ہیں، یہ ہمارا لازمہٴ ذات ہے، حق تعالیٰ شانہ اپنی رحمت سے جیسے ان تمام چیزوں پر دنیا میں پردہ ڈال رہے ہیں، آخرت میں بھی ڈال دیں تو اس کو مغفرت کہتے ہیں، اب ایک تو اس رات میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور بخشش مانگو۔ ایک بات یاد آگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ لَا تُخْزِنِیْ فَاِنَّکَ بِیْ عَالِمٌ وَّلَا تُعَذِّبْنِیْ فَاِنَّکَ عَلَیَّ قَادِرٌ۔“ (کنزالعمال ج:۲ حدیث:۵۱۲۳)
ترجمہ:…”اے اللہ مجھے رسوا نہ کیجئے، کیونکہ آپ مجھے جانتے ہی ہیں، اور مجھے عذاب اور سزا نہ دیجئے اس لئے کہ آپ مجھ پر قادر ہیں (جب چاہیں عذاب دے سکتے ہیں، آپ کی قدرت ہے)۔“
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ سے درخواست فرماتے ہیں:
”یَا مَنْ لَّا تَضُرُّہُ الذُّنُوْبُ وَلَا تَنْقُصُہُ الْمَغْفِرَة، ھَبْ لِیْ مَا لَا یَنْقُصُکَ وَاغْفِرْ لِیْ مَا لَا یَضُرُّکَ۔“ (اتحاف ج:۵ ص:۸۱)
ترجمہ:…”اے وہ ذات جس کو بندوں کے گناہ کوئی نقصان نہیں پہنچاتے، اور جس کے خزانے میں، مغفرت کوئی نقص اور کمی پیدا نہیں کرتی (اگر اللہ تعالیٰ سب مجرموں کو یک قلم بخش دیں تو کچھ نقصان بھی نہیں ہوا) مجھ کو وہ چیز عطا فرمادے جو آپ کے خزانوں میں کمی نہیں کرتی اور مجھ کو وہ چیز معاف فرمادے جو آپ کو نقصان نہیں پہنچاتی (یعنی میرے گناہوں کو معاف فرمادے)۔“ تو اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو جیسے بھی مانگ سکتے ہو، اور یوں سمجھ کر مانگو کہ وہ ہمارا خدا ہے، ہم اس کے بندے ہیں، کسی اجنبی سے معاملہ نہیں ہو رہا، اپنے خدا سے ہو رہا ہے، اپنے رب سے مانگ رہے ہیں، ہمارا کام ہی مانگنا ہے، اور اس کا کام عطا کرنا ہے، بلبلا کر مانگو، گڑگڑاکر مانگو، امید کے ساتھ مانگو، اللہ تعالیٰ مجھے معاف کردے، کوئی بے ادبی کا لفظ نہ ہو، وہ ہمارے مالک اور خدا ہیں، ہمیں اپنے خدا پر ناز ہونا چاہئے۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ سے ایک تو بخشش مانگو اور جس کا خلاصہ میں نے عرض کردیا کہ یا اللہ! دنیا اور آخرت میں ہمارے عیوب اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر فرماکر ہمیں رسوا نہ فرمائیے، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا ہے:
”اَللّٰھُمَّ اَحْسِنْ عَاقِبَتَنَا فِی الْاُمُوْرِ کُلِّھَا وَاَجِرْنَا مِنْ خِزْیِ الدُّنْیَا وَعَذَابِ الْآخِرَةِ۔“ (کنزالعمال ج:۲ حدیث:۳۶۲۴)
ترجمہ:…”اے اللہ! تمام امور میں ہمارا انجام اچھا کر، اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذاب سے محفوظ فرما۔“ کیونکہ آخرت میں جس کو رسوا کریں گے اس کو عذاب دیئے بغیر نہیں چھوڑیں گے، یا اللہ! ہماری خطاوٴں سے درگزر فرماکر دنیا کی رسوائی اور آخرت کی رسوائی اور عذاب سے بچالیجئے، نہ دنیا میں ہمارا پردہ لوگوں میں فاش کیجئے اور نہ آخرت میں ہمارا پردہ اپنی مخلوق کے سامنے فاش کیجئے، یا اللہ! ہماری بخشش فرمادیجئے، اور اگلے پچھلے، چھوٹے بڑے جتنے گناہ ہیں، ان سب کی معافی مانگو، اس طرح مانگو کہ گویا آج تو سارے قرضے بے باق کرکے جانا ہے، آج سارا معاملہ نمٹاکے جانا ہے۔
رزق مانگیئے
دوسرا رزق مانگیں، کیونکہ اعلان ہوتا ہے:
”اَلَا مِنْ مُّسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقُہ۔“
کیا ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ اس کو میں رزق دوں، بھائی ہم تو رزق اسی روٹی پانی کو سمجھتے ہیں، اور اس میں لوگ پریشان بھی بہت ہیں، اپنی اپنی سمجھ اور اپنا اپنا خیال ہے، تاہم جہاں تک تمہارا تصور جاسکتا ہے، وہاں تک رزق کے حدود پھیلے ہوئے ہیں، دنیاوی یا اخروی، جسم یا روح کی بقا کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو سامان پیدا فرمائے ہیں، اور جن پر انسان کی بقا کا دارومدار ہے وہ ساری کی ساری چیزیں رزق کہلاتی ہیں، روٹی پانی بھی اس میں داخل ہے، یہ جسم کی نعمتیں جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کر رکھی ہیں، یہ بھی اس میں داخل ہیں، اور پھر اردگرد جو چیزیں پھیلی ہوئی ہیں، وہ بھی اس میں داخل ہیں، ظاہری چیزیں بھی داخل ہیں، باطنی چیزیں بھی داخل ہیں، رزق کا لفظ ایسا جامع ہے کہ ہماری ضرورت کی کوئی چیز اس سے باہر نہیں ہے، اور کہا یہ جارہا ہے:
”اَلَا مِنْ مُّسْتَرْزِقٍ فَاَرْزُقُہ۔“
کیا ہے کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اس کو رزق دوں، ہماری سمجھ چونکہ بہت ناقص ہے، تو الفاظ بھی ایسے گول مول سے استعمال کرلئے جائیں، جو ہمارے سامنے اہم چیزیں ہوں وہ تو ہم نام لے کر مانگ لیں کہ:
اے اللہ! ہماری فلاں ضرورت ہے، وہ پوری کردیجئے، لیکن جب ہم ان چیزوں کو مانگ لیں تو اتنا ضرور کہہ دیں کہ یا اللہ! آپ کے رزق کی حدود جہاں تک پھیلی ہوئی ہیں وہ ساری کی ساری چیزیں مانگتے ہیں، تاکہ کوئی چیز بھی پیچھے نہ رہے۔
حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بات چیت کرنے کے لئے تشریف لائے، اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ دعا مانگ رہی تھیں، آپ نے حضرت عائشہ کو بات کرنے کے لئے ایک طرف کردیا اور بعد میں فرمایا: عائشہ! تم دعا مانگ رہی تھیں، تمہیں اپنی دعا درمیان میں چھوڑ دینی پڑی، تمہیں ایک جامع سی دعا بتادیں یعنی چھوٹے الفاظ میں بہت بڑی دعا آجائے، حضرت عائشہ نے فرمایا: ضرور بتادیجئے! فرمایا: جو کچھ مانگنا ہے اللہ تعالیٰ سے مانگ لیا کرو، اور بعد میں دعا کرلیا کرو:
”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا اسْتَعَاذَ مِنْہُ نَبِیُّکَ مُحَمَّدٌ صَلَّی اللهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔“ (ترمذی ج:۲ ص:۱۹۲)
ترجمہ:…”یا اللہ! میں آپ سے خیر کی تمام چیزیں مانگتی ہوں جو آپ سے آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں، اور آپ سے شر کی ان تمام باتوں سے پناہ مانگتی ہوں جس سے آپ کے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پناہ مانگی ہے۔“ لیجئے پیچھے رہ کیا گیا؟ بھائی رزق مانگو اللہ تعالیٰ سے خوب مانگو، جب وہ خود بلوا رہے ہیں کہ آوٴ لیجاوٴ، تو پھر کیوں نہ مانگیں؟ جو آپ مانگ سکتے ہیں اور جو کچھ آپ کے ذہن میں ہے، مانگ لیں، کوئی ضرورت ہو، کوئی تقاضا ہو، اور یہ خیال نہ کرو کہ یہ چیز کہاں مل سکتی ہے؟ مشکوٰة شریف میں حدیث قدسی ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
”․․․․․․․ یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَتْقٰی قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَا زَادَ فِیْ مُلْکِیْ شَیْئًا۔ یَا عِبَادِیْ! لَوْ اَنَّ اَوَّلَکُمْ وَاٰخِرَکُمْ وَاِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوْا عَلٰی اَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَّاحِدٍ مِّنْکُمْ مَا نَقَصَ ذَالِکَ مِنْ مُلْکِیْ شَیْئًا ․․․․․․ الخ۔“ (مشکوٰة)
ترجمہ:…”اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں کہ: اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور تمہارے آخر، تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے، تمہارے مرد، تمہاری عورتیں، تمہارے چھوٹے، تمہارے بڑے، تمہارے انسان، تمہارے جن، سارے کے سارے مل کر سب سے متقی آدمی کی مثال بن جائیں تو میری خدائی میں مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں ہوگا، اور اگر تمہارے پہلے، تمہارے پچھلے، تمہارے مرد، عورت، چھوٹے، بڑے اور انسان و جن سارے مل کر تم میں سب سے جو زیادہ برا آدمی ہے اس جیسے بن جائیں، تو میری خدائی میں مچھر کے پر کے برابر نقصان نہیں ہوگا۔“ بھائی! یہ تمہاری جمہوری گورنمنٹیں تھوڑی ہیں، جو ووٹوں سے بنتی ہوں، وہ تو خدا کی خدائی ہے۔ لہٰذا تمہارے پہلے، پچھلے، مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، انسان، جن، سارے کے سارے مل کر جو کچھ کسی کے جی میں آئے وہ مجھ سے مانگنے لگیں اور میں اس کو دینے لگوں تو میرے خزانوں میں مچھر کے پر کے برابر کمی نہیں ہوگی، یہ خیال مت کرو کہ یہ چیز بہت بڑی ہے، کیا مانگیں گے؟ مادی نعمتیں مانگنی چاہتے ہو تو وہ بھی مانگ لو، معنوی نعمتیں مانگنی چاہتے ہو تو وہ بھی مانگ لو، (لیکن محمود غزنوی والی بات کیوں نہ کی جائے) اس سلسلہ میں دو مثالیں عرض کردیتا ہوں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابی آئے، اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا فرمادیجئے یعنی اللہ تعالیٰ میری دعائیں قبول کرلیا کریں کہ میں مستجاب الدعوات بن جاوٴں، دوسرے لفظوں میں وہ سارا کچھ سمیٹ کر لے گئے کہ ایک آدھ کیا دعا کروائیں، جب دعا کروانی ہے تو ایسی کروائیں کہ ساری چیزیں آجائیں۔ محمود غزنوی سے لوگوں نے ایاز کے بارے میں شکایت کی تھی کہ آپ ان کو بہت مانتے ہیں، آخر کیوں؟ محمود غزنوی نے کہا: اچھا! اس کی وجہ بتائے دیتے ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ اس نے ہیرے، جواہرات بکھیر دیئے اور کہا جو کوئی لوٹنا چاہے، یا لینا چاہے لے لے، جب اذن عام ہوگیا تو سارے اٹھ کر چیزیں لینے لگے، ایاز جہاں کھڑا تھا وہاں کھڑا رہا، محمود غزنوی نے اس سے کہا: ایاز! تمہیں بھی اجازت ہے، جو کچھ لینا چاہتے ہو لے لو، انہوں نے بادشاہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا: میں نے یہ لے لیا ہے، جب آپ نے خود کہا ہے جو چاہو لے لو، میں نے تو بادشاہ ہی کو لے لیا۔ بھائی! خدا سے جو چاہوگے ملے گا، لیکن اگر خدا سے خود خدا ہی کو مانگ لو تو کیا وہ نہیں ملے گا؟ ضرور ملے گا! اور جس کو خدا ہی مل گیا تو پیچھے کیا رہ گیا؟ تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو تمہارے جی میں ہو، زور، قوت اور یقین کے ساتھ مانگو، جائز مانگو، ناجائز مت مانگو، کوئی پابندی نہیں ہے، ضرور ملے گا، خزانہ عام ہے، اور جب وہ خود کہہ رہے ہیں، انشا ٴ اللہ روکیں گے نہیں۔ میں کہتا ہوں ساری چیزیں مانگ لو، اور ایک چیز مانگنے کی نہ چھوڑ دینا، وہ یہ ہے کہ خود اللہ تعالیٰ سے اس کی رضا مانگ لو،
”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ رِضَاکَ۔“
یا اللہ! میں تجھ سے تیری رضا چاہتا ہوں۔ اور وہ راضی ہوگئے، ان کی رضا مل گئی تو سب کچھ مل گیا، خدا کی قسم! اس کی رضا کے بعد پھر پیچھے کوئی چیز باقی نہیں رہ جاتی اور خدانخواستہ نعوذباللہ! استغفراللہ! توبہ! توبہ! اگر اس کی رضا نصیب نہیں ہوئی، پھر اگر تخت سلیمانی بھی دے دیا جائے، تو لغو اور لایعنی ہے، اس کی رضا کے بغیر کسی چیز کی کوئی قیمت نہیں، تو دوسری چیز مانگنے کی رزق ہے، اور میں نے کہا کہ رزق کا مفہوم بہت وسیع ہے، دنیا اور آخرت کی ساری نعمتیں اس میں سمٹ آتی ہیں، اور ان نعمتوں کا اصل الاصول اللہ تعالیٰ کی رضامندی ہے، اور اللہ کی رضامندی مشروط ہے ایمان اور اہل اللہ کی صحبت اور معیت کے ساتھ، اس لئے اللہ کی رضامندی مانگو تو ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ بھی مانگو کہ: یا اللہ! اپنے فضل و کرم سے ہمیں ایمان صحیح نصیب فرما، ایمان کامل نصیب فرما، تقویٰ نصیب فرما، اپنے نیک اور مقبول بندوں کا دنیا اور آخرت میں ساتھ نصیب فرما، اور ان کے نقش قدم پر چلا۔ اللہ والوں کے ساتھ چلو گے تو اللہ تک ضرور پہنچو گے، بھائی جو راستہ جانتا ہو تم اس کے ساتھ ہولیتے ہو، جب اس کے ساتھ ساتھ چلتے رہو گے جب وہ پہنچے گا تو تم بھی پہنچ جاوٴ گے، اس لئے کہ وہ راستہ جانتا ہے، اور تم جانتے نہیں، جب تم اس کے ساتھ چلے اور وہ تو راستہ جانتا تھا، وہ پہنچ گیا، تو تم بھی ساتھ پہنچ گئے، حالانکہ تم جانتے نہیں تھے۔ اہل اللہ کے ساتھ چلو گے، اللہ والے تو اللہ تک پہنچیں گے، مگر تمہیں بھی ساتھ لے کر کے پہنچیں گے، انشا ٴاللہ! اور یہی راز ہے:
”اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ۔“
میں، کہ یا اللہ! ہمیں چلا سیدھی راہ پر یعنی راہ ان کی جن پر تو نے انعام کیا۔ اس میں صرف سیدھی راہ کی دعا نہیں سکھائی، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی راہ بتائی ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جن حضرات پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہوا، جس راہ پر وہ چلے ہیں ان کی راہ پر چلو گے تو ممکن نہیں جہاں وہ پہنچے ہیں وہاں تم نہ پہنچو۔ میں عرض کر رہا ہوں کہ اصل الاصول اور مقصد المقاصد، غایة الغایات آخری اور چوٹی کی چیز ہے اللہ کی رضا اور اسی کو فرمایا:
”رَضِیَ اللهُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہ۔“
اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے، اسی کو فرمایا ہے:
”یَا اَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِیْ اِلٰی رَبِّکِ۔“
اے اطمینان والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ جا، ”رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً“ تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی،
”فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔“
میرے بندوں میں داخل ہوجا، میری جنت میں داخل ہوجا، میرے بندے میری رضا کا مورد ہیں اور میری جنت میری رضا کا محل ہے۔
عافیت مانگیئے
اور تیسری چیز عافیت ہے، جس کی نشاندہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، عافیت کا معنی ہے مکروہ اور ناپسندیدہ چیزوں سے حفاظت، جیسے مصیبتیں، بیماریاں، دکھ درد، پریشانیاں اور رنجش وغیرہ یہ ساری چیزیں جو انسان کو ناگوار گزرتی ہیں، ان سے بچالینا اس کو عافیت کہتے ہیں، اور پھر عافیت کی دو صورتیں ہیں۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ آدمی کسی تکلیف میں مبتلا ہوگیا ہو اور اللہ سے یہ مانگے کہ یا اللہ! مجھے تکلیف سے نجات عطا فرما۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ کسی تکلیف اور کسی مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے پہلے اللہ تعالیٰ سے مانگے کہ یا اللہ! مجھے اس تکلیف سے بچانا اور اس سے حفاظت فرمانا، حدیث میں ہے: ”اَلَا مِنْ مُّبْتَلًی فَاُعَافِیْہِ۔“ کیا ہے کوئی مبتلا کہ میں اس کو عافیت دوں، معلوم ہوا کہ جو شخص کسی مصیبت میں، کسی تکلیف، کسی رنج میں مبتلا ہوچکا ہے وہ بھی مایوس نہ ہو، بلکہ اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگے، اللہ تعالیٰ اس کو عافیت عطا فرمائیں گے، اور اس کے ساتھ جو مصائب ابھی نازل نہیں ہوئے ان سب سے اجمالی طور پر عافیت مانگے، اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگ لو کہ یا اللہ! میں فلاں فتنے سے تیری پناہ، اور فلاں فلاں مصیبتوں سے تیری پناہ میں آتا ہوں، سب سے اللہ کی پناہ میں آجاوٴ، سب سے بڑی دولت اللہ کی رضامندی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عافیت ہے، یہ رضا اور عافیت دو چیزیں جس کو مل گئیں تو سب کچھ مل گیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ:
”سَلُو اللهَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَةَ۔ فَاِنَّ اَحَدًا لَمْ یُعْطَ بَعْدَ الْیَقِیْنِ خَیْرًا مِّنَ الْعَافِیَةِ۔“ (کنز العمال ج:۲ حدیث:۳۲۰۹)
یعنی اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگو! اس لئے کہ ایمان و یقین کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں جس کو آدمی مانگے۔ جن پریشانیوں میں ہم مبتلا ہیں، ان سے بھی اور جن پریشانیوں میں مبتلا ہوسکتے ہیں ان سے بھی، بس انہی معروضات پر ختم کرتا ہوں، آپ حضرات دعا فرمائیں حق تعالیٰ شانہ ہمیں ایمان صحیح نصیب فرمائے، اپنی رضا نصیب فرمائے، ہماری بخشش فرمائے، اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جو کچھ عطا فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے جو کچھ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں سب کچھ نصیب فرمائے، آمین!
وصلی الله تعالی علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین